یوم اقبال کے موقع پر "جاوید احمد غامدی " خطاب
[یہ مدیر ''اشراق'' جناب جاوید احمد غامدی کا خطاب ہے ۔ یہ خطاب انھوں نے ۹ نومبر ۲۰۰۴ کو ''مرکزیہ مجلس اقبال''کی سالانہ تقریب کے موقع پر الحمرا ہال لاہور میں کیا ۔ منظور الحسن صاحب نے اسے تحریر میں منتقل کیاہے ۔ ادارہ]
اقبال کی آواز اس عہد کی خوب صورت ترین آواز تھی ۔ وہ ہمارا بے مثل شاعر، مفکر اور حکیم ہے۔ ہم نے اسے اگر شاعرمشرق کہا، ترجمان حقیقت کہا، حکیم الامت کہا تو بے جا نہیں کہا ۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے قافلے آج بھی کہیں جادہ پیما ہوتے ہیں تو اقبال کی آواز ہی ان کے لیے بانگ درا بنتی ہے اور نوجوان آج بھی کہیں مائل پرواز ہوتے ہیں تو بال جبریل ہی سے اپنے لیے شہ پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم اقبال کے بارے میں ان حقائق کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہم اس کے اشعارگنگناتے ہیں،اس کی زندگی اور اس کے افکار کے بارے میں مقالے اور تقریریں سنتے ہیں، اس کی شان میں قصیدے کہتے ہیں اوراس کی یاد میں منعقد کی گئی ایسی ہی مجلسوں میں اسے بڑھ چڑھ کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یوم اقبال کی اس تقریب میں اگر میں بھی اپنے الفاظ اسی طرح مدحت اقبال کی نذر کروں تو یہ کار بے خیر نہ ہو گا ، مگر میرے خیال میں اس وقت جس موضوع کو سب سے بڑھ کر زیر بحث آنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اقبال کے بعد ہم کس جگہ کھڑے ہیں۔
پہلا مسئلہ جو اقبال کے بعد ہمیں درپیش ہے ، وہ یہ ہے کہ ہمارے اس شاعر نے قومیت کا جو تصور پیش کیا ہے، کیا وہ زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہے یا ایسا آئیڈیل ہے جس تک کبھی رسائی نہیں ہو سکتی؟
ہم جانتے ہیں کہ اقبال ایک زمانے تک وطنیت کے نغمے گاتا رہا، لیکن پھر وہ وقت بھی آیا ، جب اس نے پورے زور کے ساتھ مسلم قومیت کا تصور پیش کیا۔ اس نے لوگوں کو باور کرایا کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد رنگ ، نسل یا وطن نہیں ہے ، بلکہ خود اسلام ہے ۔ اپنے مضامین ، اپنی شاعری اور اپنے خطبات میں اس نے یہ مضمون ، اگرمیر انیس کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو فی الواقع سو رنگ سے باندھا ہے ۔ آپ کو اس کی نظم ''وطنیت بحیثیت سیاسی تصور '' کے یہ اشعار تو یاد ہوں گے ۔ اس نے کہا ہے:
اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے، جم اور
تہذیب کے آزر نے ترشواے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
وہ اس معاملے میں اس انتہا تک چلا گیا کہ جب مولانا حسین احمد مدنی جیسے جلیل القدر عالم نے کسی موقع پر کہا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں تو اس نے سخت تنبیہ کے انداز میں فرمایا:
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی ست
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی ست
آج ہم سے ہماری نئی نسلیں یہ سوال کرتی ہیں کہ اقبال کا دیا ہوا مسلم قومیت کا یہ آفاقی تصور اگر درست ہے تو پھرمسلمان ممالک کی آپس کی سرحدوں کے کیا معنی ہیں؟ہندوستان میں باقی رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کا کیا اسٹیٹس ہے؟ کیا وجہ ہے کہ مصور پاکستان کے پاکستان میں جب بنگلہ دیش اور افغانستان سے مہاجرین آئے تو انھیں اس ملک کے باشندے تصور کرنے سے انکار کر دیا گیا؟ کیا سبب ہے کہ آج ہماری قوم کی زبان پر یہ نعرہ جاری ہے کہ سب سے پہلے پاکستان؟
اقبال کے فرزند جاوید اقبال نے اپنی کتاب ''اپنا گریباں چاک'' میں اپنے والد کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں انھوں نے اسی طرح کے زمینی حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ انھوں نے اپنے والد کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ جب آپ انگلستان گئے تھے اور میں نے آپ سے انگریزی باجا لانے کی فرمایش کی تھی تومیری یہ خواہش بھی آپ کے آسمانی افکار سے متصادم ہو گئی تھی اور آپ نے فرمایا تھا :
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
انھوں نے لکھا ہے کہ آج بھی کچھ اسی طرح کے زمینی حقائق اس امت کو درپیش ہیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ان نہایت اہم مسائل کی نشان دہی کی ہے جن سے اس وقت امت مسلمہ دوچار ہے۔ اس امر کی ضرورت تھی کہ ہمارے اہل دانش فرزند اقبال کی طرف سے نشان زد کیے گئے ان مسائل کی طرف متوجہ ہوتے ، مگر افسوس ہے کہ نہ کسی نے اسے موضوع بنایا اور نہ اس کا کوئی نوٹس لیا اور ڈاکٹر صاحب بھی غالباً یہ سوچ کر خاموش ہو گئے کہ اقبال اگر اب بھی ان کے خط کا جواب دیں تو غالباً یہی دیں گے :
نے افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
بہرحال قومیت کے آفاقی تصور کے حوالے سے نظریے اور عمل کا جو تصادم پیدا ہو گیا ہے، وہ ہماری نئی نسل کے ذہن میں ایک لاینحل مسئلے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ یہ پہلا سوال ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اقبال نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت کا جو خواب دیکھا تھا، وہ اگرچہ بڑا خوب صورت اور دل نواز تھا ، مگر اس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے جولائحۂ عمل ہم نے آج تک اختیار کر رکھا ہے، کیا وہ درست ہے یا اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟
عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے ہم نے جو لائحۂ عمل اختیار کیا ، اس کی ہمیشہ دو جہتیں رہی ہیں : ایک یہ کہ ہم نے ہر ممکن طریقے سے علما کو ایوان اقتدار میں پہنچا دینے کی کوشش کی اور دوسرے یہ کہ ہر موقع پر مسلمانوں کو جہاد و قتال کے ذریعے سے لڑ مرنے کی ترغیب دی۔ پہلی کاوش کے نتائج یہ ہیں کہ سعودی عرب میں محمد بن وہاب کی تحریک سے جو انقلاب برپا ہوا، اس نے بادشاہت کی صورت اختیار کی ، ایران میں یہ تجربہ پاپائیت میں تبدیل ہو گیا اور افغانستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد ملائیت کی صورت میں ظہور پزیر ہوئی۔ چنانچہ اقبال ہی کے الفاظ میں مسلمان آج بھی اسی مخاطبت کے مستحق ہیں کہ اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری ۔
جہاں تک دوسری کاوش کا تعلق ہے تو اس کے نتائج بھی آپ عراق سے لے کر افغانستان اور فلسطین سے لے کر چیچنیا تک، ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں ۔
کیا اقبال نے بھی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لیے یہی لائحۂ عمل تجویز کیا تھایا وہ اس سے مختلف تھا، اور اگر اس کا تجویزکردہ لائحۂ عمل یہی تھا تو پھر اس سے نکلنے والے نتائج ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں؟ یہ دوسرا سوال ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اقبال نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ شریعت کا جو ڈھانچا اس وقت موجود ہے، وہ نہ اسلام کی دعوت کے لیے موزوں ہے اور نہ اس کے نفاذ کے لیے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی کتابReconstruction of religious thought in islam میں اسے اصولی لحاظ سے موضوع بنایا ۔ انھوں نے ان اہم عملی مسائل کی فہرست بندی بھی کی جن کا شریعت کے اس پیش کردہ ڈھانچے میں کوئی حل موجود نہیں ہے۔ یہ فہرست آج بھی اقبال میوزیم میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اقبال کی تشویش بالکل بجا تھی، مگر المیہ یہ ہے کہ اسے کسی نے لائق اعتنا ہی نہیں سمجھا۔
ضرورت اس امرکی تھی کہ ہم شریعت اور اسے اخذ کرنے کے اصولوں کا پوری طرح جائزہ لیتے ، تحقیق و جستجو کے مقامات کو متعین کرتے ، اجتہاد کی راہوں کو دریافت کرتے اور اپنے لیے ایسی فقہ ترتیب دیتے جو ایک طرف قرآن و سنت کے عین مطابق ہوتی اور دوسری طرف دور جدید کے مسائل کو تشفی بخش طریقے سے حل کرتی، مگر ہم نے اس کے برعکس تقلید جامد کا رویہ اختیار کرتے ہوئے انھی قوانین سے چمٹے رہنے کا فیصلہ کیاجو ہمارے قدیم فقہا نے اپنے زمانے کی ضرورتوں کے لحاظ سے تشکیل دیے تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم نے اسلامی شریعت کے نام پر جو کچھ دعوت دی ہے اور جو کچھ نافذ کیا ہے، وہ اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اسے نہ اپنی قوم کے ذہین عناصر سے منوایا جا سکتا اور نہ دنیا کی غیر مسلم اقوام کے سامنے اعتماد سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہمارا یہ طرز عمل درست ہے یا اس معاملے میں کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟ یہ تیسرا سوال ہے۔
یہ وہ سوال ہیں جو ہمیں اس وقت امت کی سطح پر درپیش ہیں۔ میں مرکزیہ مجلس اقبال کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ان مسائل کے بارے میں قوم کے ذہین عناصر کو متوجہ کرے۔ ان مسائل کی نوعیت محض افراد کی غلطیوں کی نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ اب ملت کے گناہ بن گئے ہیں اور اقبال کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ :
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف