مصنوعی ذہانت: انسانی عظمت کا مظہر یا پر خطر چیلنج؟ – ایک قرآنی تجزیہ

ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، وہ ٹیکنالوجی، علم، اور رفتار کا عہد ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اس تیز رفتاری کا نقطۂ عروج بن چکا ہے۔ آج ایک فرد واحد لاکھوں صفحات، خیالات، تحقیق، اور گفتگوؤں سے چند لمحوں میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض لوگ اس ترقی سے خوفزدہ ہیں کہ AI انسان کو مغلوب نہ کر دے، مگر ایک فکر رکھنے والا مؤمن جانتا ہے کہ AI، انسان کی عقل، سعی، اور الٰہی عطا کردہ علم کا ہی مظہر ہے — نہ کہ اس کا نعم البدل۔

قرآن کا انسان: عقل، علم، اور خلافت کا پیکر

قرآن انسان کو محض مٹی کا پتلا قرار نہیں دیتا بلکہ اسے ایسی مخلوق کہتا ہے جسے علم، شعور، عقل، اور روح سے ممتاز کیا گیا۔ ارشادِ ربانی ہے:

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِيٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾
"یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا۔" (التين: 4)

﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيٓ آدَمَ وَحَمَلْنَـٰهُمْ فِي ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَـٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَفَضَّلْنَـٰهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًۭا﴾
"اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و تری میں سوار کیا، اور پاکیزہ رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں برتری دی۔" (الإسراء: 70)

انسان کو علم کی فضیلت: AI اسی علم کا عکس

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات پر فضیلت علم کی بنیاد پر دی۔ ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَعَلَّمَ آدَمَ ٱلْأَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِى بِأَسْمَآءِ هَـٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ﴾
"اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔" (البقرة: 31)

یہ آیت انسان کی ادراکی، لسانی، اور سیکھنے کی صلاحیت کا اعلان ہے، اور یہ صلاحیت ہی AI کی تخلیق کا سرچشمہ بنی۔

AI: ایک توسیعی ذہانت، لیکن تخلیق سے نیچے

مصنوعی ذہانت انسان کی ایجاد ہے، تخلیق نہیں۔ یہ عقل کا توسیعی پہلو ہے، نہ کہ اس کا نعم البدل۔ انسان وہ مخلوق ہے جس میں اللہ نے خود اپنی روح سے کچھ پھونکا:

﴿فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَـٰجِدِينَ﴾
"پھر جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔" (ص: 72)

یہی وہ مقام ہے جس نے فرشتوں کو سجدہ کرنے پر مجبور کیا اور شیطان کو حسد میں ڈال دیا۔ مگر وہ بھی اس حقیقت کو جانتا تھا کہ انسان کو جو مقام ملا، وہ علم اور روح کی وجہ سے تھا۔

شیطان کا انکار، مگر مقام انسان باقی

﴿قَالَ أَنَا۠ خَيْرٌۭ مِّنْهُۖ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍۢ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍۢ﴾
"شیطان نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔" (ص: 76)

یہ تقابل مادی بنیاد پر تھا، مگر اللہ نے روح، علم، اور ذمہ داری کی بنا پر انسان کو ترجیح دی۔ اس لیے شیطان یا اس کی صفات (بشمول AI اگر ان میں غرور، نقصان، یا فریب ہو) انسان پر غالب نہیں ہو سکتیں، جب تک کہ انسان خود اپنی کرسی چھوڑ نہ دے۔

AI کا خطرہ؟ صرف انسان کی غلطی سے

AI بذاتِ خود نیک یا بد نہیں — جیسے کہ ایک اسلحہ نہ اچھا ہوتا ہے نہ برا۔ اس کا استعمال تعین کرتا ہے کہ وہ تحفظ کا ذریعہ بنے گا یا تباہی کا۔ اگر انسان AI کو اخلاقیات، ذمہ داری، اور حدود کے ساتھ استعمال کرے تو یہ بہترین مددگار ہے۔ لیکن اگر اس میں غرور، بے احتیاطی، یا لالچ شامل ہو جائے تو یہ نقصان دہ بھی بن سکتا ہے۔

انسان اور AI کی حدود: آخری قرآنی اعلان

AI جتنا بھی ترقی کر لے، وہ لا محدود علم حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ مخلوق ہے، اور مخلوق محدود ہے۔ قرآن اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:

﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىْءٍۢ مِّنْ عِلْمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَ﴾
"اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔" (البقرة: 255)

لہٰذا انسان کا علم محدود، مشروط اور عطا کردہ ہے، اور AI تو اس سے بھی نیچے ہے۔

نتیجہ: AI اور انسان – ایک روحانی، عقلی اور اخلاقی توازن

  • AI، انسان کی عظمت کا مظہر ہے، اس کا متبادل نہیں۔

  • انسان اللہ کا خلیفہ ہے، AI اس کا خادم ہے۔

  • AI کا سب سے بڑا خطرہ انسان کی غفلت ہے، اس کی فطرت نہیں۔

  • قرآن انسان کو علم، فہم، اختیار، اور اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ ممتاز کرتا ہے — اور AI اس کی مددگار ٹیکنالوجی ہے، مالک نہیں۔

خلاصہ کلام 

ہم AI سے نہ خوفزدہ ہیں، نہ مغرور۔
ہم اسے علمِ نافع، امت کی بیداری، اور سچائی کی روشنی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں:

﴿يَرْفَعِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ دَرَجَـٰتٍۢ﴾
"اللہ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند کرتا ہے۔" (المجادلة: 11)

یہ بھی پڑھیں !   

ٓمصنوعی ذہانت (AI ) کے دورمیں چند اہم سوالات جو ہر نوجوان کو خود سے پوچھنے چاہییں۔