موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

 حافظ سید عزیز الرحمن

ماہنامہ الشریعہ  تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء 

ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 

دینی تعلیم

۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔

 

۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔

 

۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)

 

۴۔ وسائل کی عدم فراہمی کے سبب یہ مدارس جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان کے طلبا کو جدید وسیع لائبریری اور کمپیوٹر جیسی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں۔

 

۵۔ دینی جامعات کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے دینی روایات وخصوصیات کو غیر اسلامی تہذیبی وفکری روایات واثرات سے محفوظ رکھا ہے اور اصلاح احوال کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

 

۶۔ ملک وبیرون ملک میں دینی ضرورتوں کو ایک حد تک پورا کر رہے ہیں۔

 

۷۔ نصاب میں چند تبدیلیاں ناگزیر ہیں جو آئندہ سطور میں تجاویز کے ضمن میں درج ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کی فعالیت متاثر ہو رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دینی جامعات کے اکثر طلبا کا مطمح نظر روزگار نہیں ہے بلکہ تعلیم سے رضائے الٰہی وخدمت دین مقصود ہے جو مادیت پرستی کے اس طوفان میں اہم بات ہے۔

 

عصری تعلیم

۱۔ اساتذہ وطلبا دونوں میں بعد وفاصلہ بڑھ رہا ہے جس کا اہم سبب اساتذہ کی قابلیت میں کمی اور ٹیوشن کی روایت ہے۔

 

۲۔ انگریزی کو وجہ فضیلت سمجھ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ انگریزی صحیح طرح آ پاتی ہے نہ علم پر ہی قدرت ہوتی ہے۔

 

۳۔ بعض علوم وفنون میں کچھ اداروں نے اپنا وجود بیرون ملک بھی منوا لیا ہے۔ یہ بڑی کام یابی ہے۔

 

۴۔ بہت سے شعبوں میں پاکستانی ماہرین بیرونی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔

 

۵۔ پرائیویٹ اسکول وکالج طبقاتی تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔

 

۶۔ ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک پرائیویٹ اسکولوں میں نصاب درآمد شدہ ہے جو ہماری مذہبی، تہذیبی واخلاقی روایات سے یکسر مختلف بلکہ ان سے متضاد ہے۔ فکری اعتبار سے یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔

 

۷۔ مشنری تعلیمی اداروں میں ہمارے ہاں خوب داخلوں کا رجحان ہے جس کا سبب ان کی انتظامی خصوصیات ہیں مگر ان میں عیسائیت وغیرہ کی تعلیم ہو رہی ہے۔

 

۸۔ عربی وفارسی زبانوں سے بے توجہی برتی جا رہی ہے حالانکہ ہمارے زبان وادب کا ایک بہت وقیع سرمایہ ان میں موجود ہے۔

 

۹۔ امتحانات کا نظام مکمل طور پر اصلاح طلب ہے۔ اس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور معیار جانچنے میں بھی خطا کا امکان بہت ہے۔

 

ان امور کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورت حال خوش کن نہیں ہے اور ہمیں زیادہ توجہ سے اپنے تعلیمی امور کا جائزہ لینا ہوگا۔

 

عمومی تجاویز برائے نصاب و نظام تعلیم

ذیل میں نئے اسلامی نظام کی تشکیل کے لیے تجاویز تحریر کی جاتی ہیں۔ یہ تجاویز دو طرح کی ہیں۔ بعض کا تعلق تو اس صورت سے ہے جب کہ ایک مشترکہ نظام قائم ہوگا جبکہ باقی تجاویز اس صورت کے لیے ہیں جبکہ اس موجودہ صورت حال کو برقرار رکھ کر ان میں اصلاح احوال کی کوشش کی جائے۔ ان تجاویز کا مطالعہ اسی تناظر میں کیا جائے۔

 

۱۔ آج کی ضرورت کے تمام مضامین مثلاً جدید فلسفہ، سائنس کے اہم اصول ومبادیات وغیرہ اردو زبان میں منتقل کر کے پڑھائے جائیں تاکہ وقت کم صرف ہو۔

 

۲۔ دینی مدارس میں مختلف مضامین میں تخصص کے شعبے قائم کیے جائیں مثلاً ۱۔ دعوت، ۲۔ سیرت، ۳۔ تقابل ادیان، ۴۔ علوم حدیث، ۵۔ فلسفہ جدید، ۶۔ اسلامی معاشیات وغیرہ۔

 

۳۔ ہر سطح پر تعلیمی نظام مکمل طور پر غیر مخلوط ہو، طلبا وطالبات کے لیے ہر دو کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے الگ نصاب اور الگ تعلیمی اداروں کا انتظام کیا جائے۔

 

۴۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے طلبا کو باہر جانا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ایک طرف اہم افرادی قوت اور اچھے ذہن باہر منتقل ہو رہے ہیں، دوسری طرف غیر مسلم معاشرے کے برے اور غلط مذہبی واخلاقی اثرات سے نئے ذہن متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کا سدباب بہت ضروری ہے۔

 

۵۔ تمام تعلیمی اداروں اور درجات ومراحل کا ایک نصاب اور ایک ذریعہ ہی تعلیم ’اردو‘ ہو۔ اردو کو خاص اہمیت دی جائے اور اس کے بارے میں احساس کمتری کو ترک کیا جائے۔

 

۶۔ تمام عصری علوم بشمول سائنس، معاشیات، سیاسیات، فلسفہ وغیرہ کی تشکیل نو کی جائے، ان کے غیر اسلامی تصورات وافکار کو رد کیاجائے اور اسلامی تصور وموقف کو نمایاں مقام دیا جائے تاکہ ان علوم میں دانستہ شامل کیے جانے والے لادینیت کے اثرات زائل کیے جا سکیں۔

 

۷۔ جب تک مشترکہ نظام تعلیم قائم نہیں ہوگا، اس وقت تک دینی مدارس کو ان مضامین کا اضافہ کرنا ہوگا:

 

(۱) جدید علم کلام ، جس میں بدھ مت، ہندو مت، سکھ مت نیز عیسائیت ویہودیت اور جدید غیر مسلم تحریکوں مثلاً سائنٹزم ولا دینیت وغیرہ پر بنیادی معلومات ہوں۔ (۲) اسلامی معاشیات (۳) تاریخ وسیرت (۴) انگلش کم از کم بی اے کی سطح کی۔ نیز ائمہ، خطبااور اساتذہ کے لیے خصوصی تربیتی کورسز کا انعقاد کیا جائے۔

 

۸۔ درس نظامی کی تکمیل کی سند شہادۃ العالمیۃ کو غیر مشروط طور پر ایم اے کے مساوی عملی طور پر تسلیم کیا جائے اور اسے وہی حیثیت دی جائے جو ایم اے کو حاصل ہے۔

 

۹۔ مشنری تعلیمی اداروں میں صرف غیر مسلم طلبا کو داخل ہونے کی اجازت ہو۔ مسلمان طلبا کے لیے پابندی عائد کی جائے۔

 

مثالی اسلامی نظام تعلیم کے لیے عملی خاکہ

یہ مختصر خاکہ ہے۔ اس کے مطابق نصاب تیار کرنے کے لیے ماہرین کی کمیٹی کا قیام ضروری ہوگا۔ یہ نظام چھ مرحلوں میں تقسیم ہوگا:

 

ا۔ پہلا مرحلہ پرائمری تک ہوگا۔ اس میں اردو تحریر، ناظرہ قرآن، نماز، مختصر عقائد، ابتدائی ریاضی، اور چوتھی وپانچویں جماعت میں انگریزی کے ابتدائی اسباق ہوں گے۔ نرسری، کے جی، انگلش میڈیم اسکولوں کا نصاب سب ختم ہوگا۔ ناظرہ قرآن کریم کے لیے الگ وقت مقرر ہوگا۔

 

ب۔ یہ مڈل کا مرحلہ ہوگا۔ اس میں چھٹی تا آٹھویں جماعت شامل ہوگی۔ اس درجے میں انگریزی، اسلامیات، معاشرتی علوم، ابتدائی سائنس، ریاضی کے ساتھ ساتھ عربی صرف ونحو اور فارسی کے ابتدائی اسباق بھی شامل ہوں گے۔ نیز آخری پارے کا صرف ترجمہ تینوں سالوں میں مکمل کرایا جائے گا۔

 

ج۔ یہ میٹرک پر مشتمل ہوگا۔ اس مرحلے میں چار گروپ قائم ہوں گے: ۱۔ درس نظامی، ۲۔ آرٹس، ۳۔ کامرس، ۴۔ سائنس۔ اس میں اسلامیات، عربی وانگلش، تاریخ کے اسباق لازمی ہوں گے۔ صرف سائنس اور کامرس والوں کے لیے ان کے اپنے اسباق پر زیادہ توجہ ہوگی۔ اس کے مقابلے میں درس نظامی والوں کے ہاں ان سالوں میں تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ پر زیادہ وقت صرف ہوگا۔ (ثانویہ عالیہ کا عمومی نصاب ہوگا) اسی طرح آرٹس والے اپنے شعبے کے چند ضروری اسباق پر توجہ دیں گے۔ زیادہ تر نصاب لازمی اور سب کے لیے مساوی ہوگا۔

 

د۔ یہ انٹرمیڈیٹ کا مرحلہ ہوگا۔ اس سطح پر بھی وہی چار گروپ قائم رہیں گے اور وہی بنیادی نظریہ پیش نظر رہے گا جو میٹرک کی سطح پر تھا۔

 

ہ۔ یہ اعلیٰ تعلیم کا مرحلہ ہوگا۔ اب اسلامیات واردو کے لازمی مضمون کے علاوہ چاروں گروپوں کے اسباق علیحدہ ہو جائیں گے۔ نیز قانون وزراعت وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم کا آغاز بھی یہیں سے ہوگا۔ اس کے تحت: ۱۔ میڈیکل کی پانچ سالہ تعلیم ہوگی، ۲۔ انجینئرنگ وقانون کی چار سالہ تعلیم ہوگی اور ان میں سائنس کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر خصوصیت کے ساتھ پڑھایا جائے گا اور قانون کے لیے عربی اور اسلامی فقہ لازمی مضمون ہوں گے، ۳۔ درس نظامی مزید پانچ سالہ ہوگا جن میں دورۂ حدیث ۲ سالہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈگری اور بی اے کے امتحانات ختم ہوں گے۔ منشی فاضل اور عربی فاضل وغیرہ بھی سب ختم ہوں گے۔

 

و۔ آخری مرحلہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کا ہوگا، اس میں تمام متخصصین تیار ہوں گے۔

 

عام تعلیمی اداروں کے تعلیمی نظام کی جب تک انقلابی تبدیلیوں کے بعد قلب ماہیت نہیں ہو جاتی اور ان کا نظام مکمل طور پر تبدیل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک عالمی تعلیمی کانفرنس منعقدہ مکہ مکرمہ (۳۱ مارچ ۱۹۷۷ء) کی سفارش کے مطابق دینی تعلیم کے مراکز کو علیٰ حالہا قائم رکھ کر ان کی مکمل حفاظت کا انتظام کیاجائے اور ان کی آزادی کی ضمانت فراہم کی جائے۔ (محمد تقی عثمانی/ ہمارا تعلیمی نظام/ مکتبہ دار العلوم، کراچی، ۱۴۱۵ھ/ ص ۱۴۸)

 

امید ہے کہ ان تجاویز پر ان کی روح کے مطابق اگر عمل کر لیا جائے تو ان شاء اللہ ہمارا نظام تعلیم مثالی بھی ثابت ہوگا اور اسلامی بھی اور ہمارے متعین کردہ اہداف پورے کرنے میں معین ومددگار ہوگا۔