میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے تاثرات

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر
سید ابوالاعلی مودودی کے تاثرات  
میجر راجا عزیز بھٹی 6 اگست 1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہان ان کے والد راجہ عبد اللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں، ضلع گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 

6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ 12 ستمبر 1965 کو لاہور محاز پر بھارت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے -  26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔  ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 

 مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر ان کے والد محترم کے نام خط لکھا، اس میں انہونے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، عزیز بھٹی کو  پاکستان یعنی "دارالاسلام" کے محافظ ،اور اسلام کے جانباز کا خطاب دیا،   اور ان کے حق میں دعا فرماتے ہوئے لکھا کہ اللہ تعالی "ان کو شہدائے بدر و احد کی معیت کا شرف بخشے" ،  یہاں ان کا اصل خط ملاحظہ کریں !

        (لاہور)

    16 اکتوبر 1965ء 

    محترمی و مکرمی ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،

    میں آپ کے فرزند ارجمنڈ، میجر راجا عزیز بھٹی کی شہادت پر آپ کو لکھنے کے لیے بے چین تھا، مگر مجھے آپ کا پتہ معلوم نہ تھا۔ اب سلطان احمد صاحب امیر جماعت اسلامی ضلع گجرات کے ذریعے مجھے آپ کا پتا ملا ہے۔ اور پہلی فرصت میں یہ خط آپ کو لکھ رہاہوں۔ 

    آپ کے صاحبزادے نے دارالاسلام کی حفاظت کے لیے اللہ کی راہ مین جہاد کا پورا پورا حق ادا کرکے شہادت پائی ہے۔ اس عظیم قربانی پر پاکستان کے تمام مسلمانوں کے دل ان کے لیے قدر و عزت کے جذبات سے لبریز ہیں ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے اور ان کو شہدائے بدرواحد کی معیت کا شرف بخشے اور ان کے والدین کو بھی ان کے ساتھ اجر میں شریک کرے ، جن کی تربیت نے اسلام کو ایسا جانباز خادم نذر کیا ۔ آپ کے لیے اور ان کی اہلیہ اور بچوں کے لیے میری اور جماعت اسلامی کے تمام کارکنوں کی ہمدردیاں وقف ہیں ۔ 

        اللہ تعالی آپ سب کو صبر بھی عطافرمائے اور اجربھی ۔ 

                                                                                                        خاکسار 

                                                                                                        ابوالاعلی             

-----------------------------

(بحوالہ " مکاتیب سید مودودی " ص 216 خط نمبر (135)  مرتب : پروفیسر نورورجان ، طبع اول 2011ء ،  ادارہ معارف اسلامی منصورہ، ملتان روڈ لاہور)