زینتوں سے پرہیز

زینتوں سے پرہیز 



تحقیق و تخریج: محمد عامر گزدر 
—۱—
عَنْ عَاءِشَۃَ، قَالَتْ:۱ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ، قَالَتْ: فَعَلَّقْتُ عَلٰی بَابِيْ قِرَامًا فِیْہِ الْخَیْلُ أُولَاتُ الْأَجْنِحَۃِ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَآہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ''انْزِعِیْہِ''، [فَنَزَعْتُہُ]۲.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے اپنے دروازے پر ایک سرخ پردہ لٹکا رکھا تھاجس میں پروں والے گھوڑوں کی تصویریں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ نے جب اُسے دیکھا تو فرمایا: اِس کو اتاردو، چنانچہ میں نے اُسے اتاردیا۔۱
________
۱۔آگے کی روایتوں سے واضح ہوجائے گا کہ اِس کی وجہ تصویر کی حرمت نہیں تھی، بلکہ زینت کی چیزوں سے آپ کا پرہیز تھا۔آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ آکر آپ نے اپنی زندگی میں آخری درجے میں زینتوں سے پرہیز اختیار کرلیا تھا۔ یہ بھی اِس لیے نہیں کہ آپ جو دین لے کر آئے تھے، وہ اپنے ماننے والوں سے اِس طرح کی زندگی کا تقاضا کرتا ہے یا کم سے کم اِسی کو محمود قرار دیتا ہے، بلکہ اِس لیے کہ نبوت کے ساتھ اب آپ ریاست مدینہ کے حکمران کی حیثیت سے معاملات کے ذمہ دار بھی ہوگئے تھے اور اِس ریاست کے شہریوں میں ایک بڑی تعداد اُن مہاجرین کی تھی جو اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ منتقل ہورہے تھے۔ اُن میں سے بعض کی آپ نے انصار کے ساتھ مواخات قائم کردی، لیکن ایک بڑی تعداد اِس کے باوجود باقی رہی جو مسجد کے ایک چبوترے پر رہنے کے لیے مجبور تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اصحاب صفہ کہا جاتا ہے۔ قرآن نے 'لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ' (البقرہ۲: ۲۷۳) کے الفاظ میں اِنھی کے لیے لوگوں کو انفاق کی ترغیب دی ہے۔ مہاجرین کی آمد کا یہ سلسلہ فتح مکہ تک جاری رہا ۔ چنانچہ اِس سارے عرصے میں آپ نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے زینتوں سے پرہیز کی یہی زندگی اختیار کیے رکھی اور اِس طرح مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ اسوہ قیامت تک کے لیے قائم کردیا کہ رفاہیت کے زمانے میں وہ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی طرح،بے شک 'صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِیْرَ' تعمیر کریں اور اُن میں بادشاہوں کی زندگی جئیں، مگر جب اُن قوموں کے ذمہ دار بنادیے جائیں جن کے غربا اپنے بچوں کی تعلیم ، علاج معالجے اور دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے ہوں تو اُن کی زندگی اِسی طرح فقیرانہ ہونی چاہیے۔ خلافت اور حکومت کے ذمہ داروں کے لیے یہی منہاج نبوت ہے اور خلفاے راشدین کی حکومت کو اِسی بنا پر 'خلافۃ علی منہاج النبوۃ' کہا جاتا ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۲۵۹۲۱ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے باقی طرق اسلوب کے معمولی فرق کے ساتھ جن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند اسحاق، رقم ۹۰۳۔ مسند احمد، رقم ۲۵۷۴۴۔ صحیح بخاری، رقم ۵۹۵۵۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۵۲۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۹۶۹۶۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۴۰۳، ۴۶۴۶۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۵۹۔
۲۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷۔
—۲—
عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ:۱ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَفِي الْبَیْتِ سِتْرٌ مَنْصُوْبٌ عَلَیْہِ تَصَاوِیْرُ، فَعَرَفْتُ الْغَضَبَ فِيْ وَجْہِہِ، [فَقُلْتُ: أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ غَضَبِ اللّٰہِ وَغَضَبِ رَسُوْلِہِ۲]، قَالَتْ: فَہَتَکْتُہُ، فَأَخَذْتُہُ، فَجَعَلْتُہُ مِرْفَقَتَیْنِ، فَکَانَ یَرْتَفِقُ بِہِمَا فِيْ بَیْتِہِ.۳
عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو گھر میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا جس پر تصویریں بنی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ کے چہرے پر غصے کے آثار ہیں ۔ چنانچہ فوراً عرض کیا: میں اللہ کے غضب اور اللہ کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ پھر میں نے اُس کو پھاڑا اور اُس کو لے کر اُس کے دو تکیے بنا لیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اُن سے ٹیک لگا کر بیٹھا کرتے تھے۔۱
________
۱۔ یعنی اب آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔یہ اِس لیے کہ اب وہ کپڑا زینت کے بجاے ضرورت کی ایک چیز کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاً مسند ابن جعد، رقم ۲۹۲۰ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی بھی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۸۵۔ مسند اسحاق، رقم ۹۷۶۔ مسند احمد، رقم ۲۴۸۴۸، ۲۴۸۴۹، ۲۵۷۸۹، ۲۶۱۰۳۔صحیح بخاری، رقم ۲۴۷۹۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۶۵۳۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۵۵۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۹۱۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۶۰۔السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۷۴،۱۴۵۷۵۔
۲۔مسند اسحاق، رقم ۹۷۶۔
۳۔صحیح بخاری، رقم ۲۴۷۹میں یہاں یہ الفاظ آئے ہیں: 'فَاتَّخَذَتْ مِنْہُ نُمْرُقَتَیْنِ، فَکَانَتَا فِي البَیْتِ یَجْلِسُ عَلَیْہِمَا' ''پھر میں نے اُس سے دو چھوٹے تکیے بنا لیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اُن پر ٹیک لگا کر بیٹھا کرتے تھے''۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۸۵ میں ہے: 'فَجَعَلْتُ مِنْہُ مَسْنَدَتَیْنِ فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَّکِئًا عَلٰی إِحْدَاہُمَا'، جب کہ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷ میں یہ الفاظ ہیں: 'فَاتَّخَذْتُ مِنْہُ وِسَادَتَیْنِ'۔
—۳—
عَنْ عَاءِشَۃَ، قَالَتْ:۱ کَانَتْ قُبَالَۃَ بَابِيْ سِتْرٌ فِیْہِ تَمَاثِیْلُ طَیْرٍ، [فَکَانَ الدَّاخِلُ إِذَا دَخَلَ اسْتَقْبَلَہُ۲]، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ''یَا عَاءِشَۃُ، حَوِّلِیْہِ؛ فَإِنِّيْ إِذَا رَأَیْتُہُ ذَکَرْتُ الدُّنْیَا۳''، قَالَتْ: وَکَانَتْ لَنَا قَطِیْفَۃٌ [عَلَمُہَا مِنْ حَرِیْرٍ، فَکُنَّا نَلْبَسُہَا۴]، نَرٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یَأْمُرْنَا بِقَطْعِہِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے دروازے کے سامنے ایک پردہ لٹکا ہوا تھا جس میں پرندوں کی تصویریں بنی تھیں۔آنے والا گھر میں داخل ہوتا تو یہ اُس کے رو برو ہوتی تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے دیکھا تو فرمایا: عائشہ، یہ پردہ ہٹادو۔ اِس لیے کہ میں جب اِس کو دیکھتا ہوں تو مجھے دنیا یاد آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک چادر تھی جس پر ریشم کے دھاگے سے نقوش بنے تھے اورہم اُس کو پہنتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِسی حالت میں ملاقات بھی ہوتی تھی، مگر آپ نے وہ نقش اُس کے اوپر سے کاٹ دینے کے لیے نہیں کہا۔ ۱
________
۱۔ یعنی اصل مسئلہ نقوش اور تصویروں کا نہیں، بلکہ محل استعمال کا تھا۔چنانچہ اِس طرح کے منقش کپڑے جب سیدہ نے پہننے کے لیے استعمال کیے، جس کو ایک درجے میں خواتین کی ضرورت بھی کہا جا سکتا ہے تو آپ نے اِس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔پھر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ زینتوں سے پرہیز کا یہ معاملہ کوئی قانونی چیز نہیں تھی ۔چنانچہ اِس میں کوئی مانع نہیں تھاکہ موقع ومحل کے لحاظ سے آپ کسی چیز کو ہٹانے پر اصرار کریں اور کسی چیز کو گوارا کرلیں۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند اسحاق، رقم ۱۳۲۱ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ تعبیر کے کچھ اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم ۲۴۲۱۸، ۲۴۲۶۷، ۲۶۰۴۳۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷۔ سنن ترمذی، رقم ۲۴۶۸۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۵۳۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۸۹، ۹۶۹۰۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۴۶۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۷۲۔
۲۔مسند احمد، رقم ۲۴۲۱۸۔
۳۔بعض طرق، مثلاً سنن ترمذی، رقم ۲۴۶۸ میں یہاں 'انْزَعِیْہِ؛ فَإِنَّہُ یُذَکِّرُنِي الدُّنْیَا' ''یہ پردہ اتاردو، اِس لیے کہ یہ مجھے دنیا یاد دلاتاہے'' کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جب کہ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۴۶۸میں یہ الفاظ آئے ہیں: 'أَلْقُوْا ہٰذَا؛ فَإِنَّہُ یُذَکِّرُنِي الدُّنْیَا'۔
۴۔مسند احمد، رقم ۲۴۲۱۸۔
—۴—
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ،۱ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَی فَاطِمَۃَ فَوَجَدَ عَلٰی بَابِہَا سِتْرًا، فَلَمْ یَدْخُلْ عَلَیْہَا. وَقَلَّمَا کَانَ یَدْخُلُ إِلَّا بَدَأَ بِہَا، قَالَ: فَجَاءَ عَلِيٌّ فَرَآہَا مُہْتَمَّۃً، فَقَالَ: مَا لَکِ؟ فَقَالَتْ: جَاءَ إِلَيَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، فَلَمْ یَدْخُلْ عَلَيَّ. فَأَتَاہُ عَلِيٌّ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّ فَاطِمَۃَ اشْتَدَّ عَلَیْہَا أَنَّکَ جِءْتَہَا فَلَمْ تَدْخُلْ عَلَیْہَا، فَقَالَ: [''إِنِّيْ رَأَیْتُ عَلٰی بَابِہَا سِتْرًا مَوْشِیًّا۲]، وَمَا أَنَا وَالدُّنْیَا؟ وَمَا أَنَا وَالرَّقْمُ''؟ قَالَ: فَذَہَبَ إِلٰی فَاطِمَۃَ فَأَخْبَرَہَا بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: فَقُلْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَمَا تَأْمُرُنِيْ بِہِ؟ فَقَالَ: ''قُلْ لَہَا تُرْسِلُ بِہِ إِلٰی بَنِيْ فُلَانٍ''۳.
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آئے تو دیکھا کہ اُن کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا ہوا ہے۔ چنانچہ آپ گھر میں داخل نہیں ہوئے، جب کہ ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ باہر سے آئیں اور سب سے پہلے اُن کے گھر نہ جائیں۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ اِس کے کچھ دیر بعد علی رضی اللہ عنہ آگئے اور انھوں نے دیکھا کہ وہ بہت رنجیدہ بیٹھی ہیں تو پوچھا: فاطمہ، کیا ہوا؟ اُنھوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے، مگر گھر کے اندر داخل نہیں ہوئے، باہر ہی سے واپس چلے گئے۔سیدنا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: یا رسول اللہ ، فاطمہ کو یہ بات بہت گراں گزری ہے کہ آپ اُس کے ہاں آئے بھی اور گھر میں داخل نہیں ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اُس کے دروازے پر ایک پردہ دیکھاہے جس پر نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔ بھلا بتاؤ، مجھے اِس دنیا سے کیا غرض اور مجھے اِن نقش ونگار سے کیا واسطہ؟ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ کے پاس گئے اور انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا۔ اُنھوں نے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیے کہ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ سے کہو، اِسے بنو فلاں کے ہاں بھیج دے۔۱
________
۱۔ یہ ہدایت بتا رہی ہے کہ عام لوگوں کے لیے آپ اِس طرح کی چیزوں کو ممنوع یا نا پسندیدہ، یہاں تک کہ خلاف اولیٰ بھی نہیں سمجھتے تھے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۴۷۲۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۴۳۷۴۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۷۸۴۔ صحیح بخاری، رقم ۲۶۱۳۔ سنن ابی داود، رقم ۴۱۴۹۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۳۵۳۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۹۹۳۱۔
۲۔ صحیح بخاری، رقم ۲۶۱۳۔
۳۔صحیح بخاری، رقم ۲۶۱۳ میں یہاں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: 'تُرْسِلُ بِہِ إِلٰی فُلاَنٍ، أَہْلِ بَیْتٍ بِہِمْ حَاجَۃٌ' ''اِسے فلاں گھر والوں کے ہاں بھیج دو، وہ ضرورت مندہیں''۔
—۵—
عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ،۱ عَنْ أَبِيْ طَلْحَۃَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ''لَا تَدْخُلُ الْمَلَاءِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ، وَلَا تِمْثَالٌ''،۲ وَقَالَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلٰی أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ عَاءِشَۃَ نَسْأَلْہَا عَنْ ذٰلِکَ، فَانْطَلَقْنَا، فَقُلْنَا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ، إِنَّ أَبَا طَلْحَۃَ حَدَّثَنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَذَا، وَکَذَا، فَہَلْ سَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ ذٰلِکَ؟ قَالَتْ: لَا،۳ وَلَکِنْ سَأُحَدِّثُکُمْ بِمَا رَأَیْتُہُ فَعَلَ. خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ بَعْضِ مَغَازِیْہِ، وَکُنْتُ أَتَحَیَّنُ قُفُوْلَہُ، فَأَخَذْتُ نَمَطًا کَانَ لَنَا، فَسَتَرْتُہُ عَلَی الْعَرْضِ، فَلَمَّا جَاءَ اسْتَقْبَلْتُہُ، فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَعَزَّکَ وَأَکْرَمَکَ، فَنَظَرَ إِلَی الْبَیْتِ فَرَأَی النَّمَطَ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَيَّ شَیْءًا، وَرَأَیْتُ الْکَرَاہِیَۃَ فِيْ وَجْہِہِ، فَأَتَی النَّمَطَ حَتَّی ہَتَکَہُ، ثُمَّ قَالَ: ''إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَأْمُرْنَا فِیْمَا رَزَقَنَا أَنْ نَکْسُوَ الْحِجَارَۃَ وَاللَّبِنَ''، قَالَتْ: فَقَطَعْتُہُ وَجَعَلْتُہُ وِسَادَتَیْنِ، وَحَشَوْتُہُمَا لِیْفًا، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَيَّ۴.
زید بن خالد جہنی سے مروی ہے ، وہ ابو طلحہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ اُنھوں نے بتایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتے کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۱۔ زید نے اُن سے کہا: ہمارے ساتھ سیدہ عائشہ کے پاس چلو، ہم اِس باب میں اُن سے پوچھیں گے۔چنانچہ ہم گئے اور عرض کیا: ام المومنین، ابو طلحہ ہم سے روایت کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اور ایسے فرمایا تھا تو کیا اِس طرح کا کوئی ذکر آپ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے یہ بات تو نہیں سنی، لیکن میں تمھیں بتاتی ہوں کہ ایک موقع پر آپ نے کیا کیا تھا، جو میں نے دیکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے کے لیے نکلے، میں آپ کے لوٹنے کی منتظر تھی،سو میں نے اپنے ہاں سے ایک کپڑا لیا اور گھر کے ساز و سامان کو اُس سے ڈھانک دیا۲۔ پھر جب آپ واپس تشریف لائے تو میں استقبال کے لیے آگے بڑھی اور عرض کیا: یا رسول اللہ، آپ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہوں۔ اللہ کا شکر ہے، جس نے آپ کو عزت واکرام سے نوازا۔ اِس پر آپ نے گھر کی طرف دیکھا اور آپ کی نظر اُس کپڑے پر پڑی تو آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ میں نے محسوس کیا کہ آپ کے چہرے پر ناگواری ہے۔ چنانچہ آپ اُس کپڑے کے پاس آئے اور اُس کو اتار ڈالا۳، پھر فرمایا: اللہ نے جو رزق ہمیں دیا ہے، اُس کے بارے میں یہ نہیں کہا ہے کہ ہم اُس سے اینٹ اور پتھرکو کپڑا پہنایا کریں۔ سیدہ کا بیان ہے کہ پھر میں نے اُس کو کاٹا، اُس سے دو تکیے بنائے اور اُن میں کھجور کی چھال بھر دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر مجھے کوئی نکیر نہیں فرمائی۴۔
________
۱۔ اِس مضمون کی روایتوں کے لیے ہم نے ''فرشتے، تصاویر اور کتا'' کے زیر عنوان الگ باب قائم کیا ہے۔ اِس کی تفصیلات وہاں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔
۲۔آگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساز وسامان غالباً کپڑے کو دیوار کے ساتھ لٹکا کر اُس سے ڈھانپا گیا تھا، جس طرح دیہات کے گھروں میں صندوق وغیرہ بالعموم دیوار کے ساتھ رکھ کر اور اوپر سے پردہ لٹکا کر ڈھانپ دیے جاتے ہیں۔
۳۔ پچھلی روایتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ رد عمل صاف بتا رہا ہے کہ یہ بھی اُسی طرح کا کوئی منقش کپڑا ہوگا جس کا ذکر اُن روایتوں میں ہوا ہے اور سیدہ نے اِسے بھی زینت ہی کے لیے لٹکایا ہوگا۔
۴۔ یعنی جب اُس کو محض تزئین کے لیے گھر کے ساز وسامان پر ڈالنے کے بجاے ضرورت کی ایک چیز کے لیے استعمال کرلیا گیا تو اِس کے بعد آپ کو اعتراض نہیں ہوا۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن سنن ابی داود، رقم ۴۱۵۳ سے لیا گیا ہے۔ زید بن خالد جُہنی رضی اللہ عنہ سے متن کے کچھ اختلاف کے ساتھ اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۶، ۲۱۰۷۔سنن ابی داود، رقم ۴۱۵۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۳۱۶۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۴۳۲،۴۷۳۶،۶۴۷۴۔ مسند رویانی، رقم ۹۷۶۔ مسند شاشی، رقم ۱۰۶۹۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۴۶۸۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۸۶۔
۲۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۴۳۲ میں آپ کا یہ ارشاد اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: 'إِنَّ الْمَلَائِکَۃَ لَا تَدْخُلُ بَیْتًا فِیہِ تَصَاوِیْرُ وَلَا کَلْبٌ' ''بلا شبہ فرشتے کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوں اور نہ اُس گھر میں جس میں کتا ہو''۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۶ میں یہاں اسم مفرد 'تِمْثَالٌ' کے بجاے اسم جمع، یعنی 'تَمَاثِیْلُ'نقل ہوا ہے، جب کہ صحیح ابن حبان، رقم ۵۴۶۸ میں یہاں 'أَوْ تِمْثَالٌ' کے الفاظ ہیں۔
۳۔مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۴۳۲ میں یہاں یہ الفاظ ہیں: 'أَمَّا ہٰذَا، فَلَا أَحْفَظُہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ' ''رسول اللہ کا یہ ارشاد تو مجھے یاد نہیں ہے''۔
۴۔ بعض طرق، مثلاً صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷ میں یہاں 'فَلَمْ یَعِبْ ذٰلِکَ عَلَیَّ' ''چنانچہ اِس پر آپ نے مجھے کچھ نہیں کہا کی تعبیر اختیار کی گئی ہے''۔

المصادر والمراجع

ابن أبي شیبۃ أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد العبسي. (۱۴۰۹ہ). المصنف في الأحادیث والآثار. ط۱. تحقیق: کمال یوسف الحوت. الریاض: مکتبۃ الرشد.
ابن الجَعْد علي بن الجَعْد بن عبید الجَوْہَري البغدادي. (۱۴۱۰ہ/ ۱۹۹۰م). المسند. ط۱. تحقیق: عامر أحمد حیدر. بیروت: مؤسسۃ نادر.
ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (۱۴۱۴ہ/ ۱۹۹۳م). الصحیح. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۱۴۰۶ہ/ ۱۹۸۶م). تقریب التہذیب. ط۱. تحقیق: محمد عوامۃ. سوریا: دار الرشید.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۱۴۰۴ہ/ ۱۹۸۴م). تہذیب التہذیب. ط۱. بیروت: دار الفکر.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۱۳۷۹ہ). فتح الباري شرح صحیح البخاري. د. ط. بیروت: دار المعرفۃ.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۲۰۰۲م). لسان المیزان. ط۱. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدۃ. د. م: دار البشائر الإسلامیۃ.
ابن خزیمۃ أبو بکر محمد بن إسحاق النیسابوري. (د.ت). الصحیح. د. ط. تحقیق: د. محمد مصطفی الأعظمي. بیروت: المکتب الإسلامي.
ابن ماجہ أبو عبد اللّٰہ محمد القزویني. (د.ت). السنن. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. د.م: دار إحیاء الکتب العربیۃ.
أبو داود سلیمان بن الأشعث السِّجِسْتاني. (د.ت). السنن. د.ط. تحقیق: محمد محیي الدین عبد الحمید. بیروت: المکتبۃ العصریۃ.
أبو یعلی أحمد بن علي التمیمي الموصلي. (۱۴۰۴ہ/ ۱۹۸۴م). المسند. ط۱. تحقیق: حسین سلیم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.
أحمد بن حنبل أبو عبد اللّٰہ الشیباني.(۱۴۲۱ہ/ ۲۰۰۱م). المسند. ط۱. تحقیق: شعیب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.
إسحاق بن راہویہ الحنظلي المروزي. (۱۴۱۲ہ/ ۱۹۹۱م). المسند. ط۱. تحقیق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي. المدینۃ المنورۃ: مکتبۃ الإیمان.
البخاري محمد بن إسماعیل أبو عبد اللّٰہ الجعفي. (۱۴۲۲ہ). الجامع الصحیح. ط۱. تحقیق: محمد زہیر بن ناصر الناصر. بیروت: دار طوق النجاۃ.
البیہقي أبو بکر أحمد بن الحسین الخراساني. (۱۴۲۴ہ/ ۲۰۰۳م). السنن الکبری. ط۳. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. بیروت: دار الکتب العلمیۃ.
البیہقي أبو بکر أحمد بن الحسین الخراساني. (۱۴۲۳ہ/ ۲۰۰۳م). شعب الإیمان. ط۱. تحقیق: الدکتور عبد العلي عبد الحمید حامد. الریاض: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع.
الترمذي أبو عیسی محمد بن عیسی. (۱۳۹۵ہ/ ۱۹۷۵م). السنن. ط۲. تحقیق وتعلیق: أحمد محمد شاکر، ومحمد فؤاد عبد الباقي، وإبراہیم عطوۃ عوض. مصر: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابي الحلبي.
الذہبي شمس الدین أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد. (۱۴۰۵ہ/ ۱۹۸۵م). سیر أعلام النبلاء. ط۳. تحقیق: مجموعۃ من المحققین بإشراف الشیخ شعیب الأرنؤوط. د.م: مؤسسۃ الرسالۃ.
الرُّویاني أبو بکر محمد بن ہارون. (۱۴۱۶ہ). المسند. ط۱. تحقیق: أیمن علي أبو یماني. القاہرۃ: مؤسسۃ قرطبۃ.
الشاشي أبو سعید الہیثم بن کلیب البِنْکَثي. (۱۴۱۰ہ). المسند. ط۱. تحقیق: د. محفوظ الرحمن زین اللّٰہ. المدینۃ المنورۃ: مکتبۃ العلوم والحکم.
عبد الحمید بن حمید بن نصر الکَسّي. (۱۴۰۸ہ/ ۱۹۸۸م). المنتخب من مسند عبد بن حمید. ط۱. تحقیق: صبحي البدري السامراءي، محمود محمد خلیل الصعیدي. القاہرۃ: مکتبۃ السنۃ.
مسلم بن الحجاج النیسابوري. (د. ت). الجامع الصحیح. د.ط. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
النساءي أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب الخراساني. (۱۴۰۶ہ/ ۱۹۸۶م). السنن الصغری. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدۃ. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ.
النساءي أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب الخراساني. (۱۴۲۱ہ/ ۲۰۰۱م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق وتخریج: حسن عبد المنعم شلبي. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.
النووي أبو زکریا یحیی بن شرف. (۱۳۹۲ہ). المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج. ط۲. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

(بشکریہ ، المورد ، جاوید احمد غامدی )