مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘

شکیل اختر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی | 6 جولائی 2024 

بنگلہ دیش میں تقریباً 300 حکومت مخالف مظاہرین کی ہلاکت اور وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت کے بعد وزیر ا‏عظم شیخ حسینہ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہونا پڑا تو وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

وہ ڈھاکہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا کے شہر اگرتلہ پہنچیں اور پھر ایک فوجی طیارے کے ذریعے دلی کے نواح میں انڈین فضائیہ کے ہینڈن فضائی اڈے پر اتریں۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ انڈیا میں مستقل طور پر قیام کریں گی یا کچھ دنوں کے بعد کسی اور ملک چلی جائیں گی۔
بعض خبروں کے مطابق ڈھاکہ کی انتہائی کشیدہ اور مشتعل صورتحال کے پیش نظر انھوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تاہم بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیش نظر انڈین اسٹیبلشمنٹ یہی چاہے گی کہ وہ کسی اور ملک میں پناہ لے لیں۔

بعض خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے وہ کہیں اور جانے سے پہلے دلی میں کچھ دن قیام کر سکتی ہیں۔

جس وقت ان کا طیارہ انڈیا کی فضائی حدود میں داخل ہوا اس وقت لاکھوں مظاہرین ڈھاکہ اور ملک کے دوسرے شہروں میں ان کے فرار ہونے کا جشن منا رہے تھے۔

ملک کا نظم و نسق فوج نے اپنی کمانڈ میں لے لیا ہے اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل وقارالزماں سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

دلی میں شیخ حسینہ کے پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر بنگلہ دیش کی صورتحال پر ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے جس میں انڈیا کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع ، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے مشیر شریک ہوئے۔

شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ پارٹی سے انڈیا کا گہرا رشتہ

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ جب انڈیا میں ہینڈن کے فضائی اڈے پر پہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے ملک کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال اور وزارت خارجہ کے اعلی اہلکار بھی موجود تھے۔

انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ سابق خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرینگلہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ شیخ حسینہ کے تعلقات صرف حکومت سے ہی نہیں انڈیا کی سیاسی قیادت سے بھی بہت گہرے ہیں۔

1975 میں جب ان کے والد شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت شیخ حسینہ یورپ میں تھیں۔ وہاں سے وہ دلی آئیں اور یہاں کئی برس مقیم رہیں۔

اس وقت حسینہ کے شوہر جو ایک سائنسدان تھے انھیں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی تھی۔ شیخ حسینہ کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں ایک سائنسدان تھے جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ رہ چکے تھے اور سقوط ڈھاکہ سے قبل کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان بھی تھے لیکن پھر حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی تھی۔

شيخ حسینہ تقریباً 21 برس بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ وہ گذشتہ 16 برس سے مسلسل وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھیں۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد انھوں نے انڈیا سے پانی کی تقسیم کا سمجھوتہ کیا، نئے نئے تجارتی راستے کھولے، بنگلہ انکلیو کے تبادلے اور امن معاہدہ کیا۔

او پی جندل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا امور کی پروفیسر ڈاکٹر شری رادھا دتا کہتی ہیں کہ شیخ حسینہ سے پہلے ’بی این پی کی خالدہ ضیا کی حکومت کے درمیان بنگلہ دیش میں انتہا پسند طاقتوں کو شہ ملی اور وہاں کئی تنظیمیں تشدد پر اتر آئیں۔ اںڈیا بھی ان انتہا پسندوں کی پرتشدد کاروائیوں کی زد میں آیا اور انڈیا کے تعلقات خالدہ ضیا کی حکومت سے خراب ہوتے گئے۔ لیکن شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے رشتے بہت گہرے ہو گئے۔‘

شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ انڈیا کے لیے ویسا ہی دھچکا ہے جیسا امریکہ کے لیے افغانستان ثابت ہوا‘

بنگلہ دیش کے ماہر اقتصادیات محمد یونس نے نے دو روز قبل اںڈین میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر انڈیا کی خاموشی پر دبے لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ’بنگلہ دیش کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ملک میں جمہوری آزادی کے خاتمے کے سبب یہ دو تہائی نوجوان کبھی ووٹ نہیں ڈال سکے، بنگلہ دیش میں جو بے چینی پھیل رہی ہے اس کا اثر اںڈیا پر بھی پڑے گا۔‘

کولکتہ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار سوبحیت باگچی کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ اس نے بنگلہ دیش میں اپنا سارا داؤ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ پر لگا دیا اور شیخ حسینہ کی شدید مخالفت کے سبب انڈین اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن بی این پی اور جماعت اسلامی سے اپنا رابطہ توڑ لیا۔‘

باگچی کہتے ہیں کہ ’حسینہ کی پارٹی تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی، جمہوری ادارے ختم ہوتے جارہے تھے اور حکومت سے عوام کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا اسی لیے وہاں کی عوام انڈیا سے بھی اتنی ہی نفرت کرنے لگی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہی نہیں انڈیا امریکہ، برطانیہ اور پوری دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ اگر عوامی لیگ ہار گئی تو بنگلہ دیش انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔‘

’انڈیا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت سے عوامی نفرت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ انھیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑ سکتا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے ویسا ہی بڑا دھچکا ہے جیسا امریکیوں کے لیے افغانستان ثابت ہوا۔‘

اںڈیا کا اگلا قدم کیا ہو گا؟

بنگلہ دیش میں اب ایک عبوری حکومت کے قیام کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوام کی شدید محالفت کے سبب عوامی لیگ کو اس نئی حکومت میں شامل کیا جائے یا نہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

سوبحیت باگچی کا خیال ہے کہ انڈیا اب بی این پی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے بھی بات چیت شروع کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا اب افغانستان کی طالبان حکومت سے بات چیت کر رہا ہے تو پھر بی این پی اور جماعت اسلامی سے تعلقات بنانے میں کیا مشکل ہے۔‘

’دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوامی لیگ جماعت اسلامی کی طرح ایک ملک گیر سطح پر منظم جماعت ہے جس کے لاکھوں کارکنان ہیں اور یہ جماعت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کے خلاف اس وقت بے چینی ہے لیکن اگر اپوزیشن اقتدار میں آںے کے بعد اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی تو مستقبل میں عوامی لیگ کے واپس آنے کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا ۔‘

پروفیسر شری رادھا دتا کہتی ہیں کہ ’انڈیا کے بنگلہ دیش سے تعلقات اتنے گہرے ہیں اور اس کا انحصار انڈیا پر اتنا زیادہ ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی بھی انڈیا سے تعلقات خراب کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ تجارتی تعلقات اتنا بڑھ چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت خراب تعلقات نہیں چاہے گی۔ بنگلہ دیش کی کپڑے کی صنعت کا سارا خام مال انڈیا سے جاتا ہے۔

انڈیا کے لیے خطے میں چین کا مسئلہ

چین نے پچھلےچند برسوں میں جنوبی ایشیا میں بہت گہرا اثر و رسوخ ‍ ‍قائم کر لیا ہے۔

سبجیت باگچی کا کہنا ہے کہ ’چین اور امریکہ بحر ہند میں غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں۔ امریکہ اس خطے میں اپنا بحری اڈہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور چین میانمار کے ذریعے اپنے بحری اور جنگی جہازوں کا اڈہ حاصل کر لے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا شیخ حسینہ کی مدد سے چین کا توڑ حاصل کرنے کی کوشش میں تھا۔ شیخ حسینہ کے جانے کے بعد اس ضمن میں انڈیا کی تشویش اور بڑھ جائے گی۔‘

یہاں یہ یاد رہے کہ رواں برس جولائی میں شیخ حسینہ چین کا دورہ ادھورا چھوڑ آئی تھیں اور واپس آ کر انھوں نےچین کے بجائے انڈیا کو ایک انتہائی اہم ترقیاتی منصوبے تیستا ماسٹر پلان کی تکمیل کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔

شیخ حسینہ نے چین کے دورے سے واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا اور چین دونوں تیستا منصوبے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن وہ چاہتی ہیں کہ انڈیا اس منصوبے کو مکمل کرے۔

بظاہر انڈیا اس وقت بہت سنبھل کر چل رہا ہے۔ ڈھاکہ میں کئی دن سے جاری مظاہروں اور ہلاکتوں کے واقعات سے لے کر شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور ان کے انڈیا پہنچنے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے ابھی تک ایک بھی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔