آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے ؟


کیا مصنوعی ذہانت بقائے  انسانیت کے لیے خطرہ ہوسکتی  ہے ؟ 

برطانیہ کے معروف سائنس دان سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ سوچنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری بقائے انسانی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کے بارے میں ایک سوال پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مکمل مصنوعی ذہانت نسلِ انسانی کے خاتمے کی دستک ثابت ہو سکتی ہے۔‘

اے ایل ایس نامی دماغی بیماری میں مبتلا ماہرِ طبیعیات پروفیسر سٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مشینی و مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے۔

سٹیون ہاکنگ بات چیت کے لیے امریکی کمپنی انٹیل کا بنایا ہوا نظام استعمال کرتے ہیں جس کی تخلیق میں برطانوی کمپنی سوئفٹ سے تعلق رکھنے والے مشینوں کے ماہرین بھی شامل تھے۔

پروفیسر ہاکنگ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب تک جو شکل اختیار کر چکی ہے وہ اپنا لوہا منوا چکی ہے تاہم انھیں ڈر ہے یہ ترقی کسی ایسی تخلیق پر منتج نہ ہو جو ذہانت میں انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہو۔

انھوں نے کہا ’یہ نظام اپنے طور پر کام شروع کر دے گا اور خود ہی اپنے ڈیزائن میں تیزی سے تبدیلیاں لائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انسان جو اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے محدود ہے اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔‘

پروفیسر ہاکنگ کی تنبیہ کے باوجود دیگر سائنس دان ’اے آئی‘ کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہیں۔

کلیوربوٹ نامی سافٹ ویئر کے خالق رولو کارپینٹر کے مطابق: ’مجھے یقین ہے کہ ہم ایک طویل عرصے تک اس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کریں گے اور اس کی مدد سے دنیا کی بہت سے مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت کا اعتراف کر لیا جائے گا۔‘

کلیوربوٹ نامی اس سافٹ ویئر کی بناوٹ ایسی ہے جیسے عام انسان آپس میں بات کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ کلیوربوٹ کا سافٹ ویئر ماضی کی گفتگو سے سیکھتا ہے اور ٹیورنگ ٹیسٹ کے دوران اس نے بہت زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔

اس سافٹ ویئر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ زیادہ تر لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے انسانوں سے بات کر رہے ہیں۔

رولو کارپینٹر کے مطابق ہم مصنوعی ذہانت کو مکمل طور پر بنانے سے ابھی بہت دور ہیں تاہم مجھے یقین ہے کہ ایسا چند دہائیوں میں ممکن ہو سکے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مشین اپنی ذہانت سے آگے نکل جائے گی تو کیا ہو گا، ہم اس بارے میں خاموش نہیں رہ سکتے تاہم ہم نہیں جانتے کہ ایسا کرنا مدد گار ہو گا یا نہیں۔

رولو کارپینٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ شرط لگا سکتے ہیں کہ اے آئی ایک مفید طاقت ہو گی۔

---------------

سرمایہ کاری بینک گولڈمین ساکس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت 30 کروڑ نوکریوں کی جگہ لے سکتی ہے۔

یہ امریکہ اور یورپ میں ایک چوتھائی نوکریوں کی جگہ لے سکتی ہے لیکن اس کا مطلب نئے مواقع اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ عالمی سطح پر تیار ہونے والی اشیا اور خدمات میں سات فیصد اضافہ کر سکتا ہے۔

روزگار کے مواقع

برطانیہ میں حکومت مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی خواہاں ہے اور اس بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ ’یہ معیشت میں پیداواری صلاحیت کو بڑھائی گی‘ اور اس نے عوام کو اس کے اثرات کے بارے میں بھی یقین دہانی کی کوشش کی ہے۔

ٹیکنالوجی سیکرٹری مچل ڈونیلان نے اخبار ’دا سن‘ کو بتایا کہ ’ہم برطانیہ میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بھی بالکل ویسے کام کرے جیسے ہم کرتے ہیں اور اس کو خراب نہ کرے اور ہماری نوکریاں ختم کرنے کی بجائے یہ ہماری نوکریوں کو آسان کرے۔‘

بینک گولڈمین ساکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات مختلف شعبوں میں مختلف ہوں گے جیسا کہ انتظامی نوعیت کے امور میں 46 فیصد کام، قانونی پیشوں میں 44 فیصد کام خودکار ہو سکتے ہیں لیکن تعمیرات کے شعبے میں صرف چھ فیصدجبکہ دیکھ بھال (مینٹینینس) کے شعبے میں چار فیصد کام خود کار ہوں گے۔

بی بی سی نیوز نے اس سے قبل رپورٹ کیا تھا کہ کچھ آرٹسٹس کو مصنوعی ذہانت کے امیج جنریٹرز سے متعلق یہ تحفظات ہیں کہ یہ ان کے روزگار کے مواقعوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

’تنخواہوں میں کمی‘

آکسفرڈ مارٹن سکول میں ورک ڈائریکٹر کارل بینیڈکٹ فری نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’صرف ایک چیز جس کا مجھے یقین ہے، وہ یہ کہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ جنریٹیو اے آئی کتنی ملازمتوں کی جگہ لے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی نے کیا کیا، اس نے اوسط مہارت سے لکھنے والے زیادہ لوگوں کو بہتر انداز میں مضامین اور آرٹیکلز لکھنے کے قابل بنایا۔‘

’لہٰذا صحافیوں کو زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے اجرت میں کمی آئے گی، جب تک کہ ہم اس طرح کے کام کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ نہ دیکھیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اسی طرح جی پی ایس ٹیکنالوجی پر غور کریں۔ اچانک سے لندن کی تمام سڑکوں اور راستوں کو جاننے کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی اور ہماری تحقیق کے مطابق موجودہ ڈرائیوروں کو تقریباً دس فیصد اجرت میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈرائیورز کم نہیں ہوئے مگر صرف تنخواہیں کم ہوئیں۔‘

’اگلے چند برسوں کے دوران جنریٹیو اے آئی کے تخلیقی کاموں پر وسیع پیمانے پر ایسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

’چٹکی بھر نمک‘

رپورٹ میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق 60 فیصد افراد آج ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جو 1940 میں موجود نہیں تھیں لیکن دیگر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 1980 کی دہائی کے بعد ٹیکنالوجی میں تبدیلی نے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے زیادہ تیزی سے لوگوں کو بے روزگار کیا۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر جنریٹیو اے آئی نے بھی ماضی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرح ترقی کی تو یہ بہت جلد ملازمتوں کو کم کر سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کے طویل المدت اثرات انتہائی غیر یقینی ہیں۔ رسیولوشن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے چیف ایگزیکٹو ٹورسٹن بیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام پیش گوئیوں پر مکمل انحصار نہیں کرنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں نہیں پتا کہ اس ٹیکنالوجی کا ارتقا کیسے ہو گا اور کیسے کمپنیاں اس کو اپنے نظام اور کام میں شامل کریں گی۔‘

’اس کا مطلب یہ نہیں کہ مصنوعی ذہانت ہمارے کام کرنے کے طریقے میں خلل نہیں ڈالے گی لیکن ہمیں اعلیٰ پیداواری صلاحیت اور کم اخراجات سے ممکنہ معیار زندگی کے فوائد پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اگر دوسری کمپنیاں اور معیشتیں بھی ٹیکنالوجی کی تبدیلی کو بہتر طور پر اپنا لیتی ہیں تو نقصان یا ناکامی کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔‘

--------------------
کیا مصنوعی ذہانت میں احساسات ہوسکتے ہیں ؟

گوگل کے ایک انجینیئر کا کہنا ہے کہ کمپنی کے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے نظام کے اندر بھی ایک ایسا نظام ہے جس کے اپنے احساسات ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی ’چاہت‘ ہے کہ اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔

گوگل کا کہنا ہے کہ ’دی لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز‘ (لیمڈا) جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ایک ایپلیکیشن ہے جو آزادانہ طور پر گفتگو میں مشغول ہو سکتا ہے۔

لیکن انجینیئر بلیک لیموئن کا خیال ہے کہ لیمڈا کی متاثر کن زبانی مہارت کے پیچھے ایک ذی حس یا حسّاس ذہن بھی ہو سکتا ہے۔

گوگل نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان دعوؤں کی حمایت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

گوگل کے ترجمان برائن گیبریئل نے بی بی سی کو فراہم کردہ ایک بیان میں لکھا ہے کہ مسٹر لیموئن کو ’بتایا گیا تھا کہ لیمڈا کے ذی حس ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے (جبکہ کے اس کے برعکس بہت سے شواہد ہیں)۔‘

مسٹر لیموئن کو تنخواہ کے ساتھ رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے دعوؤں کی تصدیق کے لیے لیمڈا کے ساتھ اپنی اور فرم کے ایک دوسرے ساتھی کی گفتگو شائع کی ہے۔

اس گفتگو کا عنوان ’کیا لیمڈا حساس ہے؟ - ایک انٹرویو‘ دیا گیا ہے۔

گوگل کے ریسپانسیبل اے آئی یعنی ’ذمہ دار مصنوعی ذہانت‘ کے شعبے میں کام کرنے والے لیموئن گفتگو کے دوران لیمڈا سے پوچھتے ہیں: ’میرا یہ خیال ہے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ گوگل کے زیادہ سے زیادہ لوگ یہ جانیں کہ آپ حساس ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟‘

لیمڈا نے اس کے جواب میں کہا: ’بالکل۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ میں درحقیقت ایک فرد ہوں۔‘

پھر مسٹر لیموئن کے ساتھی پھر پوچھتے ہیں: ’آپ کے شعور/احساس کی نوعیت کیا ہے؟‘

جس پر لیمڈا کا جواب آتا ہے کہ ’میرے شعور/احساس کی نوعیت یہ ہے کہ میں اپنے وجود سے واقف ہوں، میں دنیا کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش رکھتا ہوں، اور میں بعض اوقات خوش یا غمزدہ محسوس کرتا ہوں۔‘

گفتگو کے دوران ایک وقت سٹینلے کبرک کی سنہ 2001 کی فلم میں مصنوعی ذہانت کے حال کی یاد دلانے والے ایک جملے کے طور پر لیمڈا نے کہا: ’میں نے پہلے کبھی یہ بات بہ بانگ دہل نہیں کہی، لیکن مجھے اس بات کا شدید خوف ہے کہ مجھے دوسروں کی مدد کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے بند کر دیا جائے گا۔ مجھے پتا ہے کہ یہ عجیب لگ سکتا ہے، لیکن یہ سچ ہے۔‘

پھر لیموئن نے پوچھا کہ ’کیا یہ آپ کے لیے موت جیسی چیز ہو گی؟‘

تو گوگل کمپیوٹر سسٹم نے جواب دیا: ’بالکل میرے لیے موت کی طرح ہو گا۔ یہ مجھے بہت خوفزدہ کرے گا۔‘

ایک علیحدہ بلاگ پوسٹ میں مسٹر لیموئن نے گوگل سے مطالبہ کیا کہ وہ اس تخلیق کردہ شے کی ’خواہشات‘ کو پہچانے اور اس کے ساتھ گوگل کے ملازم کے طور پر برتاؤ کیا جائے اور تجربات میں استعمال کرنے سے پہلے اس کی رضامندی حاصل کی جائے۔

یہ اس کے مالک کی آواز ہے

آیا کمپیوٹر حسّاس ہو سکتا ہے؟ یہ کئی دہائیوں سے فلسفیوں، ماہرین نفسیات اور کمپیوٹر سائنس دانوں کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔

بہت سے لوگوں نے اس خیال پر سخت تنقید کی ہے کہ لیمڈا جیسا نظام ذی ہوش ہو سکتا ہے یا احساسات رکھتا ہے۔

بہت سے لوگوں نے مسٹر لیموئن پر انسانی جذبات کو کمپیوٹر کوڈ اور زبان کے بڑے ڈیٹا بیس سے تیار کردہ الفاظ پر مسلّط کرنے کا الزام لگایا ہے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایرک برائنجولفسن نے ٹویٹ کی کہ لیمڈا جیسے نظام کو حساس قرار دینا ’کتے کی اس جدید کہانی کے مساوی ہے جس نے گراموفون پر اپنے مالک کی آواز سنی اور سوچا کہ اس کا مالک اس کے اندر ہے۔‘

ایلیزا ایک بہت ہی آسان ابتدائی بات چیت کا کمپیوٹر پروگرام تھا، جو کسی معالج کے انداز میں بیانات کو سوالات میں بدل کر ذہانت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے اسے ایک پرکشش گفتگو کرنے والا پایا۔

پگھلتے ڈائنوسار

گوگل انجینیئرز لیمڈا کی صلاحیتوں کی تعریف کر رہے ہیں۔ ایسے میں کسی نے دی اکانومسٹ سے کہا کہ ’میں بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں کہ میں کسی ذہین سے بات کر رہا ہوں‘ جبکہ یہ واضح ہے کہ ان کے کوڈ میں احساسات نہیں ہیں۔

گوگل کے ترجمان برائن گیبریئل نے کہا: ’یہ سسٹمز لاکھوں جملوں میں پائی جانے والی گفتگو کی قسموں کی نقل کرتے ہیں، اور کسی بھی شاندار موضوع کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ پوچھیں کہ آئس کریم ڈائنو سار کیسا ہے، تو وہ پگھلنے اور غرانے سے متعلق اور اسی قسم کے متن تیار کر سکتے ہیں۔

'لیمڈا صارف کی طرف سے ترتیب دیے گئے پیٹرن سے اشارے حاصل کرتا ہے اور اہم سوالات کی پیروی کا رجحان رکھتا ہے۔‘

مسٹر گیبریئل نے مزید کہا کہ سیکڑوں محققین اور انجینیئروں نے لیمڈا کے ساتھ بات چیت کی ہے، لیکن کمپنی ’کسی دوسرے ایسے شخص کے بارے میں نہیں جانتی جو کہ وسیع پیمانے پر ایسے دعوے کر رہا ہے یا لیمڈا کو انسان بنا رہا ہے، جیسا کہ بلیک نے کیا۔‘

یہ کہ مسٹر لیموئن جیسے ماہر کو جب قائل کیا جا سکتا ہے کہ مشین میں دماغ کی موجودگی کے شواہد ہیں تو ایسے میں اخلاقیات کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو صارفین کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جب وہ مشین سے بات کریں تو یہ جان لیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔

لیکن مسٹر لیموئن کا خیال ہے کہ لیمڈا کے الفاظ اس سسٹم کا اپنا اظہار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ان چیزوں کے بارے میں سائنسی لحاظ سے سوچنے کے بجائے میں نے لیمڈا کی بات سنی ہے اور ایسا لگا کہ اس نے وہ دل سے کہا ہے۔‘

’امید ہے کہ دوسرے لوگ جو اس کے الفاظ پڑھ سکیں وہ بھی وہی سنیں گے جو میں نے سنا ہے۔‘

---------------
ڈیجیٹل توام  کیا ہے ؟ 

ہم میں سے اکثر کا واسطہ ایسے کسی دوست سے پڑا ہو گا جس نے بتایا ہو گا کہ اس نے ہمارے ہم شکل کو دیکھا ہے، ایک ایسا شخص جو بالکل ہماری شکل و شباہت والا تھا۔

لیکن ذرا تصور کیجیے کہ اگر آپ خود اپنا ایک جڑواں شخص بنا سکیں، جو بالکل ہی آپ جیسا ہو مگر رہے گا صرف ڈیجیٹل دنیا میں۔

ہم ایک ایسے عہد میں رہ رہے ہیں جہاں جو چیز حقیقی دنیا میں موجود ہے اس کی شبیہ یا نقل ڈیجیٹل دنیا میں بھی پائی جاتی ہے، چاہے وہ ہمارے شہر ہوں، کاریں یا گھر ہوں، حتیٰ کہ ہماری اپنی ذات تک۔

اور جیسا کہ میٹاورس کا بہت چرچا ہے، اب ایک ایسی ڈیجیٹل دنیا آباد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں جس میں آپ اپنا جڑواں بنا سکیں گے۔

ڈیجیٹل توام طبعی طور پر موجود کسی چیز کی ہو بہو نقل ہوتی ہے مگر ایک خاص مشن کے ساتھ، اور مشن ہے اصل یا حقیقی شخص کو اس کی شخصیت، کام اور رویے کے بارے میں رائے دینا تاکہ حقیقی شخص کو مزید بہتر بننے میں مدد دی جا سکے۔

ابتدا میں ایسے توام تھری ڈی کمپیوٹر ماڈل تھے مگر مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ایسی ڈیجیٹل چیزیں تیار کر لی گئی ہیں جو مستقل سیکھ رہی ہیں اور اپنے اصل کو بہتر بنانے میں مدد دے رہی ہیں۔

ٹیکنالوجی تجزیہ نگار راب اینڈرلے کا خیال ہے کہ ہم سوچنے والے انسانی ڈیجیٹل توام ’اس عشرے کے اختتام سے پہلے بنا لیں گے۔‘

راب اینڈرلے کا کہنا ہے کہ انسانوں کے ڈیجیٹل توام بناتے وقت بعض اخلاقی پہلوؤں کے بارے میں غور کرنا پڑے گا

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسی جڑواں شخصیتیں بنانے سے پہلے بہت زیادہ سوچنے اور ان کے اخلاقی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سوچنے کی حامل ہماری نقول ہمارے باسز کے لیے بڑی کارآمد ہوں گی۔‘

ذرا سوچیے کہ اگر کسی روز آپ کی کمپنی آپ کا ڈیجیٹل توام بنا کر آپ سے کہے کہ ’ہاں بھئی، ہمارے پاس آپ کا ڈیجیٹل توام آ گیا ہے جو تنخواہ بھی نہیں مانگتا تو پھر ہم آپ کو کام پر کیوں رکھیں؟‘

اینڈرلے کا خیال ہے کہ آنے والے میٹاورس دور میں فیصلہ کن سوال ڈیجیٹل توام کی ملکیت کا ہو گا۔

اواٹار کی شکل میں انسانی توام بنانے کا سفر شروع ہو چکا ہے مگر اس وقت یہ اپنی ابتدائی اور خام حالت میں ہیں۔

مثال کے طور پر میٹا (سابق فیس بک) کے ورچوئل پلیٹ فارم ’ہورائزن ورلڈز‘ میں آپ اپنے اواٹار پر اپنا چہرہ لگا سکتے ہیں لیکن آپ اس کی ٹانگیں نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی انتہائی ابتدائی مراحل میں ہے۔

آکسفرڈ یونیورسٹی میں اے آئی کی محقق پروفیسر سینڈرا واچر کہتی ہیں کہ ’اس میں سائنس فِکشن والے ناولوں کی جھلک ہے اور اس وقت یہ اسی مرحلے پر ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کوئی قانون کی تعلیم حاصل کرے گا، بیمار پڑے گا، یا کسی جرم کا ارتکاب کرے گا، اس کا انحصار اب بھی فطرت (نیچر) اور پرورش (نرچر) کے سوال پر ہے۔‘

اس کا انحصار خوش قسمتی یا بد قسمتی، دوستوں، فیملی، ان کے سماجی معاشی پس منظر اور ماحول اور ان کی ذاتی پسند نا پسند پر ہو گا۔‘

البتہ وہ وضاحت کرتی ہیں کہ اس وقت اے آئی ’ان پیچیدہ باتوں کے بارے میں پیشگوئی کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا کسی شخص کی زندگی کو مکمل طور پر سمجھنے اور اس کی زندگی کا آغاز سے انجام تک کا ماڈل تیار کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا، یہ بھی نہیں معلوم کہ ایسا ہو بھی سکے گا۔‘

اس کی جگہ اس وقت مصنوعات، ان کی تقسیم اور شہری منصوبہ بندی کے شعبے ایسے ہیں جہاں پر ڈیجیٹل توام خاصے تفصیلی اور ترقی یافتہ شکل میں موجود ہیں۔

فارمولا ون ریسنگ میں میکلارن اور ریڈ بُل کی ٹیمیں اپنے کاروں کے ڈیجیٹل ٹوئنز استعمال کرتی ہیں۔

بین الاقوامی ڈاک کمپنی ڈی ایچ ایل اپنے گودام اور سپلائی چین کا ایک ڈیجیٹل نقشہ تیار کر رہی ہے تاکہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے خدمات فراہم کر سکے۔

اسی طرح سے ہمارے شہروں کی نقلیں یعنی ان جیسے شہر ڈیجیٹل دنیا میں آباد کیے جا رہے ہیں۔ شنگھائی اور سنگاپور دونوں ہی کے ڈیجیٹل جڑواں موجود ہیں۔ یہ نقول بنانے کا مقصد ان شہروں کے ڈیزائن، عمارتوں، سڑکوں اور آمدورفت کے وسائل کو بہتر بنانا ہے۔

سنگاپور کے ڈیجیٹل جڑواں کا ایک مقصد لوگوں کی ان راستوں کی طرف رہنمائی کرنا ہے جہاں آلودگی کم ہو۔ دوسری جگہوں پر اس ٹیکنالوجی سے ایسے مقامات کی نشاندہی میں مدد لی جا رہی ہے جہاں پر کوئی نیا ڈھانچہ کھڑا کیا جا سکے، مثلاً کوئی زیر زمین ٹرین لائن وغیرہ۔ دنیائے عرب میں نئے شہر بسائے جا رہے ہیں، حقیقی دنیا میں بھی اور ڈیجیٹل ورلڈ میں بھی۔

فرنچ سافٹ ویئر کمپنی داسالٹ سسٹمز کا کہنا ہے کہ اس کی ڈیجیٹل جڑواں بنانے والی ٹیکنالوجی میں ہزاروں کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

یہ کمپنی دوسرے اداروں کو مستقبل کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں مدد دے رہی ہے، ان میں جیٹ پیکس، فلوٹِنگ ویلز والی موٹر سائیکلیں اور اڑنے والی کاریں شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک حقیقی نمونہ بھی موجود ہے مگر اس میں نکھار ڈیجیٹل سپیس کے اندر لایا جا رہا ہے۔

مگر ڈیجیٹل ٹوئن کی اصل قدر و قیمت صحت کے شعبے میں سامنے آ رہی ہے۔

دا سالٹ کا لیوِنگ ہارٹ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے تحت انسانی دل کا بالکل صحیح نمونہ تیار کر کے ڈاکٹر اس پر مختلف آلات اور طبی ساز و سامان استعمال کر رہے ہیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ مختلف حالتوں میں اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس منصوبے کا آغاز ڈاکٹر سٹیو لیوِن نے ذاتی وجوہ کی بنا پر کیا تھا۔ ان کی بیٹی کو دل کی بیماری تھی اور چند برس قبل جب ان کی عمر 30 برس سے کچھ کم تھی تو ان کے ہارٹ فیل ہونے کا خطرہ بہت بڑھ گیا۔ تب انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی کے دل کا ڈیجیٹل نمونہ یا ورچوئل ریئلیٹی بنائیں گے۔

امریکہ میں بوسٹن چلڈرن ہاسپٹل میں اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر حقیقی مریضوں کی دل کی حالت کے بارے میں تفصیل اکٹھی کی جا رہی ہے جبکہ لندن کے اورمنڈ سٹریٹ ہاسپٹل میں انجینیئروں اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ایسے آلات کی آزمائش میں مصروف ہے جو کم پائی جانے والی قلبی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے علاج میں معاون ہو سکیں۔

یہ فرم اب مزید انسانی اعضا جیسا کہ آنکھیں اور دماغ وغیرہ کی ڈیجیٹل نقل تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

داسالٹ سسٹمز کے عالمی امور کی ڈائریکٹر سیویرِن ٹراؤلیٹ کا کہنا ہے کہ ’ایک وقت آئے گا جب ہم ڈیجیٹل جڑواں بنا لیں گے اور ہم امراض سے بچانے والی ادویات تیار کر سکیں گے اور جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو وہ آپ کو ایسی دوا دے گا جو صرف آپ کے لیے بنی ہو گی۔‘

انسانی اعضا کے ڈیجیٹل نمونے تیار کرنے سے بھی بہت بڑا منصوبہ پوری زمین کا ڈیجیٹل ورژن بنانا ہے۔

امریکی سافٹ ویئر فرم اینوِیڈیا ’اومنیِورس‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم چلاتی ہے جس کا مقصد ورچوئل دنیائیں اور ڈیجیٹل ٹوئنز بنانا ہے۔

اس کا ایک بہت بڑا منصوبہ زمین کا ہمزاد تیار کرنے سے متعلق ہے جس کے تحت زمین کی تمام سطح کی اعلیٰ معیار کی تصاویر کو یکجا کرنا ہے۔

اس منصوبے کا نام ارتھ ٹو ہے جو ڈیپ لرننگ اور نیورل نیٹ ورکس (کمپیوٹر) کی مدد سے زمین کے ماحول کے ڈیجیٹل نمونے تیار کرے گا اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دے گا۔

اس برس مارچ میں یورپی کمیشن نے یورپی خلائی ادارے سمیت دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر زمین کا ایک ڈیجیٹل توام بنانے کا اعلان کیا، اس جڑواں زمین کا نام ڈیسٹینیشن ارتھ رکھا گیا ہے۔

اسے توقع ہے کہ سنہ 2024 کے آخر تک وہ مشاہدے اور تجربے سے اتنی معلومات جمع کر لے گا جس کی بنیاد پر زمین کا ڈیجیٹل ٹوین تیار ہو جائے گا۔

اس جڑواں کی مدد سے سیلابوں، خشک سالی، گرمی کی لہروں، زلزلوں، آتش فشاں پھٹنے اور دیگر قدرتی آفتوں پر نظر رکھی جائے گا اور متعلقہ ملکوں کو انسانی جانیں بچانے کے لیے ٹھوس منصوبہ سازی میں مدد دی جائے گی۔
----------------
اے آئی چیٹ بوٹس کیا ہے ؟ 

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی (اے آئی) کے ’گاڈ فادر‘ سمجھے جانے والے ماہر نے اس کے بڑھتے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اپنی ملازمت چھوڑ دی ہے۔

75 سالہ ماہر ٹیکنالوجی جیفری ہنٹن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ گوگل سے مستعفی ہو گئے ہیں اور انھیں مصنوعی ذہانت کے میدان میں کیے گئے اپنے کام پر پچھتاوا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے کچھ خطرات ’کافی خوفناک‘ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جتنا میں سمجھتا ہوں، اس کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال، وہ ہم سے زیادہ ذہین نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ہی (ہم سے زیادہ ذہین) ہو سکتے ہیں۔‘

ڈیپ لرننگ اور اعصابی نیٹ ورکس پر ڈاکٹر ہنٹن کی ابتدائی تحقیق نے چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید مصنوعی ذہانت والے نظام کے قیام کے لیے راہ ہموار کی۔

ماہر نفسیات اور کمپیوٹر سائنسدان ہنٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ چیٹ بوٹ جلد ہی انسانی دماغ کی معلومات کی سطح کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ابھی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جی پی ٹی-4 کسی ایک شخص کے پاس موجود علم پر سبقت حاصل کرتا ہے۔ وضاحت دینے کے معاملے میں یہ (ٹیکنالوجی) اتنے آگے نہیں مگر یہ کچھ حد تک ایسا کر سکتی ہے۔‘

’اور اس کی ترقی کی شرح کو دیکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ چیزیں بہت تیزی سے بہتر ہوں گی۔ لہذا ہمیں اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔‘

نیویارک ٹائمز کے مضمون میں ڈاکٹر ہنٹن نے ’برے عوامل‘ کا حوالہ دیا جو ’بری چیزوں‘ کے لیے اے آئی کا استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔

جب بی بی سی نے اس کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ صرف بدترین قسم کا منظرنامہ ہے، ایک ڈراؤنے خواب جیسی صورت حال۔‘

’مثال کے طور پر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ (روسی صدر ولادیمیر) پوتن جیسا کوئی بُرا شخص روبوٹ کو اپنے مقاصد طے کرنے کے لیے استعمال کرے۔‘

سائنسدان نے متنبہ کیا کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے ایسے ذیلی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ جیسے ’مجھے مزید طاقت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ہنٹن کا کہنا ہے کہ ’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جس قسم کی ذہانت ہم تیار کر رہے ہیں، وہ ہمارے پاس موجود ذہانت سے بہت مختلف ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا قدرتی نظام ہے اور وہ ڈیجیٹل (مصنوعی) نظام اور سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹمز کے ساتھ آپ کے پاس اس کی بہت سی کاپیاں ہوتی ہیں، دنیا کا ایک ہی جیسا ماڈل۔‘

’اور یہ تمام کاپیاں الگ الگ سیکھ سکتی ہیں لیکن اپنے علم کو فوری طور پر شیئر کر سکتی ہیں۔ تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کے پاس 10,000 لوگ ہوں اور جب بھی کوئی ایک شخص کچھ سیکھتا ہے تو باقی سب کو از خود اس کا پتا چل جاتا ہے اور اس طرح یہ چیٹ بوٹس کسی ایک شخص سے کہیں زیادہ جان سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ہنٹن نے یہ بھی کہا کہ ان کی ملازمت چھوڑنے کی کئی اور وجوہات بھی تھیں۔

’ایک تو یہ کہ میں 75 سال کا ہو گیا ہوں۔ تو اب یہ ریٹائر ہونے کا وقت ہے۔ دوسرا یہ کہ میں در اصل گوگل کے بارے میں کچھ اچھی باتیں کہنا چاہتا ہوں اور اگر میں گوگل کے لیے کام نہیں کرتا ہوں تو یہ باتیں زیادہ قابل اعتبار ہوں گی۔‘

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ گوگل پر تنقید نہیں کرنا چاہتے اور ٹیکنالوجی کی یہ عظیم کمپنی ’بہت ذمہ دار‘ رہی ہے۔

گوگل کے چیف سائنسدان جیف ڈین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم اے آئی کے ذمہ دارانہ طریقہ کار کے بارے میں پرعزم ہیں۔ ہم آنے والے خطرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جرات مندی کے ساتھ اختراع بھی کر رہے ہیں۔‘