اقبال کی شاعرانہ عظمت ۔ کچھ پہلو ۔ مقرر: ڈاکٹر خورشید رضوی




ڈاکٹر خورشید احمد رضوی کا مختصر تعارف 



مضمون : ڈاکٹر خورشید رضوی کے ساتھ ایک شام ۔  ڈاکٹر حسین احمد براچہ 


روزنامہ 92، 03 نومبر 2018ء


نہ اب ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے با کمال اساتذہ کہیں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر زاہد منیر جیسے اساتذہ کے قدردان شاگرد کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی آج کے دور کی ایک عظیم علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ وہ ایک ایسے عبقری ہیں جن کی ذات میں کئی متنوع رنگ اہتمام کے ساتھ یک جا ہو گئے ہیں۔ وہ عربی زبان و ادب کے استاد ہیں اور محقق ہیں جن کا نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں ڈنکا بجتا ہے بلکہ عالم عرب میں بھی بہت سے اہل علم ان کی تحقیقی کاوشوں کے نہ صرف مداح ہیں بلکہ جامعہ ازہر مصر سے لے کر عراق و اردن اور شام و لبنان میں بھی ان کی عربی نگارشات کو استحسان اور حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اردو ان کی مادری زبان ہے تا ہم اس زبان کے ادب کا انہوں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے مطالعہ کیا ہے۔ فارسی سے انہیں عشق کی حد تک لگائو ہے۔ مولانا روم، شیخ سعدی، حافظ شیرازی، غالب اور اقبالؔ کے فارسی کلام کے کئی طویل حصے انہیں حفظ ہیں۔ وہ فارسی زبان کے مزاج، اس کی باریکیوں اور لطافتوں کے گہرے رمز شناس ہیں۔ انگریزی زبان و ادب کا بھی وہ ایک طویل عرصے تک بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ 


ڈاکٹر خورشید رضوی آج پاکستان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ’’شاخِ تنہا‘‘ سے لے کر امکان تک ان کے چھ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا دیوان ’’یکجا‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ ان کی غزلیں تمام اساتذہ سے دادوصول کر چکی ہیں۔ رضوی صاحب کے کلام معجزبیاں کا اعتراف کرنے والوں میں مرحوم احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا کہ وہ بھی اب مرحوم ہو چکے ہیں اور مرحوم منیر نیازی وغیرہ شامل ہیں۔ منیر نیازی کو ان کے شعری مجموعے رائیگاں کی یہ غزل بہت پسند تھی۔ انہوں نے اس مجموعے کا دیباچہ لکھا جس میں اس غزل کے سارے اشعار آغاز مطالعہ میں قارئین کو سنا دیئے تا کہ انہیں معلوم ہو کہ کس معیار و مرتبہ کی غزلیں کتاب میں پڑھیں گے۔ لاجواب ہے یہ غزل۔ 

یہ جوننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
 یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
 کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی 
میں عمیق تھا کہ پلاہوا تھا سکوت میں 
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے مجھے کھا گئے
 وہ جو مجھ میں اک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
 یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
 یہ عیاں جو آبِ حیات ہے اسے کیا کروں 
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے
 وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا 
تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے
 میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
 یہ جو وسوسے تہہِ دام تھے مجھے کھا گئے 
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
 یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
 ڈاکٹر خورشید رضوی معلم بھی ہیں، مربی بھی ہیں محقق بھی ہیں، شاعر بھی ہیں، مدبر اور مفکر بھی ہیں۔ تا ہم ان کے سب مراتب و مناصب میں ان کا بحیثیت استاد مقام و مرتبہ سب سے بڑھ کر ممتاز و منفرد ہے۔ اس فقیر کے علاوہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر فرید پراچہ، سہیل وڑائچ اور ڈاکٹر فرحی امین بھی ان کے شاگردوں میں ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی 18برس سرگودھا میں مقیم رہے۔

 اس زمانے میں ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر غلام جیلانی اصغر، ڈاکٹر انور سدید،عصمت علیگ جیسی ادبی شخصیات سرگودھا کی علمی و ادبی رونق کو چار چاند لگائے ہوئے تھیں۔ تا ہم ڈاکٹر خورشید رضوی اپنی افتادِ طبع کے مطابق ہر ادبی محفل میں رونقِ بزم ہی نہیں بلکہ بزم کی جان ہوتے تھے مگر وہ کبھی کسی ادبی مکتبۂ فکر کا باقاعدہ حصہ نہ بنے۔ سرگودھا سے پہلے ڈاکٹر خورشید رضوی کی صرف بیس بائیس سال کی عمر میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت سے بہاولپور میں تقرری ہوئی۔

 ڈاکٹر صاحب بہاولپور میں صرف ایک برس ہی مقیم رہے مگر اس دوران وہ اپنے طلبہ میں بہت محبوب و محترم ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب جب ایک سال کے بعد بہاولپور سے سرگودھا کے لیے ٹرین پر روانہ ہوئے تو پلیٹ فارم پر انہیں رخصت کرنے والے طلبہ و اساتذہ اور اہلِ شہر کا ایک جم غفیر تھا۔ طلبہ نے انہیں پھولوں کے ہار سے لاد دیا۔ جب ڈاکٹر صاحب گاڑی میں سوار ہوئے تو ڈبے میں ایک بزرگ پہلے سے موجود تھے جو خود بھی سرگودھا کے لیے عازم سفر تھے۔ انہوں نے نوجوان خورشید رضوی صاحب سے پوچھا بیٹا حج کر کے آئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر بزرگ نے کہا عمرہ کر کے آئے ہو، انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ بزرگ کا تجسس اور بڑھ گیا۔ انہوں نے کہا اچھا بیٹا کیا تمہارا تعلق کسی خانقاہی خانوادے سے ہے۔ خورشید رضوی صاحب نے پھر کہا نہیں۔ اس پر بزرگ نے باصرار پوچھا کہ پھر کیا ماجرا ہے تو آپ نے بتایا کہ میں عربی زبان و ادب کا استاد ہوں اور میرے طلبہ کی کثیر تعداد مجھے رخصت کرنے آئی ہے۔ سرگودھا پہنچنے سے پہلے ہی وہ بھی ڈاکٹر خورشید رضوی کے مرید تھے۔

 ڈاکٹر زاہد منیر عامر اپنے استادِ محترم کی طبیعت اور شخصیت سے آگاہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب شہرت پسند نہیں لہٰذا انہوں نے چپکے سے کوئی دو دہائیوں تک ڈاکٹر صاحب کی علمی، ادبی، تحقیقی اور تدریسی سرگرمیوں کے بارے میں خود بھی لکھا اور ان کے بارے میں زعمائے علم و ادب کی تحریروں کو بھی یکجا کیا اور انہوں نے ’’ارمغان خورشید‘‘ کے نام سے ساڑھے پانچ سو صفحے کی کتاب مرتب کر دی۔ ڈاکٹر زاہد عامر کی اس کتاب کی چند روز پہلے پنجابی کلچر سنٹر میں ڈاکٹر صغریٰ صدف کے خصوصی تعاون کے ساتھ پازیٹو پاکستان کے جواں سال اسکالرز نے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب سے مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، ڈاکٹر صغریٰ صدف، درنجف زیبی، عابد اقبال سعدی، نذیر خالد نے خطاب کیا۔ کچھ لوگوں نے مضامین پڑھے اور کچھ نے زبانی گفتگو کی۔ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ویڈیو لنک کے ذریعے یونان سے خطاب کیا اور حاضرین کو اپنی مرتب کردہ کتاب ارمغان خورشید کی داستان سنائی۔ 

راقم الحروف نے اپنی مختصر گفتگو میں حاضرین کو بتایا کہ ڈاکٹر خورشید رضوی کو بارہا اعلیٰ سے اعلیٰ دنیاوی مناصب و مراتب کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ ان مناصب کو قبول کرنے سے معذرت کی اور کہا کہ میرے لیے ایک استاد کا رتبہ باقی سارے مناصب سے بلند تر ہے۔ کمپیئرنگ کے فرائض ڈاکٹر فرحی امین نے جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے لسانیات میں پی ایچ ڈی ہیں، مسٹر زید اور واعظ رفیق نے ادا کیے۔

 ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ آج کا دور اہم کاموں کا نہیں ارجنٹ کاموں کا ہے۔ میرے ساتھ شام نہ اہم کاموں میں شمار ہوتی ہے نہ ارجنٹ کاموں میں پھر بھی اتنی بڑی تعداد میں نوجوان طلبہ و طالبات اور عمائدین شہر اور ادبی صحافتی زعمائے کرام کی آمد میرے لیے باعثِ اعزاز ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کے حسنِ ادب اور ان کے ٹیلنٹ کی تعریف بھی کی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انہیں ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق جیسے عظیم المرتبت اساتذہ سے کسبِ فیض کا موقع ملا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ایک سچے معلم ہیں۔ حقیقی معلم کون ہوتا ہے؟ حقیقی معلم وہ ہوتا ہے جو خود بھی کسی مقصد کا دیوانہ ہوتا ہے اور دوسروں میں بھی ایسی خوبصورت دیوانگی بھر دیتا ہے۔