ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
۲۸جولائی ۲۰۱۷ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اس فیصلے کی بنا پر اپنے عہدے سے معزول کردیا کہ وہ آئین پاکستان کی دفعہ ۶۲کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے:
نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو ۲۰۱۳ء میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب پیپلز ایکٹ ۱۹۷۶ءکے سیکشن ۹۹کی روشنی میں ایمان دار نہیں رہے، لہٰذا وہ پیپلز ایکٹ ۱۹۷۶ءکے سیکشن۹۹ اور آرٹیکل ۶۲ (اے) کی روشنی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر نااہل ہیں۔ الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرے۔ (روزنامہ نوائے وقت، ۲۹جولائی ۲۰۱۷ء)
اس کے بعد سے مختلف سیاسی وسماجی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آئین کے اس آرٹیکل۶۲ کی کون سی ایک اہم ضرورت ہے، جس کی بنا پر ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہنے لگے کہ آئین میں ترمیم کرکے اس دفعہ کو حذف کرایا جائے کیوںکہ یہ مستقبل میں بھی کسی بھی حاکم کو معزول کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیتی ہے۔ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۶۲(۱) کا مستند متن یہ ہے :
کوئی [مسلم] شخص مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چُنے جانے کا اہل نہیں ہوگا، اگر:
(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم ( Adequate knowledge of Islamic teachings) نہ رکھتا ہو اوراسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
(و)وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو۔ اور ایمان داراورامین(Honest and Ameen ) نہ ہو۔ عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔(۱۸ویں ترمیم ۲۰۱۰ء، نمبر ۱۰کی دفعہ ۲۰کی رو سے آرٹیکل ۶۲ کو اس متن سے تبدیل کردیا گیا)
سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں آرٹیکل ۶۲ کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا کہ:
کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثوں کا ذکر نہ کرنا غلط بیانی ہے اور عوامی نمایندگی کے قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس لیے وہ [وزیر اعظم]’صادق نہیں‘ ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شق ۶۲، ۶۳ کے بارے میں اپنے نوٹ میں لکھا کہ: ’’آئین میں دی گئی اصطلاحات میں ’صادق‘اور ’امین‘ کی تشریح واضح نہیں ہے اور یہ بھی کہ کسی ایک مقدمے کے شواہد اور واقعات پر ان کا کس طرح اطلاق ہو گا.... بظاہر لگتا ہے کہ ان شقوں کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے قرآن سے رہنمائی لی گئی ہے، جہاں انھوں نے لکھا کہ گھریلو ملازم کے لیے ’قوی الامین‘ اور وسائل کی حفاظت پر مامور کیے جانے والے افراد کے لیے ’حفیظ الامین‘کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔… آئین میں ان شرائط کا مطلب یہ یقینی بنانا تھا کہ صرف اچھے اور نیک مسلمان ہی اسمبلیوں تک پہنچیں اور وہ لوگ ریاست پاکستان میں اللّٰہ کی حاکمیت ایک امانت کے طور پر نافذ کرسکیں.... ان کے مطابق شق ۶۲ کا اطلاق کسی شخص کے ذاتی کردار کے مقابلے میں عوامی کردار تک محدود رکھنا جس سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہوں فائدہ مند اور قابل عمل ہے‘‘۔(بی بی سی، ۲۸جولائی ۲۰۱۷ء)
یہاں بعض لوگوں (بشمول سابق وزیر اعظم) کا خیا ل ہے کہ ’’جس شخص کو عوام منتخب کریں، اس کو امین نہ ہونے کے نام پر حکومت سے خارج کرنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، اس کا راستہ بند کرنا ہوگا‘‘۔ ان کے موقف کی بنیاد یہ ہے کہ جمہوریت دراصل عوامی حاکمیت کا نام ہے، اور عوام اپنے حکام جس کو چاہیں منتخب کریں، یہی جمہوریت ہے۔
اس بات کی وضاحت یوں ہے کہ :
٭ عوامی حاکمیت کا ایک اظہار ووٹ سے ہوتا ہے ، اور دوسرا دستور سے۔ اور جب دستورِ پاکستان کی اٹھارھویں ترمیم (اپریل۲۰۱۰ء)کے ذریعے عوامی نمایندوں(بشمول وزراے حکومت) نے صادق و امین اور دیگر شرائط کو مزید تفصیلات کے ساتھ متعین کردیا ہے، تو یہی وہ باضابطہ قانون ہے جو عوامی حاکمیت کا مظہر ہے۔ بالفاظِ دیگر عوام کے نمایندے پارلیمنٹ میں پہنچ کر جو قانون سازی کرتے ہیں، وہی عوام کی حقیقی ترجمانی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ووٹ عوام کی علاقائی نمایندگی کرتا ہے جس کے بعد پارلیمنٹ میں بننے والا قانون انھی عوامی نمایندوں کی ووٹنگ کے نتیجے میں منظور ہوتا ہے اور وہی برتر عوامی حاکمیت کا مصداق ہے۔
٭ پاکستان میں صرف ’جمہوریت‘ نہیں ہے بلکہ ’اسلامی جمہوریت ‘ کا نظام ہے، جب کہ امریکا اور بھارت میں ملحدانہ جمہوریت ہے۔ پاکستانی دستور نے متعدد دفعات کے ذریعے اس امر کو تحفظ دے رکھا ہے کہ یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا ۔ چنانچہ اگر پارلیمنٹ عوامی حاکمیت کے نام پر فحاشی یا ہم جنس پرستی کے جواز کا قانون بنانا چاہے تووہ ۲-الف، ۲۲۷، ۲۰۳ اور بہت سی دیگر دفعات اور اپنے عہدے کے حلف کی بنا پر ایسا نہیں کرسکتی۔ اس بنا پر یہ نری عوامی حاکمیت کے نام پر عوام اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمؐ کی منشا کے خلاف نہیں جاسکتے۔ اور یہی پاکستان کی اہم ترین نظریاتی بنیاد ہے۔
پانامہ کیس کے فیصلے اور وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی سے قطع نظر، ضرورت اس امر کی ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ عہدوں اور امین وامانت کے حوالے سے قرآن وسنت مسلمانانِ پاکستان سے اُصولاً کیا مطالبہ کرتے ہیں، اور اسلامی شریعت میں امانت کے کیا کیا تقاضے ہیں؟ اس میں خیانت کا کون کون سا پہلو قابل ذکر ہے؟ اس قانون کی اہمیت اس بنا پر بھی غیرمعمولی ہے کہ اس کی روح پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہوکر پاکستانی مقننہ میں ایسے اہل حِل وعقدپہنچ سکتے ہیں جو شریعت پر عمل پیرا اوراس کا خاطر خواہ علم رکھتے ہوں، جو بظاہر سیکولر جمہوریت میں ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں درج ذیل نکات ایک مفصّل استدلال فراہم کرتے ہیں، جس میں اہل بصیرت کے لیے بے پناہ عبرت اور اسلامی نظام سیاست کی بیش قیمت تفصیلات ہیں:
قرآن وحدیث میں قائدانہ اَوصاف واہلیت
قرآنِ کریم میں مذکور کئی واقعات میں قیادت کے تعین کے بارے میں رہنمائی موجود ہے: بنی اسرائیل کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے نبی سیموئل کے ذریعے جب حاکم کا تعین فرمایا تو ارشاد ہوا:
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ط قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ط قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَيْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ط وَ اللّٰهُ يُؤْتِيْ مُلْكَهٗ مَنْ يَّشَآءُ ط وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ (البقرۃ۲: ۲۴۷) ان کے نبیؑ نے ان سے کہا کہ ’’اللّٰہ نے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے‘‘۔ وہ کہنے لگے : ’’بھلا ہم پر حکومت کا حق دار وہ کیسے بن گیا ؟ اس سے زیادہ تو ہم خود حکومت کے حق دار ہیں اور اس کے پاس تو کچھ مال و دولت بھی نہیں‘‘۔ نبی نے کہا: ’’اللّٰہ نے تم پر حکومت کے لیے اسے ہی منتخب کیا ہے۔ اور علمی اور جسمانی اہلیت اسے تم سے زیادہ دی ہے اور اللّٰہ جسے چاہے اپنی حکومت دے دے، وہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر بیان القرآن میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:’’بادشاہ ہونے کے لیے اس علم کی ضرورت زیادہ ہے تاکہ ملکی انتظام پر قادر ہو اور جسامت بھی بایں معنی مناسب ہے کہ موافق ومخالف کے قلب میں وقعت وہیبت پیدا ہو ‘‘۔
اس آیت میں علم اور جسم کی برتری کو حکومت ملنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے، جب کہ رعایا کے مطالبے : ’مال میں کثرت‘ کی نفی کی گئی ہے۔
سیّدنا یوسفؑ کو جب اللّٰہ تعالیٰ نے مصر میں حکومت دی، وہ قرآنی مکالمہ یوں ہے:
وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖٓ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِيْ ج فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ O قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰى خَزَآىِٕنِ الْاَرْضِ ج اِنِّيْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ (یوسف۱۲:۵۴-۵۵) یوسفؑ کہنے لگے : مجھے زمین کے خزانوں کا نگران مقرر کردیجیے، میں ان کی حفاظت کرنے والا ہوں اور (یہ کام) جانتا بھی ہوں۔
مدینہ یونی ورسٹی کے استاذِ حدیث، شیخ ربیع ہادی مدخلی اس واقعے کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ’’اگر اسلامی حکومت قائم نہیں ہے تو اللّٰہ تعالیٰ ہر نفس کو اتنی ہی تکلیف دیتا ہے جتنی اس کے بس میں ہے۔ ایسی حالت میں مسلمان کسی بھی غیر مسلم حکومت کا عہدہ اس شرط پر قبول کرسکتا ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہے گا، اور اللّٰہ کی نافرمانی میں ان کی اطاعت نہیں کرے گا۔ اور اللّٰہ کے قانون کے خلاف فیصلہ نہیں کرے گا، جیسا کہ سیّدنا یوسف ؑنے کیا، جب آپؑ نے ایک کافر بادشاہ کی نیابت کا منصب سنبھالا جو اللّٰہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتا تھا، جیساکہ قرآن ارشاد فرماتا ہے : مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ ط(يوسف۱۲:۷۶)’آپ اپنے بھائی (بنیامین) کو بادشاہ کے دین (قانون) کی رُو سے روک نہیں سکتے تھے، مگر یہ کہ اللہ چاہتا‘۔ لیکن آپ کافر نظام حکومت کے اعلیٰ منصب پر فائز رہتے ہوئے بھی رعایا کے مابین انصا ف کرتے رہے، اور انھیں توحید کی دعوت دیتے رہے۔ اس میں ان لوگوں کی زبردست تردید ہے، جو عقیدۂ توحید کو ہیچ سمجھتے ہوئے شرک اور اہل شرک سے تال میل رکھنے اور پینگیں بڑھانے(عہدے قبول کرنے) کی بات کرتے ہیں‘‘۔ (منهج الأنبياء في الدعوة الى اللّٰه، ص۱۰۴، ناشر: مکتبہ احیاء منہج السلف:۲۰۱۱ء)
اس آیتِ کریمہ میں سیّدنا یوسفؑ نے اپنے ذمہ دار ہونے پر جو استدلال قائم کیا، وہ حفیظ و علیم کا ہے، جب کہ عزیز مصر نے ان کی اہلیت کو یوں ذکر کیا کہ آج تو ہمارے نزدیک قدرومنزلت والا اور امانت دار ہے۔ گویا کہ یہاں سے چار اوصاف حاصل ہوئےاور قرآن نے کسی کی تردید نہیں کی۔
سیّدنا موسٰی کو جب مصر سے نکلنا پڑا اور وہ مدین کی سرزمین میں گئے تو وہاں انھیں شعیب نامی ایک بزرگ شخصیت نے اپنے ہاں ملازمت دی۔ ا س موقعے کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں ہے:
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰٓـاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ O (القصص۲۸:۲۶) ان میں سے ایک بولی: اباجان، اسے آپ اپنا ملازم رکھ لیجیے۔ بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھنا چاہیں، وہی ہوسکتا ہے جو طاقت ور اور امین ہو۔
اس آیتِ کریمہ میں کسی ذ مہ داری کے لیے اَمین اور قوی کا وصف بیان کیا گیا ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا عبد الرحمٰن کیلانی لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا کہ ملازمت کے لیے دو باتوں کو دیکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ جس کام کے لیے کوئی شخص ملازم رکھا جارہا ہے، وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں ۔ بالفاظِ دیگر اس کام کا اسے پہلے سے کچھ علم اور تجربہ ہے؟ اور اگر کوئی محنت والا کام ہے تو کیا اس کی جسمانی حالت اور قوت اتنی ہے کہ وہ اس کام کو بجا لاسکے۔ دوسرے یہ کہ وہ دیانت دار اور امین ہو .... اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جب کسی شخص نے کوئی نجی یا گھریلو ملازم رکھنا ہو تو وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتا ہے، جب کہ سرکاری ملازمتوں کے وقت صرف شرطِ اوّل، یعنی اہلیت کو تو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور دوسری شرط کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ملازم رکھنے والے افسروں میں بھی یہ دوسری شرط مفقود ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشوت عام ہوجاتی ہے، جس کا تعلق ملازمین سے ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کے حقوق غصب اور تلف ہوتے ہیں ۔ ظالمانہ قسم کی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور عوام کے لیے اتنی شکایات اور مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جن کا حل ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ شرائط ِملازمت میں سے دوسری شرط یعنی دیانت و امانت کو درخور اعتنا سمجھا ہی نہیں جاتا‘‘۔(تفسیر تیسیر القرآن، سوم، ص ۴۲۵)
روح القدس سیّدنا جبریلؑ کو اللّٰہ جل جلالہ نے بہت بھاری ذمہ داری دیے رکھی،یعنی انبیاے کرام ؑتک اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام رسالت پہنچانا۔ اس اہم ترین ذمہ داری کے لیے ان کا جو وصف قرآن کریم نے ذکر کیا، ملاحظہ فرمائیے:
اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍO ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ O مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ O (التکویر ۸۱: ۱۹-۲۱)یہ ایک معزز رسول کا قول ہے جو بڑا طاقت ور اور صاحب ِ عرش کے ہاں بڑے رُتبے والا ہے۔ وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے، بااعتماد ہے۔
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ O نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ O عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَO(الشعراء۲۶:۱۹۲-۱۹۴) بلاشبہہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔جسے روح الامین لے کر آپ کے دل پر نازل ہوا، تاکہ آپ ڈرانے والوں میں شامل ہوجائیں ۔
سیّدنا جبریلؑ کے لیے ’امین‘ کالفظ مالی امانت کے بجاےسراسر اس فرض رسالتؐ کی تکمیل پر بولا گیا، جسے اللہ تعالیٰ نے ان کو سونپا تھا۔ثابت ہوا کہ ’امین‘ کا مفہوم بہت جامع اور وسیع تر ہے۔
سید المرسلین نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو لقب ہی صادق وامین ہے۔ جب بیت اللہ کی تعمیر نو کے بعد حجر اسود کو رکھنے کا مرحلہ آیا تو بولے: الْأَمِينُ وَكَانُوا يُسَمُّونَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْأَمِينَ فَقَالُوا يَا مُحَمَّدُ قَدْ رَضِينَا بِكَ ’’یہ تو امین آئے ہیں اور جاہلیت میں آپ کو اَمین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، ہم آپ پر خوش ہیں‘‘۔(مستدرک حاکم، اوّل، ص ۶۲۸، مسنداحمد، ج۲۴، ص۲۶۲)
آپؐ نے سیدہ خدیجہؓ کے ساتھ نکاح سے پہلے جب کاروبار کیا، تو پوری امانت داری کا مظاہرہ کیا۔ ایک موقعے پر کسی نے آپؐ کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپؐ نے فرمایا:
أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً (بخاری، رقم ۴۳۵۱) تم مجھے کیوں امین نہیں سمجھتے، حالاںکہ اس اللّٰہ نے مجھے امین قرار دیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس آسمان والے کی خبریں میرے پاس صبح و شام آتی ہیں۔
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ایک حدیث کے آخر میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِله، وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ،(جامع ترمذی: رقم ۱۲۱۳، سنن نسائی: ۷/۲۹۴)اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللّٰہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور امانت کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہوں۔
توحید ورسالت کی دعوت پر مشرکین مکہ کی شدید ناراضی کے باوجود، کفار قریش آپؐ کے پاس ہی اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت مدینہ پر مجبور ہونا پڑا تو آپ نے سیّدنا علیؓ کو پیچھے چھوڑا تاکہ وہ آپؐ کی امانتیں اصل مالکوں کو ادا کرکے آئیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہی امانت تھا، جیسا کہ نجاشی کے سامنے پیغام نبوت کی وضاحت کرتے ہوئے سیّدنا جعفر طیارؓ کہتے ہیں:
حتى بَعَثَ الله إِلَيْنَا رَسُولاً مِنَّا نَعْرِفُ نَسَبَهُ وَصِدْقَهُ وَأَمَانَتَهُ وَعَفَافَهُ، وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الحديث وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ وَصِلَةِ الرَّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ ، حتیٰ کہ اللّٰہ نے ہم میں ایک رسول کو مبعوث فرمادیا، جس کے نسب وصداقت اور عفت وامانت کو ہم جانتے پہچانتے ہیں۔ اس نے ہمیں سچائی، امانتوں کی ادایگی، صلہ رحمی اور ہمسایے سے حُسن سلوک کا درس دیا۔(سیرۃ ابن ہشام)
اور قیصر روم ه ہرقل نے اپنے دربار میں ابو سفیان کو جواب دیتے ہوئے کہا:
وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ (بخاری، کتاب الجہاد: ۲۹۴۱)تمھیں وہ نماز ، صدقہ ، پاک بازی، ایفاے عہد اور اداےامانت کا حکم دیتے ہیں ۔پھر وہ کہنے لگا کہ ایک نبیؑ کی یہی صفت ہے۔
قرآن کریم میں سیّدنا ہودؑ کا یہ فرمان موجود ہے:
اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِيْنٌ O (اعراف ۷:۶۸)میں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچاتا ہوں اور تمھارا امین و خیرخواہ ہوں۔
یہاں ’امانت‘ سے مراد اللّٰہ کے پیغام اور رسالت کی کماحقہ تبلیغ ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اسی امانت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
سیّدنا نوح ؑ نے اپنی دعوت کو ان الفاظ میں پیش کیا :
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ نُوْحٌ اَلاَ تَتَّقُوْنَ O اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ O فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِO (الشعراء ۲۶: ۱۰۶-۱۰۸) جب ان کے بھائی نوح نے انھیں کہا:اللّٰہ کا تقویٰ کیوں اختیار نہیں کرتے۔ میں تمھاری طرف امانت دار پیغمبر ہوں۔ اللّٰہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔
یہی بات سیّدنا ہود ؑ اور سیّدنا موسٰی سمیت سب پیغمبروںؑ نے اپنی قوم سے کہی اور یہ جملہ سورۃ الشعراء میںپانچ انبیا کی زبانی آیا ہے: اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌۙ O(الشعراء ۲۶:۱۰۷، ۱۲۵، ۱۴۳، ۱۶۲، ۱۷۸) ’’میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں‘‘۔
اَنْ اَدُّوْٓا اِلَيَّ عِبَادَ اللّٰهِ ط اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌۙO (الدخان۴۴: ۱۸) اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو، میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔
سیّدنا علیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:
قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ نُؤَمِّرُ بَعْدَكَ؟ قَالَ: اِنْ تُؤَمِّرُوا أَبَا بَكْرٍ، تَجِدُوهُ أَمِينًا، زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا، رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عُمَرَ تَجِدُوهُ قَوِيًّا أَمِينًا، لَا يَخَافُ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَاِنْ تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا ، وَلَا أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ - تَجِدُوهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ (مسنداحمد: ۸۵۹) آپ کے بعد کس کو خلیفہ بنائیں تو آپ بولے: اگر ابوبکر کو بناؤ گے تو ان کو امین اور دنیا سے بےرغبت اور آخرت کا متلاشی پاؤگے۔ اگر عمر کو بناؤ گے تو انھیں امین او رطاقت ور پاؤگے جو اللّٰہ کے دین میں کسی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ اگر تم علی کو بناؤ گے اور مجھے نہیں لگتا کہ تم ایسا کرو تو انھیں رہنما اور ہدایت یافتہ پاؤگے جوتمھیں سیدھے راستے پر لے جائے گا۔
سیّدنا سلیمان ؑ کے سامنے جس دیوہیکل جِنّ نے ملکہ سبا کا تخت لانے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا تو اپنی اہلیت یوں بیان کی:
قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَـا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ ج وَ اِنِّيْ عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ اَمِيْنٌ(النمل۲۷:۳۹) ایک دیو ہیکل جن نے کہا : آپ کے دربار کو برخواست کرنے سے پہلے میں اسے لا سکتا ہوں۔ میں اس کام کی پوری قوت رکھتا ہوں اور امانت داربھی ہوں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اپنا عامل وگورنر بنا کر بھیجتے، ان کی شان کیا ہوتی؟ سیّدنا حذیفہؓ بن یمان سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐنے اہلِ نجران کو فرمایا:
لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ (بخاری: رقم ۷۲۵۴) میں تمھارے پاس ایک امانت دار آدمی جو حقیقی امانت دار ہو گا بھیجوں گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ منتظر رہے ( کہ کون اس صفت سے موصوف ہے؟) تو آپؐ نے حضرت ابو عبیدہؓ کو بھیجا ‘‘۔
آپؐ نے سیّدنا ابو عبید ہ بن جراحؓ کو اپنی امّت کا امین(أَمِيْنُ هٰذِهِ الْأُمَةِ)کا لقب دیا (بخاری: رقم ۴۳۸۲)۔اورسیّدنا عمرؓ نے کہا کہ اگر آج ابو عبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں خلافت کی ذمہ داری ان کے سپرد کرکے بری الذمہ ہوجاتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ اپنی حکومتوں ومناصب میں پوری طرح امانت دار تھے، چنانچہ جب سیّدنا عمرؓ کو مسجد نبویؐ میں شدید زخمی کردیا گیا تو سیّدنا ابن عباسؓ سب سے پہلے ان کے پاس پہنچے اور ان کو تسلی دی، جن میں سے ایک بات یہ بھی تھی: وولَّيتَ أمرَ المؤمِنِيْنَ فقويتَ ، وأدّيتَ الأمانةَ ، ’’آپ مومنوں کے حاکم بنے تو وہ طاقت ورہوگئے اور آپ نے امانت کو خوب ادا کیا۔ ‘‘
جس کا جواب سیّدنا عمر ؓنے یوں دیا:
وأمّا قولك فِي أمر المؤمنين، فو الله لوددتُ أنّ ذٰلِك كفافًا لا لِي ولا عَلَيّ… (مسنداحمد، اوّل:۴۷، بخاری،اوّل:۲۹۵)جہاں تک آپ کی مسلمانوں کی ذمہ داری پورا کرنے کی بات ہے تو میری تمنا ہے کہ اس میں برابر چھوٹ جاؤں، نہ میرا کوئی حق ہو اور نہ ان کا مجھ پر کوئی حق رہے۔
خلفاے راشدینؓ اپنی شوریٰ (اہل الحل والعقد) میں جن لوگوں کو شامل رکھتے، ان کا لازمی وصف کیا تھا؟
وَكَانَتِ الأَئِمَّةُ بَعْدَ النَّبِيِّ يَسْتَشِيرُونَ الأُمَنَاءَ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ فِي الأُمُورِ المُبَاحَةِ لِيَأْخُذُوا بِأَسْهَلِهَا…(بخاری: رقم ۷۲۵۴)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے، وہ اہل علم میں سے امانت داروں سے جائز کاموں میں مشورہ لیا کرتے تا کہ آسان ترحل کو اختیار کریں۔
مذکورہ بالا آیات واحادیث سے علم ہوا کہ عہدہ یا ذمہ داری کی شرعی صفات حسبِ ذیل ہیں:
٭ امین :جیسا کہ نبی کریمؐ، جبریلؑ ،سیّدنا موسٰی، حضرت یوسفؑ وجملہ انبیا وخلفا کے لیے ذکر ہوا۔
٭ صادق:جیساکہ کوہ ِصفا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صادق ہونے کا حوالہ دیا، اور سیّدنا اسماعیلؑ اور سیّدنا یوسفؑ کو قرآنِ مجید نے صادق قرار دیا۔ بہت سے انبیا صدیق کہلائے۔(أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ صحيح بخاری: رقم ۴۹۷۱ ، سورئہ یوسف: ۲۷، ۵۱ اور سورۂ مریم:۵۴)
٭ حفیظ:جیسا کہ سیّدنا یوسف ؑ کے بارے میں آیا۔
٭علم:جیسا کہ سیّدنا یوسفؑ اور بادشاہ طالوت کے بارے میں بیان ہوا۔
٭ طاقت ور(قوی):جیسا کہ سیّدنا جبریلؑ اورسیّدنا موسٰی کے بارے میں ذکر ہوا۔
٭ جسم:جیسا کہ بادشاہ طالوت کے بارے میں بیان ہوا۔
٭ مَکِین (وجاہت) :جیسا کہ سیّدنا یوسفؑ اور جبریل ؑامین کے بارے میں پتا چلا۔
دوسری اور تیسری صفت صادق اور حفیظ اَمین کے قریب المعنی ہیں،کیوںکہ امانت سے مراد زبان وبیان کی صداقت اور امانات کی حفاظت بھی ہے، جب کہ قوت کے تحت پانچویں اور چھٹی صفت جسم اور علم بھی آسکتی ہیں اور اَلیّت یا اَصلحیّت کا لفظ ان تمام صفات کا جامع ہے جس میں مناسبت کے لحاظ سے ہر وصف شامل ہے۔
’امین وامانت‘ کا شرعی وسیاسی مفہوم
مذکورہ بالا صفات میں اصل صفت ’امین‘ کی ہے اور یہ ہر قسم کی ذمہ داری ، عہدے اور منصب کا اصل الاصول ہے۔ قرآن کریم کی آيت الامرا میں ہے :
اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهْلِهَا وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ط اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًا بَصِيْرًاO (النساء۴:۵۸ ) اللّٰہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ جو لوگ امانتوں کے حق دار ہیں، انھیں یہ امانتیں ادا کردو ۔ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو ۔ اللّٰہ تعالیٰ یقیناً تمھیں اچھی نصیحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یعنی تم ان بُرائیوں سے بچے رہنا، جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے اپنے انحطاط کے زمانے میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے، جو نااہل ، کم ظرف، بداخلاق، بددیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بُرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ [یہاں پر] مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا، بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں، یعنی جن میں بارِ امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ انصاف کی روح سے خالی ہوگئے تھے۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نگل جاتے تھے۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے۔ انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں انھیں ذرا تامل نہ ہوتا تھا.... اللہ تعالیٰ ان کی اس بے انصافی پر تنبیہہ کرنے کے بعد ان مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی، بہرحال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو، عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل، ص ۳۶۲- ۳۶۳)
٭حکومت کے مناصب اللہ کی امانتیں ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں، وہ سب اللّٰہ کی امانتیں ہیں۔ ان امانتوں کے [بالخصوص] امین وہ حکام اور افسر ہیں، جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں۔ ان کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کر دیں، جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہرکام اور ہر عہدے کے لیے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔
٭کسی منصب پر غیر اہل کو بٹھانے والا ملعون ہے : اعلیٰ درجے کی اہلیت اور سب شرائط کا جامع کوئی فرد نہ ملے، تو موجود لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو، پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کیے دے دیا، اس پر اللّٰہ کی لعنت ہے۔ نہ اس کا فرض مقبول ہے اور نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے ۔(جمع الفوائد، ص ۵۲۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ (مسنداحمد: رقم ۱۲۳۸۳، حسن) ’’اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس کو امانت کا پاس نہیں۔ اور جو عہد کی پاس داری نہیں کرتا، اس کا کوئی دین نہیں‘‘۔
’امانت‘ کا ایک مفہوم تو عام معروف ہے: هي كلُ حَقٍّ لزمَكَ أداؤه وحفظه (فیض القدیر، اول، ص ۲۸۸) ’’یعنی ہرایسا حق کہ جس کو ادا کرنا اور اس کی حفاظت کرنا لازمی ہے‘‘۔لیکن قرآن کریم اس کو وسیع تر معانی میں استعمال کرتا ہے، جس میں دینی وشرعی امانت، منصبی امانت اور مالی امانت سب شامل ہیں۔ چنانچہ امانت کی شرعی تعریف یہ ہے :
كلُّ ما افترض على العباد فهو أمانة ، كصلاة وزكاة وصيام وأداء دين، وأوكدها الودائع وأوكد الودائع كتم الأسرار (الکلیات القاضی، ص ۱۷۶، ۱۸۶) ،ہر وہ شے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہے، وہ امانت ہے جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور قرض وغیرہ کی ادایگی۔ اور اس میں اہم ترین امانت میں رکھی گئی چیزوں کی ادایگی ہے اور سب سے بڑی امانت رازوں کی حفاظت ہے۔
مفسر قرآن امام قرطبی فرماتے ہیں: ’’امانت دین کے تمام امور کو شامل ہے۔ اور یہی جمہور مفسرین کا قول ہے۔ امانت وہ فرائض ہیں جن کا اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو محافظ بنایا ہے۔ تاہم، امانت کی جزئیات میں ایک سے زیادہ اقوال ہیں، کہا کہ اس سے مراد امانت شدہ اموال اور سامان وغیرہ ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ تمام فرائض دینیہ ہیں جن میں مالی امانت اہم ترین ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ روزے ، غسل جنابت اور شرم گاہ امانت ہے۔ کان، آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ اور ٹانگیں بھی (اللّٰہ کی طرف سے )امانت ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے کہ اس کا کوئی ایمان نہیں جس کو امانت کا پاس و لحاظ نہیں۔ اور کہا گیا کہ یہ وہی امانت ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان وزمین، پہاڑ اور جملہ مخلوقات کو سونپی کہ ان پر اپنی ربوبیت کے دلائل پیش کرکے انھیں اپنے اوپر ظاہر کرنے کا پابند کیا تو ان سب نے اپنی ذمہ داری قبول کرکے اس ربوبیت کو ظاہر کیا اور انسان نے اس کو چھپایا اور انکار کیا۔ ایسا کرنے والا انسان کافر اور منافق ہے‘‘۔(تفسیر القرطبی، ۱۴، ص۲۵۳-۲۵۸)
امین و امانت، اسلامی شریعت کی اہم اصطلاح ہے۔ اور اس کے مفاہیم کو واضح کرنے کے لیے اس کو تین بڑے عنوانا ت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلی قسم: امانتِ شرعیہ
عوام کے لیے ’امانت‘ سے مراد دراصل وہ سب سے بڑی امانت ہے، جو اللّٰہ نے بنی نوع انسانیت کو دی، اور وہ قرآن کریم کی اس آیت میں ہے :
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا (احزاب۳۳: ۷۲)، ہم نے اپنی امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
مولانا مودودی نے اس ضمن میں لکھا ہے: ’’اس جگہ ’امانت‘ سے مراد وہی ’خلافت‘ ہے جو قرآنِ مجید کی رُو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاعت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے، اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں، ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرزِعمل پر اجر کا اور غلط طرزِعمل پر سزا کا مستحق بنے۔ یہ اختیارات چوں کہ اللہ نے اسے دیے ہیں، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے، اس لیے قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو ’خلافت‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہاں انھی کے لیے ’امانت‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے…[اس سے] آدمی اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، چہارم، ص ۱۳۶-۱۳۷)
امین، یعنی ’امانت‘ سے مراد دراصل اللّٰہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ ہے، اور وہی شخص اصل امین ہے، جو سب سے بڑی امانت اور دنیا میں آنے کے مقصد سے آگاہ ہے۔ اس امانت سے مراد کلمہ طیبہ ہے، یعنی اللّٰہ کی اطاعت کو قبول کرنے کا حلف اٹھانا۔ مفسر قرآن حافظ نیشاپوری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’امانت سے مراد اطاعت اور مکلف ہونا ہے.... یہ مکلف بنانا صرف انسان کے لیے ہے۔ اوراس مکلف بنانے کو امانت اس لیے قرار دیا گیا، کہ جو اس میں کوتاہی کرے گا، اس پر سزا ہے۔ او رجو ادا کرے گا تو اس کے لیے عزت افزائی ہے۔ بعض اہل علم کا موقف ہے کہ مکلف بنانے سے مراد انسان کا کلمہ طیبہ کا اقرار کرلینا، یعنی اسلام قبول کرلینا ہے‘‘۔(تفسیر نیشاپوری، ۱۰، ص ۳۴-۳۵، حاشیہ ۲۲)
حافظ نیشاپوری کا موقف کہ اس امانت سے مراد کلمہ طیبہ ہے، پوری وضاحت کرتا ہے کہ اس امانت کا امین شخص وہی ہے جو کلمہ طیبہ کا معترف ہے، باقی لوگ امین نہیں ۔نوعِ انسانی کا ’حمل امانت‘ اجمالاًاخذ ِمیثاق سے قبل تھا، اور تفصیلاً مسلمانوں نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اس اقرارکی تصدیق کی۔ انسان کے لیے ظَلومًا جَهولًا اس لیے فرمایا گیا ہے کہ انسانوں میں بھی اس امانت کو اٹھانے کی اہلیت موجود ہے، جیسا کہ صحابہ کرامؓ کے ایمان کو قرآن نے مثالی ایمان اور اہل اسلام کے لیے سنتِ مطلوبہ قرار دیا ہے، لیکن ظلم وجہالت کی بنا پر انسان اس امانت کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔اسی بنا پر اس کے لیے روزِ قیامت جزا وسزا ہے۔
دوسری آیت میں قرآن کریم کو اس ’امانت‘ کا مصداق بتایا گیا کہ
لَوْاَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ (الحشر۵۹:۲۱)،اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللّٰہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں۔
کلمہ طیّبہ یا قرآن کریم ، دونوں کا مصداق ایک ہی ہے، یعنی اسلامی شریعت پر عمل کرنے کا اللّٰہ تعالیٰ سے وعدہ کرنا اور یہی اصل شرفِ انسانیت ہے، جس کی بنا پر اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں پر انسان کو فضیلت دے کردنیا میں بھیجا کہ انسانوں میں بعض لوگ اللّٰہ کی امانت کو قبول کرتے ہوئے ، ہر حالت میں اس کی بندگی کریں گے۔ اس امانت کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ’’اس سے مراد انسان کو اوامر ونواہی کا یوں مکلف بنانا ہےکہ اگر انسان ان کو پورا کرے تو اس کو ثواب ملے گا، ورنہ سزا کا مستحق ٹھیرے گا‘‘۔(تفسیر ابن اثیر، سوم، ص ۵۳۰)
الغرض امانت کی تفسیر شرعی اوامر ونواہی کی پابندی قبول کرنا ہے، اور یہی موقف حبر الامۃ سیّدنا ابن عباسؓ، حسن بصری، مجاہد، سعید بن جبیر، ضحا ک بن مزاحم، ابن زید اور اکثر مفسرین رحمہم اللّٰہ کا ہے۔(جاری)
(حوالہ :http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1136)