علامہ حمید الدین فراہی اور ان کی علمی و فکری خدمات

علامہ حمید الدین فراہی
اور ان کی علمی و فکری خدمات 
حمید الدین فراہی (پیدائش: 18 نومبر 1863ء– وفات: 11 نومبر 1930ء) برصغیر پاک وہند کے ممتاز قرآنی مفسر اور دین اسلام کی تعبیر جدید کے بانی تصور کیے جاتے ہیں آپ نے امت میں تفقہ فی الدین کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک جدید نہج پر قائم کیا بعد ازاں اسی نہج پر  دین اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر پیچیدہ سوالوں کا جواب دیا۔ پورا نام یوں ہے : ابو احمد حمید الدین فراہی (انصاری) بن عبد الکریم بن قربان قنبر بن تاج علی بن قائم علی بن دائم علی بن بہا الدین۔

ان کا نسبی تعلق صدر اول کے مسلمانوں کے طبقہ ثانیہ سے معلوم ہوتا ہے لیکن بعض قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا تعلق انصار مدینہ سے ہے یہی وجہ تھی کہ مولانا کے خاندان کے بہت سے افراد اپنے نام کے ساتھ ایک عرصہ تک انصاری لکھتے رہے۔ 

مولانا فراہی کی جائے پیدائش بھارت کے صوبہ یوپی (موجودہ اترپردیش) ضلع اعظم گڑھ کا ایک گاؤں پھریہا ہے پھریہا اس ضلع کا ایک مشہور گاؤں ہے پھریہا کی معلوم تاریخ بس اسی قدر ہے کہ یہ شبلی نعمانی کا ننھیال اور فراہی کا وطن ہے مولانا فراہی کی پیدائش ان کے جدی مکان میں6 جمادی الثانی 1230ھ بروز بدھ بمطابق 18 نومبر 1863ء کو ہوئی

مولانافراہی کے نام کے بارے میں مختلف بلکہ متضاد آراء اور روایات ملتی ہیں تحریر دستاویزات میں حمید الدین اور عبد الحمید دونوں نام کثرت سے موجود ہیں اور اہل علم نے اپنے اپنے انداز سے اس کی توجیہ بھی کی ہے مولانا فراہی کی وفات پرسید سلیمان ندوی نے پہلے ایک شذرہ اور اس کے بعد ایک مقالہ لکھ کر معارف میں شائع کیا اس میں نام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ


مولانا کا اصلی نام تو حمیدالدین تھا مگر وہ اس نام کو جو دراصل عربی قاعدے سے لقب ہے اپنے لیے معنوی حیثیت سے بلند سمجھتے تھے اس لیے وہ عربی تصانیف میں اپنا نام عبدالحمید لکھتے تھے اور تمام بڑے عالمانہ آداب والقاب چھوڑ کر صرف معلم کہلانا پسند کرتے تھے بنا بریں وہ اپنا نام المعلم عبدالحمید الفراہی کتابوں کی لوحوں پر لکھا کرتے تھے [یادرفتگاں صفحہ113]

نسبت فراہی

فراہی مولانا کا نسبتی نام ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اصل نام بھی پس منظر میں چلا گیا آج کہیں مولانا کا ذکر آتا ہے تو یہی نام لیا جاتا ہے مولانا نے یہ نسبت کس کی طرف سے اختیار کی اور اس کا ماخذ کیا ہے؟ سید سلیمان ندوی کا خیال اور جو قرین قیاس بھی معلوم ہوتا ہے کہ ” یہ نسبت مولانا کے آبائی گاؤں پھریہا کی طرف ہے اسی پھریہا کو عربی شکل دے کر مولانا اپنے نام کے ساتھ فراہی لکھا کرتے تھے [ یادرفتگاں صفحہ112]

تعلیم وتربیت

مولانا فراہی کے ہاں واضح طور پر رسمی تعلیم کے دو دور ہیں اور ان میں ہر دور اپنی جگہ نمایاں اور مکمل ہے تعلیم کے پہلے دور میں انہوں نے دینی تعلیم کے علاوہ عربی اور مشرقی علوم سیکھے جس کی تکمیل نجی تعلیمی درسگاہوں میں ہوئی دوسرے دور میں انہوں نے انگریزی اور مغربی علوم کی تحصیل کی جس کے لیے سرکاری تعلیم گاہوں میں داخلہ لیا۔

دینی تعلیم

مولانا فراہی کی ابتدائی تعلیم اس وقت کے شرفاء کی طرح گھر پر ہوئی اس کا آغاز دستور کے مطابق ناظرہ اور حفظ قرآن سے ہوا راجا پور سکرور کے حافظ احمد علی مرحوم نے گھر پر رہ کر حفظ کرایا مولانا نے خود بھی اپنے حالات زندگی تحریر کیے تو پیدائش کے بعد جس بات کا ذکر کیا وہ حفظ قرآن ہی ہے مولانا کی خود نوشت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرحلہ انہوں نے تقریباً دس سال کی عمر میں طے کر لیا تھا،  فرماتے ہیں۔  ” کہ جب میں نے قرآن مجید حفظ کیا اس وقت میری عمر قریب قریب دس برس تھی [اہنامہ الضیاء لکھنوء نومبر:1933ءصفحہ 260]

حفظ قرآن سے فارغ ہو کر عام دستور کے موافق پہلے فارسی کی تعلیم لی اس زمانے کا عام طریقہ تعلیم یہ تھا کہ ایک وقت میں ایک ہی مضمون ہی پڑھتے تھے فارسی زبان میں بہت جلد اس قدر ترقی کرلی کہ شعر کہنے لگے شاعری کا مذاق ان میں فطری تھا زبان سے تھوڑی ہی مدت میں اس قدر گہری مناسبت پیدا کرلی کہ اساتذہ کے رنگ میں قصیدے لکھنے لگے مولانا کی عمر ابھی چودہ برس ہی تھی کہ طلب علم میں وہ پھریہا سے اعظم گڑھ آئے اور شبلی نعمانی سے پڑھنا شروع کیا یہ 1877ء کا سال تھا مولانا فراہی کی تعلیم وتربیت میں شبلی کا خاصا حصہ ہے اس حوالے سے مولانا فراہی خود لکھتے ہیں کہ ” میں نے چودہ برس کی عمر میں عربی زبان پڑھنا شروع کی اور درس نظامی کی اکثر کتابیں پھوپھی زاد بھائی علامہ شبلی سے پڑھیں[اہنامہ الضیاء لکھنوء نومبر:1933ءصفحہ 260]

تعلیم وتربیت میں مولانا شبلی سے کسب فیض کرنے کے بعد مولانا فراہی نے وقت کے مشہور اساتذہ کے حلقہ دروس سے مستفید ہونے کا ارادہ کیا اس سلسلہ میں وہ قدم بقدم مولانا شبلی کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں اس زمانہ میں مولانا ابوالحسنات عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی کے حلقہ دروس کی بڑی شہرت تھی چنانہ فقہ کی تحصیل کے لیے مولانا فراہی نے کچھ مدت تک عبد الحئی لکھنوی کے حلقہ دروس میں شرکت کی وہاں مولانا فضل اللہ انصاری جو معقولات کے ماہر تھے سے بھی استفادہ کیا لیکن مولانا کی طبیعت ابتدا ہی سے تحقیق پسند واقع ہوئی تھی اور ان کے اس ذوق کو مولانا شبلی کے فیض صحبت نے مزید ابھار دیا تھا لہٰذا وہ زیادہ عرصہ لکھنؤ میں نہ رکے اسی دوران مولانا فراہی نے تقریباً ان تمام مراکز علم کا رخ کیا جو مولانا شبلی کا مرجع رہ چکے تھے مولانا فراہی کے تعلیمی کا سفر کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آخری عمر کے تلمیذ امین احسن اصلاحی ایک جگہ لکھتے ہیں ” مولانا فراہی نے لکھنوء چھوڑنے کے بعد لاہور کا سفر کیا اور لاہور میں مشہور ادیب مولانا فیض الحسن سہارنپوری مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے مولانا فیض الحسن مرحوم اس وقت اورینٹل کالج لاہور میں پروفیسر تھے اور عربی ادب میں پورے ملک کے اندر اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ادب میں مولانا شبلی بھی انہی کے شاگرد تھے مولانا فراہی نے انکی شاگردی سے پورا فائدہ اٹھایا اور مولانا فیض الحسن موحوم نے بھی بڑی شفقت کے ساتھ مولانا کو علوم ادب کی تکمیل کرائی[مجموعہ تفاسیر فراہی:صفحہ 10]

انگریزی تعلیم


مولانا فراہی نے دینی تعلیم 82-1883ء تک مکمل کرلی تھی اس کے بعد وہ بیماریوں کا شکار رہے اور کچھ عرصہ کے بعد انگریزی زبان مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی مولانا خود فرماتے ہیں کہ ” اسکے بعد میں بیماریوں کا شکار رہا اور سال بھر کسی پڑھائی میں نہ لگ سکا پھر انگریزی زبان اور مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی[ ماہنامہ الضیاء:صحفہ 260]

مولانا فراہی کے فرزند محمد سجاد صاحب مرحوم کے بیان کے مطابق مولانا فراہی نے پہلے مڈل پاس کیا اور پھر کرنل گنج اسکول الہ آباد سے پرائیویٹ طور پر میڑک کا امتحان دیا تاکہ وقت کم صرف ہو وقت ہی کے خیال سے کچھ پڑھائی اسکول سے باہر بھی کرنی پڑی انٹرنس اور علی گڑھ کالج میں داخلے کے بارے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ” اس زمانہ میں انگریزی پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا مگر یہ کفر مولانا نے توڑا نج کے طور پر انگریزی کچھ پڑھ لینے کے بعد کرنل گنج اسکول الہ آباد میں داخل ہوگئے انٹر نس کا امتحان پرائیویٹ طور پر دے کر ایم او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے یہ علی گڑھ کالج کے عروج کا زمانہ تھا سرسید اس کے ناظم اعلٰی مسٹر آرنلڈ اوربک وغیرہ اسکے پرنسپل اور پروفیسر ، مولانا شبلی نعمانی اسکے مدرس اور مولانا حالی وہاں کے مقیم وساکن تھے ہر وقت علمی مسائل وتحقیقات کے چہچہے رہتے تھے اور ان بزرگوں کی صحبتیں حاصل تھیں جن میں ہر ہونہار طالب علم کے فطری جوہر کے چمکنے کا موقع حاصل تھا[یاد رفتگاں صحفہ 116]


مولانا فراہی عربی، فارسی اور دینیات میں اس قدر مہارت پیدا کرچکے تھے کہ کالج میں انہیں ان اسباق سے مستثنیٰ کر دیا گیا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ” اس زمانے میں کالج کے ہر طالب علم کو عربی اور فارسی بھی لازماً پڑھنی پڑھتی تھی مگر سرسید نے ان کے متعلق پروفیسر آرنلڈ کو لکھ بھیجا کہ حمید الدین عربی اور فارسی کے ایسے فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں اس لیے ان کو مشرقی علوم کے گھنٹوں(پیریڈز) سے مستثنیٰ کر دیا جائے،چنانچہ وہ مستثنیٰ کئے گئے[یاد رفتگاں صحفہ 116]

علی گڑھ میں مولانا فراہی نے انگریزی اور دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ خاص توجہ سے فلسفہ جدیدہ(ماڈرن فلاسفی) کی تحصیل کی اور اس میں امتیاز حاصل کیا مولانا فراہی نے فلسفہ جدیدہ اسی کالج میں معروف مستشرق پروفیسر آرنلڈ سے پڑھا مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان کی زبان اور قلم سے بھول کر ایک دفعہ بھی ان کا نام نہیں نکلا ان (پروفیسر آرنلڈ) کے متعلق مولانا کے ذہنی رویے کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے مزید وضاحت امین احسن اصلاحی کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ ” مولانا نے فلسفہ کے درس تو ان(پروفیسر آرنلڈ) سے ضرور لیے لیکن ان سے خوش نہیں تھے وہ آرنلڈ صاحب کو بھی اسی بساط سیاست کا ایک مہرہ سمجھتے تھے جو انگریزوں نے علی گڑھ میں بچھا رکھی تھی علی گڑھ کا حلقہ پروفیسر آرنلڈ صاحب کی کتاب (Preaching of Islam) کا مداح تھا ،لیکن مولانا فراہی اس کتاب کے سخت مخالف تھے وہ فرماتے تھے کہ یہ کتاب مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد ختم کرنے کے لیے لکھی گئی ہے[دیباچہ مجموعہ تفاسیرفراہی: صفحہ 12]

علی گڑھ کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فراہی کو میرٹ سکالر شپ ملتا تھا داخلے کے دو سال بعد 1893ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے سیکنڈ ڈویژن میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا اس سال فرسٹ ڈویژن میں کوئی طالب علم پاس نہیں ہوا، دو سال بعد 1895ء میں مولانا فراہی نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان بھی سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا 1895ء کے اوائل میں مولانا فراہی بی اے سے فارغ ہوچکے تھے وہ چاہتے تھے کہ اسی سال پہلی فرصت میں ایم اے عربی کا امتحان دے ڈالیں عربی کے وہ اسکالر تھے انہیں کسی خاص تیاری کی ضرورت نہ تھی، اس لیے وہ بلا تاخیر امتحان میں بیٹھنا چاہتے تھے مگر چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ ایم اے نہ کرسکے اس سلسلے میں امین احسن اصلاحی صاحب لکھتے ہیں کہ  ” بی اے کی ڈگری مولانا نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے لی ،اس کے بعد ایم اے کے لیے بھی تیاری کی لیکن اس کے امتحان میں نہیں بیٹھے ، اسکی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ جہاں تک تحقیق وتنقید کا تعلق ہے اسکی راہیں تو ان کے لیے کھل چکی تھیں اب محض ڈگری کی خاطر امتحان دیتے پھرنا انکی طبیعت کے بالکل خلاف تھا[دیباچہ مجموعہ تفاسیرفراہی: صفحہ 12]
ایم اے کا خیال ترک کرنے کے بعد مولانا فراہی نے مروجہ قانون (ایل ایل بی) پڑھنا شروع کر دیا جس کا ذکر انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے ” اور اس کے بعد دو سال تک ناپسندیدگی کے باوجود مروجہ قانون (ایل ایل بی) کا مطالعہ کرتا رہا ، پھر اسے چھوڑ کر تدریس شروع کردی[ ماہنامہ الضیاء : نومبر 1933ء صفحہ 260]

مقام و مرتبہ

مولانا حمید الدین فراہی ایک متبحر عالم اور مجتہد فی المذہب تھے آپ گہری علمیت اور بے مثال وسعت نظری کا عجیب وغریب مرقع تھے، مولانا نے امت کے لیے وہ علمی خدمات سر انجام دیں جن کے بارے میں امت مسلمہ کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتی، زعمائے ملت کی نظر میں مولانا ایک بلند مقام ومرتبہ رکھتے تھے زمانہ طالب علمی ہی میں مولانا کا علمی پایہ مسلم تھا، عربی وفارسی ہی میں وقت کے بڑے بڑے اساتذہ اور ادیب جن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی، ان کی ذہانت اور علمی فکر سے متاثر تھے آپ کے جلیل القدر استاد مولانا شبلی نعمانی آپ کے قرآنی فکر کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اس حوالے سے سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں کہ ” مولانا حمید الدین فراہی نے نظم آیات کا جو تصور دیا ، مولانا شبلی کو اپنے اس شاگرد کے اس نظریے سے اختلاف تھا اور وہ مولانا فراہی کی کوششوں کو رائیگاں سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے انکی تفسیر کے متعدد اجزاء دیکھے تو قائل ہوتے چلے گئے اور آخر داد دینے لگے اور آخر میں تو وہ حمید الدین کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہوگئے تھے کہ قرآنی مشکلات کے حل میں وہ ان سے مشورہ لینے لگے تھے ، ایک خط میں لکھتے ہیں کہتفسیر ابی لہب اور جمہرۃ البلاغہ کے اجزاء بغور دیکھے ، تفسیر پر تم کو مبارکباد دیتا ہوں ، تمام مسلمانوں کو تمہارا ممون ہونا چاہیے[مکاتیب شبلی:2/25 یادرفتگاں صفحہ :119]

مشہور مراکشی عالم شیخ تقی الدین ہلالی نے مولانا فراہی کے بارے میں 17 رمضان 1342ھ میں کچھ تاثرات لکھے تھے جو بعد میں مجلہ الضیاء لکھنوء رجب 1352ء کے شمارے میں چھپے، تقی الدین ہلالی فرماتے ہیں کہ ” علامہ حمیدالدین صاحب کا ایک دیوان شعر بھی ہے جو میں نے ان سے سنا یہ دیوان بلیغ اور موثر طور پر مسلمانوں کے حوصلے بلند کرتا ہے انکے دلوں میں زندگی کی لہر دوڑاتا ہے اس میں فرنگیوں کی مسلم دشمنی ، جنگ طرابلس اور جنگ عظیم کا ذکر ہے ، وہ بڑی فصیح گفتگو کرتے ہیں علمائے ہند تو ایک طرف علمائے عرب میں بھی ایسے اشخاص بہت کم ہیں انکی عمر اندازہً 70برس ہوگی ، انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا ہے جس کا نام مدرستہ الاصلاح رکھا ہے اس میں صرف قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے جو ان کی متاع گم گشتہ ہے ، میں نے ان سے انکی تفسیر قرآن کا مقدمہ سنا اسکی فصاحت اور حقانیت سے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، وہ مسئلہ خلافت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس پر انکی محققانہ نظر ہے ، اہل ہند کے برعکس ان پر اس مسئلے کی کوئی بات مشتبہ نہیں ہے ، عقائد اور اعمال میں مجتہدانہ شان کے مالک ہیں کسی فقہی مذہب کی طرف نسبت کو پسند نہیں کرتے لیکن نماز حنفی طریقے کے مطابق ہی پڑھتے ہیں اس لیے کہ اسی مذہب پر انکی نشوونما ہوئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اسی طرح آسانی رہتی ہے ، رنگ گندم گوں ،چہرہ بشرہ خوبصورت ،قد کشیدہ، داڑھی گول سفید اور براق ہے ، انگریزی ،عربی ، فارسی اور اردو میں مہارت رکھتے ہیں ،کئی عہدوں پر فائز رہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ علی گڑھ میں کالج کی سطح پر استاد تھے ، مختصر یہ کہ اس وقت تک میں جتنے لوگوں لوگوں سے ملا ہوں وہ ان میں سے سب سے بڑے عالم ہیں[ مجلہ الضیاء : رجب 1352ھ]

سید سلیمان ندوی کو مختلف حیثیتوں سے مولانا کے قریب رہنے کا موقع ملا ان کی نظر میں مولانا فراہی کیا مقام رکھتے تھے؟ اس کی جھلک مولانا کی وفات پر لکھے گئے ان الفاظ سے ہوتی ہے ” اس عہد کا ابن تیمیہ 11نومبر 1930ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا وہ جس کے فضل وکمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں ، جس کی مشرقی ومغربی جامعیت عصر حاضر کا معجزہ تھی ، عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ ، زہد و ورع کی تصویر ، فضل وکمال کا مجسمہ،فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا شوق عکاظ، ایک شخصیت منفرد لیکن جہان دانش،ایک دنیائے معرفت ،ایک کائنات علم ، ایک گوشہ نشین مجمع کمال، ایک بے نوا سلطان ہنر ،علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز ،دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے ردوقبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پروا، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ،وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن اور صرف قرآن کے فہم وتدبر اور درس وتعلیم میں محو ہرشئے سے بیگانہ اور شغل سے ناآشنا تھی[ یاد رفتگاں صفحہ 110]

ندوۃ العلماء کے سابق ناظم ابو الحسنات مولانا عبد الحئی لکھنوی مولانا فراہی کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ” وہ چوٹی کے علماء میں سے تھے علوم ادبیہ سے پوری واقفیت رکھتے تھے انشا و ادب پر پورا عبور حاصل تھا ادباء اور ادب سے انہیں بڑا لگاؤ تھا فہم وفراست ،ذکاوت وذہانت ،زہد وتقوی،نیک نفسی وہ بلند ہستی کی وہ تصویر تھے لایعنی باتوں سے بہت دور ،انبار دنیا سے بالکل بے پروا، عربی علوم میں انہیں رسوخ حاصل تھا ، بلاغت پر گہری نظر تھی ، جاہلی دواوین اور عربی اسالیب کلام پر وہ حاوی تھے صحف سماویہ کا بڑا وسیع مطالعہ تھا یہود و نصاری کی کتابوں پر اچھی نظر تھی انکی ساری دلچسپیوں اور عرق ریزیوں کا محور قرآن پاک تھا وہ قرآن پاک پر غور وتدبر کرتے اسکے بحر معانی میں غواصی کرتے ، اسکے تمام اسالیب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ، ان کا عقیدہ تھا کہ پورا قرآن ایک مرتب ومنظم کلام ہے ساری آیات ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں چنانچہ انکی تفسیر نظام القرآن کا اصل الاصول یہی ہے[نزہتہ الخواطر :230/8]

مولانا ابو الکلام آزاد مولانا فراہی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں کہ  مولانا حمید الدین فراہی مرحوم ، جن کی عبارت پر ہنگامہ برپا کیا گیا ہے ان علمائے حق میں سے تھے جن کا سرمایہ امتیاز صرف علم نہیں بلکہ عمل بھی ہوتا ہے اور اس دوسری جنس کی کمیابی کا جو عالم ہے وہ اہل حق سے پوشیدہ نہیں ، میں جب کبھی ان سے ملا مجھ پر انکے علم سے زیادہ انکی عملی پاکی کا اثر ہوا ، وہ پورے معنوں میں ایک متقی اور راست باز انسان تھے انکے دل کی پاکی اور نفس کی طہارت دیکھ کر رشک ہوتا تھا [ ماہنامہ الاصلاح : اگست 1936ء صفحہ 57]

مصنفات ومولفات

مولانا حمید الدین فراہی بہت لکھنے اور رطب ویابس اکھٹا کرنے کے قائل نہ تھے جہاں تک ان کی تصانیف کا تعلق ہے تو انہیں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ایک مصنف ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑے مفکر اور مصلح بھی تھے اور ان کی تصانیف سے ان کی اعلٰی فکری صلاحیتوں، مصلحانہ کردار اور بلند علمی مرتبے کا پتہ چلتا ہے مولانا کے منہج تالیف میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا طریقہ تصنیف وتالیف یہ نہیں تھا کہ ایک موضوع کے بارے میں فکر اور معلومات اکھٹی کرکے اسے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دیں بلکہ بیک وقت کئی ایک موضوعات ان کے پیش نظر موجود رہتے تھے، جب کسی موضوع پر تحقیق مکمل ہوجاتی، ذہن مطمئن ہوجاتا تو اسے لکھ لیتے اور بعد میں وقت ملنے پر ایک موضوع پر مختلف موقعوں پر لکھی ہوئی تحقیقات کو مرتب کرتے تھے اس طرح گویا وہ ایک ہی وقت میں کئی کتب پر کام کر رہے ہوتے تھے (استفادہ عام: حمید الدین فراہی اور جمہور کے اصول تفسیر

درج ذیل میں مولانا کی تصانیف کی فہرست دی جاتی ہے : 

التکمیل فی اصول التاویل
الرائ الصحیح فی من ھو الذبیح
القائد الی عیون العقائد
النظام فی الدیانۃ الاسلامیہ
أسالیب القرآن
أسباق النحو
أقسام القرآن
أمثال آصف الحکیم
امعان فی اقسام القرآن
تحفۃ الاعراب
ترجمہ فارسی پارہ از طبقات ابن سعد
ترجمہ فارسی ، رسالہ بدء الاسلام
ترجمہ قرآن (اردو)
تفسیر نظام القرآن وتاویل الفرقان بالفرقان
جمہرۃ البلاغہ
حکمۃ القرآن
خرد نامہ
دلائل النظام
دیوان ابی احمد الانصاری
رسالہ آخرت
رسالہ توحید
رسالۃ فی اصلاح الناس
رسالۃ فی عقیدۃ الشفاعۃ والکفارۃ
رسالہ نبوت
فی ملکوت اللہ
مفردات القرآن
نوائے پہلوی