علامہ عنایت اللہ مشرقی |
انھوں نے اس حیرت انگیز تضاد سے بڑا گہرا تاثر لیا کہ مسلمان قومیں اسلام کی مدعی ہیں، لیکن دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور مغربی قومیں اسلام کی منکر ہیں، لیکن نہ صرف مشرق کی غیرمسلم قوموں پر، بلکہ خود مسلمانوں پر بھی حاوی اور غالب ہیں۔ جب انھوں نے اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی نظر اس بات کی طرف گئی کہ ہم مسلمان صرف اسلام کی چند روایات کے پرستار بن کر رہ گئے ہیں اور اسلام کا اصلی کردار دنیا کی غالب قوموں نے اپنا رکھا ہے۔
ان غالب قوموں کے کردار میں سب سے زیادہ ابھری ہوئی چیز جو ان کو نظر آئی، وہ ان کا عسکری جوش و جذبہ اور ان کی فوجی تنظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں عسکری تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور ستم رسیدہ ممالک کے حساس لوگوں کو ان تحریکوں نے اپیل کیا۔
خاکسار کے روپ میں |
اسلام کو ایک پرقوت سیاسی نظام کی حیثیت سے پیش کرنے میں بھی ان کا ایک خاص مقام ہے۔ وہ تمام سیاسی اصطلاحیں جو آج بہت سے لوگ اسلام کا سابقہ و لاحقہ بنائے ہوئے ہیں، انھی کی اولیات میں سے ہیں! ہمیں، جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں، علامہ مرحوم کے نظریات نے کبھی اپیل نہیں کیا، لیکن ہم نے ان کو ہمیشہ اپنی دھن کا پکا سمجھا۔ وہ ریاضی میں اتنی اونچی ڈگری رکھتے تھے کہ اپنے ملک میں بھی اور اپنے ملک سے باہر بھی اس کی بڑی قیمت وصول کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ساری زندگی ایک دوسرے ہی عشق میں گزار دی۔ کونسلوں اور اسمبلیوں کی ممبری اور وزارت و صدارت کے چکر میں بھی وہ کبھی نہیں پھنسے، حالاں کہ اس میدان میں اترتے تو ان کے لیے بڑے امکانات تھے۔
ان باتوں سے اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کی سربلندی کے لیے جس چیز کو اپنا نصب العین قرار دے لیا تھا، اس سے انھیں کوئی چیز منحرف نہیں کر سکی۔ اپنی تحریک میں وہ کامیاب ہوئے یا نہیں، لیکن اپنی تحریک کے ساتھ وفاداری میں وہ سو فی صد کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۲۴، بہ حوالہ ماہنامہ میثاق لاہور ۔ ستمبر ۱۹۶۳ء)