علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۳)

 سید منظور الحسن

احادیث کے رد و قبول کے معیارات

اِس پورے پس منظر میں علما و محدثین کی طرف سےجو بڑے اقدامات سامنے آئے، وہ یہ ہیں:

ایک یہ کہ بعض علمی گروہوں نے حدیث کو اصولی طور پر قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس معاملے میں معتزلہ اور خوارج نمایاں تھے۔ تاہم امت نے مجموعی طور پر اس رویے کو رد کیا ، اور اپنی تاریخ میں حدیث کا انکار کرنے والوں کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔

دوسرے یہ کہ احادیث چونکہ راویوں کی روایت پر مبنی تھیں، اس لیے ناگزیر تھا کہ اُن میں قابل اعتماد اور ناقابل اعتماد لوگوں کو الگ الگ کیا جائے۔ چنانچہ راویوں کے حالات زندگی کی تحقیق اور عیوب و محاسن کی تفتیش کا عظیم الشان کام شروع ہوا۔ اصطلاح میں اسے  ’اسماء الرجال‘ سے تعبیر کیا گیا۔ ۲۵؎

اسی ضمن میں موضوع اور جھوٹی حدیثوں کو چھانٹنے کا عمل بھی ساتھ ساتھ شروع ہوا اور جرح و تعدیل کے اصولوں کی بنا پر موضوع حدیثوں کے بے شمار مجموعے مرتب کیے گئے۔ ۲۶؎

تیسرے یہ کہ سند کے ساتھ ساتھ متن کی جانچ پڑتال کا کام بھی شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ احادیث کو قرآن مجید، سنت ثابتہ اور عقل عام کی روشنی میں پرکھا جائے اور جو احادیث ان سے غیر مطابق ہوں، اُنھیں رد کر دیا جائے۔ اس ضمن میں اصول حدیث کی کتب تالیف کی گئیں۔

چوتھے یہ کہ اُن احادیث کو مجموعوں کی صور ت میں جمع کیا گیا جن کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متحقق اور قابل اطمینان تھی۔ چنانچہ امام بخاری، امام مسلم، امام احمد بن حنبل، امام ابو داؤد ، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور متعدد محدثین نےاپنی تحقیقات اور اپنے اصولوں کی روشنی میں قابل اعتماد احادیث کے مجموعے ترتیب دیے۔ 

پانچویں یہ کہ امت کے جلیل القدر علما اور فقہا نے احادیث کو حرز جاں بنایا اور ان کی تحقیق و تفتیش اور جمع و تدوین میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔اُنھوں نے پوری احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے حاصل ہونے والے علم کو درجۂ ظن میں رکھااور ان کی قبولیت کے لیے انتہائی کڑے معیارات کو قائم کیا۔ 

فقہا نے فقہی آرا کے لیے احادیث سے استشہاد کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے قبول عام معیارات کے ساتھ اپنے اپنے نظریے کے لحاظ سے خاص معیارات  بھی متعین کیے۔

مثال کے طور پر امام مالک نے طے کیا کہ اخبار آحاد کی صورت میں  روایت ہونے والی احادیث کو اہل مدینہ کے عمل کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ اگر وہ اُس کے مخالف ہوئی تو اُسے رد کر دیا جائے گا۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک خبر واحد اُس صورت میں قبول ہو گی ، جب وہ قرآن مجید اور سنت مشہورہ کے خلاف نہ ہو۔امام شافعی نے خبر واحدکو صحیح الاسناد ہونے کی بنا پر قبول کرنے کا طریقہ اختیار کیا،لیکن انھیں اخبار خاصہ (چند افراد تک محدود رہنے والی خبریں)قرار دے کر اخبار عامہ (اجماع و تواتر سے ملنے والی خبریں) کے تابع رکھنے کا فیصلہ کیا۔

مطلب یہ ہے کہ احادیث کے رد و قبول کے معیارات کے تعین میں اہل علم کے مابین ہمیشہ فرق قائم رہا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک حدیث ایک محدث یا فقیہ کے نزدیک مقبول ہوتی ہے، مگر دوسرے محدث یا فقیہ کے نزدیک مردود قرار پاتی ہے۔ ۲۷؎

امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے احادیث کو قبول کرنے کے لیے نسبتاً زیادہ سخت معیارات قائم کیے، اس لیےاُنھوں نے متعدد ایسی روایتوں کو قبول کرنے سے انکار کیا جو اُن کے نزدیک دین کی اساسات کے خلاف اور قرآن وسنت سے معارض تھیں ۔

اُن کے اس عمل کو بعض علما اور علمی گروہوں نے ہدف تنقید بنایا اور بعض نے انکارحدیث یا اپنی راے کو حدیث پر ترجیح دینے کا الزام عائد کیا۔

تاہم علماے امت کی اکثریت نے ایسے الزامات کی تردید کی ۔ امام ابن عبدالبر ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

”امام ابوحنیفہ کسی عناد کی بنیاد پر احادیث کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ قوی دلائل و براہین کے پیش نظر بنا بر اجتہاد آپ نے یہ موقف اختیار کیا تھا، اس لیے اگر آپ کا یہ اجتہاد غلط ہے تو ان کو ایک اجر ملے گا اور اگر درست ہے تو دو اجر۔ آپ کو ہدف نقد و جرح بنانے والے یا تو حاسد ہیں اور یا اجتہاد کی حقیقت سے بے گانہ اشخاص۔“

جلیل القدر فقہا اور محدثین میں کوئی ایک امام بھی ایسا نہیں ہے جس نے متعدد احادیث کو بوجوہ رد نہ کیا ہو۔ ۲۸؎

 احادیث کے مجموعے

تیسری صدی ہجری میں حدیث کی جمع و تدوین کا کام زیادہ ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ سامنے آیا۔ اس صدی کی نمایاں تالیفات یہ ہیں:

 کتاب الام للشافعی(۲۰۴ھ)، 

مسند الطیالسی (۲۰۴ھ)،

مصنف عبدالرزاق (۲۱۱ھ)،

مصنف ابن ابی شیبہ (۲۳۵ھ)،

مسند احمد بن حنبل( ۲۴۱ھ)، 

الجامع الصحیح للبخاری( ۲۵۶ھ)، 

الجامع الصحیح للمسلم( ۲۶۱ ھ)، 

سنن ابو داؤد( ۲۷۵ ھ)، 

الجامع للترمذی( ۲۷۹ ھ)، 

سنن ابن ماجہ( ۲۷۳ ھ)، 

سنن نسائی (۳۰۳ھ)،

ان میں سے موخر الذکر چھ کو صحاح ستہ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔

یہ اور ان کے بعد تالیف ہونے والے درجنوں مجموعہ ہاے حدیث کے حوالے سے دو سوال اہم ہیں:

ایک یہ کہ کیا ان میں نقل احادیث کی صحت کے بارے میں علما کے مابین اتفاق پایا جاتا ہے؟

دوسرے یہ کہ کیا محدثین نے اپنے مجموعوں میں اپنی محققہ تمام روایات کو بالاستیعاب شامل کیا ہے؟

ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔

ہر مجموعۂ حدیث پر دیگر علما و محدثین کی طرف سے نقد سامنے آیا ہے۔ 

مثال کے طور پر مسند احمد بن حنبل کے بارے میں بعض  علما کی راے ہے کہ اس میں صحیح، ضعیف اور موضوع ہر طرح کی روایات شامل ہیں۔ ابن الجوزی نے مسند کی انتیس احادیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ عراقی کہتے ہیں کہ مسند میں ضعیف احادیث تو یقیناً موجود ہیں، بلکہ احادیث موضوعہ بھی ہیں جن کو میں نے ایک جز میں یکجا کر دیا ہے۔ امام احمد کے بیٹے عبداللہ نے مسند میں جو اضافے کیے ہیں، اس میں ضعیف اور موضوع سب قسم کی روایات موجود ہیں۔ ۲۹؎

جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ محدثین نے ان مجموعوں میں اپنی دریافت شدہ تمام روایتوں کو شامل کیا ہے تو اس  کے جواب میں صرف بخاری و مسلم کے کام سے صورت حال کا اندازہ ہو جائے گا۔

 امام بخاری کا قول ہے کہ اُنھوں نے خوف طوالت سے بعض صحیح احادیث کو ترک کر دیا۔۳۰؎ امام مسلم کے بقول اُنھوں نے صرف وہی احادیث اپنی کتاب میں شامل کی ہیں جن کی صحت پر علما کا اتفاق ہے۔ ۳۱؎

بخاری ومسلم کے اس فیصلے کو بعض محدثین نے ہدف تنقید بھی بنایا ہے۔ مثلاً ابن حبان کہتے ہیں کہ بخاری و مسلم پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بعض ایسی احادیث کو شامل نہیں کیا جو اُن کے شرائط کے مطابق صحیح کے درجے کی تھیں۔۳۲؎ امام دارقطنی کا قول ہے کہ بخاری و مسلم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث کو اپنی کتب میں شامل نہیں کیا ، دراں حالیکہ اُن کے اپنے شرائط کے مطابق اُنھیں شامل کرنا ضروری تھی۔۳۳؎ امام بیہقی کہتے ہیں کہ ان محدثین نے ’’صحیفۂ ہمام بن منبہ‘‘ کی بعض روایات کو شامل کیا ہے اور بعض کو شامل نہیں کیا، جب کہ اس صحیفے کی روایات کا سلسلۂ اسناد ایک ہی ہے۔۳۴؎ امام حاکم ابو عبداللہ نیشا پوری نے اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں متعدد ایسے راویوں کا ذکر کیا ہے جو ثقہ ہیں، مگر بخاری و مسلم نے انھیں قبول نہیں کیا۔ ان میں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین شامل ہیں۔ اِسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ بخاری و مسلم نے امام ابو حنیفہ، امام شافعی سے موقع اور معاصرت کے باوجود روایات نہیں لیں۔ امام بخاری نے امام احمد سے روایت نہیں لی اور امام مسلم نے امام بخاری کی سند سے کوئی روایت نہیں لی۔  ۳۵؎

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۲۵؎   اس سے مراد حدیث کا وہ خاص شعبۂ علم ہے جس میں رجال حدیث، یعنی راویوں کے حالات، پیدایش، وفات، اساتذہ و تلامذہ کی تفصیل، طلب علم کے لیے سفر، ثقہ و غیر ثقہ ہونے کے بارے میں ماہرین علم حدیث کے فیصلے درج ہوتے ہیں۔اس علم پر سینکڑوں مختصر اور مطول کتابیں لکھی جا چکی ہیں، جن میں کئی لاکھ اشخاص کے حالات زندگی محفوظ ہیں۔ اس ضمن میں وقتاً فوقتاً بہت سی کتابیں تالیف کی گئیں۔

۲۶؎   فن جرح و تعدیل کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں:

تاریخ کبیر، امام بخاری( ۲۵۶ھ ) الجرح والتعدیل، امام ابی حاتم الرازی (۳۲۷ھ)۔ الکامل فی ضعفاء الرجال، عبداللہ بن عدی الجرجانی (۳۶۵ھ) ۔ الجرح و التعديل، عبد الرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم (۳۲۷ ھ)۔ تہذیب الکمال، یوسف بن الزکی المزی (۷۴۲ ھ)۔ میزان الا عتدال، ذہبی(۷۴۸ ھ)۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر العسقلانی (۸۵۲ھ )۔ لسان المیزان، ابن حجر العسقلانی (۸۵۲ھ)۔ سیر اعلام النبلاء، ذہبی (۷۴۸ ھ)۔

موضوع احادیث کے بارے میں چند نمایاں کتابیں یہ ہیں:

 تذكرة الموضوعات، الحافظ محمد بن طاہر المقدسي (۵۰۷ ھ)۔ الموضوعات،امام جوزی (۵۹۷ھ)۔ المنار المنيف، ابن قيم (۷۵۱ ھ)۔ اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة، سيوطی(۹۱۱ ھ)۔ الأحاديث الموضوعة في الأحكام المشروعة، موصلی (۶۲۲ ھ)۔موضوعات، الصاغانی (۶۵۰ ھ)۔ ترتيب الموضوعات ، ابن الجوزی (۵۹۷ھ)۔

۲۷؎   ابو زہرہ ، ’’تاریخ التشریع السلامی للخضری‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’سابقہ بیانات اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ حدیث نبوی کی قدر و قیمت معین کرنے میں بڑا اختلاف پایا جاتا تھا۔ گاہے ایسا ہوتا کہ حنفی شخص حدیث کی شہرت کی بنا پر اس پر عمل کرتا اور شافعی المسلک ضعیف الاسناد ہونے کی بنا پر اس کو متروک العمل ٹھیراتا۔ ایک مالکی المسلک شخص ایک حدیث پر اس لیے عمل نہ کرتا کہ اہل مدینہ کا تعامل اس کے خلاف ہے۔ اس کے برخلاف شافعی المسلک صحیح الاسناد ہونے کی بنا پر اس پر عمل کرتا۔ آخری دور میں ایسے لوگ منظر عام پر آئے جو اپنے فقہی مسالک کی تائید و حمایت کرتے اور دوسرے ائمہ پر تنقید کرتے تھے۔ انھوں نے ان اصول و ضوابط کو نظر انداز کر دیا، جن پر ان کے ائمہ گامزن تھے۔ وہ جب دیکھتے کہ دوسرے فقہی مسلک کے حاملین نے کسی حدیث پر عمل نہیں کیا تو وہ ان پر معترض ہوتے کہ انھوں نے ایک صحیح الاسناد حدیث کی مخالفت کی ہے۔ اگرچہ وہ حدیث ان شرائط کی جامع نہ ہو جو دوسرے فقہی مسلک کے حاملین کے نزدیک ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کرتے کہ جس حدیث پر ان کے امام نے عمل نہیں کیا، وہ حتی المقدور جیسے بھی ممکن ہو، اس کو ضعیف ٹھیرانے کی کوشش کرتے، حالاں کہ یوں کہنا بہت آسان تھا کہ چونکہ وہ حدیث ان ضروری شرائط کی حامل نہیں جو امام کے نزدیک لازم تھے، اس لیے امام نے اس کو معمول بہ قرار نہیں دیا۔“ (تاریخ التشریع الاسلامی للخضری ۲۱۰)

۲۸؎   امام ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ ائمۂ مجتہدین میں سے کوئی امام بھی ایسا نہیں جس نے متعدد احادیث کو بوجوہ رد نہ کر دیا ہو یا تو اس لیے کہ وہ احادیث ان کے نزدیک شرائط صحت کی جامع نہیں یا منسوخ ہونے کی وجہ سے یا اس لیے کہ ان کی معارض دوسری حدیث موجود ہے۔ امام مالک ہی کو دیکھیے باوجودیکہ آپ امام دار الہجرت اور امیر المومنین فی الحدیث تھے۔ تاہم آپ نے ستر (۷۰) احادیث کی مخالفت کر کے اپنی راے پر عمل کیا، اس لیے کہ وہ احادیث ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھیں (جامع البیان ۲ / ۱۴۸۔ شروط الائمۃ الخمسہ ۴۹، نیز مقدمہ ابن خلدون فصل علوم الحدیث و مقدمہ قسطلانی علی البخاری ۳۳)۔

۲۹؎   تدریب الراوی ۵۶۔

۳۰؎   جملہ حفاظ و ائمۂ حدیث کا اجماعی فیصلہ ہے کہ بخاری و مسلم نے اپنی اپنی کتاب میں احادیث صحیحہ کا استیعاب نہیں کیا اور نہ اس کا التزام کیا ہے۔ امام بخاری سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا:

”میں نے صحیح بخاری میں صرف وہی احادیث شامل کی ہیں جو صحیح تھیں۔ اور بعض احادیث صحیحہ کو خوف طوالت کے پیش نظر ترک کر دیا“ (تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ ۵۰۰)۔

۳۱؎   امام مسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

”جو احادیث صحیحہ مجھے یاد تھیں، وہ سب کی سب میں نے اس کتاب میں شامل نہیں کیں۔ میں نے صرف وہ احادیث اس میں جمع کی ہیں جن کی صحت پر اجماع قائم ہو چکا ہے۔ ‘‘(مقدمہ ابن الصلاح، تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ ۵۰۱)

۳۲؎   تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ ۵۰۲۔

۳۳؎   تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ ۵۰۲۔

۳۴؎   تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ ۵۰۲۔

۳۵؎   شیخ محمد زاہد کوثری ”شروط الائمۃ الخمسہ للحازمی“ کے حاشیہ پر رقم طراز ہیں:

”یہ امر قابل غور ہے کہ شیخین (امام بخاری و مسلم) نے صحیحین (صحیح بخاری و صحیح مسلم) میں امام ابوحنیفہ کی کوئی روایت شامل نہیں کی، باوجودیکہ ان کی ملاقات جناب امام کے کم سن اصحاب الاصحاب سے ہوئی تھی اور ان سے اخذ و استفادہ بھی کیا تھا۔ بخاری و مسلم نے امام شافعی کی کوئی روایت بھی شامل کتاب نہیں کی، اس کے باوصف کہ وہ دونوں امام شافعی کے بعض تلامذہ کو مل چکے تھے۔ امام بخاری نے امام احمد کی صرف دو روایتیں کتاب میں شامل کی ہیں۔ ایک تعلیقاً (بلا سند) اور دوسری بالواسطہ، حالاں کہ امام بخاری امام احمد سے مل چکے تھے اور ان کی صحبت میں رہ چکے تھے۔ اسی طرح امام مسلم نے امام بخاری کی کوئی روایت صحیح مسلم میں شامل نہیں کی،اس کے باوجود کہ وہ بخاری کے شاگرد اور ان کے تربیت یافتہ ہیں۔ مسلم نے امام احمد سے تیس کے لگ بھگ احادیث روایت کی ہیں۔ امام احمد نے اپنی مسند میں امام مالک سے از نافع بطریق شافعی صرف چار حدیثیں روایت کی ہیں، حالاں کہ یہ صحیح ترین سند ہے یا صحیح ترین اسانید میں سے ایک ہے۔ امام احمد نے شافعی سے لے کر جو احادیث روایت کی ہیں، وہ بیس سے بھی کم ہیں، اس کے باوصف کہ امام احمد امام شافعی کی صحبت میں رہ کر ان سے موطا امام مالک کا سماع کر چکے تھے۔ مزید برآں امام احمد کو امام شافعی کے مذہب قدیم کے راویوں میں سے بھی شمار کیا جاتا ہے۔“ (تاریخ حدیث و محدثین، ابو زہرہ