جہاد اور روح جہاد کتاب و سنت کی روشنی میں

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی


جہاد آج پوری دنیامیں بحث کا موضوع بناہواہے۔انگریزی اوردوسری مغربی زبانوں میں جہادپر موجودہ دورکی متشدد ''جہادی'' تحریکات کے ظہوراوران کی پرتشددکارروائیوں کے پس منظرمیں بہت کچھ لکھاجارہاہے۔اسلامی فقہ کا کلاسیکل تصورجہادبھی معرض بحث میں ہے ۔اسلام کے سیاسی نظام اوربین الاقوامی تعلقات کے پس منظرمیں بھی وہ اکثر و بیش تر ہدف تنقید بنتا ہے۔ وجہ ہمارے ناقص خیال میںیہ ہے کہ موجودہ فکراسلامی اس ضمن میں جدیدذہن کے شکوک وشبہات دورکرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔و ہ فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے۔ انسان کے دل کی آواز اور اس کی عقل 'وجدان'، جذبات اور فطرت سب کو اپیل کرتا ہے۔ آزادی فکر و شعور ہر انسان کو پسند ہے۔ کوئی انسان یہ نہیں چاہتاکہ کوئی چیز اس پر خارج سے تھوپ دی جائے۔ اس کی فطرت اس سے اِبا کرتی ہے۔اور اسلام نے اپنی ہر ہر تعلیم میں انسان کی اس فطرت کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ مذہبی آزادی کے سلسلہ میں اسلام کا اصول الاصول 'لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ'، ''دین میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے'' (البقرہ ۲: ۲۵۶)۔ اس لحاظ سے جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ملتی جو انسانی عقل وفطرت کے منافی ہو، مگر روایات حدیث، فقہی آرا اور فکر اسلامی کے وسیع ذخیرہ میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو اشکالات سے خالی نہیں جن کو عقل عام قبول نہیں کرتی۔ ہمارے علما وفقہا ودانش وران دوراز کار توجیہیں کرکے ان کو مطابق عقل کرنے کی اپنی سی کوششیں کرتے ہیں، مگر بات کچھ بنتی نظر نہیں آتی۔ مثال کے طور پر اس بات کا دعویٰ ہر ایک کرتا ہے کہ اسلام آزادی ضمیر وآزادی دین ومذہب کا علم بردار ہے۔ پھر جب جہاد کی تشریح کرنے پرآتے ہیں تو ایک گروہ کہتا ہے کہ جہاد کفر کے خاتمہ کے لیے ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر 'لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ' کا اصول کہاں گیا۔ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں کفر کا خاتمہ تو جہاد کا مقصد نہیں، البتہ شوکت کفر کا خاتمہ ضرور مقصود ہے، یعنی اہل کفر کو کفر پر زندہ رہنے کی تو اجازت ہے، مگر غالب پوزیشن میں نہیں، بلکہ مغلوب وماتحت بن کر۔ لیکن اشکال سے خالی جہاد کی یہ توجیہ بھی نہیں کہ جب آپ اصولاً اہل کفر کا اپنے کفر پر باقی رہنے کا حق تسلیم کرتے ہیں تو اپنے ملک وعلاقہ میں ان کو اپنے نظام پر چلنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے حق سے کس بنیاد پر محروم کردیں گے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں، جب کہ اس فکر کے علم بردار امن عالم اور بقاے باہم کی باتیں بھی خوب کرتے ہوں؟ تکثیریت اور تحمل برداشت اور Plural سماج کے قائل بھی ہوں؟


جہاد کے علاوہ ارتداد کی سزا پر بھی اسی طرح مختلف اشکالات وارد ہوتے ہیں جن کا اطمینان بخش عقل وروح کو مطمئن کرنے والا جواب روایتی اور موجودہ فکر اسلامی کے پاس نہیں۔ جو جوابات بھی روایتی علما، فقہ قدیم کے پرستار یا اسلام پسند حضرات دیتے ہیں، وہ روایات حدیث اور فقہی آرا کی اساس پر دیتے ہیں اور ان دونوں پر پھر اشکالات ہیں جن کی توجیہ تاویلات بار دہ و تکلف کرکے کرنی پڑتی ہے۔ اس سلسلہ میں جن لوگوں نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کاکتابچہ ''مرتد کی سزا'' پڑھا ہوگا، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہیں گے کہ مصنف بڑے زور لگا لگاکر جو عقلی جواب ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے ہیں، وہ خود نئے سوال کھڑے کردیتے ہیں( اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں) ۔اسی طرح ان کا نظریہ مصلحانہ جنگ ہے۔ہمارے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ایک بنیادی وسنگین غلطی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اپنے دین کے سلسلہ میں ہم قرآن پاک کو اصل مصدر وسورس نہیں بناتے۔ اور بجاے اس کے کہ ہر چیز میں اسی کو اپنے لیے حکم بنائیں، کہیں اس پر روایات کو حاکم بنا ڈالتے ہیں اور کہیں فقہی آرا ومذاہب کواس پر مسلط کر ڈالتے ہیں۔ ہم اپنے ہر سوال کا جواب اگر قرآن سے ڈھونڈیں تو ضرور کافی وشافی جواب ملے گا اور ہر اشکال ختم ہوجائے گا۔


حالیہ دنوں میں جہاد اور اس کے متعلقات پر کئی اچھی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ عربی میں ''فقہ الجہاد'' از علامہ یوسف القرضاوی، اردو میں مولانا محمد عمار خان ناصراور مولانا یحییٰ نعمانی کی کتابیں۔ اور بالکل تازہ بہ تازہ استاذ محترم مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کے گہربار قلم سے ''جہاد اور روح جہاد'' آئی ہے۔ ۳۸۴ صفحات پر مشتمل یہ کتاب جہاد اور اس کے تمام متعلقات سے جامع انداز میں بحث کرتی ہے۔ جہاد کیاہے، اس کی روح کیا ہے؟ اس کے مقاصد، اس کے جواز اور اس کے ثمرات ونتائج کیا ہیں، وہ کب فرض ہوتا ہے، اس کی شرائط وعناصرکیا ہیں وغیرہ تمام مباحث کا جواب انھوں نے دیا ہے۔جہادکے عناصرو شرائط مصنف کے نزدیک پانچ ہیں۔بلندایمانی کردار،محکم اجتماعیت، صالح و compitent قیادت، مستقبل کی منصوبہ بندی اورآزادسلطنت۔ اس کتاب کی اصل خوبی جو اسے دوسری تمام کتابوں سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ مصنف نے بحث کی اصل صرف ا ور صرف کتاب اللہ کو بنایا ہے۔ جتنے اعتراضات، شبہات وسوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کا شافی وکافی جواب خود قرآن کی روشنی میں دیا ہے۔ کتاب کے ایک باب جہادعصرحاضرمیں انھوں نے ''جہادی تحریکوں''اوران کے حامیوں کے دلائل کا جائزہ لیاہے اوران کے مغالطوں کو آشکارا کیا ہے۔


استاذمحترم مولاناعنایت اللہ سبحانی فراہی مکتب فکرکے نہایت ممتازعالم اورقرآن کریم سے گہراشغف رکھتے ہیں۔ قرآن پاک پر غوروفکرہی ان کا اوڑھنابچھوناہے ۔وہ حدیث و فقہ، آراء سلف اور معاصر علماے کرام کی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہیں، مگر قرآن کی روشنی میں۔ ان کے ہاں ردوقبول کا اصل معیار صرف اور صرف یہی کتاب عزیز ہے۔ لہٰذا روایاتِ حدیث ، ائمۂ فقہ کے مذاہب اور آراء سلف وغیرہ ان کی راہ میں روڑے نہیں بنتے۔ وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے اسیر نہیں، لہٰذا قرآن کی روشنی میں وہ ساری وادیاں بہ آسانی قطع کرلیتے ہیں۔


مصنف جہاد اقدام اور جہاد دفاع دونوں کے قائل ہیں، مگر وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ جہاد نہ کفر کی وجہ سے ہوتا ہے، نہ شوکت کفر کو توڑنے کے لیے، بلکہ صرف اور صرف جارحیت کے مرتکب اور ظلم وجبر کرنے والے کافروں سے ہوتا ہے۔ مولانا نے تفصیل سے عام علما وفقہا کے موقف اور مولانا مودودی (بغیرنام لیے )دونوں کے موقف کا جائزہ لیاہے اور دونوں کو دلائل کی بنیاد پر رد کردیا ہے (ملاحظہ ہو جہاد اور روح جہاد صفحہ ۴۵تا ۸۵)۔ وہ فرماتے ہیں: ''مسلح جہاد کا مقصد ہے اس زمین سے ظلم واستبداد کو ختم کرنا اس دھرتی پہ بسنے والے انسان کی آزادی وعزت کی حفاظت کرنا'' (صفحہ ۸۸وہی کتاب)۔مصنف کے مطابق امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ جمہورعلماکا موقف بھی یہی ہے، یعنی ان کے دورتک علما کی بڑی تعداداسی کی قائل تھی ۔


اس سلسلہ میں ایک تیسرا موقف مولانا امین احسن اصلاحی اور ممتازعالم دین اورمفکرجناب جاوید احمد غامدی کا ہے کہ اتمام حجت اگر کسی گروہ پر کردی جائے تو پھر اس گروہ کو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی تلواروں سے سزا دلواتے ہیں۔ اس موقف کی بنیاد سورۂ براء ت کی یہ آیت ہے: 'قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ'، ''ان سے لڑو اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کوسز ادلوائے گا اور انھیں ذلیل وخوار کرے گااور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گا'' (۹: ۱۴)۔ غامدی صاحب کی تشریح میں یہ نبی کے براہ راست مخاطبین کا حکم ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس حکم کا اطلاق نہ ہوگا، کیونکہ اب ویسے اتمام حجت کی کوئی شکل نہیں رہ گئی، جیسا نبی کے ذریعے سے ہوا کرتا ہے۔ مولانا سبحانی کہتے ہیں کہ قرآن میں اتمام حجت کے بعد بھی کوئی سزا بیان نہیں کی گئی اور جو سزا بیان کی گئی، وہ آخرت سے متعلق ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ جہاد اصلاً جبر و ظلم کی قوتوں کے خلاف ہوتا ہے جو اسلامی دعوت پر حملہ آورہوتی ہیں،عام لوگوں کو اپنا غلام بنالیتی ہیں اور جو اللہ کے دین اور ان کے درمیان رکاوٹ بن جاتی ہیں( دیکھیے اسی کتاب کا صفحہ۹۵)۔ غامدی صاحب نے اپنے موقف کی جووضاحت'' میزان ''میں کی ہے، اُس سے سبحانی صاحب نے تعرض نہیں کیاہے۔


موجودہ دورکی مسلح تحریکات حضرت ابوبصیر اور ابوجندل کے واقعات سے دلیل پکڑتی ہیں کہ کہیں بھی اگر ۵، ۷ ہم خیال لوگوں کا ایک جتھاجمع ہوجائے توان کے لیے جہادی کارروائیاں کرناجائز ہوجائے گا۔وہ غیرمسلم عوام کوبھی حربی فرض کرکے ان کومباح الدم سمجھتے ہیں۔ہندوستان میں ایک بزرگ مولاناعبدالعلیم اصلاحی اسی نقطۂ نظرکی نمایندگی کرتے ہیں اوراس کی حمایت میں کئی کتابچے لکھے ہیں۔جلدبازاورجوشیلی طبیعتوں کا ایک گروپ ان سے متاثرہورہاہے ۔مصنف مدظلہ نے اس خطرناک رجحان کا بھی بروقت نوٹس لیاہے اوران کے استدلال کی بنیادی خامی کی وضاحت کی ہے (ملاحظہ ہو: ۳۱۸ تا ۳۳۴)۔


جزیے کے سلسلے میں مولانا کی راے یہ ہے کہ اس کو فکر اسلامی میں غلط طور پر لیا گیا ہے۔ اس کا تعلق عوام سے ہے ہی نہیں وہ تو ایک ٹیکس ہے اور مغلوب حکومت سے لیا جاتا ہے نہ کہ عام لوگوں سے۔ مولانا کے جنگی قیدیوں کے نزدیک غلامی کا بھی کوئی جواز نہیں ہے، اس لیے قرآن 'فَاِِمَّا مَنًّام بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً' (محمد ۴۷: ۴) دو ہی حکم جنگی قیدیوں کے بیان کرتا ہے (دیکھیے: ۲۷۶) سرسید کا موقف بھی یہی تھااوراس کے لیے انھوں نے ایک پورارسالہ ابطالِ غلامی پر لکھاتھا۔


کتاب میں مولانا سبحانی نے موضوع سے متعلق بہت سے فقہا وعلما، مفسرین اور موجودہ مفکرین کے خیالات پر تنقید فرمائی ہے۔ ان کے بعض اقوال تو نقل کردیے ہیں، مگر نہ ان کا نام لیا ہے، نہ ان کی کسی تحریر کا حوالہ دیا ہے۔ شاید انھوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ خاک سار تبصرہ نگار کی راے میں ان کا نام لینا اور تحریروں کا حوالہ دیا جانا بہت ضروری تھا، اس لیے کہ موجودہ دور میں عموماً جہاد کے بارے میں جتنے غلط رجحانات وتشریحات رائج ہیں اورجو کنفیوژن پھیلا ہوا ہے، وہ انھی حضرات کی فکر وتحریر سے پھیلا ہے، ا س لیے اس مسئلہ میں کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہیے۔


صلح حدیبیہ: صلح حدیبیہ اسلام کی تاریخ میں ایک Turning Pointہے۔ ا س میں مسلمان دفاع کے بجاے اقدام کی پوزیشن میں آگئے تھے اور دعوتی سرگرمیاں بھی تیزی سے پھیلیں۔ مولانا وحیدالدین خاں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے، مگر وہ اس کا صرف ایک پہلو ذکر کرتے ہیں صلح والا،اور اس کے دوسرے مضمرات سے صرف نظر کرجاتے ہیں۔ مولانا عنایت اللہ سبحانی نے اس پر مولانا خان صاحب کابغیر نام لیے دلائل کے ساتھ تعاقب کیا ہے اور صلح حدیبیہ کی صحیح نوعیت کو واضح کیا ہے (ملاحظہ ہو صفحہ ۱۸۵)۔


سیر ت نبوی میں بنو قریظہ کا واقعہ بہت مشہورہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے تمام جنگ کرسکنے والے مردوں کو قتل اور عورتوں وبچوں کو غلام بنالیا تھا ۔ مستشرقین اور معاندین کو بڑا مسالا اپنے معاندانہ پروپیگنڈے کے لیے اس واقعہ سے ملتا ہے۔ سبحانی صاحب نے اس واقعہ کی تحقیق کی ہے ، جن سندوں سے یہ مروی ہوا ہے، ان کے راویوں کا جائزہ لیا اور درایتاً بھی اس پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کو کلیتاً مسترد کردیا ہے (ملاحظہ ہوصفحہ ۲۷)۔ موجودہ دور میں حادثہ قریظہ پر اور تحقیقات منظرعام پر آئی ہیں۔ ایک اور مصنف نے بھی اچھی دادتحقیق دی ہے۔ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتاہے ۔ اپنی دوسری تمام تحریروں وتقریروں کی طرح مؤ لف گرامی نے صرف قرآن کریم اور صحیح احادیث کو اپنی بحث کی اصل بنیاد بنایا اور یہی اس کتاب کی اصل خوبی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ''جہاد و قتال کے سلسلہ میں علماء کے ذوقی اجتہادات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے، چاہے وہ آج کے علماء ہوں یا پچھلے ادوار کے۔ ضروری ہے اس سلسلہ میں براہ راست قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ علماء وفقہاء کی بس وہی باتیں قابل قبول ہوتی ہیں جو قرآن وسنت کے محکم دلائل پر مبنی ہوں۔ رہیں وہ راے جو ان کے محض ذوق وفہم کی پیداوار ہوں تو اس طرح کے اہم معاملات میں وہ حجت نہیں بن سکتیں'' (جہاد اور روح جہاد صفحہ ۳۱۸)۔


مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کا مسئلہ: ظالم مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کے مسئلہ میں اہل علم کی اکثریت کا خیال ہے کہ جب تک ان کی طرف سے کفر بواح کا ظہور نہ ہو، خروج جائز نہیں۔ امام نووی اس کو اجماعی راے بتاتے ہیں۔ تاہم امام ابوحنیفہ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اگر خروج کرنے والوں کے پاس مناسب حکمت عملی، کافی قوت اور متبادل نظم موجود ہو اور خروج کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں تو خروج کردینا چاہیے۔ یہی راے مصنف کتاب نے بھی اختیار کی ہے۔ اور سلسلہ میں وارد کئی روایتوں پر سنداً اور درایتاً کلام بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو اجماعی راے اس مسئلہ میں بیان کی جاتی ہے، وہ کوئی حتمی مسئلہ نہیں، بلکہ وقتی علاج تھا کہ اس کو دائمی حکم ماننے کی صورت میں کبھی اصلاح احوال کی گنجایش نکلے گی ہی نہیں۔ البتہ یہاںیہ سوال بجاطورپر اٹھتاہے کہ تاریخ اسلام کا سبق کیاہے ۔بنی امیہ کا تختہ پلٹ کرنے کے لیے ہاشمیوں اور عباسیوں نے خفیہ تحریک چلائی۔ جب وہ کامیاب ہوگئی توآغازہی میں بنوامیہ کوچن چن کر قتل کردیاگیا۔ایک اموی شہزادے نے بھاگ کرجان بچائی اوراندلس جاکرایک نئی خلافت کی داغ بیل ڈال دی۔ عباسی تحریک علویوں کے حق کے نام پر چلائی گئی تھی، مگرجب عباسی خلفانے بھی علویوں کوخفیہ طورپر ختم کرناشروع کر دیا تو ردعمل میں انھوں نے افریقہ میں جاکرفاطمی خلافت قائم کرلی ۔یوں ایک خلافت تین معاصراورمعاندقوتوں میں بکھر کررہ گئی ۔موجودہ دورمیں قائم شدہ حکومتوں کے خلاف خروج کے نتائج مصر، سیریا، عراق اورلیبیامیں سب کے سامنے ہیں!


مصنف کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں کرنے کا کام: موجودہ دورمیں اصل کام یہ نہیں کہ یوں ہی تلوار ہاتھ میں لے کر معصوموں کا قتل، خودکش بمباری وغیرہ جیسے غیراسلامی کام کیے جائیں۔ اصلاح احوال کے سلسلہ میں پہلا کام ہے: فرزندان اسلام کی تعلیم وتربیت کا زبردست اہتمام۔ دوسرا یہ ہے کہ امیج بلڈنگ ہو، اسلام کی ایک دلکش تصویر لوگوں کے سامنے لائیں۔ غلط فہمیاں دور کریں۔ اور چونکہ آج طاقت کی علامت یا طاقت کا پیمانہ علم، سائنس اور جدید تکنالوجی ہے بغیر ان کے کوئی جنگ نہیں لڑ ی جاسکتی نہ کوئی صالح انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے، اس لیے علمی دوڑ میں بھرپور حصہ لیں اور علم وسائنس کے میدان میں دوسری قوموں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ علم وسائنس مسلم امت کی میراث ہے۔ یہ ہمارے بزرگ اسلاف کی ایجاد ہے، یہ علم وسائنس کتابِ الٰہی کا فیضان ہے (خلاصہ)۔


کتاب میں سیرت کے کئی جزوی واقعات، مثلاً کعب بن اشرف کا قتل، عقبہ بن ابی معیط کا قتل، فتح مکہ کے موقع پر کئی لوگوں کے خون کو مباح کردینے کا قصہ وغیرہ بھی زیربحث آئے ہیں۔ مولانا کی تحقیق عام سیرت نگاروں سے الگ ہے۔ اس کے علاوہ جہاد وقتال سے متعلقہ متعدد آیات کریمہ کی صحیح تاویل اور نئی تفسیر سامنے آتی ہے۔ انھوں نے ضمناً یہ بات بھی واضح کی ہے کہ امت مسلمہ کوکس قسم کے ہتھیاربنانے چاہییں اورکن ہتھیاروں کی مخالفت کرنی چاہیے۔ کئی مباحث ایسے ہیں جن پر مزید تحقیق کی گنجایش معلوم ہوتی ہے۔ کل ملاکریہ کتاب اس اہم موضوع پر نہایت علمی اور ہر خاص و عام کے لیے قابل مطالعہ ہے۔ مصنف کا اسلوب خالص علمی اور خشک تحقیقی نہیں، بلکہ اس میں ادبی و تذکیری پہلو بہت ابھرا ہوا ہے اور انھوں نے لکھا بھی تفصیل واطناب کے ساتھ ہے۔ مگر غیر ضروری جزئیات اور تفصیلات سے دامن بچایا ہے۔مصنف گرامی بنیادی طورپر قرآن کریم کے ماہر اورمفسر ہیں۔وہ انسانوں سے محبت رکھتے ہیں۔ان کی تحریریں دعوتی ،فکری اوراصلاحی ہوتی ہیں اورقاری کوجذبۂ عمل پر ابھارتی ہیں،اورعقل کومطمئن کرنے کے ساتھ ہی دل کے تاروں کوچھیڑتی اورانسانی ضمیرکوآوازدیتی ہیں۔کتاب میں تفسیر، حدیث، فقہ وسیرت و تاریخ کے بہت سے واقعات ومباحث بھی مختصراً زیر بحث آگئے ہیں۔ امید ہے کہ جہاد اور اس کے متعلقات پر اس کتاب سے نیاڈ سکورس شروع ہو گا، کیونکہ اس میں پہلی بار فقہا و تحریکات اسلامیہ کے روایتی موقف جہاد پر تنقید کی گئی ہے۔ کتاب اہل فکر اور اہل تحقیق کو مزید غور وفکر اور بحث وتحقیق کی دعوت دیتی ہے۔ کوئی بھی تحقیق حرف آخر نہیں ہوتی۔ جومباحث مصنف گرامی نے اٹھائے ہیں اوران کے دلائل دیے ہیں، ضروری ہے کہ اہل علم ان پر اظہار خیال کریں۔ راقم خاک سارکے نزدیک قرآن پاک کے طالبین اس کے اصل مخاطب ہیں اوران کوآگے بڑھ کراس کی طرف توجہ کرنی چاہیے اوراس بحث کوآگے بڑھاناچاہیے۔کتاب کا عربی وانگریزی ترجمہ بھی آناچاہیے۔مناسب گٹ اپ میں ہدایت پبلشرز ایف ۱۵۵فلیٹ ۲۰۴ہدایت اپارٹمنٹ شاہین باغ جامعہ نگر نئی دہلی نے یہ وقیع کتاب شائع کی ہے۔