علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

علامہ عنایت اللہ مشرقی 
علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ ہماری قوم کے اندر ایک منفرد سیرت و کردار کے لیڈر تھے۔ اگرچہ ہمیں کبھی ان کے نظریات سے پورا پورا اتفاق نہ ہو سکا، لیکن اس امر میں ہمیں کبھی شک نہیں ہوا کہ اپنی قوم کی سربلندی کے لیے ان کے دل کے اندر بڑا غیرمعمولی جوش و جذبہ تھا۔ وہ اسلام اور غلبہ کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس وجہ سے اس دور میں مسلمانوں کی بے بسی پر ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔

 انھوں نے اس حیرت انگیز تضاد سے بڑا گہرا تاثر لیا کہ مسلمان قومیں اسلام کی مدعی ہیں، لیکن دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور مغربی قومیں اسلام کی منکر ہیں، لیکن نہ صرف مشرق کی غیرمسلم قوموں پر، بلکہ خود مسلمانوں پر بھی حاوی اور غالب ہیں۔ جب انھوں نے اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی نظر اس بات کی طرف گئی کہ ہم مسلمان صرف اسلام کی چند روایات کے پرستار بن کر رہ گئے ہیں اور اسلام کا اصلی کردار دنیا کی غالب قوموں نے اپنا رکھا ہے۔ 

ان غالب قوموں کے کردار میں سب سے زیادہ ابھری ہوئی چیز جو ان کو نظر آئی، وہ ان کا عسکری جوش و جذبہ اور ان کی فوجی تنظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں عسکری تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور ستم رسیدہ ممالک کے حساس لوگوں کو ان تحریکوں نے اپیل کیا۔

خاکسار کے روپ میں 
 علامہ مشرقی مرحوم بھی ایک نہایت حوصلہ مند انسان تھے۔ انھوں نے بھی وقت کے حالات سے بڑا گہرا اثر لیا اور اپنی قوم کے اندر عسکری تنظیم کا صور اس زور سے پھونکا کہ فی الواقع ان کی تحریک نے پورے ملک میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ ان کی تحریروں اور تقریروں میں ایک خاص قسم کا زور تھا جو عسکری جوش و جذبہ رکھنے والے بوڑھوں اور جوانوں پر جادو کا اثر کرتا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے علما کے سوا ہر طبقہ کو متاثر کیا۔ ان میں عسکری تنظیم کی حیرت انگیز قابلیت تھی۔ چنانچہ انھوں نے عملاً خاک ساروں کا ایک لشکر تیار کر دیا۔ اس حقیقت کا کوئی مشکل ہی سے انکار کر سکے گا کہ ان کے ماننے والے ان کے فدائی تھے اور وہ اطاعت مطلق کے حد تک ان کی اطاعت کرتے تھے۔

 اسلام کو ایک پرقوت سیاسی نظام کی حیثیت سے پیش کرنے میں بھی ان کا ایک خاص مقام ہے۔ وہ تمام سیاسی اصطلاحیں جو آج بہت سے لوگ اسلام کا سابقہ و لاحقہ بنائے ہوئے ہیں، انھی کی اولیات میں سے ہیں! ہمیں، جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں، علامہ مرحوم کے نظریات نے کبھی اپیل نہیں کیا، لیکن ہم نے ان کو ہمیشہ اپنی دھن کا پکا سمجھا۔ وہ ریاضی میں اتنی اونچی ڈگری رکھتے تھے کہ اپنے ملک میں بھی اور اپنے ملک سے باہر بھی اس کی بڑی قیمت وصول کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ساری زندگی ایک دوسرے ہی عشق میں گزار دی۔ کونسلوں اور اسمبلیوں کی ممبری اور وزارت و صدارت کے چکر میں بھی وہ کبھی نہیں پھنسے، حالاں کہ اس میدان میں اترتے تو ان کے لیے بڑے امکانات تھے۔

 ان باتوں سے اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کی سربلندی کے لیے جس چیز کو اپنا نصب العین قرار دے لیا تھا، اس سے انھیں کوئی چیز منحرف نہیں کر سکی۔ اپنی تحریک میں وہ کامیاب ہوئے یا نہیں، لیکن اپنی تحریک کے ساتھ وفاداری میں وہ سو فی صد کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔

(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۲۴، بہ حوالہ ماہنامہ میثاق لاہور ۔ ستمبر ۱۹۶۳ء)