آزمائش کی حقیقت


ارشاد باری تعالی  ہے : " ﴿ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں، تو ﴾ کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ ۔آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔"  ( سورۃ البقرۃ : 210 )

مولانا مودودی ؒ اس آیت کی تشریح میں  لکھتے ہیں : " یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں، حتّٰی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بےپردہ نہیں کردیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بےمعنی ہوجاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔

 اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آ جائیں گے، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکا دینے کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔

 ورنہ جب حقیقت بےنقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بےبسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟ اس وقت تو کوئی کٹّے سے کٹّا کافر اور بدتر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آگئی، تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔



(تفہیم القرآن ، سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :228)