ادارہ سازی اور قومی تعمیر

 خورشید ندیم 

 کالم نگار روزنامہ دنیا 

انسان کے تہذیبی ارتقا کا رخ فرد سے اجتماعیت کی طرف ہے۔ سیاست اور حکومت سے لے کر فلسفہ اور سائنس تک، جو امور پہلے ایک فرد سرانجام دیتا تھا ، اب ادارہ کر رہا ہے ۔ بیسویں صدی میں شخصی حکومتوں کی جگہ پارلیمنٹ نے لے لی اور ماضی میں اگر سائنس اور فلسفے میں نئی دریافتوں کا سہرا افراد کے سر تھا تو اب یہ کامیابیاں اداروں سے منسوب ہوتی ہیں۔ اسی طرح حکومتوں کی حکمت عملی افراد کی جگہ غورو فکر کے ادارے (Think Tanks)ترتیب دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ افراد کی سطح پر سوچ بچار کا عمل تھم گیا ہے۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، لیکن انفرادی بصیرت اب اجتماعی بصیرت میں متشکل ہو گئی ہے۔


گزشتہ چند صدیوں سے انسان کی تہذیبی قیادت چونکہ مغرب کے پاس ہے ، اس لیے تمدنی ارتقا کے مظاہر مغربی ممالک میں زیادہ واضح اور مشہود ہیں۔ مسلمان چونکہ اس تہذیبی سفر میں بچھڑے پن کا شکار ہیں، اس لیے ہمارے معاشروں میں قدیم دور کی شخصی گرفت ہر جگہ موجود ہے اور ادارہ سازی ہمارے ہاں ایک روایت نہیں بن سکی ہے ۔ سیاست و حکومت کے میدان میں دیکھیے تو چند ممالک کے استثنا کے ساتھ ہر جگہ بادشاہت، آمریت یا پھر پاپائیت ہے ۔ہماری سیاسی جماعتوں کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ کسی منشور پر قائم نہیں، بلکہ افراد سے منسوب سیاسی گروہ ہیں۔ مذہبی جماعتوں اور دینی اداروں میں بھی تمام اختیارات فرد واحد کے ہاتھ میں ہیں۔اگر کہیں شوریٰ کے نام پر کوئی ادارہ موجود ہے تو اس کی حیثیت صرف مشاورتی ہے ۔ فیصلہ سازی کا کلی اختیار تنظیم یا جماعت کے امیر کے پاس ہے۔ ایران میں غیر معمولی عوامی تائید کے ساتھ ایک تبدیلی آئی، لیکن وہ بالآخر ایک ایسے نظام میں ڈھل گئی جس میں ایک فرد واحد ، جو فقیہ ہے ، ہر ریاستی ادارے پر بالادست ہے ۔ افغانستان میں طالبان کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو انھوں نے عہد ملوکیت کے اسی نظام کا احیا کرنا چاہا جس میں خلیفۂ وقت کو تمام اختیارات حاصل تھے۔اسی طرح پاکستان میں انتخابات تو ہو رہے ہیں، لیکن طاقت اور اختیار کا منبع ایک فرد واحد ہے۔


پاکستان کے بانی بالخصوص علامہ اقبال اور قائد اعظم، اس تمدنی ارتقا سے اچھی طرح واقف تھے، جس سے بیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا آشنا تھی۔ اس لیے وہ اس پر یقین رکھتے تھے کہ جنوبی ایشیا میں اگر مسلمانوں کی کوئی نئی ریاست وجود میں آتی ہے تو اس میں تشکیل پانے والا نظام یقیناًاس ارتقا کے ادراک پر مبنی ہوگا جو تہذیبی سطح پر آچکا ہے ۔ علامہ اقبال کے فکر میں پارلیمنٹ کے حق اجتہاد کی بات یا قائد اعظم کے ہاں جمہوریت اور شخصی حقوق پر اصرار، اسی بات کو واضح کر رہاہے۔ بد قسمتی سے ان کی یہ خواہش یہاں کسی نظام کی صورت میں متشکل نہیں ہو سکی اور ہم بدستور ادارہ سازی کے عمل سے دور ہیں۔ حال ہی میں ۱۹۷۹ء کے حدود قوانین میں ترمیم و تنسیخ سے لے کر تحفظ حقوق نسواں بل تک جو ہنگامہ آرائی جاری رہی ، وہ اس المیے کو ایک بار پھر نمایاں کر رہی ہے۔


۲۰۰۲ء کے انتخابات کے نتیجے میں ہمارے ہاں ایک پارلیمنٹ قائم ہوئی۔ اس پارلیمنٹ میں تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے جس میں مذہبی تشخص رکھنے والی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ حکمران جماعت سے لے کر حزب اختلاف کی جماعتوں تک، سب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی پریقین رکھتی ہیں، لیکن تحفظ حقوق نسواں بل پر ان کے طرز عمل نے واضح کر دیا ہے کہ اس دعوے میں کتنی صداقت ہے۔ یہ بل جب قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو اسپیکر نے تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک سلیکٹ کمیٹی قائم کی جسے اس پر غور و فکر کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ جمہوری روایات اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا یہ تقاضا تھا کہ کمیٹی کے اراکین اس پر اظہار خیال کرتے ، پھر یہ بل ایوان میں عام بحث کے لیے پیش ہوتا اور اس کے بعد اکثریت اس کے بارے میں جو فیصلہ کرتی ، وہ نافذ العمل ہو جاتا ۔ پارلیمنٹ کی حاکمیت کو قائم کرنے کی واحد صورت یہی تھی۔ اب ہوا یہ کہ متحدہ مجلس عمل نے اس سلیکٹ کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا ۔ حکمران مسلم لیگ نے اس کمیٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے مجلس عمل سے، پارلیمنٹ سے باہر مذاکرات کا دروازہ کھول دیا اور پھر دونوں نے ایک نئے مسودۂ قانون پر اتفاق کر لیا۔ ہمارے نزدیک ان دونوں جماعتوں کا یہ طرز عمل پارلیمنٹ کی بالادستی کے منافی تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہو گیا تھا تو پھر پارلیمنٹ سے ماورا مشاورت کو کیوں روا رکھا گیا؟ ایسی مشاورت کوئی ممنوع امر نہیں ہے ، لیکن حکمران جماعت اگر اس کی ضرورت محسوس کرتی تھی تو یہ کام بل کو اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے ہونا چاہیے تھا۔ پھر جب مجلس عمل کی نمائندگی سلیکٹ کمیٹی میں موجود ہے تو یہ مشاورت وہاں کیوں نہیں ہوئی ؟ پارلیمنٹ میں کسی مسودۂ قانون کے پیش ہونے کے بعد ، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ، ایک نئے مشاورتی عمل کا آغاز دراصل اس ادارے پر عدم اعتماد کا اظہار ہے ۔ اسی طرح مجلس عمل کی قیادت بار ہا یہ کہہ چکی ہے کہ اگر پارلیمنٹ نے ان کی رائے کے برخلاف کسی مسودۂ قانون کو منظو ر کیا تو اس کے اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا کوئی مطلب اس کے سوا نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کے اس حق کو تسلیم کیا جائے کہ وہ کثرت رائے سے جو فیصلہ کرے، اسے قانون کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ جو سیاسی گروہ پارلیمنٹ کو یہ حق دینے پر آمادہ نہیں، اس کا یہ دعویٰ قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔


مجلس عمل کے موقف کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک دینی مسئلے پر کسی دوسری رائے کو نہ تسلیم کرنے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ تعبیر دین کا اختیار اپنے لیے خاص سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کو یہ حق دینے پر آمادہ نہیں۔ اسی کا نام پاپائیت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ دین کے ساتھ کسی دوسرے گروہ یا فرد کی وابستگی کو شک کی نظر سے دیکھتے اور اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دینی محکمات کے خلاف بھی کوئی رائے قائم کرسکتا ہے؟ کیا ہماری مذہبی قیادت اس موقف کو علانیہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہے؟ اب دونوں میں سے جو وجہ بھی ہو، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔


اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے بھی اسی رویے کا اظہار کیا گیا۔ یہ ایک آئینی ادارہ ہے جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ حکومت اگر کسی معاملے کی دینی تعبیر کے بارے میں کسی الجھن کا شکار ہوگی تو اس ادارے کی طرف رجوع کیاجائے گا۔ تحفظ حقوق نسواں بل کے بارے میں جب یہ سوال پیدا ہوا تو اس ادارے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک علما کمیٹی قائم کردی گئی۔ اب اس کمیٹی نے جس رائے کا اظہار کیا، اس سے قبل یا اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل سے کسی مشاورت کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک آئینی ادارے پر عدم اعتماد کے مترادف تھا۔


یہ طرز عمل دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ ہم بطور قوم ابھی تک نہ تو اداروں کی اہمیت سے واقف ہیں اور نہ دلی طور پر ان کی حاکمیت کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہم اپنی رائے کی حجیت کو مانتے ہیں اور اس کے سامنے اگر ادارے یا اکثریتی رائے موجود ہو تو انھیں نظر انداز کرنے میں ہمیں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک یہ ایک قومی المیہ ہے اور اس بات کو نمایاں کررہا ہے کہ ہماری قیادت ذہنی طور پر ماضی میں جیتی ہے اور اس کے پاس اس تہذیبی بچھڑے پن کا کوئی علاج نہیں جس سے ہم اجتماعی طور پر دوچار ہیں۔ جب ہم اداروں کی حاکمیت کی بات کرتے ہیں تو یہ شخصی رائے پر اجتماعی رائے کو فوقیت دینے کا عمل ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ مراداجتماعی بصیرت کا ہر مظہر حق پر مبنی ہوگا، بلکہ اس سے اجتماعی سطح پر اختلافات کو حل کرنے کا ایک متمدن طریقہ اختیار کرنا ہے جس سے ہم قومی زندگی میں کسی خلف شار سے بچتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ اس قابل ہوسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اپنی غلطیوں کی اصلاح بھی کرتے رہیں۔ پھر اس بات میں کس کو کلام ہوسکتا ہے کہ اجتماعی رائے کی نسبت فرد کی رائے میں غلطی کا امکان بہر حال زیادہ ہے۔


آج ضرورت ہے کہ ہماری قومی قیادت اس جانب متوجہ ہوکہ مسلمان معاشروں کو اگر ترقی کرنی ہے تو انھیں انسان کے تہذیبی ارتقا سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اپنی تمام توجہ ادارہ سازی پر دینا ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاست میں آمریت یا پاپائیت کے بجائے جمہوریت کا چلن ہو۔ سیاسی جماعتوں میں قیادتوں کے فیصلے خاندانی نسبت کے بجائے صلاحیت اور کارکنوں کے اعتماد کی بنیاد پر ہوں۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کے فیصلے کو ہرصورت میں قبول کیاجائے قطع نظر اس کے یہ فیصلہ ہمارے گروہی مفادات سے کس حد تک متصادم ہے۔ اداروں کو مضبوط بنانے کی یہی صورت ہے اور ادارہ سازی کے بغیر اجتماعی بصیرت کو روبہ عمل لانے کا کوئی دوسرا طریقہ اب تک ایجاد نہیں ہوا۔