امريکى صدر جو بائيڈن کى طرف سے طالبان حکومت سے بات چيت کا اشارہ

بى بى سے اردو کے مطابق پير 19 سبتمبر 2022 کو طالبان نے ایک امریکی انجینیئر کو رہا کر دیا ہے جسے انھوں نے 2020 سے یرغمال بنا رکھا تھا جبکہ اس رہائی کے بدلے میں امریکہ نے سنہ 2005 سے اپنی حراست میں رکھے گئے ایک افغان قبائلی رہنما کو رہا کیا ہے۔

 امریکی بحریہ کے سابق افسر مارک فریرچ کو پیر کے روز کابل ہوائی اڈے پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔

بدلے میں طالبان کے اتحادی بشیر نورزئی کو طالبان کے حوالے کیا گیا ہے۔ نورزئی منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

اس پر امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی انجینیئر کی رہائی کے بدلے میں ’مشکل فیصلے کرنے‘ پڑے ہیں۔

صدر بائیڈن نے جنوری (2022) میں کہا تھا: ’اگر طالبان چاہتے ہیں کہ اُن کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جائے تو انھیں مارک کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔‘

60 سالہ مارک  فریرچ کو طالبان نے افغانستان پر اگست 2021 میں دوبارہ قبضے سے ایک سال قبل  يعنى 2020 میں اغوا کیا تھا۔  

مارک فريرچ اور بشير نورزئى

مارک فریرچ گذشتہ 10 سال سے سول انجینئر کے طور پر کابل میں رہ رہے تھے اور وہیں کام کرتے تھے۔

نورزئی طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی اور دوست تھے اور انھوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کی مالی مدد کی تھی۔

نورزئی ہیروئن کی سمگلنگ کے الزام میں 17 سال تک امریکی حراست میں رہ چکے ہیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک کے جنوب میں طالبان کے روایتی گڑھ صوبہ قندھار میں افیون کی کاشت کا ایک وسیع آپریشن چلایا۔

سنہ 2005 میں ان کی گرفتاری کے وقت انھیں دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروشوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، جو افغانستان کی نصف سے زیادہ منشیات کی برآمدات کو کنٹرول کرتے تھے۔

سنہ 2008 میں انھیں نیویارک کی ایک عدالت نے 50 ملین ڈالر سے زیادہ کی ہیروئن امریکہ سمگل کرنے کی سازش کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

سنہ 2009 میں ایف بی آئی کی جانب سے ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کیے گئے شواہد کے مطابق، افغانستان کے سب سے بڑے اور بااثر قبائل میں سے ایک قبیلے کے رہنما بشیر نورزئی، افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں افیون کے کھیتوں کے مالک تھے، اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں لیبارٹریوں میں افیون تیار کرتے تھے۔

ان لیبارٹریوں سے ہیروئن کو بعد میں سوٹ کیسوں اور بحری جہازوں میں چھپا کر امریکہ میں درآمد کیا جاتا تھا۔ 1990 کے اوائل میں نورزئی کے پاس نیویارک شہر میں منشیات فروخت کرنے والوں کا ایک پورا نیٹ ورک تھا۔

افغانستان پر روسی قبضے کے دوران بشیر نورزئی نے مجاہدین اور جنگجوؤں کی اپنی فوج تیار کی، اور منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اسے مسلح کیا۔ روسی فوج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد نورزئی نے مغربی قندھار پر حکومت کی اور اس دوران اپنی پولیس، سرحدی محافظ اور عدالتوں کا نظام بنایا جسے وہ خود کنٹرول کرتے تھے۔

1980 کی دہائی میں نورزئی کی ملا عمر سے ملاقات ہوئی تھی، اس وقت دونوں ایک ہی مجاہدین کے دھڑے میں لڑ رہے تھے۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں جب طالبان افغانستان میں اقتدار پر قابض ہوئے تب نورزئی نے قندھار میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے طالبان کے سپریم لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے میں ملا عمر کی مدد کی۔

اس کے بعد نورزئی نے طالبان کو اسلحہ فراہم کیا، جس میں AK-47 رائفلیں، راکٹ سے چلنے والے گرینیڈ لانچرز، اور ٹینک شکن ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ گاڑیاں اور منشیات کی سمگلنگ کی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ بھی شامل تھا۔

سنہ 2001 میں، جب امریکہ نے افغانستان میں فوجی آپریشن شروع کیا تو مللا عمر کی درخواست پر نورزئی نے طالبان کو مزار شریف میں افغانستان کے شمالی اتحاد کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے اپنے 400 جنگجو فراہم کیے۔

یاد رہے کہ طالبان کی حکومت کو ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔