ڈبلیو ٹی او معاہدہ جس نے چین اور دنیا کی معاشی تقدیر بدل دی


فیصل اسلام، اکنامکس ایڈیٹر 
بى بى سى اردو،  11دسمبر 2021ء



2001 میں امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملے اور اس کے نتائج ہی دنیا کی توجہ کا مرکز تھے۔ لیکن اس حملے کے ٹھیک تین ماہ بعد ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دنیا پر 9/11 کے اثرات سے بھی زیادہ بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔

11 دسمبر 2001 کو پیش آنے والا یہ واقعہ اور اس کی تاریخ بھلائے جا چکے ہیں جس کے تحت چین کو عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے نے امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت تیل اوردھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالا مال کسی بھی ملک کی معاشی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس پر اس وقت زیادہ دھیان نہیں دیا گیا لیکن اس کے معاشی اور جغرافیائی اثرات آج بھی سب کو یاد ہیں۔ یہی معاہدہ عالمی مالیاتی بحران کی جڑ بنا۔ اسی کی بنا پر صنعتی پیداوار سے جڑی نوکریاں چین کے حوالے کر دی گئیں جس نے مغربی دنیا خصوصاً جی سیون ممالک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا۔

اس وقت اس معاہدے کی حمایت کرنے والوں، جن میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی شامل تھے، کا ماننا تھا کہ 'جمہوریت کی سب سے مضبوط اقدار سمجھی جانے والی معاشی آزادی کی چین تک رسائی سے دنیا کے سب سے زیادہ آّبادی والے ملک میں سیاسی آزادی کا راستہ بھی ممکن ہو سکے گا۔'


بل کلنٹن نے اس وقت کہا تھا کہ 'جب افراد کے پاس صرف خواب دیکھنے کی ہی نہیں، بلکہ خواب پانے کی بھی طاقت ہوتی ہے، تو وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاستی معاملات میں ان کی رائے کو بھی اہمیت دی جائے۔'



لیکن یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی۔ بلکہ چین نے دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بننے کا سفر شروع کر دیا۔ اس سفر کا انجام عنقریب چین کو دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جانے کی شکل میں ہو گا۔

یہ اعتراف حال ہی میں عالمی تجارتی تنظیم میں چین کی شمولیت کے معاہدے میں شریک امریکی نمائندہ شارلین بارشیفسکی نے بھی رواں ہفتے واشنگٹن میں کیا۔

وہاں انٹرنیشنل ٹریڈ ایسوسی ایشن کے پینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چین کے اقتصادی ماڈل نے اس مغربی نقطہ نظر کو 'کسی حد تک غلط' ثابت کیا ہے کہ کسی ملک میں اختراعی معاشرے کے ہوتے ہوئے سیاسی کنٹرول نہیں رکھا جا سکتا۔

انھوں نے مذید کہا کہ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ چین کی اختراعی صلاحیت کی وجہ اس کا معاشی ماڈل ہے لیکن اگر کوئی نظام مغرب کی نظر میں بے جوڑ ہے تو حقیقتا ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو۔



واضح رہے کہ سنہ 2000 تک چین کا عالمی تجارتی کردار پلاسٹک کی سستی مصنوعات کے سب سے بڑے صنعت کار کا تھا جو اہم تو تھا لیکن اتنا نہیں کہ وہ دنیا ہی بدل دیتا یا معاشی طور پر چین کو اتنا مضبوط کر دیتا جتنا وہ آج ہے۔

تجارتی دنیا میں چین کی ترقی نے ایک عالمی تبدیلی کی بنیاد رکھی جس کی وجہ چین کی افرادی قوت اور اعلی معیار کی فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ چینی حکومت کے خصوصی تعلقات بھی تھے۔ اس طاقت ور امتزاج نے رفتہ رفتہ کرہ ارض کا نقشہ بدل دیا۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا حصہ بن جانے کے بعد چین میں کم آمدن پر کام کرنے والے مزدوروں کی فوج نے مغربی معیار زندگی کی اشیا تیار کرنا شروع کر دیں اور چین نے با آسانی دنیا کی بڑی کمپنیوں کے ذریعے اپنے آپ کو عالمی رسد کی ضرورت بنا لیا۔

اقتصادی ماہرین نے اس کو 'سپلائی شاک' کا نام دیا ہے یعنی رسد کا جھٹکا جس کے اثرات یقینا ہلا دینے والے ہی تھے جو آج بھی پوری دنیا میں گونج رہے ہیں۔

چین اور عالمی تجارتی منڈی کے ملاپ نے انتہائی اہم معاشی کامیابیوں کو جنم دیا۔ ان میں سے سب سے اہم انتہائی غربت کا خاتمہ ہے جو چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت سے قبل پچاس کروڑ افراد سے کم ہو کر اب تقریبا صفر ہو چکی ہے۔

اس دوران چین کی معیشت میں 12 گنا اضافہ ہوا ہے جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر 16 گنا اضافے کے ساتھ ڈھائی ٹرلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔



سنہ 2000 میں چین دنیا میں مصنوعات برآمد کرنے والا ساتواں بڑا ملک تھا۔ لیکن حیران کن سالانہ ترقی کی رفتار نے اسے کم ہی عرصے میں پہلے نمبر تک پہنچا دیا۔

اس کا اندازہ صرف کنٹینرز کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے جنہیں عالمی تجارت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت کے پانچ سال کے اندر اندر چین جانے اور آنے والے کنٹینرز کی تعداد چار کروڑ سے آٹھ کروڑ پر پہنچ گئی جس میں 2011تک مزید تین گنا اضافہ ہو چکا تھا۔

گذشتہ سال ان کنٹینرز کی تعداد 245 ملین تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے چین جانے والے آدھے کنٹینرز خالی تھے لیکن چین سے جانے والے تمام کنٹینرز بھرے ہوئے تھے۔

اس معاشی ترقی کے ساتھ ہی ساتھ چین میں سڑکوں کے جال میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 1997 میں چین میں 4700 کلومیٹر طویل سڑکیں تھیں۔ 2020 میں چین میں 161000 کلومیٹر طویل سڑکیں موجود تھیں جو ملک کے 99 فیصد شہروں کو جوڑتی ہیں اور دنیا میں سڑکوں کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہیں۔

چین کی مصنوعات کی برآمدی منڈی کو رواں رکھنے کے لیے اسے دھاتوں، معدنیات اور قدرتی ایندھن جیسے مواد کی بھی ضرورت تھی جس میں سب سے اہم سٹیل ہے۔

سنہ 2005 میں چین نے پہلی بار سٹیل کی برآمد بھی شروع کی اور آج دنیا میں سٹیل بر آمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ 1990 کی دہائی میں چین میں سٹیل کی سالانہ پیداوار تقریباً 100 ملین ٹن تھی جو 2020 میں سالانہ ایک ارب ٹن سے تجاوز کر چکی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال پیداوار کے لیے درکار دیگر اشیا کا بھی ہے۔



الیکٹرانکس، کپڑے، کھلونے اور فرنیچر سمیت چین دنیا بھر میں رسد کے معاملے میں سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ سنہ 2000 سے 2005 تک چین سے کپڑوں کی بر آمد میں دو گنا اضافہ ہوا اور عالمی طور پر اس کا حصہ ایک تہائی پر جا پہنچا۔

وقت کے ساتھ ساتھ چین میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کپڑوں کی مصنوعات کی تیاری کا کام بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے ممالک میں بھی منتقل ہوا۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین کی شمولیت کو ممکن بنانے والے وزیر لانگ یانگٹو کہتے ہیں کہ چین کی شمولیت کو امریکہ اور مغرب میں پیداواری نوکریوں میں کمی سے جوڑنا غلط ہو گا۔ 'اصل معاملہ یہ تھا کہ جب چین کی اقتصادی ترقی کا آغاز ہوا تو اپنے ساتھ ساتھ چین نے پوری دنیا کو بھی ایکسپورٹ مارکیٹ فراہم کی۔'

وہ کہتے ہیں کہ کسی کو الزام دینا آسان تو ہے لیکن اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اگر چین نہ ہوتا تو عین ممکن ہے امریکہ کی پیداواری نوکریاں میکسیکو منتقل ہو جاتیں۔'

انھو ں نے شیشہ بنانے والے ایک چینی صنعت کار کی کہانی سنائی جسے امریکہ میں فیکٹری کھولنے میں مشکلات درپیش تھیں۔

'اس کو وہاں اچھے کام کرنے والے ہی نہیں مل رہے تھے۔ اس نے مجھے کہا کہ وہاں مزدوروں کے پیٹ ہی بڑے ہیں۔'



سوال یہ ہے کہ کیا چین کی اقتصادی ترقی کے سفر کا دائرہ مکمل ہو چکا ہے؟ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں رہتے ہوئے چین نے انتہائی معاشی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن سابق امریکی صدر ٹرمپ کے بعد موجودہ صدر جو بائیڈن بھی چین کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرنے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

امریکہ چین کے خلاف معاشی اور سفارتی سطح پر یورپ اور ایشیا میں نئی صف بندیاں کر رہا ہے۔

سابق امریکی تجارتی نمائندہ بارشیفسکی کے مطابق چین کی موجودہ ترقی کا نتیجہ ٹکراؤ کی شکل میں نکلے گا۔ 'یہ ایک ایسا اقتصادی ماڈل ہے جو ریاست کے زیر تسلط ہے اور وہ من مانی انڈسٹری کو فوائد دیتی ہے اور مزید مضبوط ہوتی ہے۔ اگر چین اس کے نتیجے میں خود سے یہ سمجھتا ہے کہ چوتھے صنعتی انقلاب کا لیڈر بن جائے گا تو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے لیے یہ معاملہ کچھ مشکل ہو جائے گا۔'

تو 20 سال بعد ایک ایسے فیصلے نے دنیا بدل دی جس پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا۔

چین کے لیے اس کا نتیجہ ایک بڑی کامیابی کی شکل میں نکلا جب کہ مغربی دنیا کی حکمت عملی ناکام رہی۔ الٹا یہ ہوا کہ سیاسی طور پر چین مغرب جیسا ہوتا، معاشی طور پر مغرب چین جیسا ہونے لگا ہے۔