اسلام اور علم

بلال عبد الحی حسنی ندوی

علم کی جو سرپرستی اسلام نے کی ہے کوئی دوسرا مذہب اس کا عشر عشیر نہیں پیش کرسکتا، اسلام کا زندہ جاوید معجزہ قرآن مجید ہے، اور اس کی سب سے پہلی آیت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ مسلمانوںنے اپنے دور عروج میں علم کے کیسے کیسے مراکز قائم کیے اور دنیا کو علم سے بھر دیا، اس دور کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ لوگوںنے علم کی روشنی میں ترقی کے منازل طے کیے، انسانوں کے اندر صحیح انسانیت پیدا ہوئی اور علم و اخلاق کاجو گہرا رشتہ تھا اس میں اور استحکام پیداہوا، اس کے آفاق میں اور وسعت پیدا ہوئی اور مسلمانوںنے اس میں ایسی ایسی باریکیاں پیدا کیں جن سے نئے نئے گوشے سامنے آئے۔

پھر اسی علم کو جب یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی کے نام سے آگے بڑھانے کی کوشش کی اور اس میں اس کو بڑی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں تو اس نے علم کے لیے حدود و قیود متعین کردیے، اور اسلام نے اس کو جو آفاقیت عطا کی تھی اس کے بالکل برخلاف اس کو خاص رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اعتدال قائم نہیں رہ سکا، علم سے جو حقیقی فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا اس سے دنیا محروم ہوگئی، اور علم کا اخلاق سے جو رشتہ تھا وہ کاٹ دیا گیا، اس کے نتیجہ میں دنیا تباہی کے کنارہ پہنچ گئی، ایک طرف ٹکنالوجی کے سہارے بڑے بڑے ہتھیار تیار کرلیے گئے، ایٹم بم ایجاد ہوگئے،اخلاق و انسانیت کے فقدان کی وجہ سے دنیا تباہی کے کنارہ کھڑی ہوئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علم ایسے ہاتھوں میں گیا جن کے پاس اس سلسلہ کی آسمانی تعلیمات نہیں ہیں،سب سے زیادہ جو مذہب علم بیزار رہا ہے، وہ عیسائیت ہے، یورپ پر ایک دور ایسا گزرا ہے کہ علم حاصل کرنا ان کے مذہب میں جرم تھا، اور علم حاصل کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں جس کی ایک تاریخ ہے۔ 

جب یورپ نے علم حاصل کیا تو اس کو اپنے مذہبی اصولوں سے دستبردار ہونا پڑا، علم کے میدان میں تو وہ آگے بڑھتا گیا لیکن اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ ہوتا چلا گیا، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے یہ بات اپنی تقریروں میں کئی جگہ فرمائی ہے کہ دنیا کے لیے وہ دن منحوس ترین تھا جب علم کی قیادت عیسائی یورپ کے ہاتھ میں آئی۔