خیام کی رباعیات

بہرحال خیام کی وجہ شہرت آج ان کی رباعیات ہیں جن کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے لیکن ان کی رباعیات میں کیا ہے جو آج تک لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔

خیام کی رباعیات کے بارے میں مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ ’خیام کی رباعیاں اگرچہ سینکڑوں ہزاروں ہیں لیکن سب کا قدر مشترک صرف چند مضامین ہیں: دنیا کی بے ثباتی، خوش دلی کی ترغیب، شراب کی تعریف، مسئلہ جبر، توبہ استغفار وغیرہ ہے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ہر ایک مضمون کو وہ سو سو بار اس طرح بدل کر ادا کرتے کہ معلوم ہوتا کہ وہ کوئی نئی چیز ہے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’توبہ استغفار ایک فرسودہ مضمون ہے لیکن جس طرح خیام اس کو ادا کرتا ہے، سننے والے کی آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں، مغفرت کی دعا اس جدت اسلوب سے مانگتا ہے کہ دعا کا اثر بڑھ جاتا ہے۔‘

خیام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی شوخ اور ظریف طبع تھے، اس لیے اکثر مضامین کو شوخی اور ظرافت کے پیرائے میں بیان کیا، جس میں اس کے خمریات بھی ہیں، وہ فلسفی و حکیم تھے لیکن صوفی نہ تھے ورنہ حافظ کی یہی شراب معرفت کی شراب بن جاتی۔

ان کی شاعری میں جو فلسفہ ہے وہ لاعلمی کا فسلفہ ہے یعنی تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کیا کرتے ہو، کہاں جاؤ گے؟ خیام ان سوالوں کی تحقیق کی تلقین کرتے ہیں۔

خیام کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ اپیکوریس کی آواز کی بازگشت ہے یعنی ’کھاؤ، پیو اور خوش رہو‘ لیکن خیام سے ایسے خطرناک خیالات کی توقع نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی بہت سی ربا‏عیوں میں معاد، جزا اور سزا کا اقرار کیا اور نیکوکاری کی ہدایت کی جبکہ برائیوں سے بچنے کی بات کہی۔ ان کی اخلاقی تعلیم میں ریاکاری سب سے بڑا جرم ہے۔