آزادی کی منزل


1937ء میں صوبوں کی قانون ساز مجالس کے انتخابات ختم ہوئے اور کانگریس کو انتخابات میں بڑی کامیابی ہوئی۔ شروع شروع میں تو وہ وزارتیں قائم کرنے پر آمادہ نہ ہوئی لیکن جب حکومت سے معاہدہ ہوا اور اس نے وزارتیں قائم کرنے کی حامی بھری تو مسلم لیگ کے ممبروں کو وزارت میں لینے سے انکار کر دیا بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ مسلم لیگ سے استعفیٰ دینا پڑے گا۔


محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر یہ شرط ماننے پر آمادہ نہ ہوئے اور کانگریس نے وزارتوں پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعہ سے کانگریس اور لیگ میں بدمزگی تو پیدا ہو گئی لیکن کانگریسی وزرا اگر مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تو معاملات زیادہ نازک صورت حال اختیار نہ کرتے۔ لیکن انہوں نے بعض حرکتیں ایسی کیں کہ مسلمان بھڑک اٹھے۔

کہیں کہیں ہندوئوں نے، جو یہ سمجھتے تھے کہ اب حکومت ہماری ہے، مسلمانوں کو بقرعید کے موقع پر گائے کی قربانی کرنے سے روکا۔ بعض مقامات پر مسجدوں کے سامنے باجہ بجانے پر جھگڑے ہوئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کانگریسی وزیروں نے اپنی طاقت سے فائدہ اٹھا کر اردو کی جگہ ہندی کو رواج دینے کی کوشش کی۔ یہ کیفیت دیکھ کر مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور مسلمانوں کے دوسرے لیڈر الگ رہے۔

خود جناحؒ یہ محسوس کرنے لگے کہ کانگریس سے شاید کبھی کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے۔ لیگ کے لیے یہ بڑی آزمائش کا زمانہ تھا اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ کبھی کالے کالے بادلوں میں بجلی کی چمک اٹھتی ہے تو سامنے پگ ڈنڈی کی سپید سپید سی لکیر نظر آ جاتی ہے۔ پھر وہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس عالم میں یکبارگی بجلی چمکی۔ مایوسی اور بے یقینی کی کالی گھٹائیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں۔ اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ پگ ڈنڈی سے ہٹ کر ایک خاصی چوڑی سڑک ہے۔ جو اگرچہ دھندلکے کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے لیکن اسے دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سڑک پر بڑھتے چلیں تو آزادی کی منز ل پر ضرور پہنچا جا سکتا ہے۔

مسلمانوں کو یہ راستہ اصل میں ان کے قومی شاعر علامہ اقبالؒ نے سمجھایا تھا۔ دسمبر 1930ء میں انہوں نے خطبہ الہٰ آباد میں لیگ کے سالانہ جلسہ کے صدر کی حیثیت سے جو تقریر کی تھی اس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک الگ صوبہ بنانے کی کوشش کریں۔ اس وقت تو لوگوں نے اس تجویز کی طرف زیادہ توجہ نہ دی لیکن ہندو مسلمانوں کے باہمی اختلافات جتنے زیادہ ہوتے گئے، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال جڑ پکڑتا گیا کہ ہندوئوں کے ساتھ مل کے ساجھے کی حکومت قائم کرنے کی بجائے انہیں اپنی علیحدہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بعض نوجوانوں اور طالب علموں نے اسلامی حکومت کے اس خاکے میں رنگ بھرا۔ بنگال اور کشمیر بھی اس میں شامل کر لیا اور اس حکومت کا نام پاکستان رکھا۔ یہ تحریک بڑے زور سے پھیلی اور ملک کے ہر حصے میں پاکستان کے حامی پیدا ہو گئے۔ جناحؒ کو بھی ماننا پڑا کہ پاکستان کے سوا مسلمانوں کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ انہیں پاکستان کا حامی بنانے میں علامہ اقبالؒ کا بڑا حصہ تھا۔

( تحریر: چراغ حسن حسرت، تاریخ اشاعت : 3 جون 2018،  روزنامہ دنیا ، لاہور )