علامہ اقبال اور بیداری امت

علامہ اقبال اور بیداری امت  By Shahid Raza on November 01, 2014
۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کو وہ شخصیت عالم فانی میں وجود پذیر ہوئی جس نے اپنی لافانی شاعری اور نثر سے امت مسلمہ کے لیے کامیابی اور فلاح کے لیے نئی جہتیں متعین کیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں قرآن و حدیث سے مستعار دینی، اخلاقی، سیاسی، معاشی، اور اقتصادی اصول و ضوابط سے اہل اسلام کے لیے ترقی ومنازل کی نئی راہیں فراہم کیں، اسی وجہ سے وہ ''حکیم الامت'' اور ''شاعر مشرق'' کے خطابات سے جانے اور مانے گئے۔ ۱۹۳۰ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کی صدارت میں ''نظریۂ پاکستان'' کو پیش کرنے کے سبب ''مفکر پاکستان''، ''مصور پاکستان'' اور ''پاکستان کے نظریاتی باپ'' کے خطابات سے معروف ہوئے۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ کی جہد مسلسل اور تفکر نے امت مسلمہ، بالخصوص مسلمانان بر صغیر ۔۔۔۔ پاک و ہند ۔۔۔۔ کو ایک نئی نظریاتی حیات سے نوازا۔ انھوں نے اپنی ہمہ گیر شاعری میں نصح و خیرخواہی، تشبیہات، استعارات، تمثیلات، واقعہ نگاری، خاکہ نگاری وغیرہ جو اصناف استعمال کی ہیں، ان سے امت مسلمہ کے لیے ان کے جذبات و احساسات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں امت کی انفرادی اور من حیث الامت اجتماعی ذمہ داری کو بڑے دردمندانہ احساس میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
وہ امت مسلمہ کو اپنے دینی، سیاسی، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اپنے اصل منبع اور مرجع کی طرف رجوع کرنے اور ان سے تائید و نصرت طلب کرنے کے لیے نصیحت کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ایک ارشاد کی منظوم ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۱؂:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
بلا شبہ، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت شامل حال ہوتی ہے، مگر اس کی یہ سنت انھی لوگوں کے لیے کار فرما ہوتی ہے جو اس کی راہ پر چلتے اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے قابل بناتے ہیں۔ امت مسلمہ کی بیداری کے لیے اصل منبع اور ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے، علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے بھی اس کے لیے اصل سرچشمہ اور مرجع قرآن مجید ہی کو قرار دیا ہے۔ انھوں اپنے اس موقف کو اپنے درج ذیل شعر میں اس طرح بیان فرمایا ہے ۲؂:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بیداری کا درس دیتے ہوئے ان کی تقلیدی روش پر سرزنش بھی کرتے ہیں۳؂:
مسلماں ہے توحید میں گرمجوش مگر دل ابھی تک ہے زنّار پوش!
تمدن، تصوف، شریعت، کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی!
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری اور نثر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں اتحاد، اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، استعماری قوتوں کے خلاف صداے احتجاج، مغربی تہذیب سے احتراز، امت مسلمہ کی بیداری اور نشاۃ ثانیہ کے پہلو بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ جیساکہ وہ اپنے ایک معروف شعر میں فرماتے ہیں ۴؂:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
امت مسلمہ کی ایک عالم گیر حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ۵؂:
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری! مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلمان ہو تو تقدیر سے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
امت مسلمہ کو درس بیداری دیتے ہوئے اقبال رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ۶؂:
آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک ضابطہ متعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۷؂:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے
علامہ اقبال رحمہ اللہ کی شاعری کی ایک اور خاص بات ان کا ''خودی'' کا نظریہ ہے۔ اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس نظریۂ خودی میں بھی بنیادی طور پر امت مسلمہ کی بیداری ہی کا فلسفہ پنہاں ہے۔ ان کی شاعری میں یہ بہ کثرت ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ امت کی خوش حالی اور ترقی کا راز بتاتے ہوئے وہ فرماتے ہیں ۸؂:
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ!
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ!
ایک دوسرے مقام پر خودی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں ۹؂:
خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض
امت مسلمہ کی بیداری کے لیے زیادہ تر تو اقبال رحمہ اللہ نے شاعری کو اپنا خاص ذریعہ بنایا ہے، مگر ان کی نثر کا بھی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انھوں نے اہل اسلام کی بیداری کے لیے ان کے مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی افکار کی اصلاح و تنقیح کے لیے بھی خاص توجہ دی ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب ''The Reconstruction of Religious Thought in Islam'' کا مطالعہ از حد مفید ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ''تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ'' کے نام سے دستیاب ہے۔ امت مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
...For the present every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A true and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truly manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members.۱۰؂
''...بحالت موجودہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ امم اسلامیہ میں ہر ایک کو اپنی ذات میں ڈوب جانا چاہیے۔ انھیں چاہیے اپنی ساری توجہ اپنے آپ پر مرتکز کر دیں، حتیٰ کہ ان سب میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ باہم مل کر اسلامی جمہوریتوں کی ایک برادری کی شکل اختیار کر لیں۔ حزب وطنی کے زعما ٹھیک کہتے ہیں کہ عالم اسلامی کا ایک حقیقی اور مؤثر اتحاد ایسا آسان نہیں کہ محض ایک خلیفہ کے نمائشی تقرر سے وجود میں آ جائے۔ اس کا ظہور ہو گا تو آزاد اور خودمختار وحدتوں کی ایک ایسی کثرت میں جن کی نسلی رقابتوں کو ایک مشترک روحانی نصب العین نے توافق و تطابق سے بدل دیا ہو۔ میں تو کچھ یونہی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شاید ہم مسلمانوں کو بتدریج سمجھا رہی ہے کہ اسلام نہ تو وطنیت ہے، نہ شہنشاہیت، بلکہ ایک انجمن اقوام جس نے ہمارے خود پیدا کردہ حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کیا ہے تو محض سہولت تعارف کے لیے۔ اس لیے نہیں کہ اس کے ارکان اپنا اجتماعی مطمح نظر محدود کر لیں۔۱۱ ؂ ''
_____
۱؂ وہ ارشاد یہ ہے: 'وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا'،''اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ہم ان کو اپنے راستے ضرور دکھا دیں گے''(العنکبوت ۲۹: ۶۹)۔بانگ درا، اقبال اکادمی لاہور، پاکستان، ۲۱۲۔
۲؂ ضرب کلیم، اقبال اکادمی لاہور، پاکستان، ۱۴۸۔
۳؂ بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور، پاکستان، ۱۲۳۔
۴؂ بانگ درا، اقبال اکادمی لاہور، پاکستان، ۲۷۹۔
۵؂ کلیات اقبال، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، بھارت، ۱۵۸۔
۶؂ کلیات اقبال، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، بھارت، ۱۵۶۔
۷؂ بانگ درا، اقبال اکادمی لاہور، پاکستان، ۲۰۶۔
۸؂ بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور، پاکستان، ۱۱۵۔
۹؂ بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور، پاکستان، ۱۶۰۔
۱۰؂ The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Stanford University Press,
Stanford, California, p: 126.
۱۱؂ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، بزم اقبال لاہور، ۲۴۵۔۲۴۶۔
(بشکریہ ماہنامہ اشراق )