مسلمانوں کی سب سے اہم ترین ضرورت

عصر حاضر میں مسلمانوں کی سب سے اہم ترین ضرورت یہ ہےکہ ان میں اس دین پر ایمان تازہ ہوجائے جس کا نام تو وہ لیتے ہیں لیکن حقیقتا وہ اس سے نا آشنا ہیں ان کا تعلق اس سے زیادہ تر نسلی ہے، انہوں نے اس کو سمجھ نے کی بہت کم کوشش  کی ہے ۔  

اسلام کا مطالبہ  یہ ہے کہ مسلمانوں پر پوری انسانیت کی ذمہ داری ہے ان کا فرض ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے انسانوں کی پاسبانی کریں اور اللہ کے دین کی طرف رہنمائی کا فرض انجام دیں انسانوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں اور دنیا کی تنگی سے نکال کر وسعت میں لانا چاہتےہیں ۔

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ      (سورۃ آل عمران : 110)

 اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں ۔


وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا 
 اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک " امّتِ وَسَط " بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ 
سورۃ البقرۃ : 143

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ زمانہ ایک بہتا دریا کی طرح ہوتا ہے جس کا ہر موج دوسرے موج سے مربوط ہوتا ہے کوئی خطۂ ارض خواہ کسی بھی انسانی گروہ پر مشتمل ہو زمانہ کے اثرات اور انقلابات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جدید ذرائع مواصلات نے زمانہ کے اثرات کو زیادہ تییز اور فوری کردیا ہے ۔ 

مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء کرام اور دانشورں  کی سرگرمیاں سیاست اور سلطنتوں سے وابستہ نہیں رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بارہا سیاسی زوال کے زمانوں میں بھی جید اور ممتاز علماء کرام پیدا ہوئے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حصول علم اور اس کی نشر و اشاعت کے محرکات اس امت کے باطن میں پائے جاتے ہیں وہ رضائے الی کا حصول اور انبیاء کرام سے  نسبت اور دینی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس ہے ۔

ساتویں صدی عیسوی کے آخر میں سقوط بغداد کے بعد آٹھویں صدی کے شروع ہی میں شیخ تقی الدین (م 702ھ ) جیسے محدث علامہ علاء الدین (714ھ )  جیسے متکلم ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (728ھ) جیسے امام مجتہد ، علامہ شمس الدین الذہبی ( 748ھ ) جیسے محدث و مورخ اور علامہ ابو حیان نحوی ( 745ھ ) جیسے ماہر فن علماء پیدا ہوئے ۔

------------------------------------------------------
از افادات مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ