اقبال : شاعری اور فکر وفن ، ڈاکٹر سید عبد اللہ

اقبال: [شاعری اور فکر وفن]


[حیات]


اقبال کے اسلاف نے جو کشمیری پنڈتوں کے سپرو شاخ تھے، سترھویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا اور کشمیر سے پنجاب میں وارد ہوکر سیالکوٹ میں قیام کیا۔ والد کا نام نور محمد تھا۔ صوفی مشرب، پاکیزہ سیرت اور نیکوکار بزرگ تھے۔ [تقریباً]سو سال کی عمر میں وفات پائی۔


اقبال کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ بعض محققین کے نزدیک، آپ ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے مگر بعض مصنّفین (حسرت، طاہر فاروقی، سالک وغیرہ) نے ۱۸۷۳ء لکھی ہے۔ فقیر سیّد وحید الدین نے روزگارِ فقیر میں اقبال کے مقالۂ پی ایچ ڈی (۱۹۰۸ئ) کے ابتدائی نوٹ کے حوالے سے ۳؍ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ (مطابق ۹؍نومبر ۱۸۷۷ئ) کو صحیح قرار دیا ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے کیلنڈر (۹۷-۱۸۹۶ئ) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (اقبال نے بی اے کا امتحان ۱۸۹۷ء میں دیا تھا اور فارم داخلہ میں عمر ۱۹ سال لکھی تھی)۔ محمد اقبال نام رکھا گیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرکے، باقاعدہ تحصیل کا آغاز سیالکوٹ کے مشن سکول میں ہوا۔ جہاں شمس العلما مولوی میر حسن بھی پڑھاتے تھے۔ اقبال نے اس زمانے سے لے کر ایف اے کے درجے تک ان سے خصوصی تربیت حاصل کی جس کا اعتراف جابجا کیا ہے۔ سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعد، اقبال بی اے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ اس امتحان میں وہ ۱۸۹۷ء میں بڑے امتیاز سے کامیاب ہوئے۔ گورنمنٹ کالج ہی سے ۱۸۹۹ء میں اُنھوں نے ایم اے فلسفہ کا امتحان پاس کیا۔ یہیں پروفیسر (بعد میں سر) تھامس آرنلڈ سے شاگردی اور پھر دوستی کا رابطہ پیدا ہوا۔ ۱۳؍مئی ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۳ء تک اقبال اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عربک ریڈر رہے، جہاں تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا اور عربی مطبوعات کی نگرانی بھی کی۔ اس دوران میں اُنھوں نے دو دفعہ رخصت لے کر عارضی طور پر اسلامیہ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کا کام کیا۔ اسی زمانے میں چند مضامین کے علاوہ ایک کتاب علم الاقتصاد لکھی۔


۱۹۰۵ء میں اقبال گورنمنٹ کالج سے رخصت لے کر انگلستان گئے۔ وہاں قانون کی تحصیل کرکے بیرسٹر ہوئے اور میونخ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی جس کے لیے ایک مقالہ بعنوان The Development of Methaphysics in Persia مرتب کیا۔


۲۷؍جولائی ۱۹۰۸ء کو واپس آگئے۔ لاہور گورنمنٹ کالج کی ملازمت۱؎ سے مستعفی ہوکر وکالت شروع کردی۔ درمیان میں کچھ وقفوں کے لیے گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج میں فلسفے کے پروفیسر کی خدمات انجام دیں تاہم وکالت سے بھی نیم دلانہ تعلق رہا۔ مگر ان کی اصل توجہ، شعر و حکمت کی طرف تھی۔۲؎ سیاسیات سے بھی دلچسپی لیتے رہے مگر عملی سیاست کے لیے طبیعت موزوں نہ تھی۔ قدرت نے انھیں مفکرانہ منصب کے لیے پیدا کیا تھا۔ ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو میں اُنھوں نے حصہ لیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد (۱۹۳۰ئ) میں اُنھوں نے وہ اہم خطبۂ صدارت پڑھا جس میں تقسیمِ ہندستان اور الگ مملکتِ پاکستان کا تخیل واضح طور پر پیش کیا۔ بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کے مشوروں میں شریک رہے۔ ان کی باہمی خط کتابت سے ان کے ان سیاسی تصورات کا پتا چلتا ہے جن کا تشکیلِ پاکستان سے تعلق ہے۔ انھی وجوہ سے انھیں مصورِپاکستان اور مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے دوسرے اہم واقعات میں خاص طور سے قابل ذکر ان کا سفر (۱۹۲۸ئ) مدراس ہے جہاں اُنھوں نے چند علمی خطبات ارشاد فرمائے۔ ۱۹۳۳ء میں وہ نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان گئے اور انھیں حکومتِ ہند کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ یوں قوم کی طرف سے ’’شاعرِ مشرق‘‘،’’ حکیم الامت‘‘اور ’’ترجمانِ حقیقت‘‘جیسے القاب ملتے رہے۔


۱۹۳۴ء میں علالت کا آغاز ہوا اور علاج معالجے کے باوجود بیماری کا سلسلہ جاری رہا 


۱- اس ملازمت سے اُنھوں نے قیامِ انگلستان کے زمانے ہی سے استعفا لکھ کر بھیج دیا تھا۔ (مرتب)


۲- شاید یہ نیم سچائی ہے۔ علامہ کا زیادہ تر وقت وکالت کی مصروفیات کی نذر ہوتاتھا۔ وہ ہمیشہ شکوہ کناں رہے کہ شعر گوئی کے لیے وقت نہیں ملتا۔


تاآنکہ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو (۶۵ سال کی عمر یا کم و بیش) انتقال فرمایا اور بادشاہی مسجد لاہور کے باہر، مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں (جنوبی) گوشے میں مدفون ہوئے۔ آپ کا مزار اَب مرجعِ خلائق اور زیارت کدۂ خاص و عام ہے۔


آپ کے دو فرزند، آفتاب اقبال (پہلی بیوی سے) اور جاوید اقبال اور ایک بیٹی منیرہ (دوسری بیوی سے) ہیں۔


اقبال بڑے خلیق اور خوش طبع آدمی تھے۔ لباس سادہ، کبھی یورپین مگر اکثر دیسی ہوتا تھا۔ پچھلے پہر ان کے مکان پر مجمع لگا رہتا تھا۔ وہ ہر ملنے والے سے بڑے بے تکلف ہوکر ملتے تھے۔ نیازمندوں کی کثیر تعداد انھی سہ پہر کی محفلوں میں فیض یاب ہوتی تھی۔ چنانچہ ان نشستوں کی یادگار،ملفوظات کے کئی مجموعوں کی صورت میں موجود ہے۔ ان کی گفتگو علمی اور نہایت مؤثر ہوتی تھی۔ اسلام اور رسول پاکﷺ کے تذکرے سے آب دیدہ ہوجاتے تھے۔ اسلام کی روشن تقدیر کے بارے میں، بڑے پراُمید تھے اور ان سے ملنے کے بعد ہر شخص پراُمید ہوکر واپس آتا تھا۔ ظرافت اور خوش طبعی سے بھی کام لیتے تھے اور مسلسل نکتہ آفرینی سے مجلس کو شگفتہ اور زندہ رکھتے تھے۔


استغنا اور بے نیازی طبیعت کا رنگِ خاص تھا اور اسی کو وہ اپنی سب سے بڑی دولت سمجھتے تھے۔ خودی کا یہ مفسر، دل کا تو نگر تھا:


فقیرِ راہ نشین است و دل غنی دارد


معاصرین میں اکبر، گرامی، ظفر علی خاں، مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی اور سر کشن پرشاد شاد اور بے شمار دوسرے بزرگ ہیں جن سے ان کی خط کتابت رہی۔ اور اب یہ خطوط شائع بھی ہوگئے ہیں۔


[شاعری]


شاعری کے مختلف دور


یوں تو اقبال کی شاعری کو چار بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی (۱) ابتدا سے ۱۹۰۵ء تک۔ (۲) ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک (۳) ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۴ء تک۔ اور (۴) ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۸ء تک) مگر در حقیقت، مضمون اور اُسلوب کی تبدیلیوں کے لحاظ سے، ہر دور کے اندر کئی ادوار اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً مذکورہ بالا دوسرے دور میں، ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۹ء تک ایک الگ دور بن سکتا ہے کیونکہ اس میں شاعری کا ایک خاص انداز اور مضامین کی ایک خاص نوعیت نمایاں ہے اور ۱۹۱۹ئ-۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۴ء تک ایک الگ دور ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں بھی سابقہ دور کے مقابلے میں لہجے کا تغیر نظر آتا ہے، مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۰ء کے بعد چار برسوں میں ترکوں کی شکست اور ہندستان میں تحریکِ خلافت کی وجہ سے ملک میں جو خاص حالات پیدا ہوگئے تھے، ان کی بنا پر اقبال کی نوا میں اضمحلال و احتجاج کا ایک خاص رنگ نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۰ء تک نوا مختلف ہے اور آخری دور کی شاعری کی آواز گذشتہ سب آوازوں سے بالکل جدا ہے جیسا کہ آگے چل کر تشریح ہوگی۔


پہلا دور


سیالکوٹ کے زمانے کی ابتدائی مشق کے بعد، لاہور کے مشاعروں میں اقبال کی شاعرانہ حیثیت تسلیم کی جانے لگی اور قومی مجلسوں میں اپنی نظمیں سنا کر اُنھوں نے غیر معمولی مقام حاصل کرلیا۔ غالباً سب سے پہلے ۱۹۰۰ء میں اُنھوں نے انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم پر اپنی نظم’’نالۂ یتیم‘‘ سنائی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ انگلستان جانے (۱۹۰۵ئ) تک شاعری کا کافی سرمایہ جمع ہوگیا تھا۔ اس دور کی شاعری میں ملے جلے رنگ نظر آتے ہیں۔ ابتدائی غزلیات کے جو نمونے دستیاب ہیں، ان میں اس زمانے کے مروّجہ اور مقبول عام اسالیب نمایاں ہیں، مگر ان میں بھی آئندہ کے کمال کے ہلکے ہلکے نقوش موجود ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب داغ اور امیر مینائی کا بڑا چرچا تھا۔ ان دونوں اساتذہ کا رنگ اگرچہ الگ الگ تھا مگر ان کی غزل میں معاملہ گوئی،محاورے کا استعمال، شوخیِ بیان اور ذرا سی بے حجابی جیسے اوصاف مشترک تھے۔ ان میں داغ زیادہ مقبول تھے چنانچہ اقبال بھی داغ ہی سے متاثر ہوئے اور خط کتابت کے ذریعے ان سے کچھ اصلاح بھی لی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں داغ نے اصلاح ترک کردی اور کہا کہ ’’اب آپ کا کلام اصلاح سے بے نیاز ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: محمد طاہر فاروقی، سیرت اقبال) بہرحال اس دور کے ابتدائی حصے میں، مروجہ روایتی شاعری، خصوصاً داغ کے اثرات اقبال کی غزل میں نظر آتے ہیں۔


۱۹۰۱ء میں شیخ عبدالقادر کی ادارت میں مخزن شائع ہونا شروع ہوا تو اس میں بہت سے نام وَر اہلِ قلم جمع ہوگئے۔ ان کے زیر اثر ادب میں لطیف رومانیت کی ایک لہر پیدا ہوئی جس کی ایک خصوصیت حیرت، مسرت اور لطیف افسردگی کی آمیزش تھی اور یہ سرسید کے کلاسیکی رجحان یعنی خشک عقلیت اور کرخت مقصدیت کا ردِعمل تھا۔ مخزن کے ادبا نے مغرب کے لطیف الفکر رومانی شعرا کے مختلف رنگوں کو اُردو میں رواج دیا۔ چنانچہ اس دور میں اقبال کے یہاں بھی یہ سب رنگ ملتے ہیں مثلاً حسنِ فطرت کے بارے میں احساسِ تحیر، نیچر اور انسان کی رفاقت، وحدت الوجود کے تصورات کی جھلک، غریب الوطنی کا احساس (nostalgia) اور اس کے پردے میں حقائقِ کائنات تک رسائی، فنا اور بے ثباتی کا غم اور حوادثِ حیات کے حوالے سے درسِ اخلاق وغیرہ وغیرہ۔ ان میں اقبال نے کہیں بالواسطہ اور کہیں براہِ راست انگریزی شاعری کے مضامین اور رویے اپنائے ہیں اور ان کا اعتراف بھی کیا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اقبال نے رُوحِ مضامین کے سلسلے میں اثر قبول کرنے کے باوجود، اسے اپنی شعری روایت سے اس طرح ہم آہنگ کردیا ہے کہ بادی النظر میں اس استفادے کا احساس نہیں ہوتا، خصوصاً ان مضامین میں جن کی ایک روایت اسلامی تصوف میں موجود تھی۔


اقبال کی شاعری، ملکی واقعات و حالات سے بھی بے نیاز نہیں رہی۔ اس زمانے کے ہندستان میں تحریکِ آزادی جاری تھی اور وطن پرستی اس زمانے کی خاص روایت تھی، جس کے زیر اثر ہندو مسلم اتحاد اور غلامی سے نفرت جیسے مضامین ادب و صحافت میں عام تھے۔ چنانچہ اقبال کے یہاں بھی یہ مضامین موجود ہیں اور ’’ترانۂ ہندی‘‘، ’’نیا شوالہ‘‘، ’’میرا وطن وہی ہے‘‘ بلکہ ’’تصویر درد‘‘ جیسی نظمیں اس دور کی یادگار ہیں، ان وطنی نظموں میں کہیں کہیں ہندی الفاظ اور ہندی پیراے بھی آگئے ہیں جو ان کے عام فارسی آمیختہ رنگ کی بالکل ضد ہیں۔


دوسرا دور


۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک قیام یورپ کا دور ہے۔ اس زمانے میں اقبال نے زیادہ نہیں لکھا بلکہ بقول سر عبدالقادر: اُنھوں نے ایک موقع پر ترکِ شعر گوئی کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔ ملاحظہ ہو (دیباچۂ بانگِ درا)۔ تاہم اقبال کا سفرِ یورپ شعری اور فکری لحاظ سے بڑا نتیجہ خیز تھا۔ اقبال نے یورپ کے افکار کا مطالعہ تو پہلے ہی کیا ہوا تھا، وہاں پہنچ کر اس ولایت کی معاشرت اور اس کے انحطاط پذیر پہلوئوں کا بغور مشاہدہ و مطالعہ کیا۔ اُنھوں نے اسلامی افکار کے حوالے سے جب تہذیبِ مغرب کا تجزیہ کیا، تو ان کے خیالات میں شدید ردِعمل پیدا ہوا۔ خصوصیت سے، اہلِ مغرب کے ان خیالات نے انھیں چونکا دیا جن کا تعلق اسلام اور اسلامی ممالک سے تھا۔ اسی کے زیر اثر اقبال کی شاعری میں ایک سیاسی رجحان نمودار ہوا جو پہلے ہندستان کی وطن پرستی تک محدود تھا مگر جس نے اب وطن سے ملت کی طرف رُخ کیا۔ ان کے نئے رجحان کو ’’اسلامی سیاسی رجحان‘‘ کہا جاسکتا ہے، جس میں اقبال وطن سے ماورا پوری ملتِ اسلامیہ کے تقاضوں کے ترجمان نظر آتے ہیں۔ اور تہذیبی فکری لحاظ سے انھیں اسلام کی نشاَت الثانیہ ممکن بھی نظر آتی ہے اور ضروری بھی۔ وہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی تعریف میں نظمیں لکھنے لگے اور عالمِ اسلام پر مغرب کے تسلط کے خلاف ان کے دل میں شدید ردِعمل پیدا ہوا اور وہ تحریکِ اتحاد اسلامی کے ترجمان بن گئے۔ ان کے دل میں عالمِ اسلام کی اساس پر ایک سیاسی و فکری انقلاب کی آرزو پیدا ہوئی جس کے لیے مسلمانوں کی ذہنی و رُوحانی اصلاح انھیں ناگریز نظر آئی۔ اب ان کی شاعری، رومانیتِ محض سے ہٹ کر، ایک پیغام کی ترجمان بن گئی۔ اُنھوں نے جب مسلمانوں کے ماضی و حال میں تضاد دیکھا تو قوم کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ ان حالات میں ان کی شاعری میں درد آمیز سا خطیبانہ لہجہ پیدا ہوا جو بتدریج نمایاں ہوتا گیا اور یورپ سے واپسی کے بعد کی نظموں میں اس کا بھرپور اظہار ہوا۔


تیسرا دور


۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۹ء تک۔ اس کے ضمن میں، میں نے ۱۹۱۹ء تک کا ایک دور اس لیے الگ قائم کیا ہے کہ اس میں اقبال کا ذہن ایک ایسی سمت اختیار کرتا ہے جو سابقہ دور سے بھی مختلف نظر آتا ہے اور اس دور سے بھی جو تحریکِ خلافت کے بعد کا ہے۔ یہ زمانہ مسلمانانِ ہند کی ملّی بیداری کے لحاظ سے، نیز بین الاقوامی سطح پر اسلامی دُنیا کے انقلاب انگیز حوادث کے لحاظ سے، بڑے ہنگامہ خیز واقعات کا زمانہ تھا۔ ہندستان میں مسلمانانِ ہند کے جداگانہ حقوق کے تحفظ کے لیے ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ قائم ہوچکی تھی۔ بال گنگا دھر تلک کی تحریکِ تشدد اور سیواجی ذہن کے احیا کی تحریک کے اثرات دور دور تک پھیل رہے تھے جس کا ردعمل مسلمانوں میں بھی اُبھرا۔ پھر تقسیمِ بنگال کے خلاف بنگالی ہندوئوں نے جو شورش برپا کی، مسلمان اس سے بھی متاثر ہوئے۔ حادثۂ مسجد کان پور نے ان جذبات کو مزید تقویت دی۔ اس کے علاوہ ۱۹۱۱ء میں حکومتِ برطانیہ نے اپنی مشتہرہ حکمتِ عملی کے برعکس ہندوئوں کی احتجاجی تحریکوں سے دب کر، تقسیمِ بنگال کی تنسیخ کر دی تو ایک طرف ہندوئوں کے خلاف بے زاری بڑھی اور دوسری طرف برطانوی حکومت سے مایوسی انتہا تک پہنچ گئی۔ ان واقعات کے علاوہ بین الاقوامی دائرے میں، ایران اور ترکیہ کے واقعات اور جنگ طرابلس (۱۹۱۱ئ) اور جنگ بلقان اوّل (۱۹۱۲ئ) دوم (۱۹۱۳ئ) سے بڑی تشویش پیدا ہوئی۔ اس اثنا میں ۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم اوّل چھڑ گئی جس میں ترکی حکومت نے برطانیہ کے اتحادیوں کے خلاف، جرمنی کا ساتھ دیا۔ اس سے برطانیہ کے خلاف مسلمانانِ ہند کے جذبات میں اور بھی شدت پیدا ہوگئی اور ہندستان میں کش مکش نے ایک نئی صورت اختیار کرلی جو جرمنی کی شکست کے بعد ترکی کے حصے بخرے ہونے پر انتہا تک پہنچ گئی اور اس کے زیراثر ۲۰-۱۹۱۹ء میں ہندستان میں تحریکِ خلافت کا ظہور ہوا۔


اقبال کی اس دور کی نظموں میں مذکورہ بالا واقعات کا انعکاس ہے مگر نمایاں ترین رجحانات تین ہیں۔ اوّل: جنگ عظیم سے پہلے کے واقعات، جنگ عظیم اور خلافت کے واقعات کا کرب آمیز احساس۔ دوم: ایک نیا احیائی رجحان (مسلمان نوجوانوں کے لیے بیداری کا پیغام، مغربی تہذیب سے محترز رہنے کی تلقین، عالمگیر انسانی انقلاب میں اسلام کا کردار اور اس کے ممکنات اور اس کی بنیادی فکریات)۔ سوم: مسلمانانِ ہند کے ملّی تشخص پر زور۔


اس دور میں اقبال کے نظامِ فکر نے اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں ایک ہیئت اختیار کی اور ان کے سیاسی و تہذیبی افکار ایک مرتب شکل میں سامنے آئے۔اُنھوں نے بعد میں جو کچھ لکھا، وہ اسی فلسفے کی تشریح و تعبیر یا یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات پر اس فکر کا اطلاق تھا۔


اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی اسی دور کی مثنویاں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اقبال کے سب بنیادی افکار ان میں آگئے ہیں۔ ان نظموں کے لیے فارسی زبان اختیار کرکے، اقبال نے اپنے پیغام کی خاص سمت کی نشان دہی کی۔ یعنی یہ بتایا ہے کہ ان کا پیغام سارے عالم اسلام کے لیے ہے اور اس کے لیے فارسی اس لیے اختیار کی ہے کہ فارسی اس زمانے تک، اسلامی ایشیا کی مقبول ترین زبان ہونے کی وجہ سے پیغام کے لیے موزوں تھی۔ جن افکار کی تبلیغ مقصود تھی، ان کے لیے فارسی کا قالب موزوں تھا اور اس پر اقبال کو ماہرانہ قدرت بھی حاصل تھی۔ رومی سے اقبال کا شغف بھی فارسی کو ذریعۂ اظہار بنانے کا ایک باعث بنا۔ اور یہ بھی مسلّم ہے کہ اقبال نے فلسفۂ عجم کی تصنیف کے وقت، فارسی کے عظیم شعرا اور صوفیہ کے خیالات کا مطالعہ فارسی ہی کے توسط سے کیا اور اس کا اثر بھی قدرتی تھا۔ غرض ان سب وجوہ نے مل کر اقبال کو فارسی میں اظہارِ خیال پر مجبور کیا مگر ساتھ ہی اُردو میں لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ چنانچہ نظم ’’شکوہ‘‘ اُنھوں نے ۱۹۱۱ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی۔ نظم ’’حضور رسالت مآبؐ‘‘ اسی سال شاہی مسجد کے ایک جلسۂ عام میں اور نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ دوسری جنگ بلقان (۱۹۱۳ئ) کے موقع پر، موچی دروازہ لاہور کے ایک جلسے میں سنائی۔


اس دور کے بعد، ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۴ء تک ان کی شاعری کا ایک خاص دور سامنے آتا ہے۔ اس عرصے میں ہندستان میں تحریکِ خلافت کا ہنگامہ رہا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے یونانیوں کا جس طرح مقابلہ کیا، اس سے مسلمانانِ ہندستان میں بڑا ولولہ اور جوش پیدا ہوا لیکن یونانیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد اتاترک نے خلافت ہی کو ختم کردیا۔ اقبال کی شاعری میں اس کا شدید ردِعمل ملتا ہے جو ۱۹۲۴ء کے بعد بھی جاری رہا۔ ترکی میں تجدد کی جو لہر چلی، وہ اس کا فکری تجزیہ کرتے رہے اور شکست و اضمحلال کو دور کرنے کے لیے اُنھوں نے مثبت افکار پیش کیے۔ اس کے علاوہ دورِ حاضر میں اسلام کے امکانات پر بحث کی اور تہذیبِ فرنگ کے انحطاط پذیر پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔


اقبال اس دور میں بھی تصورِ خودی کی تشریح و تعبیر میں مصروف رہے۔ اتحادِ عالم اسلام پر خاص زور دیا اور حرم کی پاسبانی کے لیے عالمِ اسلام کو متحد ہونے کی تلقین کرتے رہے۔ اس دور میں ملتِ اسلامیہ ہند کی تعمیرِ نو کے لیے اساسی افکار مہیا کیے ا ور اس کے ہمراہ وطن کی تحریکِ آزادی کی حمایت میں پرجوش اشعار لکھے۔ بانگِ درا (اُردو) مرتب ہوکر شائع ہوئی۔ پیامِ مشرق (فارسی) اور زبورِ عجم (فارسی) بھی اس دور کی تصانیف ہیں۔


آخری دور (۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۸ء تک:


اس دور کی کتابوں کے نام یہ ہیں:


۱- جاوید نامہ (فارسی) ۱۹۳۲ء


۲- بالِ جبریل (اُردو) ۱۹۳۵ء


۳- ضربِ کلیم (اُردو) ۱۹۳۶ء


۴- مثنوی مسافر (فارسی) ۱۹۳۶ء


۵- مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (فارسی) ۱۹۳۶ء


۶- ارمغانِ حجاز (فارسی و اُردو) بعد از وفات ۱۹۳۸ء


اسی زمانے میں اقبال نے مدراس اور علی گڑھ میں تشکیل جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ کے موضوع پر انگریزی میں کچھ خطبے پڑھے جو بعد میں The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے شائع ہوئے۔۱؎ ان خطبات کا اُردو میں سید نذیر نیازی نے ترجمہ کیا ہے۔۲؎ 


اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس (۱۹۳۰ئ) میں انگریزی میں جو خطبۂ صدارت پڑھا، وہ مسلمانانِ ہند کے نقطۂ نظر سے اُن کے سیاسی اجتماعی فکر کا شاہکار ہے اور یہ بجاطور سے کہا گیا ہے کہ اسی خطبے نے نظریۂ پاکستان کا اساسی تخیل مہیا کیا۔ اس میں مسلمانوں کی جداگانہ قومیت پر زور دیا گیا ہے اور وطنی قومیت کے تصور کی سخت مذمت ہے۔


اس آخری دور میں نظریۂ خودی کی مزید توضیح و تشریح ہوئی۔ حرکت اور جہد و عمل کے فلسفیانہ تصور کو شاعری کے پیراے میں واضح کیا۔ علم و عقل انسانی کی حدود کا احساس دلا کر عشق و وجدان کی اہمیت پر بہت کچھ لکھا۔ رُوحِ انسانی کی لامحدود صلاحیتوں کا یقین دلایا اور مردِ مومن کے تصور کے ساتھ انسانِ کامل کے اوصاف کی بحث کی اور ربطِ فرد و ملت کو معاشرے کے ضبط و استحکام کے لیے ضروری ٹھہرایا۔


انھی تصورات کی روشنی میں سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم و تربیت اور ادب و فن کے نظریات کو ایک واضح شکل دی۔


اس دور میں اقبال نے عالمی وملکی سیاست پر بھی بہت کچھ لکھا۔ مغربی سیاست میں رنگ و نسل و وطن کے بت پرستانہ تصورات پر تنقید کی اور لادینی سیاست کے خلاف احتجاج کیا۔ احترامِ انسانیت اور تقدیرِ انسانی کا مثبت اور رجائی تصور دلایا۔ نظامِ سرمایہ داری کی تنقید کی اور اشتراکیت کے اس پہلو کی تحسین کی کہ یہ مغربی تہذیب کے خلاف ایک ردِعمل ہے۔ بقول 


۱- ابتدا میں یہ مجموعہ، چھے خطبات پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں ایک خطبے کا اضافہ کیا گیا۔ (مرتب)


۲- اب تک خطبات کے مزید چار اُردو تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ (مرتب)


اقبال اشتراکی روس ’لا‘ کی منزل میں داخل ہوا ہے اور اب کسی ’الّا‘ کی منزل میں جا پہنچے گا۔ مگر جیسا کہ آگے تفصیل سے بیان ہوگا اقبال کو اشتراکیت سے اختلاف بھی تھا۔ مساوات اور سرمائے کے بارے میں اقبال کا موقف اپنا تھا، اور یہ وہی تھا جو اسلام کا ہے۔


اس دور میں اقبال نے اُردو میں بھی بعض نہایت بلند پایہ نظمیں (مثلاً ’ساقی نامہ‘، ’مسجد قرطبہ‘، ’ذوق و شوق‘) لکھیں۔ ان میں اُن کے فن کا نقطۂ عروج نظر آتا ہے۔ خیال اور اُسلوب میں مکمل مطابقت ہے۔ ان نظموں کے ذریعے اُردو کے شعری اُسلوب کا کمال سامنے آیا ہے۔ اگرچہ یہ بھی صحیح ہے کہ ضربِ کلیم کی بعض نظمیں سراپا فکری ہیں اور شاعری بیان حقائق بن کر رہ گئی ہے۔


[اقبال کے اہم افکار]


تصورِ خودی


اقبال کے افکار میں اُن کے تصورِ خودی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ خودی سے مراد جیسا کہ عام طور سے سمجھا جاتا ہے خود بینی اور تکبر و غرور نہیں۔ اس سے مراد، محض خود شناسی اور صوفیانہ معرفتِ نفس بھی نہیں، جیسا کہ بقول حضرت علیؓ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ صوفیوں کے یہاں مروج ہے۔ صوفیوں کا عرفانِ نفس محض داخلی حقیقت تک پہنچنے کا ایک تجریدی وسیلہ ہے مگر اقبال کا تصورِ خودی محض داخلی حقیقت تک محدود نہیں۔ اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب ’’یقینی احساسِ نفس یا تعینِ ذات ہے‘‘۔ ان کے الفاظ میں ’’یہ ایک نقطۂ نوری ہے‘‘ جو ہر شے کے وجود میں زندگی کی آگ سلگائے رکھتا ہے۔ اقبال نے خودی کو حیات کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس سے وہ قوت مراد لی ہے جس کی وجہ سے زندگی کا ہر ارتقائی عمل ظہور میں آتا ہے۔ اس قسم کی خودی کائنات کے ذرے ذرے میں اور حجر شجر سے بشر تک ہر چیز میں موجود ہے۔ یہ خودی کے وسیع تر معنی ہیں۔


انسان کے تعلق میں زندگی یا تجربے کا واحد مرکز (اقبال کے نزدیک) خودی ہے اور اس کا تعلق محض باطنی زندگی یا دماغ سے نہیں بلکہ اس کی پوری شخصیت سے ہے۔ خودی انسان کے باطن میں ’انا‘ کا یقین پیدا کردیتی ہے۔ اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھا: 


’’حیات کیا ہے؟ حیات ایک انفرادی شے ہے۔ اس کی سب سے اعلیٰ صورت خودی ہے جس کے حصول کے بعد فرد ایک مکمل اور قائم بالذات مرکز بن جاتا ہے‘‘۔ اُنھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’’انسان کے اندر حیات کا مرکز خودی یا شخصیت ہے۔ یہ شخصیت کشاکش کی ایک کیفیت ہے اور اس کیفیت کی بقا ہی سے قائم رہتی ہے‘‘۔ بہرحال خودی ’’اس شعور کا نام ہے جو اپنے مقاصد سے باخبر ہو اور ان کے حصول و تکمیل کے لیے ایک لذتِ عمل اور آرزوئے سعی بھی رکھتا ہو‘‘۔


اقبال کی راے میں، خودی سے مراد، ’’صرف انسانوں کی خودی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے جو مصدرِ خلقت ہے‘‘۔ اُنھوں نے فرمایا: ’’ہستیِ مطلق کی ماہیت خودی ہے‘‘ اور ’’خودی کی ماہیت کو جاننا عرفانِ نفس بھی ہے اور عرفانِ رب بھی‘‘۔


سطور بالا میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک خودی،شعور حیات اور ارتقائے حیات تینوں کا نام ہے[کذا]، اس کا تعلق کائنات سے بھی ہے، انسان سے بھی اور خدا سے بھی۔ گویا خودی ہی رازِ درونِ حیات ہے، خودی ہی ہستی کی حقیقت اور ہستیِ مطلق کی حقیقت ہے۔چونکہ کائنات کا وجود خودی کی بدولت ہے،اس لیے زندگی کی بقا اور استواری خودی کی محکمی اور استواری پر منحصر ہے:


چوں حیاتِ عالم از زورِ خودی است


پس بقدرِ استواری محکمی است


خودی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ خود کو ظاہر کرنے پر مجبور ہے:


وا نمودن خویش را خوے خودی است


خودی کی ایک دوسری خصوصیت خود آگاہی ہے۔ خودی کی ایک صفت ذوقِ تسخیر اور شوقِ استیلا ہے:


زندگانی قوتِ پیداستے


اصلِ او از ذوقِ استیلاستے


خودی کی یہ صلاحیت بھی قابل توجہ ہے کہ وہ زندگی کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور تضادات میں وحدت پیدا کرتی ہے۔


خودی کا سلسلۂ عمل


(۱) مقاصد آفرینی۔ (۲) پیکار۔ (۳) عشق۔ (۴) نظامِ تربیت۔ (۵) بے خودی۔


خودی کے سلسلۂ عمل کے سلسلے میں اقبال کا خیال یہ ہے کہ خودی، مقاصد کی تخلیق کرتی ہے، اعلیٰ مقاصد حیات کی آرزو اور ان کے لیے جدوجہد خودی کے استحکام کا باعث ہوتی ہے۔ اور جہاں یہ مقصد آفرینی نہ رہے اور نتیجتاً جدوجہد بھی کمزور پڑ جائے، وہاں خودی بھی ضعیف ہوکر مر جاتی ہے۔


خودی ایک سلسلۂ عمل کے تابع ہے۔خودی کا عمل، آرزو (یعنی عشق) سے قوت حاصل کرتا ہے، خودی اسی میلان کی شدت و دوام سے تکمیل پاتی ہے۔ اس تکمیل کے راستے میں خودی کو رکاوٹوں سے برسرپیکار ہونا پڑتا ہے۔ اس پیکار میں خودی کے پاس طاقت کا ایک سرچشمہ عشق ہے جو قوت بھی بخشتا ہے اور مزاحمتوں کو بھی توڑ دیتا ہے۔ خودی کے راستے میں جو قوتیں مزاحمت پیدا کرتی ہیں، ان سے پیکار ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اس پیکار میں استقامت پیدا کرنے والی قوت عشق ہے۔ پیکار خودی کا ایک اُصول ہے اور عشق اس مثبت قوت، ذکر و فکر سے عشق کو ثبات حاصل ہوتا ہے اور عبادت سے آرزو کی پاکیزگی میسر آتی ہے۔ خدا سے محبت اور توحید کے یقینِ کامل سے عشق کا کمال پیدا ہوتا ہے۔


پیکار


اقبال کے تصورِ خودی کا اہم مسئلہ پیکار ہے۔ بظاہر یہ ہیگل کے تصورِ جدل سے ماخوذ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ خیر و شر کی ثنویت، اسلامی فکریت میں ہمیشہ سے مسلّم رہی ہے۔ ہیگل کی جدلیات سے یہ ان معنوں میں بھی مختلف ہے کہ ہیگل کی جدل میں ایک ما بعدالطبیعیاتی مفہوم کارفرما ہے۔ اس کے برعکس اقبال کے تصورِ پیکار میں مادی مفہوم کے ساتھ ساتھ اخلاقی مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یوں تو پیکار فطرت میں ہر جگہ جاری و ساری ہے مگر اقبال،اس پیکار کو ایک اخلاقی نصب العین سے وابستہ کرکے، اسے برتر سطح پر لے آتے ہیں۔ بہرحال اقبال کے تصورِ پیکار کو ہیگل کے نظریۂ جدل سے مماثلت ہے مگر دونوں میں فرق ہے۔


اقبال کے یہاں ابلیس بھی تعمیرِ خودی کا ایک کارندہ ہے کیونکہ وہ پیکار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔


نظامِ تربیت


اقبال نے خودی کے استحکام کے لیے ایک نظامِ تربیت تجویز کیا ہے۔ اس کے دو ابتدائی مرحلے ہیں: اطاعت اور ضبطِ نفس۔ تیسرا مرحلہ آئین الٰہیہ کی پابندی ہے، جس سے فرد نیابت الٰہی کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس نظام میں جہاں عشق ایک قوت محرکہ ہے وہاں عمومی اُمور میں عقل بھی معاون ہے۔


نیابت الٰہی کے لیے خصوصی صلاحیت رکھنے والا فرد انسانِ کامل، مردِ حق اور نائبِ حق کہلاتا ہے اور عمومی صلاحیت رکھنے والاحُر، مردِ مومن اور بندۂ مومن ہے۔