آپ اپنی انا پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو ۲۴ فروری ۲۰۲۱ 

اگر آپ کی شخصیت ایسی ہے جو دوسروں کے کسی عمل یا رد عمل سے پریشان ہو جاتے ہیں تو آپ کو فریڈرک ایمبو کو سننا چاہیے۔

جب ایمبو کو یہ محسوس ہوا کہ وہ زندگی میں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ردعمل ظاہر کر کے خود کو پریشان کرتے ہیں جیسے اگر کوئی پریشان ڈرائیور ہارن بجا رہا ہے یا ان سے پچھلی والی کار کا ڈرائیور انھیں ہائی بیم لائیٹیں مار رہا ہے، یا اگر ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑے شخص نے ان کا گرمی جوشی سے استقبال نہیں کیا تو وہ پریشان ہو جاتے تھے۔

فیڈرک نے فیصلہ کیا کہ اس مسلسل پریشانی سے چھٹکارے کے لیے انھیں کچھ کرنا ہو گا۔ اور اس مسئلے کے حل کے لیے وہ فٹبال ریفری بن گئے۔

ان دونوں چیزوں میں بظاہر کوئی چیز مشترک نہیں ہے، لیکن ایمبو نے بی بی سی کو بتایا کہ ریفری بننے سے انھیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کا موقع ملتا ہے جو انھیں اپنی انا پر قابو پانے پر مجبور کرتی ہے۔

یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں 

فریڈرک ایمبو نے ایک ٹیڈ ٹاک میں بتایا ‘میں قربانی کا بکرا ہوں، بظاہر میں ہی غلط ہوں، ہمیشہ میری ہی غلطی ہوتی ہے۔ اور میں یہ سیکھنا چاہتا تھا کہ میں اسے اپنی ذات پر نہ لوں۔‘بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ ایمبو کے لیے سیٹیاں بجانے والے ریفری کا کام کافی نیا ہے۔ انھوں نے ایمبورلنگ نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ہے جو لوگوں کو اپنی بات کو موثر انداز میں دوسروں تک پہنچانے کی تربیت دیتی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں تھیٹر میں گریجویشن کی تھی اور کچھ فلموں اور ٹی وی سیریز میں بھی کام کیا لیکن ان میں بڑا اداکار بننے کی صلاحیت نہیں تھی۔

ایک کردار ادا کرنے کے دوران انھیں اپنی بگڑی ہوئی انا کا احساس ہوا جسے انھوں کچھ ایسے بیان کیا، ’ہمارا برا حصہ چاہتا ہے کہ اسے صحیح مانا جائے یہ ایک چھوٹے بچے کی مانند ہے۔‘

پھر انھیں احساس ہوا کہ کچھ ایسی چیزیں جن سے وہ چمٹے رہتے ہیں، خواہ دوسرں نے کی ہیں یہ نہیں، اور ان چیزوں کی وجہ سے ان کا ہوش و حواس نہیں رہتا تھا اور یہ ان کی انا تھی۔فریڈرک ایمبو نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دوہری حکمت عملی تیار کی۔

ایک تو وہ اپنے آپ کو بتاتے کہ اس شخص کا آج اچھا دن نہیں ہے اور وہ خواہ مخواہ ان کو نشانہ بنا رہا ہے، لیکن مسئلہ ان کے بارے میں نہیں ہے۔ ان کا یہ تجزیہ بہت سی صورتحال میں صحیح ہوتا ہے۔

دوسرا یہ کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ ہاں یہ میری ہی غلطی ہے۔ کئی بار لوگ ان کے فعل سے ناراض ہو کر ان پر حملہ کرتے ہیں اور انھیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ مجھے اپنی تھیوری کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کسی اصلی صورتحال میں ڈال کر اپنے آپ کو یہ تربیت دینی ہو گی کہ یہ سب کچھ میرے خلاف نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ریفری بننا خواہ کسی بھی لیول کا ہو، پروفیشنل ہو یا ابتدائی سطح کا، آسان نہیں۔ ’یہ بہت تضحیک آمیز، دھمکی آمیز کام ہے۔ کھلاڑی بہت ہی مشکل ہوتے ہیں۔ وہ چیختے ہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں بول دیتے ہیں۔ وہ آپ کے بہت قریب آ کر کہتے ہیں ’آپ کو کھیل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، کیا آپ دماغ استعمال کرتے ہو یا کچھ اور۔‘

ریفریوں کے ساتھ بدسلوکی صرف زخمی انا کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ یہ کھیل کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔

’ریف سپورٹس یوکے‘ نامی ایک فلاحی تنظیم کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میچ کے اہلکاروں کی جانب سے ہیلپ لائن پر مدد کی درخواستوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور کھلاڑیوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے پنجروں میں بند جانوروں کا جنھیں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن سے ابھی ریلیز کیا گیا ہے۔

’دی تھرڈ ٹیم‘ ایک کاروبار ہے جو ریفریوں کو لچکدار رویے سکھاتا ہے۔ دی تھرڈ ٹیم کا کہنا ہے یہ ریفریوں کے ساتھ بدسلوکی کافی سنجیدہ مسئلہ ہے۔

برطانیہ میں 2018 میں 7000 ہزار رجسٹرڈ ریفری تھے جن میں سے 200 نے کھلاڑیوں، منیجروں اور مداحوں کے حملوں کے ڈر سے اس پیشے کو خیرباد کہہ دیا ہے۔

لیکن اس کے علاوہ بھی عام حالات میں دیکھیں تو بھی ریفریز کو بہت زیادہ ذہنی مضبوطی کے ساتھ صورتحال سے نمٹنا ہوتا ہے۔ ان کے اندر اگر احساس محرومی ہو تو ان کے بارے میں کی جانے والی تمام منفی باتیں اس سے مل کر پریشانی کو بڑھاتی ہیں۔

اس کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ ریفری ذہنی طور پر سخت ہو کیونکہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں مدد کر سکتا ہے۔

ریان ہالیڈے انا سے متعلق بہترین کتاب "Ego is the Enemy" (ایگو از دی اینمی، یعنی انا ہی دشمن ہے) کے مصنف ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ’زہریلی انا‘ کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے کہ ہماری خوشیوں کا انحصار باہر سے ملنے والی تعریف کا محتاج ہو جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہم تعریف، تسلیم کیے جانے اور سوشل میڈیا پر بھی لائیک کیے جانے کی خواہش کریں گے۔

ہالیڈے کہتے ہیں کہ جب ہمیں دوسروں کی تعریف اور تحسین کی عادت ہو جائے تو ایسے لوگ اپنے شوق اور ولولے کو نظر انداز کرتے ہیں۔

جن لوگوں میں انا بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ اکثر سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد کرنا دوسروں کی ذمہ داری ہے اور وہ حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنی ہی غیر حقیقی توقعات کے قیدی بن جاتے ہیں اور جب حقیقت ان سے آ کر ٹکراتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

تکبر اور احساسِ کمتری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مگر ہم اپنی انا کو قابو میں کیسے رکھ سکتے ہیں؟

زرافہ اور گیدڑ

فریڈرک ایمبو ہم سب کے اندر دو متضاد صلاحیتوں کو بیان کرنے کے لیے مارشل روزنبرگ کی بنایا ہوا ایک جانوروں کی مثال استعمال کرتے ہیں۔

گیدڑ آمرانہ اور ججمینٹل (کسی کے بارے میں بغیر ہمدردی کے رائے قائم کرنے والا) ہوتا ہے۔ ایک زرافہ نرم مزاج اور طاقتور دونوں ہوتا ہے۔ فریڈرک کہتے ہیں کہ ’ایک ہر وقت انا کے مسئلے میں ہوتا ہے اور درست ہونا چاہتا ہے۔ دوسرا رحم دل ہوتا ہے اور آپ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ان دونوں کی خصوصیات اپنے اندر پا کر زندگی گزارنا کبھی کبھی ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

‘مگر اگر میں ایمانداری سے بات کروں تو میری ذات اصل میں زرافے کے مقابلے میں گیدڑ سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ مگر میری اقدار زرافے کے ساتھ ہیں۔ میں مساوات اور احترام کو بہت اہمیت دیتا ہوں مگر مجھے گیدڑ بنتے دیر نہیں لگتی۔‘مگر مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ کسی ایک کو چنیں، مقصد یہ ہے کہ آپ دونوں کے لیے جگہ چھوڑیں۔

مثال کے طور پر اگر وہ کسی میچ غلط فیصلہ دیتے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں اور متاثرہ مینجر کے پاس جاتے ہیں۔

’میں کہتا ہوں کہ کیا ہم اس بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ مجھے بس یہی کرنا ہوتا ہے۔ اُس کی آواز میں فوراً تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ آپ نے کنیٹکٹ کرنے کی نیت کا اظہار کر دیا ہے۔ ان کی انا اپنا گارڈ نیچے کر دیتی ہے اور باڈی لینگوئج تبدیل ہوجاتی ہے۔‘

’اور جیسے ہی ان کی انا کو پہچانا جاتا ہے، بات چیت کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور نوے فیصد کیسز میں وہ کہتے ہیں کہ ہاں تم نے غلطی کی مگر میرا ردعمل بھی احترام والا نہیں تھا۔‘

’یہ میرے بارے میں ہے‘

فریڈرک کہتے ہیں کہ ’تنقید سہنا آسان کام نہیں مگر یہاں سے ہی سچے سبق ملتے ہیں۔ جب ہم پر کوئی تنقید کرتا ہے اور اس سے ہمیں دکھ پہنچتا ہے تو اس کا عموماً یہی مطلب ہوتا ہے کہ انھوں نے کوئی ایسا موضوع چھیڑ دیا ہے جس کے بارے میں ہم خود غیر یقینی کا شکار ہیں یا ماضی کے تجربات کی وجہ سے ہم اس سلسلے میں خود پر اعتماد محسوس نہیں کرتے۔‘

فریڈرک کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب ہے کہ یہ مسئلہ میرے بارے میں ہے۔ میرے میں کوئی ان سیکیورٹی ہے یا میں کوئی ماضی کا تجربہ دوبارہ جی رہا ہوں۔ میں کوئی ماضئ کی تکلیف دوبارہ پیدا کر رہا ہوں۔‘

اس موقع پر فریڈرک کو پتا ہوتا ہے کہ میں نے اپنے ساتھ نرم سلوک اختیار کرنا ہے، خود سے پیار کرنا ہے۔

‘آپ خود سے جتنا پیار کریں گے، خود کو جتنا تسلیم کریں گے، اتنا ہی اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ آپ کو یہ یقین ہو چکے گا کہ دوسرے لوگ آپ کی خوشیوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔‘

فریڈرک کہتے ہیں کہ ریفری بننے سے اب وہ ایک زیادہ مستحکم انداز میں خود ہیں۔ مگر یہ سب سمجھنے کے لیے آپ کو خود کو گالیوں کے سامنے کھڑا کرنا ضروری نہیں ہے۔

اپنی ٹیڈ ٹاک میں فریڈرک نے اس سے مختلف انداز میں یہ بات سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی جیب سے 20 یورو کا نوٹ نکالتے ہیں اور لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کس کو یہ نوٹ چاہیے۔ بہت سے لوگ ہاتھ کھڑا کرتے ہیں۔ فریڈرک اس نوٹ کو پھر منہ میں ڈالتے ہیں، اس پر تھوکتے ہیں اور زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رگڑتے ہیں۔ مگر لوگوں کے ہاتھ پھر بھی کھڑے ہیں۔ فریڈرک کہتے ہیں کہ زندگی آپ پر تھوکے گی، اور تباہ کر دے گی، مگر آپ کی ویلیو اس نوٹ کی طرح پھر بھی رہتی ہے۔