اما م شاہ ولی اللہ ؒکے فلسفہ و فکر پر ایک تبصرہ


اما م شاہ ولی اللہ ؒکے فلسفہ و فکر پرایک تبصرہ


مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی ؒ


"انہوں نے  مابعد الطبیعی مسائل سے ابتداء کی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ  ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص پورے فلسفۂ اسلام کو مدون کرنے کی بنا ڈارہا ہے ،  اس سے پہلے مسلمان جو کچھ فلسفہ میں لکھتے اور کہتے رہے ہیں اس کو محض نادانی سے لوگوں نے فلسفۂ  اسلام کے نام سے موسوم کردیا ہے حالانکہ وہ فلسفۂ اسلام نہیں،  مسلمین  ہے جس کا شجرہ نسب یونا ن روم وایران و ہندوستان سے ملتاہے ۔ فی الواقع جو چیز اس نام سے موسوم کرنے کے لائق ہے ، اس کی داغ بیل سے پہلے اس دہلوی شیخ (شاہ ولی اللہ ) نے ڈالی ہے اگرچہ اصطلاحات وہی قدیم فلسفہ و کلام یا فلسفیانہ تصوف کی زبان سے لی ہیں اور غیر شعوری طور پر بہت سے تخیلات بھی  وہیں سے آگئے جیسا کہ اول اول ہر نئی راہ نکالنے والے کے لیے طبعا ناگزیر ہے مگر پھر بھی تحقیق کا ایک نیا دروازہ کھولنے کی یہ ایک بڑی زبردست کوشش ہے ۔ خصوصا ایسے شدید انحطاط کے دور میں اتنی طاقت ور عقلیت کے آدمی کا ظاہر ہونا بالکل حیرت انگیز ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔
اس فلسفہ میں شاہ صاحب کائنات کا اور پھر کائنات میں انسان کا ایسا تصور قائم کرنے کی سعی کرتے ہیں جو اسلام کے نظام اخلااق وتمدن کے ساتھ  ہم آہنگ اور متحد المزاج ہو سکتاہو یا دوسرے الفاظ میں اگر اس کو شجرہ اسلام کی جڑ قرار دیا جائے تو جڑ میں اور درخت میں جو اس ے پھو ٹا عقلا کوئی فطری مبانیت محسوس نہ کی جاسکتی ہو ۔ کیونکہ جو فلسفہ مسلمانوں میں رائج تھا وہ اسلام کے عملی، اخلاقی ،اعتقادی نظام سے کوئی ربط نہیں رکھتا تھا اسی وجہ سے اس کا رواج جتنا جتنا بڑھا اسی قدر مسلمانوں کی زندگی بگڑتی چلی گئی عقیدہ بھی کمزور ہوا اخلاق بھی ڈھیلے ہوئے اور قوائے عمل بھی سرد پڑگئے ۔ ذہن میں متصادم خیالات کی کش مکش کا یہ طبعی نتیجہ ہے اور یہ اثرات مغربی فلسفہ کے رواج سے بھی رونما ہورہا ہے اور اس لیے وہ بھی کسی طرح نظام اسلام کی فطری اساس نہیں ہوسکتا ۔ میں حیران رہ جاتاہوں جب سنتاہوں کہ شاہ صاحب نے ویدانتی فلسفہ اور اسلامی فلسفہ کو جوڑ لگا کر نئی ہندی قومیت کے لیے فکری اساس فراہم کرنے کی کوشش کی ہے مجھے ان کی کتابوں میں کہیں اس کا سراغ نہیں ملا اور اگر مل جاتا باللہ العظیم کہ مین شاہ صاحب کو مجددین کی فہرست سے خارج کرکے متجددین کی صف میں لے جاکر بیٹھا تا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مابعد الطبیعی فلسفہ کو استوار کرنے کے بعد وہ اس پر ایک نظام اخلاق کی عمارت کھڑی کرتے ہیں اور اس مقام پر انتہائی جذبہ اعتراف کے ساتھ میں دیکھتا ہوں کہ وہ یونانی ایتھکس کی غلامی سے پہلوبچارہے ہیں اس ایتھکس کی غلامی سے جس میں (نصیر الدین طوسی اور ) دوانی جیسے لوگ جا پھنتے ہیں اور جس کا اچھا خاصہ اثر امام غزالی ؒ  تک کے ذہن پر قائم رہا ۔ مگر یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ شاہ صاحب اس کے اثر سے بالکل آزاد  چکے تھے ۔ نظام اخلاق پر وہ ایک اجتماعی فلسفہ کی عمارت اٹھاتے، عدالت ،ضرب محاصل ، انتظام ملک داری اور تنظیم عسکری وغیرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان اسباب و علل پر روشنی ڈالتے ہیں جن سے تمدن میں فساد پیدا ہوتا ہے ۔ پھر وہ نظام شریعت عبادات ، احکام اور قوانین کو پیش کر تے ہیں اور ہر ایک چیز کی حکمتین سمجھاتے جاتے ہیں اس  خاص  مضمون پر جو کام انہوں نے کیا ہے وہ اسی نوعیت کا ہے جو ان سے پہلے غزالی ؒ  نے کیا تھا اور قدرتی بات ہے کہ شاہ صاحب ؒ  اس راہ میں  امام موصوف یعنی غزالی سے آگے بڑھ گئے ہیں ۔ عزالدین بن عبد السلام کی تصنیف تو میں نے پڑھی نہیں لیکن امام غزالی ؒ کی احیا ء غور سے بالاستیعاب پڑھی ہے اس کے اسرارالدین کی نوعیت شاہ صاحب ؒ کے فلسفہ اسلام سے مختلف ہے ، غزالی کی تصنیف سے یورپ زدہ لوگوں کی جو یورپ کے الحادی فلسفہ کے زیر اثر ہیں قطعا تسلی نہیں ہو سکتی ۔ بے شک اس کا پڑھنا ایسے شخص کے لیے بےحد مفید ہے جو پہلے سے سچا مسلمان ہو برخلاف اس کے حجۃ اللہ البالغہ کا پڑھنا  ان یورپ زدہ لوگوں کے لیے بھی مفید ہو سکتا ہے ۔ بشر طیکہ کسی قائم کردہ رائے پڑ اڑے رہنے کا خیا  ل  دل سے نکال دیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں میں انہوں ے تاریخ ملل و شرائع پر نظر ڈالی ہے اور کم از کم میرے علم کی حدتک وہ پہلے شخص ہیں جس نے اسلام اور جاہلیت کی باہمی کش مکش کا ایک دھندلا سا تصور پیش کیا ہے ۔ نظام اسلام کے اس قدر معقول اور اتنے مرتب خاکے کا پیش ہوجا نا بجائے کود اس امر کی پوری ضمانت ہے کہ اس نصب العین کے لیے جان و تن کی بازی لگادیں خواہ اس نصب العین کو سامنے رکھنے والا کود عملا کسی تحریک کی راہ نمائی کر ے یا نہ کرے مگر جو چیز اس سے بھی زیادہ محرک ثابت ہوئ وہ یہ تھکی کہ شاہ صاحب ؒ نے جاہلی حکومت اور اسلامی حکومت کے فرق بالکل نمایاں کر کے لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور نہ صرف اسلامی حکومت کی خصوصیات کو صاف صاف بیان کر دیا بلکہ بحث کو بہ تکرار ایسے طریقوں سے پیش کیا جس کی وجہ سے اصحاب ایمان کے لئے جاہلی حکومت کو اسلامی حکومت سے بدلنے  کی جد وجہد کیے بغیر چین سے بیٹھنا محال ہو گیا یہ مضمون حجۃ اللہ البالغہ میں کا فی تفصیل کے ساتھ آیا ہے لیکن ازالۃ الخفا تو گویا اسی موضوع پر لکھی گئی ہے ۔ اس کتا ب میں  و ہ احادیث صحیحہ سے ثابت کر تے ہیں کہ خلافت اسلامی اور بادشاہی بالکل دو مختلف الاصل چیزیں ہیں ۔
پھر ایک طرف بادشاہی کو اور اس کے لوازم تمام فتنوں  کو رکھتے ہیں جو بادشاہی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حیات اجتماعی میں ازروئے تاریخ پیدا ہوئے اور دوسری طر ف خلافت اسلامی  کی خصوصیات  اور شرائط  اور اس کی رحمتوں کو پیش کرتے ہیں جو اسلامی خلافت میں فی الواقع مسلمانوں پر نازل ہو چکی ہیں ۔ اس کے بعد کس طرح ممکن تھا کہ لوگ جن کی تعلیم و تربیت شاہ صاحب ؒ کے ان کی نظریوں کے ماتحت ہوئی تھی ، چین سے بیٹھ جاتے ۔ یہی وجہ تھی کہ شاہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ  کھڑی  ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ صاحب ؒ انکی نگاہوں کے سامنے روشن کرکے رکھ گئے تھے۔ "(یعنی شیداحمد شہید ؒ  اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک مجاھدین کی طرف اشارہ ہے )