مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ
ایسے وقت میں کہ انسانیت پر نزع کا عالم طاری تھی، دنیا اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ ہلاکت کے مہیب و عمیق غار میں گرنے والی تھی، عین وقت پر اللہ تعالٰے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ اس جاں بلب انسانیت کو نئی زندگی بخشیں اور لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔
ایسے وقت میں کہ انسانیت پر نزع کا عالم طاری تھی، دنیا اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ ہلاکت کے مہیب و عمیق غار میں گرنے والی تھی، عین وقت پر اللہ تعالٰے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ اس جاں بلب انسانیت کو نئی زندگی بخشیں اور لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔
الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴿ابراہیم:١﴾
الرٰ۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر اتاری ہے تاکہ تم تمام لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاؤ اس خدا کے راستہ کی طرف جو غالب اور ستودہ صفات ہے۔
آپ نے انسانیت کو صرف ایک بندگی کی دعوت دی، اور دنیا کی ساری بندگیوں اور غلامیوں سے نجات دی، زندگی کی حقیقی نعمتیں (جن سے انسانوں نے اپنے کو محروم کر دیا تھا) دوبارہ ان کو عطا کیں اور وہ طوق و سلاسل ان سے جدا کئے جو انہوں نے بلا ضرورت اپنے اوپر ڈال لئے تھے۔
محمد رسول اللہﷺ ان کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، بُرائی سے روکتے ہیں، پسندیدہ چیزیں حلال کرتے ہیں گندی چیزیں حرام ٹھہراتے ہیں، اس بوجھ سے نجات دلاتے ہیں جس کے تلے وہ دبے ہوئے تھے ان پھندوں سے نکالتے ہیں جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔
يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ (الاعراف۔۱۵۷)
آپ کی بعثت نے انسانیت کو نئی زندگی ، نئی روشنی ، نئی طاقت ، نئی حرارت ، نیا ایمان ، نیا یقین ، نئی نسل ، نیا تمدن ، نیا معاشرہ عطا کیا ، آپ کی آمد سے دنیا کی نئی تاریخ اور انسانیت کے کام کی عمر شروع ہوتی ہے کہ خود فراموشی و خود کُشی میں جو زمانہ گزرا ، وہ اعتبار کے قابل نہیں ،اور بینا و نابینا اور زندہ و مردہ ایک پلرے میں رکھے نہیں جا سکتے۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ﴿١٩﴾ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ﴿٢٠﴾ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ﴿٢١﴾ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ ط (الفاطر ۱۹ تا ۲۲)
اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اور تاریکی اور روشنی اور نہ چھاؤں اور دھوپ اور زندہ آدمی اور مردہ برابر نہیں ہو سکتے۔
جاہلیت و اسلام کے درمیان جو فاصلہ تھا اس سے بڑا کوئی فاصلہ نہیں ، لیکن یہ فاصلہ جس سُرعت کے ساتھ طے ہوا دنیا میں اس کی بھی نظیر نہیں ، دنیا نے آپ کی رہنمائی میں یہ طویل سفر کس طرح طے کیا؟ اور جاہلیت سے اسلام کی طرف کس طرح پہونچی؟ آئندہ صفحات اسی سوال کے جواب اور اسی اجمال کی تفصیل کے لئے ہیں۔(1)
-------------------------------------
1- انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ