قدیم اور جدید تعلیم

مولانا زاھد الراشدی 


مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  نا معلوم


۱۶ ستمبر کو جامعۃ العلوم الاسلامیۃ میر پور آزاد کشمیر کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں حاضری اور کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ علوم اسلامیہ کے مہتمم محترم حاجی بوستان صاحب ایک فکرمند اور باذوق بزرگ ہیں جو ایک عرصہ سے اس مشن پر کام کر رہے ہیں کہ دینی علوم اور عصری علوم میں امتزاج قائم کیا جائے اور قدیم تعلیم اور جدید تعلیم دونوں کے حوالہ سے نئی نسل کی ضروریات کا یکساں اہتمام کیا جائے۔ یہ جامعہ اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس کے علاوہ پورے ملک میں اور بہت سے ادارے اس فکر و ذوق کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔

عام طور پر قدیم علوم سے مراد وہ علوم لیے جاتے ہیں جو دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ جبکہ عصری و جدید علوم کا اطلاق ان علوم و فنون پر کیا جاتا ہے جن کی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان دونوں کا الگ الگ نظم ملک میں ہر سطح پر موجود ہے۔


قدیم اور جدید کی اصطلاح اور دینی و عصری علوم کا عنوان چونکہ رائج الوقت اصطلاح ہے اس لیے بات کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے میں بھی یہی اصطلاح استعمال کیا کرتا ہوں۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے اس عنوان یا اصطلاح سے اتفاق نہیں ہے، اور آج کی محفل میں اسی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ قدیم علوم میں قرآن کریم، حدیث و سنت، اور فقہ و شریعت کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور انہیں دینی علوم کہا جاتا ہے۔ جبکہ جدید علوم یا عصری علوم انگریزی زبان، سائنس، میڈیکل، انجینئرنگ، قانون، سوشیالوجی، ریاضی اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے وہ علوم و فنون سمجھے جاتے ہیں جن کی تعلیم کالج اور یونیورسٹی میں دی جاتی ہے۔ مجھے اس میں یہ اشکال ہے کہ قرآن کریم کو جدید کے مقابلے میں قدیم کہنا درست نہیں ہے۔ قرآن کریم حادث کے مقابلہ میں بلاشبہ قدیم ہے اور وہ ہمارا اعتقادی مسئلہ ہے۔ لیکن جدید کے مقابلے میں قرآن کریم یا حدیث و سنت کو قدیم قرار دینا یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ یہ پرانے علوم ہیں جن کا زمانہ گزر چکا ہے اور آج ان کی جگہ نئے علوم و فنون نے لے لی ہے۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے، اس لیے کہ قرآن و سنت قیامت تک کے لیے ہیں اور ماضی کی طرح حال کا زمانہ، بلکہ آنے والا مستقبل بھی قرآن و سنت کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ اور قرآن کریم کی ٹرم قیامت تک باقی رہے گی۔

قدیم اور جدید علوم کی اس تقسیم سے جو نفسیاتی اور ذہنی ماحول بنتا ہے وہ یہ ہے کہ آج کی اصل ضرورت تو وہ علوم و فنون ہیں جو جدید اور عصری کہلاتے ہیں جبکہ قرآن و سنت کا تعلق ماضی سے ہے اور ماضی کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھنے اور برکت و ثواب کے حصول کے لیے ان کی تعلیم حاصل کرنے کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس تاثر اور نفسیاتی ماحول کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ یہ ذہن بنانے کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم ہماری بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ یہ فرد کی ضرورت بھی ہے، خاندانی نظام و ماحول کی ضرورت بھی ہے، معاشرہ اور سوسائٹی کی ضرورت بھی ہے، اور قومی بلکہ بین الاقوامی ضروریات بھی قرآن و سنت کے علوم سے وابستہ ہیں۔

دوسری بات جو مجھے بہت کھٹکتی ہے بلکہ اس پر سخت غصہ آتا ہے کہ مدارس کے بارے میں جب بھی اصلاحات کی بات کی جاتی ہے، وہ اصلاحات صحیح ہوں یا غلط یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن اسے عنوان یہ دیا جاتا ہے کہ ہم دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ دینی مدارس نہ صرف قومی دھارے کا حصہ ہیں بلکہ وہ نظریاتی اور تہذیبی بنیادیں فراہم کرتے ہیں جو قوم کی اساس اور بنیاد ہیں۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومی دھارے کا مطلب کیا ہے اور خود اس کا دائرہ کیا ہے؟ ہر وہ شعبہ جو قوم اور معاشرہ کی کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کر رہا ہے وہ قومی دھارے کا حصہ ہے۔ تاجر، وکلاء، انجینئر، ملازمین، سائنس دان، ڈاکٹر صاحبان، سیاست دان، صحافی، اساتذہ، اور دیگر شعبوں کے افراد قوم کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہیں۔ اور ہر ایک صرف اپنے شعبہ میں کام کرتا ہے، دوسرے شعبوں میں اس کا کوئی کردار موجود نہیں ہے۔ انجینئر صرف اپنے شعبہ میں مصروف رہتا ہے اور ڈاکٹری اور وکالت کے کام میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ان میں کسی بھی شعبہ کے ماہرین صرف اپنے شعبہ تک محدود رہتے ہیں اور ان پر یہ الزام نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے شعبوں سے لا تعلق کیوں ہیں اور ان کا علم کیوں نہیں رکھتے؟

سوال یہ ہے کہ یہ اصول علماء کرام اور دینی علوم کے لیے تسلیم کیوں نہیں کیا جا رہا۔ حالانکہ وہ قوم کی ایک بڑی ضرورت پوری کرنے میں شب و روز مصروف رہتے ہیں۔ مسجد و مدرسہ قومی ضروریات میں سے ہیں اور ان کے لیے افرادی قوت کی فراہمی یہ مدارس ہی کر رہے ہیں۔ جس طرح قوم کی سیاسی راہ نمائی کے لیے ایک مستقل طبقہ اپنے دائرہ میں کام کر رہا ہے، اسی طرح دینی راہ نمائی کے لیے بھی ایک مستقل طبقہ مصروف عمل ہے۔ اگر ملک کی بنیاد اسلام پر ہے، دستور کی بنیاد اسلام پر ہے، اسلام قومی ضروریات کا اہم حصہ ہے اور دینی تعلیمات کی قوم کے ہر طبقہ کے لیے ہر سطح پر ضرورت موجود ہے تو یہ ضرورت پوری کرنے والے طبقہ کو قومی دھارے سے باہر تصور کرنے اور اسے قومی دھارے میں لانے کا عنوان اختیار کر کے اس کے امتیاز و تشخص سے محروم کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟

یورپ اور امریکہ میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ وہاں مذہب کا معاشرہ کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہنے دیا گیا اور مذہب صرف ذاتی اختیار کی بات بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں یا کسی بھی اسلامی ملک میں مذہبی سرگرمیوں اور تعلیمات کو قومی دھارے سے خارج اور قومی ضروریات سے لا تعلق قرار دینا دراصل پاکستان کے نظریاتی تشخص اور دستور پاکستان کی اسلامی بنیادوں کی نفی ہے، اور اسلام کے معاشرتی کردار سے نعوذ باللہ دست برداری کے مترادف ہے۔

اس لیے میں علماء کرام اور ارباب دانش سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دینی علوم کو عصری علوم سے الگ تسلیم کر کے اور قدیم و جدید کی تفریق کو قبول کر کے اس سازش کو کامیاب نہ بنائیں جو مسلم معاشرہ کے اجتماعی شعبوں کو دین سے الگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ قرآن و سنت صرف ماضی کے علوم نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے علوم بھی ہیں۔ جبکہ عالمی حالات اس رخ کی طرف جاتے ہوئے واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں کہ پوری نسل انسانی کے مستقبل کی فکری، تہذیبی اور معاشرتی راہ نمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ قرآن و سنت ہی ہوں گے۔