روحانیت کا ماخذ کیا ہے؟
ابن عربی اور رومی یا پھر قرآن مجید اور اللہ کے آخری رسولﷺ کا اسوہ حسنہ؟
ممکن ہے کسی کی نظر میں یہ سوال غیر اہم ہو۔اگر ابن عربی اور رومی کا ماخذ بھی قرآن مجید اور اسوہ حسنہ ہی ہیںتواس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی قرآن وسنت سے روحانیت سیکھے یا ابن عربی و رومی سے؟ اگر امرِواقعہ یہی ہے تواس پر میرا سوال ہو گا: پھربراہ راست قرآن و سنت کیوں نہیں؟ قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کویاددہانی کے لیے سہل اور موزوں بنایا گیاہے۔ یہی معاملہ سیرت کا بھی۔ رسالت مآبﷺ کی حیات مبارکہ کو سیرت نگاروں نے اس طرح بیان کر دیا ہے کہ اس کا ہر گوشہ سورج سے بڑھ کر ضو فشاں ہے۔
دوسری طرح ابن عربی کا معاملہ یہ ہے کہ ایسی دقیق عبارت شاید ہی کسی نے لکھی ہو۔ اگر آج کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ ابن عربی کو سمجھتا ہے تو پہلا ردِ عمل حیرت کا ہوتا ہے۔ بیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں وہ افراد شاید انگلیوں پر ہی شمارکیے جائیں جنہوں نے ابن عربی کوسمجھ کر پڑھا ہو۔ سوال یہ ہے کہ ابن عربی کا ماخذ بھی اگر قرآن وسنت ہیں تو پھر آسان اور اصل ماخذ کو چھوڑ کر ایک دقیق بلکہ ادق ذریعۂ علم کی طرف رجوع کرنا کون سی دانائی ہے؟ ممکن ہے کسی کے ذہن میں خیال آئے کہ ابن عربی نے قرآن کی تفسیر کر دی ہے۔ اس پر میرا کہنا یہ ہوگا کہ تفسیر ہمیشہ تسہیل اور تفہیم کے لیے ہوتی ہے۔ یہ کیسی تفسیر ہے جو مضامین کو مزید الجھا رہی ہے؟
ابن عربی یہاں محض ایک علامت ہیں۔مراد اِس قبیلے کے سب بزرگ ہیں جنہیں روحانیت کا ماخذ سمجھا جا تا ہے۔ رومی کو سمجھنا بھی آسان نہیں ہے۔ ان کے شعروں سے حظ تو اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ان کے نفسِ مضمون تک رسائی کسی کسی کا مقدر بنتی ہے۔ اس لیے یہ ایک اہم سوال ہے کہ لوگ روحانیت کے لیے قرآن وسنت کے بجائے ابن عربی اور رومی کی طرف کیوں رخ کرتے ہیں؟
عمومی تاثریہ ہے کہ روحانیت ایک پراسرار دنیا ہے جو ماورائے حواس ہے اور ماورائے اسباب بھی۔ اس دنیا کے اپنے آداب ہیں جو اس مادی دنیا سے مختلف ہیں جس میں ہم زندہ ہیں۔ رو حانیت تک رسائی کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس مادی دنیا سے بلند ہوکر اُس دنیا کا باسی بن جائے۔ اس کے لیے سلوک کے کچھ مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ جو ان سے کامیابی کے ساتھ گزرجائے،اُسے ماورائے اسباب دنیا میں تصرف کا اختیار مل جا تا ہے۔ پھروہ خالقِ کائنات سے ایک خاص رشتے میں بندھ جاتاہے۔
یہ رشتہ کل اور جزو کا ہے۔ فلسفے کی زبان میں اسے وحدت الوجود کہا گیا۔ سادہ لفظوں میں ،اس پوری کائنات میں اگر کوئی وجود ثابت ہے تووہ حقیقتِ مطلقہ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ کائنات اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی۔ یہ محض اس کی تجلیات کا ظہور ہے۔ ان مظاہرِ کائنات کا اس حقیقتِ مطلقہ سے وہی تعلق ہے جو سورج اور اس کی کرنوں کا ہے۔یا پھر سمندر اور اس کے قطروں کا۔ انسان کی حیثیت بھی یہی ہے۔ اس کا اپنا کوئی وجود نہیں۔ انسان اس کل کا ایک جزو ہے۔ اس کی معراج یہ ہے وہ دوبارہ اس کل کا حصہ بن جائے۔
اس کے لیے لازم ہے کہ وہ مادی وجود کے مطالبات سے ممکن حد تک دستبردار ہو جائے۔ اس کے بعد ہی اس میں وہ لطافت پیدا ہوگی جو اسے اس قابل بنائے گی کہ وہ کُل سے مل سکے۔ اسی کے لیے روحانیت کایہ مسافرنفس کو مارنے کے لیے ریاضت کرتا ہے۔ حق کے ساتھ وصال اس کی منزل ہے۔ وحدت الوجود دنیاکے قدیم ترین فلسفوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بنیادیں ویدانت میں ہیں اور نو فلاطونیت میں بھی۔ویدانت کے آخری حصے کو 'اپنیشد‘کہتے ہیں جوہندو مذہب کے بنیادی تصور 'گیان مارگ‘ کا ماخذ ہے۔ اس کے مطابق انسان کا مقصدِ تخلیق،حقیقتِ اعلیٰ کی معرفت کا حصول ہے۔ ڈاکٹررادھا کرشن نے اپنی کتاب ''انڈین فلاسفی‘‘ میں اس کی تفصیلات بیان کر دی ہیں۔
اس فلسفے کو ماننے والے دنیا کے ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے مذہبی پس منظرمیں اس کی تعبیر کی۔یہ مسلمانوں میں بھی ہیں۔ ابن عربی ، رومی اور ان سے پہلے جنید بغدادی،منصور حلاج، ابوبکر شبلی، غزالی اور بعد میں شیخ احمد سرہندی ، شاہ ولی اللہ وغیرہ اسی کے نمائندے ہیں۔ ان بزرگوں کی تعبیر کے مطابق، وحدت الوجود توحید کا آخری درجہ ہے جس تک خاص الخواص ہی کی رسائی ہوتی ہے۔ توحید کا پہلادرجہ وہی ہے جو قرآن مجید میں بالعموم اور سورہ اخلاص میں با لخصوص بیان ہوا ہے۔ یہ عامۃ الناس کی توحید ہے۔
حقیقتِ مطلقہ سے یہ رشتہ قائم ہوجائے توپھر انسان زمان و مکان سے آزاد ہو جاتا ہے۔ پھریہ کائنات آپ پر کھول دی جاتی ہے۔ روحانیت کے ایک امام ابو طالب محمد بن الحارثی المکی نے اپنی معروف کتاب ''قوت القلوب ‘‘ میں بایزید بسطامی کی اپنی شہادت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے فلکِ اسفل میں لے گئے۔ ساری زمینیں اور پاتال تک دکھائے۔ پھر آسمان اور ان میں بہشت کے باغوں سے لے کر عرش بریں تک جو کچھ ہے، سب دکھایا۔ اس کے بعد اپنے سامنے کھڑا کیاا ور فرمایا: ''مانگو جو کچھ تم نے دیکھا ہے۔ میں تمہیں دوں گا۔ ''قوت القلوب‘‘ اس روحانیت کا مستند ترین ماخذہے۔
اس پراسرار دنیا میں، اس درجے پر فائز ، بعض منتخب لوگوں کے ہاتھوں میں امور دنیا دے دیے جاتے ہیں۔ انہیں مردانِ غیب یا رجال الغیب کہاجا تا ہے۔ یہ عام لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی تعداد متعین نہیں۔ شیخ علی ہجویری کے نزدیک یہ چار ہزار ہیں۔ ابن عربی کے مطابق ہر زمانے کاایک قطب ہوتا ہے۔ اس کے ماتحت دو وزیر ہوتے ہیں جنہیںامام کہتے ہیں ۔ پھر اوتار۔ اوتار کے بارے میں ابن عربی لکھتے ہیں : ''ان میں سے ایک کے ذریعے اللہ مشرق کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی ریاست اسی میں ہے۔ تین مغرب، جنوب اور شمال کی حفاظت پر مامور ہیں... یہ زمین کے پہاڑوں کی طرح اس عالم کو تھامے ہوئے ہیں۔‘‘(فتوحاتِ مکیہ) پھر سات ابدال ہیں۔ ابدال کے بعد نقبا۔ یہ آسمان کے بارہ برجوں پر مامور ہیں۔ کواکب اور اجرامِ فلکی کی وہ حرکات ان کے مشاہدے میںآتی ہیں، جو رسد گاہوں کی دست رس سے باہر ہیں۔ (فتوحاتِ مکیہ)۔
ابن عربی کا دعویٰ تھا کہ وہ خود قطب کے منصب پر فائز ہیں۔ انہوں نے بہت سے ابدال اور دوسرے حضرات کا ذکر کیا ہے جن سے ان کی ملاقات ہوئی۔ شیخ احمد سرہندی کا کہناتھا کہ انہیں بھی رسول اللہﷺ کی طرف سے قطب الارشاد کی خلعت عطا ہوئی۔ شاولی اللہ بھی خود کو قائم الزمان کہتے تھے۔ (فیوض الحرمین)۔ آج بھی بعض لوگ ان سے ملاقات کا دعویٰ رکھتے ہیں، بعض اوقات پسِ مرگ بھی۔
ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی علم عطا ہوتا ہے۔ ابن عربی کا کہنا ہے کہ اہلِ ذوق اسے اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ یہ علم کتابوں میں نہیں لکھا جاتا۔ اللہ تعالیٰ جس بندے کو عطا کرتا ہے وہ دوسروں سے اس کا ذکر نہیں کرتا، سوائے ان کے جو اس کے اہل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کا انکار نہیں کرتے۔ اسے ضروری کہتے ہیں مگر یہ ابتدائی درجہ ہے۔ شریعت تو کتابوں میں بیان ہو گئی۔ حقیقت تک رسائی اس کے بعد کامرحلہ ہے۔ شیخ علی ہجویری نے وضاحت کی کہ ''شریعت اندرحکم از حقیقت جدا است‘‘ شریعت حکم میں حقیقت سے مختلف ہے۔ (کشف المحجوب)۔ قشیری کے الفاظ میں ''شریعت یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو۔حقیقت یہ ہے کہ اس کا مشاہدہ کرو۔‘‘(الرسالۃالقشیریہ)
یہ ہے وہ روحانیت جو ایک پراسرار دنیا ہے۔ لوگ اس کی کھوج میں ابن عربی اور رومی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اِس کا اُس روحانیت سے کوئی تعلق نہیں جو قرآن مجید بیان کرتا ہے اور جسے اللہ کے آخری رسولﷺ نے جزئیات کے ساتھ واضح فرما دیا۔ یہ روحانیت کیا ہے، اس کا ذکر ،انشااللہ اگلے کالم میں۔
روحانیت… (2)
اسلام کا تنہا ماخذ رسالت مآبﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ قیامت کی صبح تک وہی چیز دین قرار پائے گی جس پر آپؐ کی مہرِ تصدیق ثبت ہو گی۔ آپؐ نے جو دین اس امت کو منتقل کیا، اس کو تین صورتوں میں محفوظ کر دیا گیا۔ قرآن مجید، سنت اور اسوہ حسنہ۔ قرآن مجید اللہ کتاب ہے جو آپؐ پر نازل ہوئی۔ سنت انبیاؑ کا وہ طریقہ ہے جس کو اپنی تجدید، اضافے اور اصلاح کے بعد، آپﷺ نے اس امت میں جاری فرمایا۔ صحابہ کرامؓ کا اجماع اور تواتر اس پر فیصلہ کن شہادت ہے۔ تیسری چیز آپؐ کا اسوہ حسنہ ہے۔ قرآن و سنت میں جو دین بیان ہوا، آپؐ نے اس پر عمل کرتے ہوئے، اس کو آئیڈیل صورت میں ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب حسنِ عمل کا واحد معیار یہ ہے کہ کون اس آئیڈیل سے قریب تر ہے۔
اس دین کا پوری طرح ابلاغ ہو چکا اور اس کا کوئی جزو ایسا نہیں جو روزِ روشن کی طرح عیاں نہ ہو۔ یہ دین اتنا واضح ہے کہ آپﷺ کے بعد اب کسی پیغمبر اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آپؐ نے کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی اور نہ ہی اس دین کا کوئی حصہ ایسا ہے جس کو آپؐ نے صرف مخصوص لوگوں کو بتایا ہو اور اس کا ابلاغِ عام نہ کیا۔ آپؐ کا منصب، قرآن مجید نے یہ بتایا کہ جو کچھ آپؐ پر نازل ہو رہا ہے، آپؐ اس کا ابلاغِ عام کریں۔ اور اگر آپؐ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپؐ نے منصبِ رسالت کا حق ادا نہیں کیا (المائدہ5:67)۔
حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کے اجتماع کو گواہ بنا کر پوچھا کہ کیا میں نے دین تم تک پہنچا دیا۔ سب نے گواہی دی کہ آپؐ نے دین پہنچا دیا۔ اس کے بعد آپؐ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا: اے اللہ تو بھی گواہ ہو کہ میں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی۔ اس لیے اس دین کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے، چاہے وہ سماجی زندگی سے متعلق ہو یا روحانیت سے، جس کا آپؐ نے ابلاغِ عام نہ کیا ہو۔
یہ دین جس روحانیت کی بات کرتا ہے، وہ کوئی پُراسرار واقعہ نہیں۔ یہ ایک شفاف اور قابلِ فہم تصور ہے۔ یہ قرآن و سنت میں بیان ہو گیا اور آپؐ نے اپنے اسوہ حسنہ سے اسے مجسم کر دیا۔ یہ دین جس توحید کی بات کرتا ہے، وہ قرآن مجید میں بیان کر دی گئی۔ یہی عوام کی توحید ہے اور یہی خواص کی توحید بھی ہے۔ اس میں کوئی ابہام ہے‘ نہ اس کا کوئی حصہ پوشیدہ۔ یہ توحید وہی ہے‘ جسے تمام انبیاؑ نے بیان کیا۔ اس کا خلاصہ سورہ اخلاص میں بیان ہوا اور سورہ حشر میں بھی۔ (59:22-24)۔ اس توحید کو اس امت کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ اہلِ روحانیت توحید کے جو مراتب بیان کرتے ہیں، قرآن مجید ان کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔
اس دین میں اللہ تعالیٰ معبود اور انسان عبد ہے۔ وہ بندہ اور غلام ہے۔ وہ خالق اور یہ مخلوق ہے۔ قرآن مجید کل اور جزو یا سمندر اور قطرے کے کسی تعلق کو تسلیم نہیں کرتا۔ انسان مرتے دم تک اس کا بندہ ہے اور اسی حیثیت میں روزِ قیامت اٹھایا جائے گا۔ اسی حیثیت میں وہ جنت یا جہنم کا مستحق ہو گا اور یہ اس کا ابدی ٹھکانہ ہو گا۔ اسلام فنا فی التوحید کے کسی ایسے تصور کو نہیں مانتا‘ جس میں انسان کا وجود باقی نہیں رہتا۔ نبیﷺ نے اپنے بارے میں یہی فرمایا کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے ہم جو شہادت دیتے ہیں، اس میں اللہ کے معبود ہونے اور رسالت مآبﷺ کے اللہ کے بندے اور رسول ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے انسان کا مقصدِ حیات طے کر دیا ہے اور وہ ہے اللہ کی عبادت۔ عبادت کے لیے لازم ہے کہ انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہو‘ لیکن یہ معرفت کوئی پراسرار عمل نہیں‘ جس کے لیے سلوک کی منازل طے کرنا پڑیں یا برسوں جنگلوں کی خاک چھاننا پڑے۔ اس کے لیے صرف ایک ریاضت کی ضرورت ہے اور وہ ذہنی ہے۔ قرآن مجید اس کے لیے تفکر، تدبر اور تعقل جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ وہ انسان کو اللہ کی آیات (نشانیوں) پر غور اور تفکر کی دعوت دیتا ہے۔
یہ نشانیاں انفس میں بھی اور آفاق میں بھی۔ انسان کے اندر بھی اور باہر بھی۔ یہ نشانیاں قرآن مجید میں بھی، یہ نشانیاں رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں بھی ہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ ان نشانیوں پر غور و فکر سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس عالم کا کوئی پروردگار اور خالق ہے اور اس نے یہ سب کچھ عبث پیدا نہیں کیا۔ یہی تدبر ہے جس کا قرآن مجید نے انبیاؑ کے زندگیوں کے حوالے سے بیان کیا ہے، جیسے سیدنا ابراہیمؑ۔
اللہ کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ انسان پورے یقین کے ساتھ یہ جان لیتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک ہے اور یہ بھی کہ یہ نظام کسی حکمت پر مبنی ہے‘ جو اس کی دلیل ہے کہ اس کا خالق واحد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ معرفت کے کسی درجے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا وصال ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید نے واضح کیا کہ انسانی آنکھیں اس کو پا نہیں سکتیں۔ تاہم قیامت میں اہلِ ایمان اپنے رب کو دیکھ سکیں گے۔ اس کی نوعیت کیا ہو گی، ہم واقف نہیں۔ رسالت مآبﷺ نے ہمیں بتایا کہ اس روز ردائے کبریائی کے سوا کوئی چیز درمیان میں حائل نہیں رہے گی (بخاری و مسلم)۔
انفس و آفاق پر غور و فکر سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا شعور یا معرفت ہوتی ہے۔ اس کی نوعیت بھی دراصل یاد دہانی کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ یہ نشانیاں اس شعور کو بیدار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غور و فکر کرنے والوں کو پیغمبروں کی دعوت اجنبی محسوس نہیں ہوتی اور ان کے داخل سے اس کی تائید میں آواز اٹھتی ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال سیدنا ابوبکرؓ صدیق ہیں‘ جنہیں رسول اللہﷺ پر ایمان لانے میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوا۔
خدا کا یہ تصور جب اس کی صفات کے ادراک کے ساتھ، انسانی شعور کا حصہ بنتا ہے تو اس کے اندر اپنے رب سے ہم کلام ہونے، اس کا شکر ادا کرنے، اس کی کبریائی کا اعلان کر نے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ پھر سجدے اس کی جبین میں مچلنے لگتے ہیں۔ یہ عبادت کا شعور ہے۔ اس مرحلے پر اسے پیغمبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہی بتاتے ہیں کہ اس کا پروردگار اس سے کیا چاہتا ہے۔ پیغمبر اسے عبادت کے آداب سکھاتے ہیں۔ اس لیے انسان کبھی پیغمبر کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ کسی غیر پیغمبر کا یہ دعویٰ قابلِ قبول نہیں کہ وہ خدا سے براہ راست راہنمائی حاصل کرتا ہے اور گویا پیغمبر کی ضرورت سے بے نیاز ہو گیا ہے۔
قرآن مجید نے بتایا کہ اس کائنات کے نظام کے لیے اس نے اپنے فرشتوں کو ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں‘ جو اس کے حکموں کے تابع ہیں۔ انسانوں میں سے وہ اپنے خاص بندوں کا انتخاب کرتا ہے جنہیں وہ منصبِ رسالت و نبوت پر فائز کرتا ہے۔ قرآن مجید اور صحاح ستہ رجال الغیب کے کسی تصور سے بھی خالی ہیں۔ مسند احمد ابن حنبل میں دو روایات ہیں جن میں ابدال کا ذکر ہے۔ انہیں بھی امام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ جیسے اہلِ علم نے قبول نہیں کیا۔
اسلام انسان کا اخلاقی تزکیہ کرتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اس میں بہتری آتی ہے اور اس کا سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہے جسے حدیث جبریل میں 'احسان‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس روایت میں ایمان، اسلام اور احسان کے عنوانات سے پورا دین بیان ہو گیا۔
یہ ہے وہ روحانیت جسے اللہ کا دین بیان کرتا ہے۔ اس میں کوئی چیز پُراسرار نہیں۔ ہر شے واضح اور روشن ہے۔ روحانیت کا دوسرا تصور وہ ہے جو پچھلے کالم میں بیان ہوا ہے۔ اب ہر آدمی دونوں کے مابین تقابل کر سکتا ہے۔ یہ اصول بہر صورت واضح ہونا چاہیے کہ دین کے باب میں معیار قرآن و سنت ہیں‘ افراد نہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت 1 فروری 2018
مصنف : خورشید احمد ندیم