قرآن کریم اور عربی زبان کی حفاظت

قران کریم کی حفاظت:

قران کریم سے پہلے جو آسمانی کتابیں مختلف انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوئیں ‘ ان کی حفاظت کا کوئی وعدہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں کیا گیا تھا چنانچہ وہ اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہ رہ سکیں ۔ خود اہل کتاب بھی اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہیں اور کوئی کٹر سے کٹر عیسائی یا یہودی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ ان کتابوں میں ہر لفظ الہامی ہے اور ان میں کہیں کوئی غلطی یا تبدیلی نہیں ہوئی ۔ اس کے برخلاف قران کریم نے اپنے بارے میں یہ پیشگی خبر دیدی تھی کہ

"إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ "

" ہم نے اسی قران کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"

چنانچہ یہ وعدہ حرف با خرف صحیح ثابت ہوا ۔ اور چودہ سو سال کے اس طویل عرصے میں قران کریم کا ایک نقطہ ایک شوشہ تک ضائع نہیں ہوسکا ۔ اور نہ اس میں تحریف و ترمیم کی کوئی کوشش کامیاب ہوسکی ۔ اسلام ہمیشہ مخالفتوں اور عداوتوں کے نرغے میں رہا ہے اور اس کے دشمنوں نے اس کو مغلوب کرنے کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن کوئی دشمن قران کریم کو اس دور میں مٹانے ،ضائع کرنے یا بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکا جبکہ قران کریم کے نسخے نہایت محدود تھے اور نشر و اشاعت کے وسائل نایاب۔ تورات کو دیکھئے کہ کس طرح بابل کا بادشاہ بخت نصر اٹھتاہے اور بنی اسرائیل کے روایات کے مطابق سوائے حضرت عزیر علیہ السلام کے کسی شخص کو تورات یاد نہیں تھی ۔ اس لئے تمام نسخے ضائع ہوجانے کے بعد انہوں نے اپنے حافظے سے اسے دوبارہ لکھوایا ۔ یا پھر روم کا بادشاہ انیتوکس ایپی پانیس اٹھتا ہے اور خود بنی اسرائیل کی روایات کے مطابق تورات کا ایک ایک نسخہ پھاڑ جلا دیتا ہے یہاں تک کہ کوئی نسخہ باقی نہیں رہتا ، ( دیکھیئے انسائیکلو پیڈیا ‘برٹانیکا ٥٠١ج٣3 مطبوعہ ١٩٥٠ مقالہ ‘ بائبل بحث عہد قدیم ۔ فہرست مسلمہ بحوالہ ۔ السیڈریس دوم ١٤ ۔١٩ تا ٤٨ ، نمبر٢ دیکھیئے بائبل ناکس ورژن میکملن۔ لندن ١٩٦٣ ء مکابیوں کی پہلی کتاب ۔ ١: ٥٩)

اسی طرح انجیل کو دیکھئے کہ کس طرح طیطوس رومی ‘شاہ نیرون’ڈومیشین اور ڈیو کلیشین کے حملوں میں اس کے اصل نسخےنابود ہوجاتے ہیں لیکن قران کریم کا حال یہ ہے کہ اسکے سینکڑوں حملہ آوروں سے سابقہ پڑتا ہے بہت سے مواقع پر مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے ان کے کتب خانے جلائے جاتے ہیں قدیم کتابوں کے کے بڑے بڑے ذخیرے دریا میں بہا دیے جاتے ہیں قرامطہ کا سیلاب عظیم پورے عالم اسلام پر ٹوٹتا ہے اور قران کریم کی تحریف کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا ۔ لیکن یہ کتاب مبین،  اللہ کے وعدے کے مطابق کسی ادنی تغیر کے بغیر نا صرف محفوظ رہتی ہے بلکہ مشرق و مغرب میں اسکی نشر واشاعت کی رفتار بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ۔ آج بھی بالفرض (خدانخواستہ) قران کریم کے تمام مکتوب نسخے ناپید ہوجائیں تو لاکھوں فرزندان توحید کے سینے اسکے سچے امانت دار ہے اور اگر کوئی شخص قران کریم کا کوئی لفظ بھی تبدیل کرنا چاہے تو مسلمانوں کے کمسن بچے اس کو پکڑ سکتے ہیں ۔

پھر قران کریم کے صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ معانی کی حفاظت کا جو انتظام اللہ تعالی کیطرف سے کیا گیا ہے وہ خود ایک مستقل تاریخ ہے ۔ مثلا مرورایام سے ہر زبان کے الفاظ میں معانی کے اعتبار سے فرق واقع ہوتا رہتا ہے ۔ چنانچہ عبرانی ، سریانی اور کلدانی زبانیں جن میں پچھلی آسمانی کتابیں نازل ہوئی تھیں، رفتہ رفتہ دنیا سے ناپید ہوگئیں یا ان ایسا عظیم تغیر واقع ہوگیا کہ وہ بالکل نئی زبانیں بن گئیں ۔ لیکن قران کی زبان کو اللہ تعالی نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ ہزارہا تغیرات و انقلابات کے باوجود پوری طرح محفوظ ہے اور اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ قران کریم کا فلاں لفظ اس دور میں کون سی معنی میں استعمال ہوتا تھا تو وہ نہایت آسانی سے معلوم کر سکتا ہے ۔

عربی زبان کو کسی غیر معمولی طریقے پر محفوظ رکھا گیا ہے اس کا ایک معمولی سا اندازہ اس واقعے سے ہوگا کہ یمن کے شہر زرائب کے اوپر عکاد نامی دو پہاڑ تھے ان پہاڑوں کے رہنے والوں نے یہ عہد کیا ہوا تھا کہ وہ اپنی بستی سے باہر کسی بھی شخص سے نہ شادی بیاہ کا تعلق قائم کریں گے نہ دوستی کا ،نا خود کہیں باہر جائیں گے یہاں تک کہ باہر کا کوئی آدمی ان کے یہاں تین دن سے زیادہ قیام بھی نہیں کر سکتا تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اگر باہر کے لوگوں سے ہمارا میل جول بڑھا تو ہماری عربی زبان بگڑ جائی گی یہ لوگ اپنے ان اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے اور مورخین نے لکھا ہے کہ یہ وہ واحد گروہ ہے جسکی عربی زبان ٹھیٹھ زمانہ جاہلیت کی زبان ہے اور اس میں سرمو فرق نہیں آیا ۔

خلاصہ یہ کہ قران کریم نے جو وعدہ فرمایا تھا کہ اللہ کی یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی ‘ اور خود اللہ اسکی حفاظت کرے گا ‘ اسکی صداقت روز بروز روشن ہوتی چلی جاتی ہے ‘ اور یہ پیشگی خبر سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے ۔ 

یہاں قران کریم کی تمام پیشگی خبروں کا استیعاب کرنا نہیں ‘ بلکہ صرف چند مثالیں پیش کرنا مقصود تھا اور ان چند مثالوں کی ہی سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قران کریم نے جو پیشگی خبریں دی تھیں وہ ایسے معجزانہ طریقے سے پوری ہوئی ہیں جس میں کسی انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں ۔


( بشکریہ الحاد ڈاٹ کام : حوالہ : علوم القرآن از مفتی تقی عثمانی )