شیشہ گری کی صنعت کو اسلامی دور میں عروج حاصل ہوا

سلمیٰ حسین (٭)

(بی بی سی اردو ، تاریخ اشاعت :  3 جولائ 2018ء )

شیشہ گری کے نواردات کی آج بھی اسی قدر پزیرائی ہے

ساتویں صدی سے 13 ویں صدی کا دور دنیا میں اسلام کا سنہری دور تھا جب اسلام کا پرچم دنیا کے گوش و کنار میں آن بان سے لہرا رہا تھا۔

اسلامی مملکت کے سربراہ اچھے حکمران ہونے کے ساتھ فنون لطیفہ، علم و دانش اور صنعت گری کے دلدادہ تھے اور انھوں نے دریا دلی کے ساتھ علوم و فنون اور صنعت و حرفت کی سرپرستی اور قدرو منزلت کی۔

اسلامی دور مختلف قسم کی صنعت کے لیے شہرت رکھتا ہے جن میں فن شیشہ گری بھی شامل ہے۔ خاندان فاطمیہ اور خاندان عباسیہ کے سلاطین و خلفا نے فن شیشہ گری کو فروغ دیا جن میں ابن الہیثم کی عینک کے شیشوں سے لے کر ابن مہین کے کیمیائی تھرمس اور امیر قاسم کی تعمیر کردہ مساجد و مدارس کے خوبصورت چراغ اور شمع دان شامل ہیں۔


الغرض آٹھویں صدی کے ابتدائی دور میں فن شیشہ گری اپنے عروج پر تھا۔ شیشے سے بنے آرائشی سامان نے سلاطین و امرا کے محلات کو سجا دیا۔ شہر چراغوں سے بقعۂ نور ہو گئے اور علم میں کیمیا میں جدت نے اس فن کو نئی توانائی بخشی۔

عہد وسطی کی مساجد میں اور کلیساؤں میں فن شیشہ گری کے حیرت انگیز نمونے نظر آتے ہیں
اس فن کی ترقی میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کی کاوشیں اور ذہن شامل تھے اور شاہی سرپرستی سب کے لیے یکساں تھی۔

پرانے مراکز کے ساتھ ساتھ نئے مراکز وجود میں آئے اور طبی استعمال کے سامان بننے لگے جو طب کے فروغ کا موجب بنے۔ یہ جہاں خوبصورت تھے وہیں کار آمد بھی تھے۔


وقت کے ساتھ صاف و شفاف شیشہ رنگدار ہونے لگے۔ امرا و وزرا اور حکمرانوں کے محل و منار کی کھڑکیوں اور دروازوں پر رنگین شیشے جڑ گئے جن سے نہ صرف خوبصورتی دوبالا ہوئی بلکہ باہر کی تیز دھوپ سے بچاؤ کا سامان بھی ہوا۔

صراحیوں پر گل کاری کا ایک نمونہ یہاں دیکھا جا سکتا ہے
آہستہ آہستہ رنگین شیشے بھی منقش ہونے لگے۔ گلدانوں کی نقاشی کے ساتھ امرا و وزرا کی تصاویر اور دربار کے تفریحی مناظر کی نقاشی ہونے لگی۔ یہیں سے ٹِنٹڈ گلاس یعنی رنگین شیشے کی ابتدا ہوئی جو آج تک چلی آ رہی ہے۔

یورپی ممالک نے رنگين شیشوں کا استعمال یہیں سے سیکھا اور ان کے رنگدار اور منقش شیشوں سے سجے کلیسا آج بھی نظر آتے ہیں۔


وقت کے ساتھ شیشے پر میناکاری، سونے چاندی کی کندہ کاری، قیمتی پتھر کا جڑاؤ کا کام نظر آنے لگا۔ الغرض شیشہ مثل دلھن تھا جس کا سنگھار ہر ممکن طریقے سے کیا جانے لگا اور مسلم دنیا کے فنکاروں نے دنیا کو اپنے فن سے انگشت بدنداں کر دیا۔

فارس، مصر و شام جیسے ممالک اس فن کی جدت میں دوسری مملکتوں سے آگے تھے۔ بلوری شیشے کی تراش و خراش انھیں ہنرمندان فن کے ذہنی اختراع کا نتیجہ تھی۔

اسلامی دور میں شیشہ گری کی صنعت کو زبردست فروغ حاصل ہوا
بلوری پتھر افریقہ سے منگایا جاتا لیکن اس کی تراش و خراش مصر و شام میں ہوا کرتی تھی۔

بلور کے خوبصورت گلدان، شمع دان، شراب کے پیالے، صراحیاں اس قدر خوبصورتی سے بنائی جاتی تھیں کہ لوگ دنگ رہ جاتے۔

مصر کے خلیفہ العزیز کے عہد حکومت میں بلوریں پتھر کی تراش کا کام شروع ہوا تھا۔ شیشے کے برتنوں پر گل بوٹوں کی نقاشی کے علاوہ خطاطی کی کندہ کاری کا بھی آغاز ہوا۔


اب بھی دنیا بھر کے میوزیم میں اسلامی فنون کے نمونوں کی نمائش واقعی حیرت انگیز ہے کیونکہ اس وقت مشینیں نہیں تھیں اور صنعت و حرفت کی ساری ترقی دو ہاتھوں کے بل پر تھی۔

شراب کے پیالے کے مختلف نمونے دنیا بھر میں متعارف ہوئے
ترکی کے کئی نسخوں میں شیشے سے بنی دواؤں کی بوتلیں اور طبی تھرمس کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ اسلامی ممالک میں بنا رنگین میناکاری سے مزین شیشے کا پیالہ 14 ویں صدی کی ہنر مندی کا شاہکار تھا اور یہ 20-30 لاکھ پونڈ میں فروخت ہوا۔

سائنس کی ترقی کے ساتھ شیشہ گروں نے دوربین، خوردبین اور عینک کی ایجاد کی۔ ان ایجادات نے علمی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ اسلامی ممالک کے ہنرمندان نے فن شیشہ گری کی تاریخ بدل دی وہ فن جو صرف آرائشی سامان کے لیے تھا اب سائنسی ایجادات کا موجب بن رہا تھا۔

یہ جائے حیرت ہے کہ 14 ویں سے 19 ویں صدی تک چین فن شیشہ گری سے نابلد تھا۔ ان کی کھڑکیوں میں شیشے کے بجائے کاغذ لگائے جاتے تھے اور انھوں نے شیشہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی۔

--------------------------------------------------------------------

٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین بی بی سی کے لیے  مضامین کی ایک سیریز لکھتی ہیں ۔