صحیفہ ہمام بن منبہ: تحقیق کا شاہ کار ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

(تاریخ اشاعت : 25 اکتوبر 2018)

 ڈاکٹر محمد حمید اللہ (1908۔2002ء ) نے اسلامیات کے مختلف پہلووں پر تصنیف و تالیف، ترجمہ اور تحقیق کی خدمت انجام دی ہے۔ وہ بیسوی صدی عیسوی کے ان نام ور محققین میں سے ہیں جنھیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ بہت سی زبانوں پر انھیں عبور حاصل تھا، جن میں انھوں نے خود بھی لکھا ہے اور ان کی کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے ہیں ۔ ان کی خدمات کا ایک اہم پہلو قدیم مصادر و مراجع کی تلاش اور مخطوطات کی تحقیق و تدوین ہے۔ ان کے تحقیقی کاموں میں صحیفۂ ہمام بن منبہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ان کی تحقیق کا شاہ کار ہے ۔

اشاعتیں

  1933ء میں ڈاکٹر حمید اللہ کو برلن کے سرکاری خزانے میں صحیفۂ ہمام بن منبہ کا ایک ناقص مخطوطہ ملا۔ اسے انھوں نے وہیں نقل کیا اور اس تلاش میں رہے کہ اس نادرِ روزگار کتاب کا کوئی اور نسخہ مل جائے تو اس سے موازنہ کرکے اسے شائع کریں ۔ بیس(20) سال کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہوئی۔1953ء میں انھیں اس کا دوسرا نسخہ دار الکتب الظاہریۃ د مشق میں ملا۔ دونوں کا مقابلہ کر کے انھوں نے ایک محقق ایڈیشن تیار کیا، جوسب سے پہلے دمشق کی عربی اکیڈمی المجمع العلمی العربی کے مجلہ میں 1953ء/ 1372ھ کے چار شماروں میں بالاقساط شائع ہوا ۔  پھر اکیڈمی ہی نے اسے بعض اصلاحات کے ساتھ الگ سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی مولانا محمد حبیب اللہ نے کیا، جو 1956ء میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔ تیسرا ایڈیشن عربی متن اور اردو ترجمہ کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ ساتھ ہی اس میں عربی دیباچہ کا اردو ترجمہ ضروری اصلاح و ترمیم کے بعد شامل کیا گیا ۔ اس کے کچھ ایڈیشن فاضل محقق کے علم و اطلاع کے بغیر بھی شائع ہوئے۔ 1988ء میں کراچی(پاکستان) کے ایک علم دوست جناب رشید اللہ یعقوب نے ان کی اجازت سے دو ہزار نسخے چھپواکر صدقۂ جاریہ کے طور پر تقسیم کیے تھے۔ ان کی عنایت سے ایک نسخہ راقم الحروف کو بھی حاصل ہوا تھا۔ڈاکٹر موصوف نے اسے طبع چہارم قرار دیتے ہوئے اس پر اپنے مختصر پیش لفظ میں لکھا ہے:


’’صحیفۂ ہمام بن منبہ 1953ء میں عربی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا اردو ترجمہ تیسری مرتبہ1956ء میں حیدرآباد دکن سے طبع ہوا۔ اس کے کئی ایڈیشن انگریزی، فرنچ اور ترکی میں شائع ہوئے اور کچھ ایڈیشن بغیر علم و اطلاع بھی شائع ہوئے ۔ اب اس کتاب کا انگریزی جدید ایڈیشن آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز طبع کر رہا ہے۔‘‘(ص۸)

صحیفۂ ہمام بن منبہ کیا ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کا شمار کثیر الروایۃ صحابہ میں ہوتا ہے۔اسی طرح ان سے فیض اٹھانے والے بھی بہت بڑی تعداد میں تھے۔علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے لکھا ہے کہ ’’ ابو ہریرہؓ سے تقریباً آٹھ سو (800) یا اس سے زیادہ صحابہ، تابعین اور دیگر اہل ِ علم نے حدیث کی روایت کی ہے۔‘‘( تہذیب التہذیب:12؍265(۱۲۱۶) حضرت ابو ہریرہؓ کا حافظہ بہت اچھا تھا،اس کے باوجود ان کی روایت کردہ حدیثیں ان کی حیات ہی میں ضبطِ تحریر میں لے آئی گئی تھیں ۔ان کے متعدد شاگرد ان سے جو کچھ سنتے تھے، لکھ لیا کرتے تھے۔ بسا اوقات حضرت  ابو ہریرہؓ بھی اپنے شاگردوں کو حدیثیں املا کرادیا کرتے تھے۔ان کے شاگردوں میں سے ایک حضرت ہمام بن منبہؒ ہیں ۔ان کا تعلق صنعاء (یمن) سے تھا۔انھوں نے حضرت ابو ہریرہؒ کی شاگردی اختیار کی اور ان سے احادیث سنیں ۔ان میں سے ایک سو اڑتیس(۱۳۸)  احادیث کو انھوں نے ایک صحیفے میں مرتب کیا، جس کا نام ’الصحیفۃ الصحیحۃ‘ رکھا۔یہ احادیث ہمام سے ان کے شاگرد معمر بن راشد یمنی نے اور معمر سے ان کے شاگردعبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری نے اخذ کیں ۔عبد الرزاق سے ان احادیث کی روایت کرنے والے ان کے دو شاگرد اہم ہیں ۔ ایک امام احمد بن حنبل (م۲۴۱ھ)، جنھوں نے ان احادیث کو اپنی ضخیم تالیف ’المسند‘ کے’مسند أبی ھریرۃ‘ کی ایک خاص فصل میں ضم کردیا۔ دوسرے  ابو الحسن بن یوسف السلمی، جن کے ذریعے اس صحیفے کی مستقل روایت کا سلسلہ جاری رہا۔چند نسلوں کے بعد عبد الوہاب بن مندہ کا زمانہ آیا ۔ ان کے دو شاگرد مشہور ہوئے۔ایک ابو الفرج مسعود بن الحسن الثقفی۔ان کے سلسلے میں کم از کم ۸۵۶ھ تک اس صحیفہ کے درس و روایت کی اجازت دینے کا سلسلہ جاری رہا۔اس کا ایک نسخہ برلن کی سرکاری لائبریری میں محفوظ تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد اسے شہر ٹیوبنگن منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کی کتابت بارہویں صدی ہجری کے ابتدائی زمانے کی ہے۔ دوسرے محمد بن ا حمد اصفہانی، جن کے شاگرد ایک خراسانی عالم محمد بن عبد الرحمٰن المسعودی نے ۵۷۷ھ میں مدرسۂ ناصریہ میں اس کا درس دیا۔اس کا ایک نسخہ دمشق کی لائبریری دار الکتب الظاہریۃ میں محفوظ ہے۔ یہ  چھٹی صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔

ڈاکٹر حمید اللہ کا تحقیقی کام

ڈاکٹر حمید اللہ نے پہلے صحیفۂ ہمام بن منبہ کے مذکورہ دونوں نسخوں (نسخۂ برلن اور نسخہ دمشق) کو سامنے رکھ کر ایک محقق نسخہ تیار کیا ، پھر مسند احمد بن حنبل میں محفوظ فصل سے اس کا مقابلہ کیا ۔ ان کا بیان ہے کہ دونوں مخطوطوں میں کاتب نے روایت کے بعض اختلافات کو حاشیہ پر یوں لکھاہے : أؤخر،أدّخر۔ترکتکم،تُرکتم۔یحیّونک،یجیبونک۔فزادوا، فزاووہ۔ بطعا مکم، بطعامیہ۔حین۔حینئذ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان اختلافات سے حدیث کا مفہوم بالکل نہیں بدلتا۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مسند احمد بن حنبل میں بھی ایسے چند اختلافات حاشیے پر درج ہیں ۔ دونوں مخطوطوں کا مقابلہ مسند احمد سے کرنے کا جو نتیجہ نکلا اسے انھوں نے درج ذیل پانچ نکات میں بیان کیا ہے:

1۔مسند احمد اور دونوں مخطوطات میں احادیث کی ترتیب یکساں ہے، بجز احادیث نمبر ۱۳، ۹۳، ۱۲۶،۱۳۸ کے، جن میں تقدم و تاخر ہوا ہے، لیکن الفاظ بعینہ وہی ہیں ۔

2۔مسند احمد میں ایک پانچ لفظی مختصر حدیث (اذا قاتل أحدکم فلیجتنب الوجہ )   ہے، جو ان مخطوطوں میں نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف مخطوطوں کی حدیث نمبر۵ (فی الجنۃ شجرۃ یسیر الراکب في ظلّھا مائۃ عام لایقطعھا)مسند احمد میں نہیں ہے۔

3۔ مخطوطوں کی حدیثوں ۲۹ اور ۴۰میں حدیث کا ایک ٹکڑا (وسمّی الحرب خدعۃ) مکرّر آیا ہے۔ مسند احمد میں یہ صرف ایک جگہ (حدیث نمبر ۴) آیا ہے۔

4۔ بعض ذیلی چیزوں میں ، جن سے اصل حدیث پر اثر نہیں پڑتا، دونوں میں کہیں کہیں فرق ہے۔ مثلاً لفظ ’اللہ‘ کے بعد کسی میں ’تعالیٰ‘ ہے تو کسی میں ’ عز و جل‘ّ، یا کسی میں ’نبی‘ ہے تو کسی میں ’ رسول اللہ‘ یا’ ابو القاسم‘، جو سب مترادف ہیں ۔

5۔ چند ایسے خفیف فرق ہیں جو عام طور پر ایک ہی کتاب کے دو مخطوطوں میں ملتے ہیں ، جس سے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

دونوں مخطوطوں اور مسند احمد کا تقابل کرنے کے بعد ڈاکٹر حمید اللہ نے جو تبصرہ کیا ہے وہ بڑا اہم ہے۔ لکھتے ہیں :

’’جہاں مسند احمد بن حنبلؒ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بعد کی صدیوں کے محدثوں نے صحیفۂ ہمام کے دیانت دارانہ تحفظ میں کوئی کوتاہی نہ کی تو ساتھ ہی صحیفۂ ہمام کے نو دست یاب شدہ مخطوطوں سے خود اس کا بھی یقین ہوجاتا ہے کہ امام ابن حنبلؒ نے پوری دیانت داری سے صحیفۂ ہمام کے متعلق اپنی معلومات محفوظ کی ہیں ۔ انہیں کیا خبر تھی کہ ان کی وفات کے ساڑھے گیارہ سو سال بعد ان کی علمی دیانت داری کی جانچ ہوگی۔ اگر انھوں نے صحیفۂ ہمام کی حد تک جعل سازی نہیں کی تو اپنی مسند کے باقی اجزا میں بھی عمداً کوئی ایسی   بد دیانتی نہیں کی ہوگی۔ ‘‘(ص۸۴)

صحیفۂ ہمام بن منبہ کے اس تحقیق شدہ ایڈیشن میں ایک سو اڑتیس(۱۳۸) حدیثیں ہیں ۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے الگ سے تینوں نسخوں کے اختلافات کی نشان دہی کی ہے ، البتہ  حواشی میں انھوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ احادیث اسی سند کے ساتھ متداول کتبِ حدیث میں سے کس کس کتاب میں موجود ہیں ۔ان کا استقصا کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے پچیس (۲۵) احادیث بخاری و مسلم دونوں میں ہیں ، بیس(۲۰) احادیث صرف بخاری میں اور چھیالیس(۴۶) احادیث صرف مسلم میں ، کچھ احادیث دیگر کتب حدیث میں ۔ بعض احادیث دیگر سندوں سے کتب ِ حدیث میں مروی ہیں ۔

ڈاکٹر حمید اللہ کے تحقیقی کام کی اہمیت

 ڈاکٹر حمید اللہ کاکام تاریخ ِ تدوینِ حدیث کے سلسلے میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ حجیت ِ حدیث پر اعتراض کرنے والے عموماً یہ کہتے رہے ہیں کہ احادیث کی تدوین رسول اللہ ﷺ کی وفات کے تین سو سال بعد ہوئی ہے، اس بنا پر وہ اعتبار کے قابل نہیں ہیں ۔ صحیفہ ٔ ہمام بن منبہ کی دریافت ان معترضین کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس لیے کہ یہ صحیفہ جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد مدوّن ہو گیا تھا۔ اس میں موجود احادیث بعد میں مرتّب و مدوّن ہونے والی دیگر کتبِ حدیث میں بھی من وعن موجود ہیں ۔ یہ چیز تدوین ِحدیث کے پورے عمل کو اعتبار و استناد بخشتی ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اس پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے:

’’ پہلی صدی ہجری کے تقریباًوسط کی یہ تالیف تاریخی نقطۂ نظر سے ایک گراں مایہ یادگار ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حدیث نبوی آں حضرت ﷺ کے دو تین سو سال بعدلکھی جانی شروع ہوئی اور احمد بن حنبلؒ، بخاریؒ، مسلمؒ ، ترمذیؒ جیسے ائمہ کو بھی جعل ساز قرار دینا چاہتے ہیں ، ان کی دلیل زیادہ تر یہی رہی ہے کہ عہد نبوی یا عہد صحابہ کی حدیث کے متعلق کوئی یادگار موجود نہیں ہے۔ اب عہد صحابہ کی یہ یادگار ہمارے ہاتھ میں ہے اور مقابلہ کرنے پر نظع آتا ہے کہ بعد کے مؤلفوں نے مفہوم تو کیا، کوئی لفظ تک نہیں بدلا۔ صحیفۂ ہمام کی ہر حدیث نہ صرف صحاح ستہ میں ابو ہریرہؓ کے حوالے سے ملتی ہے، بلکہ مماثل مفہوم دوسرے صحابہ سے بھی ان کتابوں میں ضرور ملتا اور اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کا انتساب جناب رسالت مآبﷺ کی طرف فرضی اور بے بنیاد نہیں ۔‘‘(ص۷۲۔۷۳)

اس پہلو کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب آگے ایک اور جگہ     رقم طراز ہیں :

’’ہمام بن منبہ کی وفات ۱۰۱ھ میں ہوئی۔ انھوں نے ابو ہریرہؓ سے احادیث کا یہ مجموعہ ۵۸ھ( جب کہ حضرت ابو ہریرہؓ کا انتقال ہوا) سے پہلے ہی حاصل کیا ہوگا۔ اس پر اب (۱۳۷۳ھ میں ) سوا تیرہ سو سال میں اس مجموعے کی عبارت نہیں بدلی، بلکہ بہ جنسہ باقی رہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سننے اور ابو ہریرہؓ کے اس کو لکھ لینے کی مختصر مدت میں اس میں تبدیل و تحریف کا امکان نہ ہونا چاہیے ، خاص کر اس لیے کہ یہی حدیثیں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے علاوہ دوسرے صحابہ سے بھی مروی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا سلسلۂ اسناد مختلف رہا ہے۔ بعض حدیثوں کی تو کئی کئی صحابہ نے روایت کی ہے…. اس طرح حضرت ابو ہریرہؓ کی جانب کسی خفیف سے خفیف جعل سازی یا علمی    بد دیانتی کا گمان تک نہیں رہتا۔ یہ حدیثیں بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کے دیگر مؤلفوں نے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں اپنے دل سے نہیں گھڑیں ، بلکہ عصر اوّل سے بہ حفاظت چلی آنے والی چیزوں ہی کو اپنی تالیفوں میں داخل کیا۔یہ صورت حال کتابتِ حدیث پر ہمارا عتماد مستحکم کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔‘‘(ص۸۴۔۸۵)

حیرت ہے کہ جو لوگ آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی احادیث کے استناد و اعتبار کو مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ دیگر پیغمبروں کے اقوال و ارشادات کی حفاظت کے سلسلے میں کتنی غفلت اور لاپروائی برتی گئی ہے اور دیگر تاریخی دستاویزات کس طرح زمانے کے دست برد کا شکار ہوتی رہی ہیں ۔ جو شخص بھی دیانت دارانہ طور پر دونوں کا موازنہ کرے گا، وہ حفاظت ِ حدیث کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو ضرور سراہے گا۔ اس نکتے کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:

’’حدیث نبوی اصل میں دو ستونوں پر قائم ہے: کتابت اور قرآت و سماعت اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں ۔ اگر کوئی شخص حدیث ِ نبوی کے تحفظ اور صحت میں جو حزم و احتیاط برتی جا رہی ہے، اس کا مقابلہ اسلام سے پہلے دوسرے پیغمبروں کی حدیثوں کے ساتھ جو معاملہ ہوا ،اس سے اور اسی طرح ہمارے اس موجودہ زمانے کی ’تاریخ‘ سے کرتا ہے جو اخبارات و جرائد کے عموماً جھوٹ اور سرکاری دستاویزوں کے مکّارانہ بیانات اور تدلیسات پر مبنی ہوتی ہے اور فکر سلیم سے کام لے تو اس پر حدیث کی فضیلت و فوقیت ثابت ہوجائے گی اور یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ محدثین کے کارنامے، عہدِ صحابہ سے لے کر آج تک، جو زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ سکے ہیں ، کتنی فوقیت رکھتے ہیں ! مسلمانوں کی حدیث اور غیروں کی حدیث میں وہی فرق ہے جو زمین و آسمان میں ۔ اور ان دونوں کے فرق کا کیا ٹھکانہ ہے۔ حدیث اسلامی کی خوبیوں پر نہ دشمن کا معاندانہ طعن و طنز پردہ ڈال سکتا ہے اور نہ دوستوں کی ناواقفیت۔‘‘(ص۸۹)

 تصحیحات

ایک محقق کا فرض ہے کہ دوران ِ تحقیق اگر اسے مؤرخین کے بعض بیانات میں تضاد نظر آئے تو ان کا محاکمہ کرے اور درست رائے کو راجح قرار دے۔ اسی طرح اگر اسے سابق محققین کی بعض فرا گزاشتیں نظر آئیں تو بر ملا ان کی نشان دہی کرے۔ ڈاکٹر صاحب نے صحیفۂ ہمام کی تحقیق و تدوین کے درمیان اس فرض کو بہ خوبی نبھایا ہے۔ چند مثالیں درج میں پیش کی جا رہی ہیں :

(۱) حضرت ہمام بن منبہؒ کا سنۂ وفات مورخین نے الگ الگ بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس سلسلے میں مختلف بیانات کا تذکرہ کیا ہے۔ان کے مطابق ابن سعد نے سنہ وفات۳۱ھ اورابن حبان نے ۳۱ھ یا ۳۲ھ قرار دیا ہے(تہذیب التہذیب،طبع حیدرآباد: ۱۱؍ ۶۷،      حالات نمبر۱۰۶، نیز ۱؍۵۷۴)جب کہ حاجی خلیفہ نے ۱۳۱ھ بیان کیا ہے۔ڈاکٹر حمید اللہ نے اس غلطی کی تصحیح ضروری سمجھی، چنانچہ انھوں نے ابن سعد کی ایک روایت یہ ذکر کی کہ ہمام بن منبہ کی وفات ۱۰۱ھ یا ۱۰۲ ھ میں ہوئی ۔ پھر حاشیہ میں لکھا ہے:

’’جیسا کہ ہم نے ابھی اوپر دیکھا، ابن سعد نے سنہ ایک سو ایک یا دوق ( سنۃ احدی أو اثنین و مائۃ) لکھا ہے۔ اور پرانے زمانے میں کسی کاتب کے سہو کے باعث وہ ’ اکتیس‘ ہوگیا۔ اور نووی وغیرہ ہر کسی نے وہی نقل کر دیا۔ البتہ بخاری کا سنہ ۲ھ کہنا ان کو اس سہو سے بچا لیتا ہے۔ وہ غالباً ۱۰۲ھ کہنا چاہتے ہیں ، جو ابن سعد کی بھی ایک روایت ہے۔‘‘(ص۷۵)

(۲)ڈاکٹر حمید اللہ نے صحیفۂ ہمام کے مخطوطۂ دمشق کی مکمل سند بیان کی ہے، پھراس میں ایک فروگزاشت کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:

’’یہ پونے چھ سو سال کی سرگزشت ہے۔ان گیارہ نسلوں سے چوتھی کڑی پر بیان ہوا ہے کہ محمد بن اسحاق ابن مندہ نے اسے محمد بن الحسین القطان سے سنا۔ قصہ یہ ہے کہ ابن مندہ کی ولادت ۳۱۰ھ میں ہوئی ، جب کہ ان کے مبینہ استاذ القطان کی اس سے آٹھ سال پہلے ۳۰۲ھ میں وفات ہوچکی تھی۔ ظاہر ہے کہ استاذ شاگرد کا تعلق ناممکن ہے۔ ابن مندہ اور القطان کے درمیان کی ایک کڑی گم ہے ۔‘‘(ص۸۲)

ڈاکٹر صاحب نے اس پر بہت تفصیل سے بحث کی ہے ۔ انھوں نے بڑی تحقیق کے بعد اس گم شدہ کڑی کی بھی نشان دہی کردی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ سہوِ کتابت سے ایک نام(ابراھیم بن محمد بن الحسین القطان) چھوٹ گیا ہے۔ البتہ یہ بھی لکھا ہے کہ اس سہو سے اصل متن پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، اس لیے اس سہو سے تقریباً دو سو سال پہلے کتاب کا پورا متن مسند احمد بن حنبل میں محفوظ ہو چکا تھا۔

(۳)صحیفہ ہمام بن منبہ کے تعلق سے انھوں نے بروکلمان کی ایک فاش غلطی کی  نشان دہی کی ہے ،جو جرمن زبان میں تیار کردہ اس کی کتاب’ تاریخ ادبیات عربی ‘ میں سرزد ہوئی ہے۔نسخہ برلن کا تعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :

’’یہ نسخہ بارہویں صدی ہجری کے ابتدائی زمانے کا ہے۔ جب ہم نے بروکلمان کے طرف رجوع کیا تو افسوس ہوا کہ اس نے فاش غلطیاں کی ہیں ۔ بروکلمان اس صحیفہ کو ہمام بن منبہ کے تحت نہیں بیان کرتا۔ جب ہم نے تلاش کو طول دیا تو اس کا پتہ محض اتفاقاً چلا۔ وہ اس صحیفے کو ’ عبد الوہاب بن محمد بن اسحاق بن مندہ المتوفی ۴۷۳ھ مطابق ۱۰۸۲ء کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پھر کہتا ہے:’’آپ کی تالیفوں میں صحیفۂ ہمام بن مندہ(نام یوں ہی ہے) المتوفی ۱۵۱ھ/۷۴۸ء(سن اسی طرح ہے) جو ابو ہریرہ متوفی ۵۸ھ/۶۷۸ء سے مروی ہے۔‘‘ یہ غلطی طبع اول ہی میں نہیں ، بلکہ ضمیمۂ کتاب اور جلد اول کے ضمیمے میں بھی ہے۔ اس نے ’ہمام بن مندہ‘ لکھا ہے،حالاں کہ مراد ’ہمام بن منبہ‘ کے سوائے اور کچھ نہیں ۔اسی طرح اس سے ان کی تاریخِ وفات میں بھی سہو ہوا ہے۔صحیح تاریخ ۱۰۱ھ ہے ، نہ کہ ۱۵۱ھ۔ اسی طرح اس نے عبد الوہاب ابن مندہ کی طرف منسوب کرنے میں فاش غلطی کی ہے۔ وہ توکسی ایک زمانے میں صرف راوی تھے۔‘‘(ص۸۶۔۸۷)

اظہار تشکر

تحقیقی کام بسا اوقات اجتماعی کوششوں کا مرہونِ منّت ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو ضروری ہے کہ محقق دیگر معاونین کے تعاون کا اظہار کرے اور ان کا شکر گزار ہو۔ بعض حضرات اس معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں اور پوری کارکردگی کو اپنے سر منڈھ لینا چاہتے ہیں ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنے معاونین کا بڑی فراخ دلی سے تذکرہ کیا ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ مخطوطۂ برلن سے واقفیت انھیں ذاتی طور پر ہوئی، لیکن مخطوطۂ دمشق کا پتہ انھیں ڈاکٹر زبیر صدیقی نے دیا۔ دوسرے، حدیث نبوی سے شغف انھیں اپنے استاد مولانا مناظر احسن گیلانی کے ذریعے حاصل ہوا۔ان دونوں شخصیات کا تذکرہ انھوں نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’میں بہتوں کا ممنون بھی ہوں اور خوشہ چیں بھی۔خاص کر دو کا ذکر ضروری معلوم ہوتاہے۔ایک تو جامعہ کلکتہ کے پروفیسر محمد زبیر صدیقی ہیں ۔ مخطوطہ ثانی کا اصل میں انہی نے پتہ چلایا اور پھر وفورِایثار سے اس کی اشاعت کے لیے میرے حق میں دست بردار ہوگئے۔ تدوینِ حدیث پر آپ کے بعض گراں قدر مقالوں سے بھی میں نے استفادہ کیا ہے۔ دوسرے استاد محترم مولانا مناظر احسن گیلانی مُدّ فیوضہ ہیں ۔ یہاں آئندہ اوراق میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اصل میں اسی آفتاب کی ماہ تاب وار ضیا پاشی ہے۔ جزاھما اللہ حق الجزاء۔‘‘(ص۲۴)

دوسری جگہ ڈاکٹر زبیر صدیقی کا مکرّر تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے ڈاکٹر صلاح الدین المنجّدکا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جنھوں نے مخطوطۂ دمشق کا فوٹو فراہم کیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے:

’’ دمشق کا مخطوطہ کتب خانہ ظاہریہ میں محفوظ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی ( کلکتہ یونی ورسٹی) نے مجھے اس کا پتہ دیا اور دمشق کے ڈاکٹر صلاح الدین منجد کی مہربانی سے مجھے اس کتاب کے فوٹو فراہم ہوئے۔ یہ دونوں میرے اور ان تمام لوگوں کے شکریے کے مستحق ہیں جو اس کتاب کے پڑھنے سے مستفید ہوں گے۔‘‘(ص۸۷)

 تاریخِ تدوین ِ حدیث پر بیش قیمت مقدمہ

ڈاکٹر حمید اللہ نے صحیفۂ ہمام بن منبہ کی تحقیق کے ساتھ ایک مقدمہ بھی تحریر فرمایا ہے، جس میں تاریخِ تدوینِ حدیث سے متعلق بڑی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں ۔ ہر ایڈیشن کے موقع پر ڈاکٹر صاحب اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے رہے۔ طبع چہارم کی ابتدا میں ’ حدیث نبوی کی تدوین و حفاظت‘ کے عنوان سے جو ’دیباچہ‘ شامل ہے وہ ۶۵؍ صفحات( ص۲۵ تا ۸۹) پر مشتمل ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے یہ بحث کی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت سے قبل عرب پڑھنے لکھنے سے نا آشنا تھے ۔ قرآن مجید میں علم حاصل کرنے پر زور دیا گیا اور پڑھنے لکھنے کی ترغیب دی گئی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی تعلیم کی ترویج کا انتظام کیا۔ اس طرح عربوں نے بہت تیزی سے علمی ترقی کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع سے بحث کی ہے کہ عہدِ نبوی ہی میں سرکاری طور پر احادیث لکھی جاتی تھیں ، پھر عہدِصحابہ میں بھی تدوینِ حدیث کا کام انجام پایا اور مختلف صحابہ و صحابیات نے اپنے اپنے مجموعے تیار کر لیے تھے۔ اس بحث سے ڈاکٹر صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تدوینِ حدیث سے متعلق کیا جانے والا یہ اعتراض بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ ابتدا میں احادیث کو ضبط ِ تحریر میں لانے کا کام نہیں کیا گیا اور تدوین کا سارا کام تیسری صدی ہجری میں انجام پایا۔

بعد میں ڈاکٹر صاحب کو عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں احادیث کی کتابت و تدوین سے متعلق کچھ نیا مواد ملا، جس کا اضافہ دیباچہ میں کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہو سکا تو انھوں نے اسے کتاب کے آخر میں ’باز یاد‘ کے عنوان سے شامل کر دیا۔ یہ اضافہ بارہ صفحات(۱۹۲۔۲۰۳) پر مشتمل ہے۔

خلاصہ یہ کہ صحیفۂ ہمام بن منبہ علم و تحقیق کی دنیا کا ایک شاہ کار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ صرف یہی ایک کتاب ڈاکٹر حمید اللہ کو زندۂ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے۔
---------------
آن لائن حوالہ : http://www.raziulislamnadvi.com/