سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا مکھی کا دماغ جہاں سے ملنے والے رازوں نے سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کیا

پلب گھوش  ( نامہ نگار برائے سائنس، بی بی سی) 


وہ پیروں کے بل چل سکتی ہیں، اُڑ سکتی ہیں، اور نر مکھی تو مادہ مکھی کا دل جیتنے کے لیے پیار بھرے گیت بھی گا سکتی ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے دماغ کی مدد سے ممکن ہوتا ہے جو سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔

پہلی بار سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران مکھی کے سوئی کی نوک سے بھی چھوٹے دماغ میں موجود ایک لاکھ 30 ہزار خلیوں کی شکل، مقام اور حتیٰ کہ مکھی کے دماغ میں موجود پانچ کروڑ سے زیادہ ’کنکشنز‘ یعنی رابطوں کی غیر معمولی نشان دہی کی ہے۔

یہ کسی بھی بالغ کیڑے (حشرات) کے دماغ کا کیا گیا اب تک کا سب سے تفصیلی سائنسی جائزہ ہے جسے ماہرین نے انسانی دماغ کو سمجھنے کے عمل میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔ مکھی کے دماغ پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ اس سائنسی جائزے سے ’سوچنے کے عمل سے متعلق مزید تفصیلات معلوم ہوں گی۔‘

کیمبرج کی لیبارٹری آف مالیکیولر بائیولوجی کی میڈیکل ریسرچ کونسل سے منسلک ڈاکٹر گریگوری جفریز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’فی الحال ہم اس بات سے لاعلم ہیں کہ ہم سب کے دماغ میں موجود خلیوں کا نیٹ ورک ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں کیسے مدد فراہم کرتا ہے۔‘
’اس نظام میں سگنل کیسے چلتے ہیں جن سے ہم کسی کا چہرہ پہچان سکتے ہیں، کسی کی آواز سُن سکتے ہیں۔۔۔ مکھی کے دماغ کا نقشہ حیران کن ہے جو دراصل انسانی دماغ کو بھی سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا۔‘

انسانی دماغ میں موجود خلیوں کو ’نیوران‘ کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی دماغ میں ’نیورون‘ کی تعداد مکھی کے دماغ میں موجود خلیوں سے کہیں زیادہ ہے۔

تو اہم سوال یہ ہے کہ پھر ایک مکھی کا دماغ سائنسدانوں کو انسانی سوچ کے عمل کو سمجھنے میں کیسے مدد کرے گا؟
اس تحقیق میں جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں انھیں سائنسی جریدے ’جرنل نیچر‘ میں شائع کیا گیا ہے اور ان تصاویر میں تاروں کا ایک ایسا گچھا دکھائی دیتا ہے جو خوبصورت تو ہے لیکن کافی پیچیدہ بھی ہے۔

لیکن ایک اتنا چھوٹا سا عضو اتنے طاقتور کمپیوٹیشنل کام کیسے سرانجام دیتا ہے؟ اس سوال کا جواب مکھی کے دماغ کی ساخت اور شکل میں پوشیدہ ہے۔ تاہم ان تمام کاموں کی صلاحیت رکھنے والا اتنا چھوٹا کمپیوٹر تیار کرنا جدید سائنس کے بس کی بات نہیں ہے۔

پرنسٹن یونیورسٹی کی ڈاکٹر مالا مرتی اس تحقیق میں شامل تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’کنکٹوم کے سائنسی نام والی وائرنگ کی تصویر نیوروسائنسدانوں کے لیے نہایت اہم ہو گی۔‘

’جو محققین یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک صحتمند دماغ کیسے کام کرتا ہے، ان کو اس سے مدد ملے گی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں یہ ممکن ہو سکے گا کہ ہم موازنہ کر سکیں کہ ہمارے دماغ میں جب کچھ خراب ہو جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر مالا مرتی سے ڈاکٹر لوشیا پریٹو اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’محققین اس سے پہلے دو سادہ سے کیڑوں کے دماغ کے کنکشن کو مکمل کر چکے ہیں جن میں سے ایک کے دماغ میں 300 جبکہ دوسرے کے دماغ میں 3000 تاریں دیکھی گئیں۔ لیکن ایک لاکھ 30 ہزار تاروں کے کنکٹوم کی مکمل تصویر ایک حیران کُن تکنیکی کامیابی ہے جو اب زیادہ بڑے حجم کے حیوانات جیسے چوہوں کے دماغ کے ایسے کنکشن کو تلاش کرنے کا راستہ کھول دے گی اور شاید کئی دہائیوں میں انسانی دماغ کے بھی۔‘

محققین بہت سے انفرادی کام کرنے والے الگ الگ سرکٹ کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوئے اور یہ دکھانے میں بھی کہ یہ آپس میں کیسے جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حرکت کی ذمہ دار تاریں دماغ کے نچلے حصے میں موجود ہیں جبکہ بینائی سے متعلقہ تاریں دماغ کے دائیں اور بائیں جانب پائی گئیں جس میں زیادہ بڑی تعداد میں نیورون ملوث تھے، کیوں کہ بینائی کے لیے زیادہ کمپیوٹیشنل طاقت درکار ہوتی ہے۔

اگرچہ سائنسدان یہ بات تو پہلے سے جانتے تھے کہ سرکٹ الگ الگ ہوتے ہیں تاہم وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کا آپس میں رابطہ کیسے ہوتا ہے۔

مکھی مارنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟


چند محققین ان تصاویر کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مکھی مارنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ یہ معلوم ہوا کہ اگر اخبار یا کسی اور چیز کی مدد سے مکھی کو مارنے کی کوشش کی جائے تو مکھی کے دماغ میں موجود بینائی کے کنکشن فورا اس حرکت سے متعلق سگنل مکھی کے پیروں تک بھیجتے ہیں اور وہ اُڑ جاتی ہے۔

لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس ممکنہ جان لیوا حملے سے پیشتر ایک زیادہ طاقتور سگنل مکھی کی ان ٹانگوں کو جاتا ہے جن کا رُخ اخبار یا ہتھیار کی دوسری سمت میں ہوتا ہے اور یہ سگنل چھلانگ لگانے کا ہوتا ہے۔ تو کہا جا سکتا ہے کہ مکھی کو چھلانگ لگانے کے لیے سوچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی یعنی سوچ کی رفتار سے بھی تیز۔

یہ تصویر ایک مکھی کے دماغ کو کھول کر بنائی گئی ہے اور اس عمل کے دوران دماغ کے تقریبا 70 ہزار ٹکڑے کیے گئے اور ہر ٹکڑے کی الگ الگ تصویر بنائی گئی جنھیں بعد میں ڈیجیٹل طریقے سے جوڑا گیا۔

پرنسٹن کی ٹیم نے بعد میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا اور تمام اشکال اور نیورونز کے کنکشن کو جانچا۔ لیکن مصنوعی ذہانت کے باوجود محققین کو 30 لاکھ غلطیوں کا سامنا ہوا جنھیں بعدازاں ہاتھ سے درست کیا گیا۔ لیکن ابھی بھی کام ادھورا تھا۔

ڈاکٹر فلپ شلیگل کہتے ہیں کہ ’مکھی کے دماغ کا نقشہ بے معنی تھا جب تک ہر تار کا مقصد واضح نہ ہوتا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ڈیٹا گوگل میپ کی طرح کا تھا لیکن دماغ کے معاملے میں نیورون کے بیچ رابطے تلاش کرنا ایسا ہی ہے کہ ہم یہ جانیں کہ کس گلی یا عمارت کے قریب کیا ہے۔‘

’نیورون کی وضاحت ایسے ہی ہے جیسے آپ نقشے میں گلی یا قصبے کا نام لکھیں، دکان کھلنے کا وقت، فون نمبر، تجزیے جیسی تفصیلات درج کریں۔ آپ کو یہ سب درکار ہوتا ہے تاکہ مکمل طور پر فائدہ ہو سکے۔‘

فلائی کنکٹوم تک کوئی بھی سائنسدان رسائی حاصل کر سکتا ہے جو اسے تحقیق میں استعمال کرنا چاہتا ہو۔

ڈاکٹر شلیگل کا ماننا ہے کہ ’نیورو سائنس کی دنیا اس نقشے کی مدد سے اگلے چند برسوں میں نئی نئی دریافتیں سامنے آئیں گی۔‘

انسانی دماغ مکھی کے دماغ سے بہت زیادہ بڑا ہوتا ہے اور اب تک اس کی وائرنگ کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی سائنسدانوں کے پاس موجود نہیں ہے۔

لیکن محققین کا ماننا ہے کہ تیس سال میں شاید انسانی کنکٹوم یا نقشہ بنانا ممکن ہو جائے۔ اس تحقیق میں بین الاقوامی سطح پر سائنسدانوں کے اشتراک سے کام ہوا جس کا نام ’فلائی ورم کنسورشیئم‘ ہے۔