برطانیہ کے لیے چار گولڈ میڈل جیتنے والا افغانستان کا نور ولی

بی بی سی اردو | 14 جولائی 2024

میرے زندہ بچنے کی امید نہیں تھی‘: برطانیہ کے لیے چار گولڈ میڈل جیتنے والا افغانستان کا نور ولی ولی نور سنہ افغانستان میں بطور مترجم برطانوی فوج کے ساتھ کام کر رہے تھے جب 2009 میں انھوں نے حادثاتی طور پر ایک بم پر پاؤں رکھ دیا
اس دھماکے کی وجہ سے وہ صرف 20 برس کی عمر میں ہی نابینا ہو گئے تھے۔
بچپن سے ہی ولی نور کو پہاڑوں پر بھاگنے کا شوق تھا لیکن بم دھماکے میں بینائی کھو دینے کے بعد انھیں ایسا لگا جیسے وہ زندگی میں کبھی دوبارہ دوڑ نہیں پائیں گے۔

انھوں نے ہار نہیں مانی اور کیسے برطانیہ منتقل ہونے کے بعد ان کی زندگی بالکل تبدیل ہوگئی سنیے انھی کی زبانی:

’میں نے قبول کر لیا تھا کہ میں مر سکتا ہوں‘

میں نے کابل میں پرورش پائی، میں ایک اچھا باکسر تھا اور خود کو فِٹ رکھنا کے لیے دوڑتا بھی تھا۔ میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی بھی جانا چاہتا تھا لیکن میرا خاندان بہت غریب تھا اور مجھے ان کی مالی مدد بھی کرنی تھی۔
میری پانچ بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ میرے خاندان کو بھوک کا سامنا تھا اور میرے والد ملازمت کرنے کے قابل نہیں تھے۔
اسی لیے 18 برس کی عمر میں میں نے بطور مترجم برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ میں نے سکول میں انگریزی پڑھی تھی اور مجھے اس زبان پر عبور حاصل ہو گیا تھا۔

برطانوی فوج، افغان فورسز اور سویلینز کی بات چیت ایک دوسرے کو سمجھانا میری ذمہ داری تھی، میں یہ کام بخوبی انجام دیا کرتا تھا۔

پھر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں افغان صوبے ہلمند جانا پسند کروں گا اور میں نے جواب میں ہاں کہہ دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے یہ بات قبول کرنا پڑے گی کہ میں وہاں مر بھی سکتا ہوں۔

وہاں صورتحال کسی جہنم جیسی تھی، روز حملے ہو رہے تھے اور لوگ مر رہے تھے، لیکن میں ڈرا ہوا نہیں تھا۔
مجھے وہاں رہائش اختیار کیے ہوئے تقریباً دو برس ہو چکے تھے کہ اچانک ایک دن گشت کے دوران میں نے حادثاتی طور پر ایک بم پر پاؤں رکھ دیا۔ اس دھماکے نے مجھے آسمان کی طرف اچھال دیا اور پھر میں زمین پر آ گرا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جیسے میں مر رہا ہوں لیکن وہ سب ایک خواب کی مانند تھا۔
میرے پورے چہرے میں کیلیں پیوست ہو چکی تھیں اور میرے پورے 28 دانت جھڑ گئے تھے۔
میری سانس رُک رہی تھی لیکن میں اپنے حلق میں ہاتھ ڈال کر گلے سے ایک کیل نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور پھر مجھے ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں سے کابل لے جایا گیا جہاں میں نے فوج کے ایک ہسپتال میں کومہ میں دو ہفتے گزارے
میں نے پرنس ہیری اور میگھن سے ملاقات کی، وہ بہت گرمجوشی اور دوستانہ انداز میں مجھ سے ملے۔
ہیری نے مجھ سے مصافحہ کیا، مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں۔ میں نے پوچھا ’آپ کون ہیں؟‘ اور انھوں نے جواب دیا ’میں شہزادہ ہیری ہوں۔‘

ہم ایک ساتھ بیٹھ کر ہنسے اور آپس میں گفتگو بھی کی۔ وہ میری زندگی کا ایک ناقابلِ یقین لمحہ تھا۔

، کیپشننور ولی اور شہزادہ ہیری کے درمیان ملاقات کی ایک تصویر
’میں نابیناپن کے سامنے کبھی نہیں جُھکوں گا‘

میں اب تک ریسنگ کے مقابلوں میں 21 اور تیراکی کے مقابلوں میں تین میڈلز جیت چکا ہوں۔ میں زندگی میں کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ صرف آگے ہی بڑھنا چاہتا ہوں۔

میرا خواب ہے کہ میں پیرالمک مقابلوں میں حصہ لوں۔ میں ان مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر چکا تھا لیکن وقت پر اپلائی نہیں کر سکا۔ لیکن ایک دن میں وہاں تک ضرور پہنچ جاؤں گا۔

میں چاہتا ہوں کہ تمام چھ بڑے میراتھن مکمل کرلوں، لندن میراتھن میں میں 2019 میں حصہ لے چکا ہوں۔

میں نے ابھی اپنی زندگی پر ایک کتاب مکمل کی ہے جو کہ 12 ستمبر کو چھپ کر آ جائے گی۔ میں سکول، کالجوں میں جاتا ہوں اور دیگر سابق فوجیوں کے مختلف گروپس میں بھی اٹھتا بٹیھتا ہوں اور ان کے ساتھ اپنی کہانی شیئر کرتا ہوں۔ حال ہی میں نے ان فوجیوں سے بھی ملاقات کی ہے جو یوکرین میں زخمی ہوئے تھے۔

ان تقاریر کے جو مجھے پیسے ملتے ہیں وہ میں افغانستان بھیج دیتا ہوں تاکہ بیواؤں اور یتیم بچوں کی مدد ہو سکے۔

،تصویر کیپشنپرنس ہیری اور میگھن کی نور ولی کے بچوں کے ساتھ تصویر

برطانوی فوج جوائن کرنے یا میرے ساتھ جو بھی ہوا میں اس پر کبھی نہیں پچھتاؤں گا۔ زندگی میرے لیے پہلے بہت مشکل تھی لیکن اب اچھی گزر رہی ہے۔

میں اپنے نابیناپن کے سامنے کبھی نہیں جھکوں گا۔ میں لوگوں کو متاثر کرتا رہوں گا اور انھیں بتاؤں گا کہ کوئی بھی کمزروی آپ کو زندگی میں اونچا مقام حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔