اسلامی تحریکوں کا تنوع ، جماعت اسلامی، ہند اور اخوان المسلمین مصر کا ایک تقابلی مطالعہ

اسلامی تحریکوں کا تنوع ، جماعت اسلامی، ہند  اور اخوان المسلمین مصر  کا ایک  تقابلی مطالعہ

10 دسمبر 2017، اتوار، صبح 10 بجے، ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے کانفرنس ہال میں ’اسلامی تحریکوں کا تنوع ‘ کے موضوع پر ایک توسیعی خطبہ پیش کیا گیا، جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی (سابق صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز )نے کی۔ فاضل خطیب پروفیسر ڈاکٹر عبید اللہ فہد (ڈائرکٹر شعبہ اسلامک اسٹڈیز اے۔ایم ۔ یو ) نے اپنے پر مغز خطبہ میں جماعت اسلامی ہند اور اخوان المسلمون مصرکا تقابلی مطالعہ پیش کیا،نیز سنیٹرل ایشیا میں کمالی الحاد کے خلاف سعید نورسی، نجیب الدین اربکان، عبد اللہ گل اور رجب طیب اردغان کی مصلحانہ کوششوں کو خراجِ عیقدت پیش کیا۔ انہوں نے بہ طور خاص مذکورہ دونوں تحریکات کے مابین مما ثلتوں اور تفاوتوں کو اجاگر کیا ۔

انھوں نے فرمایاکہ دونوں تحریکوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ ٔحیات کے طور پر پیش کیا اور کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ۔ دونوں تحریکوں کے لٹریچر میں قرآن و سنت کو بنیادی مراجع کی حیثیت دی گئی ہے ۔ فاضل خطیب نے مزید فرمایا کہ دونوں تحریکات کا محور جدید تعلیم یافتہ طبقہ تھا،البتہ اخوان المسلمون نے افرادسازی پر زور دیا، جب کہ جماعت اسلامی کا زور قلم کاروں اور مصنفین کی تیاری پر رہا۔ انھوں نے دونوں تحریکوں کے مابین تفاوت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی کتابوں میں دماغ کو اپیل کرنے والا اسلوب اختیار کیا گیا، جب کہ اخوان المسلمین کے لٹریچر میں دل پر اثر انداز ہونے والا اسلوب پایا جاتا ہے۔چنانچہ حسن البنا ء اور دیگر اخوانی رہ نماؤں کی کتابوں میں قرآن وحدیث اور صحابہ کی سیرت کے حوالے زیادہ ملتے ہیں ، جب کہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے زیادہ تر عقلی استدلال سے کام لیا ۔ فاضل خطیب نے بتایا کہ جماعت اسلامی نے شروع ہی سے تصوف کی مخالفت کی اور اپنے مخالف علماء کو جوڑنے کی کما حقہ کوشش نہیں کی ،جب کہ اخوان نے اہل تصوف کو ساتھ لے کر کام کیا اور علماء ازہر پر بھی کافی محنت کی، جس کے سبب اخوان کو عوام الناس میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بر عکس جماعت اسلامی کو عوام الناس میں مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی ۔ آپ نے وسط ایشیا میں تحریکات اسلامی کے حوالے سے بتا یا کہ یہاں کی ساری اسلامی تحریکیں تصوف سے نکلی تھیں۔ مثال کے طور پر ترکی کی مثال پیش کرتے ہوئے انھوں نے واضح کیا کہ سعید نورسی اور نجم الدین اربکان، جن کی سیاسی تحریکوں نے بڑی خاموشی سے اسلام کے احیاء کا فریضہ انجام دیا، انہوں نے اپنے یہاں تمام مسالک کے علماء اور صوفیہ کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا ۔

خطبہ کے بعد متعدد سامعین نے سوالات کیے ۔ خصوصاً ڈاکٹر ضیاء الدین ملک ، مولانا محمد شعیب ندوی ،جناب مجتبی فاروق، مولاناعبداللہ شمیم ندوی اور مولانا محمد جرجیس کریمی نے سوالات کئیے،جن کے فاضل خطیب نے جوابات دیے ۔ آخر میں میں صدر مجلس ماہرِ قرآنیات پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے صدارتی خطاب میں فرمایاکہ اسلامی تحریکات کی ذمہ داری ہے کہ وحدتِ امت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی شناخت کریں اور ان سے عوام کو آگاہ کریں ۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ کوئی بھی تحریک خود کو کسی خاص طبقہ تک محدود کرکے مکمل کام یاب نہیں ہوسکتی ۔اس لیے معاشرے کے تمام طبقات کو تحریک سے جوڑنے کی جد وجہد کرنی چاہیے ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ بعض اسلامی تحریکات نے اسلام کو ٹکڑوں میں پیش کیا ۔ادھر کچھ دنوں سے باطل طاقتیں اسلام کو وہابی اسلام، لبرل اسلام اور معتدل اسلام میں تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ ا س لیے عوام کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اسلام ایک ہی ہے جس کو لے کر حضواکرم ﷺ تشریف لائے تھے ۔ انھوںنے فاضل خطیب کے خطبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا مودودی کے بعد تحریک اسلامی میں کئی جید علماء پیدا ہوئے، جنہوں نے بہترین اسلوب میں اسلام کی ترجمانی کی ۔

آخر میں ناظم جلسہ مولانا محمد جرجیس کریمی نے فاضل خطیب ، صدر مجلس اور شرکاء کاشکریہ اداکیا ۔ پروگرام کا آغازادارہ تحقیق و تصنیف کے اسکالر محمد شعیب ندوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ اس پروگرام میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ قرب و جوار کے اہلِ علم نے شرکت کی ۔
(رپورٹ :عبداللہ شمیم ندوی)