ہماری زندگی پر سوالات ، خیالات اور مضبوط عقیدے کا اثر-

انتھونی رابنز

زندگی میں پیش آنے والے واقعات سے نہیں بلکہ ان کی تشریح اور جانچ سے زندگی بنتی یا بگڑتی ہے یعنی ہم کسی چیز کو اپنے ذہن میں کیسے لیتے ہیں ۔ اب جانچ پڑتال یا تشریح ہم کیسے کرتے ہیں؟ 
ظاہر ہے پہلے کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہوتاہے اور پھر ہم اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ میں نے اپنی تحقیق سے یہ جانا ہے کہ سوچ سوالات اور ان کے جوابات کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہم اچھے سوالات پوچھیں گے تو اچھے جوابات ہی ہمیں ملیں گے۔ سوالات سے ہی ہم سیکھتے اور تجربات حاصل کرتے ہیں۔



 ذرا غور کریں کہ آپ کے دماغ میں کیسے سوالات اٹھتے ہیں۔ یہ منفی ہوتے ہیں یا مثبت۔ میں نے بے شمار کامیاب لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیاہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مثبت سوالات اور ان کے جوابات کے سہارے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ آپ اچھے سوالات کر کے اچھے جوابات اور اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ آپ اگر دماغ سے یہ پوچھیں کہ میں ناکام کیوں ہوں اور ساتھ ہی آپ یہ بھی کہیں کہ میرا مقدر ہی ایساہے، آپ مایوسی کا شکار ہوں تو جواب بڑا حوصلہ شکن آئے گا۔ یہ جواب ہو سکتا ہے کہ واقعی تم ایک بدقسمت آدمی ہو، بے وقوف ہو وغیرہ۔ لیکن اگر آپ ٹھنڈے مزاج سے اور مثبت پہلو سامنے رکھتے ہوئے یہ دریافت کریں گے تو یقین جانیے آپ کو حوصلہ افزا جواب ملیں گے۔



 میرے ایک دوست کا ایک بار ایک حادثے میں جسم کا بڑا حصہ جل گیا تھا مگر اس کے باوجود وہ کاروبار زندگی میں بھر پور حصہ لیتا رہا تھا۔ لیکن چند سال بعد اسے ایک اور ہولناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاز کے ایک حادثے میں وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو گیا۔ حادثے کے بعد اسے ہوش آنے پر پتا چلا کہ اب باقی زندگی ویل چیئر پر گزرے گی۔ اس کے اردگرد اپنے جیسے لوگ تھے۔ یہ سب تقدیر کا رونا روتے اور اپنی قسمت کو کوستے۔ میرے دوست نے اس کے برعکس اپنے آپ سے یہ سوال کیا۔ جو ہونا تھا وہ تو گیا ہو، وقت واپس نہیں جا سکتا، کیا یہ ممکن نہیں کہ میں اس حالت میں کچھ کر دکھاؤں، دنیا کے لیے کچھ کروں اور زندگی سے لطف اٹھاؤں۔ اسے مثبت جواب ملے، اسے آگے بڑھنے کے طریقے نظر آنے لگے۔ اس نے اپنے اندر کی آواز پر لبیک کہا اور بھرپور طریقے سے زندگی کا لطف اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا چہرہ جلا ہوا تھا اور وہ معذور بھی تھا لیکن وہ ہسپتال میں خوش رہتا، قہقہے لگاتا اور دوسروں کو تسلی دیتا۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے وہاں ایک نرس کو شادی کی تجویز پیش کر دی۔ ساتھیوں نے اسے پاگل کہا تھا، مگر صرف ڈیڑھ سال بعد وہ واقعی اس کی بیوی تھی۔ یہ کرشمہ تھا طاقتور سوالات کے طاقتور جوابات کا ’’کیوں نہیں؟ ایسا ہوکر رہے گا۔‘‘اس کا جسم کمزور ہونے کے باوجود مضبوط عقیدے اور خیال کے بل بوتے پراس قابل ہو گیا تھا کہ بڑے سے بڑے چیلنج کا مقابلہ کر سکے۔ اس نے اپنی معذوری کو قبول کر کے اب اس سے مثبت انداز سے کام لینا سیکھ لیا تھا۔

یہ سوالات ہی ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی کی راہ متعین کرتے ہیں۔