’’ جمہوریت اسلام‘‘ خطاب : علامہ شبلی نعمانی ؒ

اسلام بحیثیت ایک مکمل مذہب کے اسلام کی بہترین جمہوریت ، علامہ شبلی نعمانی کا لیکچر مدرسۃ العلوم علی گڑھ میں1913ء


جمہوریت اسلام - خطاب : علامہ شبلی نعمانی ؒ 
’’ ہماری قوم کے قابل فخر فرد فرید اور زمانہ حال کے مورخ بے نظیر علامہ شبلی نعمانی وقتاً فوقتاً علی گڑھ میں رونق افروز ہو کر کالج کے طلبہ کو اپنے پاکیزہ خیالات اور اسلام کی اصلی تعلیمات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں، چنانچہ آپ نے حال میں علی گڑھ تشریف لا کر 21 فروری 1913 ء کو نماز جمعہ کے بعد اسٹریچی ہال میں طلبہ کے روبرو ایک مبسوط تقریر فرمائی، جس کا خلاصہ یہ ہ ہے  " (علی گڑھ گزٹ)

حضرات! گو مجھے ہندوستان کے ہر گوشہ میں تقریر کرنے کے موقعے ملے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقریر کا اصلی مقام علی گڑھ ہے، کیونکہ تمام ہندوستان میں جیسے سامعین، جیسے قدر شناس، جیسے اندازہ داں علی گڑھ میں ہیں، اور کہیں نہیں ہیں پھر یہ کہ علی گڑھ میں تقریر کرنا ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کے سامنے تقریر کرنے کے برابر ہے۔ اسی لیے میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ سال میں کم از کم چھ مہینے کالج میں بسر کروں (اور نواب محسن الملک مرحوم اور مسٹر ماریسن کے زمانہ میں اس قسم کا ایک معاہدہ تک ہو گیا تھا) مگر بعض موانع علی الخصوص ندوہ کے کام نے مجھے اپنے اس ارادہ کی تکمیل سے باز رکھا، خدا کرے کہ یونیورسٹی اسکیم جلد عملی صورت میں آئے، تاکہ مجھے بھی اس کی خدمت کا موقع ملے، خوش قسمتی سے جیسے کارکن اور اولڈ بوئز اور طلبہ علی گڑھ کو ملے ہیں، اگر ندوہ کو ملیں تو اس کی ترقی کی فکروں سے بہت کچھ سبکدوشی حاصل ہو سکتی ہے۔


علی گڑھ میں تعلیم کی بنیاد نئی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم پر قائم کی گئی تھی، لیکن افسوس ہے کہ حقیقی مذہب کی جانب سے مسلمان لا پروا ہیں، ورنہ جس طرح اس وقت جدیدہ علوم و فنون کے سیلاب میں ہمارے مذہبی علوم بہہ رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح ایک زمانہ ہماری قوم پر عباسیوں کے زمانہ میں بھی آیا، لیکن اس وقت چونکہ قوم زندگی سے معمور تھی، اس لیے اپنے مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی علوم کو بھی پہلو بہ پہلو جگہ دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ہر دو قسم کے علوم کے مابین ایک حد فاصل قائم وہ گئی، اس کے بعد ایک گروہ پیدا ہوا، جس نے مذہب اور عقل کی تطبیق کی، جس کے گل سر سید امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ تھے، بعینہ یہی کیفیت مذہب کی اس جدید تمدن کے دور میں ہو گئی ہے، اور اسی خرابی کو دور کرنے کی غرض سے ندوۃ العلماء کی بنیا دڈالی گئی ہے، کہ ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو اس شعر کا مصداق ہو۔ 

در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق

ہر ہو سنا کے نہ واند جام و سنداں باختن

اسی قسم کی دقتیں دوسری قوموں کو در پیش ہیں، مگر وہ کس استقلال اور مضبوطی سے اپنے کام کو انجام دے رہی ہیں، اور نئی تعلیم کے ساتھ اپنی مذہبی و ملکی خدمات کو فراموش نہیں کر رہی ہیں۔ یورپ سے زیادہ نئی تعلیم کا نشہ تو ہمارے اندر چھایا نہیں مگر انہی کیمبرج اور آکسفورڈ کے انگریز تعلیم یافتوں میں سے پادری پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے مذہب کی خاطر جنگل جنگل مارے مارے پھرتے ہیں، تاکہ جنگلی قوموں کو انجیل سے آشنا کریں ہندوؤں میں آریہ ہیں جو نئی تعلیم کے باوجود اپنے مذہب کا یہ جوش و خروش رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی ہندو بنانے کے لیے تیار ہیں انہی نے گروکل قائم کیا ہے، جس میں انگریزی کے ساتھ سنسکرت کی تعلیم دیتے ہیں، اور آریہ مبلغ تیار کرتے ہیں، جس میں ایسے 300 لڑکے پڑھتے ہیں جنہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ جب تک ان کی گروکل کی تعلیم پوری نہ ہو گی گھر کا رخ نہ کریں گے، زمین پر سوئیں گے، کمبل اوڑھیں گے اور پڑھنے کے بعد ملک میں پھر کروید کا پرچار کریں گے۔ 

مرہٹوں نے ہندو گریجوٹوں کے لیے پونہ میں "سرونٹس آف انڈیا سوسائٹی " قائم کی ہے، جس کے ممبر وہ ہندو گریجویٹ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو صرف تین سو روپیہ ماہوار پر فروخت کر دیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ ہم میں اس ایثار کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا مسلمانوں کی جانب سے اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جب ہماری قوم کو اس قدر ترقی حاصل ہو جائے گی کہ ہر قسم کے پیشوں میں اس کی تعداد کافی ہو جائے گی، تو فاضل بچنے والی تعداد اس قسم کا ایثار کر سکے گی، بحالیکہ ایثار والے پہلے ہی ہوا کرتے ہیں، نہ اس وقت جب کہ قوم کو اس قدر ترقی حاصل ہو جائے گی۔

دو واقعے جب ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ان کو عام طور سے لازم و ملزوم یا ایک کو سبب اور دوسرے کو مسبب سمجھ لیا جاتا ہے، مسلمانوں میں اس وقت یہ دو واقعات پہلو بہ پہلو پائے جاتے ہیں، ایک یہ کہ مسلمان اپنی سلطنت میں یا غیر سلطنتوں میں غرض ہر جگہ ذلیل و خوار ہیں، اور دوسرا یہ کہ دنیا کے مسلمانوں کے اندر سوائے مذہب کے کوئی بات مشترک نہیں، اس بناء پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں مذہب ہی کہاں ہے، اس کی پابندی اور اس کے احکام کی تعمیل کہاں کی جاتی ہے، عام مسلمان مذہبی حقائق کو گم کر کے اوہام میں مبتلا ہیں، مافوق العادۃ عقائد کے دلدادہ ، اور عورتوں کے حقوق سے نا آشنا ہیں، اور خواص سرے سے مذہب کی قید و بند سے آزادی کے طالب ہیں، اس لیے حقیقت میں تمام مسلمانوں میں آج مذہب اشتراک نہیں، بلکہ عدم مذہب کا اشتراک ہے، اسی خیال کو میں نے ایک نظم میں جس کا عنوان ہے ’’ تنزل اسلام کا سبب اصلی ‘‘ ادا کیا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات ہے اب امر صریح،
کہ زمانہ میں کہیں عزت اسلام نہیں

آپ جائیں گے جہاں قوم کو پائیں گے ذلیل
اس میں تخصیص عراق و عرب و شام نہیں

یہ بھی ظاہر ہے کہ ہیں مختلف الحال یہ لوگ
کوئی چیز ان میں جو ہو مشترک عام نہیں

ایشیائی ہے اگر یہ، تو وہ ہے افریقی
اور کوئی رابطہ نامہ و پیغام نہیں

لالہ رخ یہ ہے، توزنگی وسیہ فام ہے وہ
یہ سمن بر ہے، وہ موزون و خوش اندام نہیں

اس نے گہوارہ راحت میں بسر کی ہے عمر
وہ کبھی خوگر آسائش و آرام نہیں

وہ ازل سے ہے کمند افگن و شمشیر نواز
اس کو جزعیش کسی چیز سے کچھ کام نہیں

حور وایواں سے بھی سیری نہیں ہوتی اس کو
اس کو گرنان جویں بھی ہو تو ابرام نہیں

پس اگر غور سے دیکھو تو بجز مذہب و دین
ہم مسلمانوں میں کوئی صفت عام نہیں

ان اصولوں کی بنا پر یہ نتیجہ ہے، صریح
سبب پستی اسلام جز اسلام نہیں

ان مسائل میں ہے کچھ ژرف نگاہی درکار
یہ حقائق ہیں تماشائے لب بام نہیں

غور کرنے کے لیے فکر و تعمق ہے ضرور
منزل خاص ہے یہ رہگزر عام نہیں

بحث مافیہ میں پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ
جس کو اسلام سمھتے ہیں وہ اسلام نہیں

آپ کھانے کو بنا دیتے ہیں پہلے مسموم
پھر یہ کہتے ہیں غذا موجب اسقام نہیں

اعتقادات میں ہے سب سے مقدم توحید
آپ اس وصف کو ڈھونڈیں تو کہیں نام نہیں

کون ہے شائبہ شرک سے خالی اس وقت
کون ہے جس پہ فریب ہوس خام نہیں

آستانوں کی زیارت کے لیے شدر حال
اس میں کیا شان پرستاری اصنام نہیں

کیجئے مسئلہ شرک نبوت پہ جو غور
کفر میں بھی یہ جہانگیری اوہام نہیں

اب عمل پر جو نظر کیجئے آئے گا نظر
کہ کسی ملک میں پابندی احکام نہیں

اغنیا کی ہے یہ حالت کہ نہیں ہے وہ رئیس
جس کے چہرے پہ فروغ مے گلفام نہیں

نص قرآں سے مسلمان ہیں بھائی بھائی
اس اخوت میں خصوصیت اعمام نہیں

یاں یہ حالت ہے کہ بھائی کا ہے بھائی دشمن
کونسا گھر ہے جہاں یہ روش عام نہیں

نہ کہیں صدق و دیانت ہے نہ پابندی عہد
دل ہیں نا صاف زبانوں پہ جو شنام نہیں

آیت فاعتبروا پڑھتے ہیں ہر روز مگر
علما کو خبر گردش ایام نہیں

الغرض عام ہے جو چیز وہ بے دینی ہے
صاف یہ بات ہے یہ دھوکہ نہیں ابہام نہیں

ان حقائق کی بنا پر سبب پستی قوم
ترک پابندی اسلام ہے اسلام نہیں

چونکہ اس وقت میری طبیعت ناساز ہے، اور سخت دوران سر ہے، اس لیے مجھے جو موضوع دیا گیا ہے، یعنی ’’ جمہوریت اسلام‘‘ اس پر کچھ مختصر ہی اظہار خیال کر سکوں گا۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (المائدۃ : 3)

آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل، اور اپنی نعمت کو تمہارے اوپر تمام کر دیا، اور تمہارے واسطے میں نے دین اسلام کو انتخاب کیا۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ  (الانبیاء : 107)

ہم نے تم کو کل عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب : 40)

تم لوگوں میں سے محمد ؐ کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ خدا کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔

قرآن پاک کے اندر مندرجہ بالا تین مقامات پر تین دعوے کئے گئے ہیں: 

1- دین اسلام کا مکمل ہونا۔

2- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا کل عالم کے لیے عام ہوناز

 3- آپ کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت نہ رہنا۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت سے قبل عرب میں کوئی اسباب تمدن موجود نہ تھے، جس کا ثبوت بدیہی یہ ہے کہ باوجود عربی زبان کی تمام تر وسعت کے خاص عربی زبان میں چراغ تک کے لیے کوئی عربی لفظ نہیں، اور ’’ سراج‘‘ فارسی سے آیا ہوا ہے، کوپ (بمعنی پیالہ کپ) ابریق (بمعنی لوٹا معرب آب ریز) درہم، لیرہ، (پونڈ) غرض تمدن کے متعلق جس قدر الفاظ ہیں، سب غیر زبان سے اخذ کیے ہوئے ہیں۔

جہالت کا یہ عالم تھا کہ عرب کا علم الاصنام یونان سے بھی زیادہ وسیع تھا، ان خیالات میں آپ کی تعلیم کے ذریعہ سے تمام ملک کی یک لخت کایا پلٹ جانا، آپ کے اخلاق و قویٰ کے فطری طور پر مکمل ہونے کی دلیل ہے۔

نگار ماکہ بمکتب نہ رفت و خط نہ نوشت

بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شد

مذہب کا اصلی کام فلسفہ یا پالٹیکس یا سائنس کی تعلیم نہیں ہے، بلکہ ازروے تقسیم عمل یہ چیزیں اس کے اصل دائرہ سے خارج ہیں، مذہب کا کام تزکیہ نفس اور امراض روحانی کا علاج ہے، لیکن جس طرح کہ ایک گھانس کے تنکے کے پیدا ہونے اور نشوونما پانے کے لیے اس سارے عظیم الشان نظام عالم کی ضرورت ہے، اسی طرح مذہب کی بھی سیاست، تمدن، فلسفہ غرض زندگی کی ہر شاخ سے واسطہ پڑتا ہے، اور ان سب کی بنیاد اور اصل اصول اسلام کی تعلیم کے اندر موجود ہے، جمہوریت کی بنیاد مساوات پر ہے اور اسلام سے زیادہ مساوات کسی دوسری جگہ پائی نہیں جاتی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحابؓ کی شان میں ہے کہ

وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ (الشوري : 338) 

وہ اپنے معاملات کے اندر باہم مشورہ کرتے ہیں

آب کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ اس کثرت سے مشورہ کیا کرتے تھے کہ اصحاب کو یہ شک رہا کرتا تھا کہ آپ جو کچھ فرما رہے ہیں یہ وحی ہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے، اور جب یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہے تو بے تکلف آپ سے گفتگو اور اس کی نسبت اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے، آپ نے ایک بار اہل مدینہ کو مادہ کھجوروں کو نر کھجوروں سے گابھنے کے لیے منع فرمایا لیکن اس سال جب کھجوریں کم پھلیں اور یہ شکایت آپ ؐ تک پہنچی تو آپ ؐ نے ارشار فرمایا کہ

انتم اعلم با مور دینکم

تم اپنی دنیا کے معاملات سے زیادہ واقف ہو

بموجب ارشاد باری آپ ؐ نے اپنی قوم کو بتا دیا کہ

إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ ( الكهف : 110) 

میں تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، صرف اتنا فرق ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔

اس کا یہ شرف ہے کہ اس نے تمام ظالمانہ تفرقوں کو مٹا دیا، ایک بار ایک صحابی نے اپنے بیٹے کو ہدایت کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو گھر میں بلا کر فلاں بات کہہ آؤ، جب بیٹے کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس بے تکلفی کے برتے جانے پر تعجب ہوا اس کو بتایا گیا کہ

ما محمد بجبار

محمد صلی اللہ علیہ وسلم ظالم نہیں ہیں

ایک بار آپ نے ایک شخص سے (جس پر آپ کو دیکھ کر ہیبت طاری ہو گئی تھی) فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہے ’’ ایک موقع پر جب قیصر کے اور مسلمانوں کے سفیر کے باہم گفتگو ہوئی، اور قیصر کے سفیر نے اپنے بادشاہ کے عام انسانوں سے بر تر اور بالاتر ہونے پر فخر کیا تو معاذ بن جبلؓ نے (جو مسلمانوں کی جانب سے مامور تھے) اس سے کہا’’ ہمارا خلیفہ اور بادشاہ تو ایسا ہے کہ اگر ہم سے انچ بھر بھی اونچا بیٹھے تو ہم اسے ڈھکیل کر نیچے گرا دیں۔ ‘‘

ایک بار ایک بڑھیا سے معقول جواب پا کر حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ

کل اعلم من عمر حتی المخدرات

سبھی تو عمر سے زیادہ داىا ہیں، یہاں تک کہ پردہ نشین عورتیں بھی. 

اپنی خلافت کے زمانہ میں حضرت علیؓ جب ایک بار قاضی کی عدالت میں مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے اور قاضی نے بمقابلہ آپ کے یہودی مدعی کے، آپ کو بیٹھنے کی اجازت دی تو آپ نے اس سے انکار کیا، اور فرمایا کہ ’’ پہلا ظلم تو تمہارا یہی ہے کہ دو فریقوں کے درمیان تم تفریق کرتے ہو، اور یہ مقدمہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف فیصل ہوا۔‘‘

اسلام کی اس مساوات کے مقابلہ میں اس وقت یہ کیفیت ہے کہ مسیحی نیچ قوموں سے یہ وعدہ تو کرتے ہیں کہ ’’ تم مذہب عیسوی اختیار کرنے سے قیامت میں مسیح کے پہلو میں بیٹھو گے‘‘ مگر ان کو اپنے پہلو میں جگہ نہیں دیتے، اسی طرح شدھی والے صرف اسی کو کافی سمجھتے ہیں کہ نو آت لوگوں کے ساتھ کچھ فاصلہ سے بیٹھ کر کھا لیں، بخلاف اس کے اسلام نے غلام اور آقا کو بھائی بھائی بتایا ہے، حجۃ الوداع کے موقع پر (یعنی وہ حج جو آپ کا آخری حج تھا، اور آپ اپنی قوم سے رخصت ہو رہے تھے) جب کہ آپ لوگوں کو گواہ بنانے کے لیے بار بار یہ سوال کرتے تھے کہ ’’ ھل بلغت‘‘ یعنی کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا؟ اور بالا تفاق جواب ملتا تھا کہ نعم بلغت یا رسول اللہ یعنی بے شک آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، اس وقت آپ کا آخری پیغام یہی تھا کہ عرب کو عجم اور عجم کو عرب پر کوئی فوقیت نہیں،سب آدم کو اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے بنے ہیں، اسلام نے صرف اخلاق کی بزرگی کو مقدم رکھا، چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ

وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ(الحجرات : 13) 

تم کو شعوب اور قبائل میں صرف شناخت کے لیے تقسیم کیا ہے، ورنہ خدا کے نزدیک تم میں بزرگ وہی ہیں جو پرہیز گار زیادہ ہیں۔

اسلام نے خدا کے ساتھ بندوں کا رشتہ قائم کرنے کے لیے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں رکھی، بخلاف اس کے عیسائی اور ہندو اپنے عقائد کے بموجب بلا واسطہ خدا تک نہیں پہنچ سکتے۔

اب اسلام کے دوسرے دعویٰ کو لیجئے ، اسلام کے قبل دنیا میں جتنے مذاہب ہوئے ہیں، تمام کسی خاص قوم یا فرقہ یا خاص ملک یا حصہ ملک کے لیے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے کا سب سے آخری مذہب یعنی عیسائیت اس کی نسبت خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے کہ میں صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کو راستہ بتانے کے لیے آیا ہوں، بمقابلہ اس کے اسلام نے کافہ انام کے لیے ہونے کا دعویٰ کیا ، اور عملاً اس کا ثبوت بھی دیا، کہ اذل خلالق قومیں اسلام کے وسیع حلقہ کے اندر داخل ہوتے ہی اسلامی اخوت میں شامل ہو جاتی ہیں، مثلاً ایک ذلیل سے ذلیل قومیت کا شخص جو مسلمان ہو جاتا ہے، اس سے عبدالحمید اور محمد خامس کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ مسجد میں داخل نہ ہو، یا فلاں مقام پر کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھے، اسلام نے غلامان غلام تک کو سلطنت دلا دی، مثلاً محمود غزنوی جیسا با جبروت بادشاہ غلام در غلام تھا، بہت سے بڑے بڑے ائمہ حدیث و فقہ غلام تھے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام نے انتہائی ترقی سے کسی کو محروم نہیں رکھا، اور جب مذکورہ بالا دونوں دعویٰ یعنی اسلام کا اکمل ادیان ہونا اور اس کی دعوت کا عام ہونا ثابت ہو گئے، تو آخری دعویٰ خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد نبوت و رسالت کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔

٭٭٭٭٭٭٭