امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ

مولانا الیاس عطار قادری

اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں 10 شوال 1272 ھ بمطابق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ آپؒکا نام مبارک محمد رکھا گیا اور آپؒ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ عموماً ہر زمانے کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل بچوں کا ہے کہ سات آٹھ سال تک تو انہیں کسی بات کا ہوش نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں مگر اعلیٰ حضرتؒ کا بچپن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کم سنی، خرد سالی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ ساڑھے چار سال کی ننھی سی عمر میں قرآن مجید ناظرہ مکمل پڑھنے کی نعمت سے باریاب ہو گئے۔

 چھ سال کے تھے کہ ربیع الاوّل کے مبارک مہینے میں منبر پر جلوہ افروز ہو کر میلاد النبیؐ کے موضوع پر ایک بہت بڑے اجتماع میں نہایت پُرمغز تقریر فرما کر علمائے کرام اور مشائخ عظام سے تحسین و آفرین کی داد وصول کی۔ نماز سے تو عشق کی حد تک لگائو تھا، چنانچہ نماز پنج گانہ باجماعت تکبیر اولیٰ کا تحفظ کرتے ہوئے مسجد میں جا کر ادا فرمایا کرتے، جب کبھی کسی خاتون کا سامنا ہوتا تو نظریں نیچی کرتے ہوئے سر جھکا لیا کرتے۔

 سات سال کے تھے کہ ماہ رمضان المبارک میں روزے رکھنے شروع کر دئیے تھے۔ آپؒ نے صرف تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام مروجہ علوم کی تکمیل اپنے والد ماجد رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان سے کر کے سند فراغت حاصل کر لی۔ فتویٰ صحیح پا کر آپؒکے والد ماجد نے مسندِ اِفتا آپؒکے سپرد کر دی اور آخر وقت تک فتاویٰ تحریر فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو بے اندازہ علوم جلیلہ سے نوازا تھا۔



 آپؒ نے کم و بیش 50 علوم میں قلم اٹھایا اور قابل قدر کتب تصنیف فرمائیں۔ آپؒ کو ہر فن میں کافی دسترس حاصل تھی۔ علم توقیت میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملا لیتے۔ وقت بالکل صحیح ہوتا۔ علم ریاضی میں آپؒ یگانۂ روزگار تھے۔ چنانچہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین جوکہ ریاضی میں غیرملکی ڈگریاں اور تمغہ جات حاصل کئے ہوئے تھے، آپؒ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ ارشاد ہوا، فرمائیے! انہوں نے کہا وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عرض کروں۔ اعلیٰ حضرتؒ نے فرمایا، کچھ توکہیے۔ وائس چانسلر نے سوال پیش کیا تو آپؒ نے اسی وقت اس کا تشفی بخش جواب دے دیا۔ انہوں نے انتہائی حیرت سے کہا کہ میں اس مسئلے کیلئے جرمنی جانا چاہتا تھا، اتفاقاً میرے دینیات کے پروفیسر سید سلیمان اشرف نے میری رہنمائی فرمائی اور میں یہاں حاضر ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ اسی مسئلے کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب آپؒ کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہو گئے۔

ایک مرتبہ ریاست نان پارہ کے نواب کی مدح (یعنی تعریف) میں شعرا نے قصائد لکھے، کچھ لوگوں نے آپؒ سے بھی گزارش کی کہ حضرت آپؒ کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپؒ نے اس کے جواب میں ایک نعت لکھی جس کا مطلع یہ ہے وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں میرے محبوب کا حسن و جمال درجۂ کمال تک پہنچتا ہے ،ہر پھول کی شاخ میں کانٹے ہوتے ہیں مگر گلشن آمنہ کا ایک یہی مہکتا پھول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا ہے جو کانٹوں سے پاک ہے، ہر شمع میں یہ عیب ہوتا ہے کہ وہ دھواں چھوڑتی ہے مگر آپؐ بزم رسالت کی ایسی روشن شمع ہیں کہ ہر طرح کے عیب سے پاک ہیں۔ 25صفر المظفر 1340ھ بمطابق 28 اکتوبر 1921ء کو جمعۃ المبارک کے دن عین اذانِ جمعہ کے وقت اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت، پروانۂ شمع رسالت، حامی سنت، عالم شریعت، پیر طریقت علامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ احمد رضا خانؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔

آپؒ کا مزار پُرانوار مدینۃ المرشد بریلی شریف میںزیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ (آمین)


==========



روز نامہ دنیا ،  4 نومبر 2018