یوم النبی ﷺ کا ایک نشریہ ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

گوشہ عبد الماجد دریابادیبارہویں تاریخ مارچ ۶۲۴ عیسوی کی ہے اور بارہویں تاریخ ماہ رمضان ۲ ھ کی بھی ،کہ مدینہ سے ایک قافلہ ایک بڑی مہم پر ایک بڑے میدان کی طرف رواں ہے۔فاصلہ کچھ ایسا کم نہیں کوئی چار منزل۔ قافلہ میں آدمی تین سو سے اوپر اور اونٹ کُل سو ۔نتیجہ ہے کہ ایک ایک اونٹ کے حصہ دار تین تین ،اور سوار ہونا تو ایک وقت میں دوہی کے لیے ممکن تھا۔ اس لیے ایک ساتھی کو تولا محالہ پیدل ہی چلنا پڑتا۔۔۔۔۔۔اور یہی صورت قافلہ کے سردار کے لیے بھی ۔یہ صاحب اڈھیڑ عمر کے ۔یہی کوئی ۵۳ یا ۵۴ سال کی عمر کے ۔دونوں ساتھی سِن میں چھوٹے ۔دونوں ادب کے ساتھ اور جذبہ اطاعت و وفاداری کے ساتھ عرض کرتے ہے کہ محترم سردار!ہم اپنی باری بخوشی بخشتے ہیں۔ہم لوگ پیدل بآسانی چل لینگے ۔ہمارے بجائے آپ ہی سواری پر تشریف رکھیں۔

خلوص سے بھری ہوئی درخواست فدائیوں کی طرف سے تھی جو سِن میں بھی چھوٹے تھے ۔ مگر سنئے کے محترم آقا کی طرف سے جواب کیا ملتا ہے ۔ہمارے آپکے لفظوں میں یہ کہ

تم دونوں کچھ مچھ سے زیادہ قوی تو ہو نہیں(پیدل جیسے تم چل سکتے ہو،میں بھی چل سکتا ہوں )اور رہا وہ اجر جو پیدل چلنے کی مشقت سے حاصل ہوتا ہے ،تو اسکے بھی حاجت مند جیسے تم ویسے میں‘‘۔

جو اب آپ نے سن لیا ؟

ملک وقوم کے سردار ان ذی شان آج اس بیسویں صدی میں بھی جس آن بان ،جس کرّوفر سے سفر کرتے رہتے ہیں اسکے نمونہ آپکی آنکھوں کے سامنے ہے۔ذرا ان نمونوں کو سامنے رکھ کر پھر اس سادے سے جواب کو جانچیے ،تولیے،پر کھیے اور اس پر جھو م جھوم اٹھیے۔بقول شخصے:

چشم بر روئے اوکشا باز بہ خویشتن نگر


سوال وجواب ،اب آپ سمجھ گئے ،کس کس کے درمیان رہا ؟درخواست پیش کرنے والے تھے ،دونو عمر صحابی ،فدائیت کی منزلت طے کئے ہوئے اور جواب دینے والے تھے ہمارے رسول اکرمؐ ۔اللہ کے پیارے اور ہم سب کو درس ہدایت دے جانے والے ۔اب دیکھئے تو اس مختصر سے بول میں کتنا بڑا سبق دے گئے ۔شرافت کا،کسرنفس کا،شفقت کا ،مساوات کا،اپنی ابدیت کا ،اللہ سے اپنے ربط و تعلق کا اور اجرآخرت کی طلب و حرص کا ۔

یہی ہے وہ محبوب و محترم اور سراپا عمل ہستی جسکی سالانہ یاد منانے ہم اور آپ جمع ہوئے ہے۔ یہ پیاری اور برگزیدہ شخصیت تو اس قابل ہے کہ اسکی یاد سال میں ایک بار کیسی ،سال کے ہر روز بلا ناغہ منائی جائے ۔اور دن میں ایک بار نہیں ،پانچ پانچ بار ۔۔۔۔۔درود نا محدود اس ذات پاک پر ۔

اب آپ میدان بدر تک تو آہی چکے ہے تو ذرا ایک ادھ منظر دیکھتے چلئے ۔ادھر مقابل لشکر قریش ہر طرح ساز وسامان سے لیس ،کیا گھوڑے اور کیا اونٹ۔کیا ذرہ اور کیا تلوار ،ہر اعتبار سے۔۔۔۔۔۔اور ادھر مادّی بے سرو سامانی ہر معیار سے ۔اب رہی تعداد تو ادھر ایک ادھر تین۔اِدھر تین سو تیرہ ،اُدھرایک ہزار۔ اس پر مردانگی اور خود اعتمادی کا یہ عالم کہ سرور و سردار نے مقابلہ کر ہی کے چھوڑا اور رہتی دنیا تک ایک باقی رہ جانے والا نقش ہمت و حوصلہ کا چھوڑ دیا۔

معرکہ جنگ تو خیر ۱۷ ۔رمضان یوم جمعہ کو صبح گرم ہونا تھا ۔اس رات میں دیکھنے والے کیا دیکھتے ہیں کہ یہی دلیر و باہمت سردار ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا اپنے رب سے راز و نیاز میں مصروف ہے۔چشم گریاں،قلب لرزاں،زبان پر الفاظ کچھ اس طرح کہ امنڈ امنڈ کر آرہے ہیں:۔

الہی ! اگر تو نے اپنی مٹھی بھر بندوں کو ہلاک کر دیا تو پھر اس زمین پر تیری بندگی کبھی نہ ہوگی ۔

الہی ! تو نے وعدہ امداد کا مجھ سے کیا ہے ۔تو اسے پورا فرما

الہی ! تیری ہی مدد کی درخواست ہے ۔

اللہ اللہ ۔ ہمت و دلیری کا ذکر تو آپ ابھی سن ہی چکے تھے ۔ابدیت ،خشیت ‘اعتماد علی اللہ کا نقشہ اب آپ نے دیکھ لیا ؟۔۔۔۔۔سیرت و کردار کی کتنی گہرائیوں سے پردے اس ایک واقعہ بدر سے ہٹ گئے اور اخلاق و روحانیت و معرفت حق کے کتنے سبق اس ایک واقعہ کے اندر مل گئے ؟

تاریخ کا ورق ذرا اور الٹیے۔


سال ہجری اب ۵ ہے اور مہینہ ذی قعدہ کا ، کہ اکبار گی سارے دشمنوں نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کی ٹھان لی ۔قریش خود بھی زور و طاقت میں کیا کم تھے ،اب کے اپنے ساتھ کے لئے سارے ہی پر قوت قبیلوں کو توڑ لیا،اور پھر ان سب کی کمک پر قوم یہود ۔اس ٹڈی دل نے آکر شہر مدینہ اوراس کے گرد و نواح کو گھیرے میں لے لیا۔مقابلہ کے لیے مسلمانوں نے یہ ٹہرائی کہ شہر سے باہرنکل کر ارد گرد ایک خندق کھود لیجئے خندق جنگی اغراض کے لیے باقاعدہ کھود نے کی یہاں مشق و مہارت کس کوتھی۔کام رسول ؐ ہی کی رہنمائی میں شروع ہوا اور بغیر کسی ۔۔۔ پلٹن کی امداد کے ،کام آپؐ نے یوں کرایا کہ جیسے کوئی ماہر انجینئر ہی کراتااور اب حال یہ تھا کہ خود بھی کدال پھاؤڑا ہاتھ میں لے ،دوسروں ہی کی طرح کھدائی کر رہے ہیں۔جاں نثارصحابیوں کی ،نہیں نہیں ،کے باوجود ۔پورا شہر محاصرے میں ،باہر سے رسد کی آمدبند ،قحط کی سی صورت حال نمودار ہوگئی۔بھوک سے نڈھال صحابیوں نے پیٹ پر پتھر باندھے لیے۔اور اب جودیکھا تو ان سے زیادہ فاقہ کشی کا عالم خود سرور عالم ؐ پر طاری ۔شکم مبارک پر ایک پتھر کے بجائے دو دو پتھر بندھے ہوئے۔

دیکھ لیا آپ نے ؟۔۔۔۔۔۔۔دنیا کی کس فوج کا سالار اپنے ادنی ادنی سپاہیوں کے ساتھ عمل میں مساوات اختیار کریگا ،اور مساوات کیسی۔ یہاں تو صورت سپاہیوں سے بازی لے جانے کی رہی ۔۔۔۔۔جو حکمرانوں میں سب سے بڑھ کر عادل اور داناؤں کی صف میں سب سے بڑا عاقل اور عالموں میں سب سے بڑا فاضل تھا ،وہ مزدوروں کی قطار میں شامل ہوکر کیسا فرد کامل نکلا ۔

پاک و پاکیزہ ،مبارک و متبرک زندگی کا لب لباب یا عطر جو کہئے،انہیں دو ایک جھلکیوں میں کھینچ آیا۔اب انکی شرح کرنے پر آئیں یا واقعات کو تفصیل سے ایک ایک کر کے گنائیے تو منٹ اور گھنٹے کیسے ،ساری رات تمام ہوجائے اور یہ ذکر جمیل تقریبا بھی تمام ہونے کو نہ آئے ۔اللہ کا حق سب سے زیادہ ادا کرنے والا،اللہ کی عظمت کو دل میں سب سے بڑھ کر جگہ دینے والا ،اللہ کی محبت میں رگ رگ سے غرق رہنے والا ،اللہ کے بندوں میں سے ایک ایک کا حق پہچاننے والا ،ہر مظلوم کا ہمدرد،ہر غمگین کا غمگسار،ہر عاجز و درماندہ کا دستگیر،۳۰؍اپریل ۵۷۱ء بمطابق ۱۲؍ربیع الاول ۵۲ ھ قبل ہجرت اس دنیا کو خیر و برکت سے منور کرنے کو مکہ کی سرزمین پر ظاہر ہوا ،اور ۸؍جون ۶۳۲ ء بمطابق ۱۲؍ربیع الاول ۱۱ھ کو مدینہ کی سرزمین سے اپنے مالک و مولی کے حضور میں روانہ ہوگیا ۔عمر سن قمری کے حساب سے ۶۳ سال کی پائی ۔

نبوت کے حصّہ میں کُل ۲۳ سال کی مدت آئی اور اسمیں سے بھی ۱۲ سال کا زمانہ دعوت و موعظت اور ایک بڑی ہی ضدی اور سرکش قوم کی طرف سے مخالفت کی نظر ہوگیا۔مسلمان تو خیر اس ذات کو وسیلہ نجات سمجھتے ہی ہے اور اسکی شان میں


بعد از خدابزرگ توئی قصہ مختصر


کا کلمہ پڑھتے رہتے ہی ہے ۔باقی اسکی امانت ،دیانت ،عفت،ہمت،شرافت،حسن اخلاق، فہم و فراست، تدبیر وتدبر ،جوددستی ،دلیری و مردانگی کی گواہی جس طرح پچھلے منکروں نے دی ،اس طر ح آج تک یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے فاضل و عاقل دیتے چلے آرہے ہیں ،اور اسکے نعت گویوں کی فہرست میں دس بیس نہیں پچاسوں بلکہ سیکڑوں ہندوؤں کے نام نظر آتے ہے۔اسی کے نام کی پکار آج ساڑے تیرہ سو سال سے ہر روز پانچ پانچ بار دنیا کے گوشہ سے ہوتی چلی آرہی ہے۔وہ کل دس سال کی ننھی سی مدت میں دنیا میں عظیم ترین انقلاب برپا کر گیا ۔اپنے پیچھے ایک منظم حکومت بارہ لاکھ مربع میل پر چھوڑ گیا ،وہ بھی لاکھوں انسانوں کے قتل کے بعد نہیں ،ہزارہاں جانیں لینے کے بعد نہیں ،بلکہ حیرت کے کانوں سے سنیئے کہ اسکی ساری لڑائیوں میں دوست دشمن سب ملا کر کل جمع ایک ہزار اٹھارہ انسان کا م آئے۔۔۔۔۔۔۔۲۵۹،اپنے اور ۷۵۹ دشمن کے ۔۔۔۔۔جبھی تو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے گیارہویں ایڈیشن کا بیان ہے کہ دنیا کی مذہبی شخصیتوں میں سب سے بڑھ کر کامیاب وہی گزری ہے :

The most successful of all religious personalities.

اور اسکی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید کی بابت اسی انسائیکلو پیڈیابرٹانیکا کی گواہی ہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب یہی ہے

The most widely read Book in the world.

اور جو امت اس کے نام کا کلمہ پڑھتی ہے ۔اسکی تعداد دنیا کے مختلف ملکوں میں ملا کر ۶۰ کڑوڑ کی ہے۔اس ساری زندگی کو اگر ایک مستقل اور مسلسل معجزہ نہ کہئے تو آخر اور کیا کہئے