خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟

حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق


بی بی سی اردو ، 12 دسمبر 2016

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آمدن دگنی ہونے کی نسبت اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں کو زیادہ خوش و خرم بناتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے پتہ چلا کہ ڈپریشن یا بےچینی کی بیماری لوگوں کی خوشی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے، جب اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔

تحقیق کے شریک منصف کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے 'ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے۔'
یہ تحقیق دنیا بھر میں کیے جانے والے رائے عامہ کے متعدد بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔

سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ آمدن دگنی ہو جانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب بلند ہوئی۔

تحقیق کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی آمدن کے خود پر پڑنے والے اثر کی بجائے دوسروں سے اپنی آمدن کے تقابل کا زیادہ احساس کرتے ہیں۔

تاہم اچھا شریکِ حیات مل جانے سے خوشی میں 0.6 درجے اضافہ ہو جاتا ہے، جب کہ شریکِ حیات کی موت یا علیحدگی سے اسی قدر کمی واقع ہوتی ہے۔

تاہم اس پیمانے پر سب سے زیادہ منفی اثر ڈپریشن اور بےچینی کی بیماری سے پڑتا ہے، جس سے خوشی 0.7 درجے گر جاتی ہے۔ اسی طرح بےروزگاری سے بھی اسی قدر کمی واقع ہوتی ہے۔

تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر رچرڈ لیئرڈ نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کی خوشی میں نیا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ دولت پیدا کرنے سے زیادہ خوشی پیدا کرنے پر زور دے۔

انھوں نے کہا: 'شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو چیزیں ہماری خوشی اور دکھ میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہیں وہ ہمارے سماجی تعلقات اور ہماری ذہنی اور جسمانی صحت ہیں۔

'ماضی میں ریاست غربت، بےروزگاری، تعلیم اور جسمانی صحت جیسے مسائل کے خلاف جنگ لڑتی رہی ہے۔ لیکن گھریلو تشدد، کثرتِ شراب نوشی، ڈپریشن اور بےچینی، امتحانوں کا دباؤ، وغیرہ بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ انھیں مرکزی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔'

ریاضی کا فارمولا جو بتاتا ہے کہ پیسہ ہمیں کس حد تک خوشی دیتا ہے


بی بی سی اردو ۵ فروری ۲۰۲۳ء


ایسا لگتا ہے کہ زیادہ پیسے کا مطلب زیادہ خوشی ہے۔ تاہم ایک بار جب بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں تو چیزیں حیران کن طور پر بدل سکتی ہیں۔

آمدنی، قرض اور نقصان کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق پیچیدہ اور اہمیت کا حامل ہے۔

یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ پیسہ بڑی طاقت رکھتا ہے اور لوگوں کے فیصلوں اور طرز عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اور یہ کہ یہ مسائل کو حل کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، خاص طور پر بحران کے وقت میں یہ بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں معاشیات اور رویے کے علوم کے پروفیسر جان ایمانوئل ڈی نیو کا ماننا ہے کہ پیسہ ’لوگوں کو ایک مہذب زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔‘

لیکن تحقیق کے مطابق آپ جتنا امیر ہوتے جاتے ہیں پیسہ خوشی پر زیادہ فرق نہیں ڈالتا

ڈی نیو نے وضاحت کی کہ زیادہ آمدنی اور زیادہ خوشی کے درمیان تعلق ’لوگارتھمک‘ ہے۔

ایسا نہیں تھا کہ ہم نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا تھا لیکن ہم نے ان سے کچھ اور وضاحت کرنے کو کہا۔

اگر آپ کی سالانہ آمدنی دوگنی ہو جاتی ہے، کہہ لیں، 20 ہزار ڈالر سے 40 ہزار ڈالر تو آپ خوش ہوں گے ۔

اب اس میں حیرت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

لیکن اگر آپ اپنی خوشی اور تندرستی میں اسی سطح کے اضافے کا دوبارہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں، تو مزید 20 ہزار کافی نہیں ہوں گے۔ یہ آپ کو خوش کرے گا، لیکن زیادہ نہیں۔

اسی جذباتی انعام کو دوبارہ محسوس کرنے کے لیے آپ کو اپنی آمدنی کو دوبارہ دوگنا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اس لیے اگر 40 ہزار ڈالر نے آپ کو خوش کیا، اسی حد تک خوشی کا دوبارہ تجربہ کرنے کے لیے آپ اپنی آمدنی کو دوگنا کرکے 80 ہزار ڈالر اور پھر دوبارہ 160 ہزار ڈالر تک لے جائیں۔ اور پھر اس سلسلے کو جاری رکھیں۔


لامحدود دولت کا حصول

پیسے اور خوشی کے درمیان منطقی تعلق کے باوجود، ایک انتباہ ہے۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آپ اپنی تنخواہ کو دوگنا کرنے کی کوشش میں مسلسل وقت ضائع کر سکتے ہیں، کم از کم ایک حد سے زیادہ، جس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ برطانیہ کے لیے 120 ہزار پاؤنڈ رقم تقریباً 150 ہزار ڈالر کے برابر بن جاتی ہے۔

بہت سے لوگ آمدنی کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اس تک پہنچ جاتے ہیں جسے پروفیسر ڈی نیو ’ایک سطح مرتفع‘ کہتے ہیں، جس کے اوپر ’وہ مزید رقم اور زیادہ زندگی کی تسکین کے درمیان اعدادوشمار کے لحاظ سے اہم تعلق کا پتا نہیں لگا سکیں گے۔‘

اور سادہ سی بات یہ ہے کہ خوشی خریدنا اتنا آسان نہیں ہے۔

اگرچہ یہ بات ناقابل تردید ہے کہ لوگوں کو اپنی بنیادی ضروریات (خوراک، رہائش، صحت وغیرہ) کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد کئی عوامل ہیں جو آمدنی سے بڑھ کر فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

’ایکشن فار ہیپی نیس چیریٹی‘ کے ڈائریکٹر مارک ولیمسن نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی:

کمیونٹی میں اچھے تعلقات استوار کریں (خاندان، دوست، ساتھی کارکن)

’خود سے بڑی‘ چیز کا حصہ بننا

چیلنجنگ یا ناقابل انتظام ہنگامی حالات کے لیے لچک

خود مختاری (زندگی کے انتخاب پر کنٹرول)

کچھ ممالک میں ان عوامل کا پتا ملک کی مجموعی پیداوار جی ڈی پی سے لگایا جاتا ہے۔

ملکی سطح پر دنیا میں خوشی کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک، ڈی نیو نے اس پر روشنی ڈالی کہ ایک زیادہ مساوی معاشرہ باشندوں کی اوسط فلاح و بہبود یا زندگی سے اطمینان کو بلند رکھنے کا ایک اہم عنصر ہے۔

رپورٹ میں سویڈن، ڈنمارک اور ناروے مسلسل درجہ بندی میں سب سے اوپر نظر آتے ہیں اور پروفیسر نے اشارہ کیا کہ اس کی وجہ دیگر چیزوں کے علاوہ یہ حقیقت ہے کہ فلاحی ریاستیں ’ایک قسم کی نفسیاتی سلامتی‘ فراہم کرتی ہیں جہاں عوام کا حکومتی مالیاتی منصوبوں پر اعتماد ہوتا ہے۔

ایک آخری تجسس

پیسے کے بارے میں ایک اور دلچسپ نفسیاتی بات یہ ہے کہ ہم پیسہ کمانے سے زیادہ اس کے کھو جانے سے نفرت کرتے ہیں۔

نقصان سے بچنا، جیسا کہ رویے کی معاشیات میں جانا جاتا ہے، کئی مطالعات میں ناپا گیا ہے۔

پروفیسر ڈی نیو کا کہنا ہے کہ تحقیق کے مطابق: ’آمدنی میں کمی یا قوت خرید کے مقابلے میں خوشحالی دو گنا زیادہ حساس ہوتی ہے۔‘

خوش رہنے کے پانچ طریقے بی بی سی اردو ۲۰ مارچ ۲۰۱۹ء 


خوشی کا بین الاقوامی دن (20 مارچ) ہے۔۔۔۔ البتہ اگر آپ کو ایسا محسوس نہیں ہورہا تو فکر کی کوئی بات نہیں، آپ کو سکھایا جا سکتا ہے کہ آپ خوش کیسے رہیں۔

موسیقار اور کھلاڑی جیسے مسلسل سیکھنے، بہتر بننے اور کامیاب ہونے کی تربیت حاصل کرتے ہیں، آپ بھی خوش رہنے کے لیے تربیت حاصل کرسکتے ہیں۔

امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں نفسیات اور کاگنیٹو سائنس کی پروفیسر لاؤری سینٹوس نے کہا کہ ’خوش ہونا ایسا نہیں کہ بس انسان فوری خوش ہوجائے، اس میں بہتری لانے کے لیے مسلسل محنت کرنا ضروری ہے۔‘

لاؤری سینٹوس یقیناً یہ بتانے کی اہل ہیں کہ غم کو کیسے پس پشت ڈالا جاسکتا ہے۔ ان کی کلاس ’سائیکالوجی اینڈ دا گُڈ لائیف‘ ییل یونیورسٹی کی 317 برس کی تاریخ میں سب سے مقبول ترین کلاس ہے اور 1200 لوگوں نے اس کورس میں داخلہ لے کر یونیورسٹی کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔

آیئے ان پانچ مشقوں پر نظر ڈالیں جو پروفیسر سینٹوس نے تجویز کی ہیں

1۔ شُکر گزاری کی ایک فہرست بنائیں


لاؤری سینٹوس نے اپنے شاگردوں کو ہفتے کے ساتوں روز ہر رات ہر اُس چیز کی فہرست بنانے کو کہا ہے جس کے لیے وہ شکر گزار ہیں۔ یہ ان کی شکرگزاری کی فہرست کہلائے گی۔

پروفیسر سینٹوس نے کہا کہ ’یہ سننے میں کافی سادہ لگتا ہے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ وہ طلبا جو باقاعدگی سے اس مشق کو کرتے ہیں وہ درحقیقت زیادہ خوش رہتے ہیں۔‘

2۔ زیادہ اور بہتر طریقے سے نیند پوری کیجیے


یہ ضروری ہے کہ ہر رات آٹھ گھنٹے نیند پوری کی جائے اور وہ بھی باقاعدگی سے پورے ہفتے کے لیے۔

سینٹوس کے مطابق اس سادہ سی عادت کو اپنانا سب سے مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

لاؤری سینٹوس کے مطابق ’یہ شاید بیوقوفی لگے مگر ہم جانتے ہیں کہ زیادہ سونا اور بہتر انداز سے نیند پوری کرنے سے آپ کو ڈیپریشن نہیں ہوتا اور ایک مثبت رویہ اپنانے میں مدد ملتی ہے۔

3۔ مراقبہ


ہر روز 10 منٹ مراقبہ کرنا چاہیے۔

لاؤری سینٹوس کا کہنا ہے کہ جب وہ زمانہ طالب علمی سے گزر رہی تھیں تو وہ باقاعدگی سے مراقبہ کرنے سے بہتر محسوس کرتی تھیں۔

اب وہ ایک پروفیسرہیں اور اپنے شاگردوں کو مختلف تحقیقات کا حوالہ دیتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مراقبہ اور اس جیسی دیگر سرگرمیاں ان کی توجہ بھی مشغول کرتی ہیں اور لوگوں کو خوش رہنے میں بھی مدد کرتی ہیں۔

4۔ اپنے دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ زیادہ وقت بِتائیں

پروفیسر سینٹوس کے مطابق بہت سی نئی تحقیقات ہورہی ہیں جس سے واضح ہوا ہے کہ دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ معیاری وقت بِتانے سے انسان زیادہ خوش رہتا ہے۔

ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا جو ہمیں بھاتے ہیں اور ان کے ساتھ صحت مند باہمی تعلقات قائم کرنا نفسیاتی طور پر ہماری صحت اور خوشحالی کے لیے بہت مفید ہوگا۔

پروفیسر سینٹوس کے مطابق اتنی محنت نہیں لگتی، بس اس بات کو یقینی بنائیں کہ ’جس پل میں ہیں اسے بھرپور انداز میں جی لیں، اور دھیان میں رکھیے کہ آپ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں اس لیے کیسے اس وقت کو گزارا جائے اس پر خاص دھیان دیجیے۔‘

وقت کا تصور خوشی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ’ہم بعض اوقات دولت کا پیسے سے تعلق جوڑتے ہیں‘ مگر پروفیسر سینٹوس کا کہنا ہے کہ ’تحقیق کے مطابق دولت کا زیادہ قریبی تعلق اس بات سے ہے کہ ہمارے پاس کتنا وقت ہے۔‘

5۔ سوشل میڈیا کا کم استعمال جبکہ حقیقی تعلقات پر زیادہ زور

لاؤری سینٹوس کے مطابق ’سوشل میڈیا ہمیں خوشی کا ایک جھوٹا احساس دیتا ہے اور یہ بہت اہم ہے کہ ہم اس جھوٹی کیفیت کے ساتھ نہ بہہ جائیں۔

حالیہ تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا خصوصاً انسٹاگرام کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ نسبتاً اس کا کم استعمال کرنے والوں سے کم خوش رہتے ہیں۔

اگر آپ حقیقت میں ایک خوشگوار زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تو شکر گزاری سے کام لیں، رات کو نیند اچھے سے پوری کریں، اپنے دماغ کو کسی بھی دباؤ سے پاک کریں، صرف ان لوگوں کے ساتھ تعلق رکھیں جو آپ کو پسند ہوں اور سوشل میڈیا سے کچھ وقت کے لیے قطع تعلق کرلیں۔
اگر یہ مشقیں ییل کے طلبا کے لیے کام کرسکتی ہیں تو ہوسکتا ہے آپ کے لیے بھی مفید ہوں۔