بر صغیر کے مسلمانوں کی سیاسی بیداری

("برید فرنگ" علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے خطوط کا مجموعہ ہے اس میں ان تاریخی اور اہم خطوط کا مجموعہ ہے جو وفد خلافت کے سلسلہ میں یورپ سے ہندوستان کے بزرگوں دوستوں اور عزیزوں کے نام لکھے گئے ان میں دنیائے اسلام کے اکابر رجال سے ملاقاتوں کی دلچسپ روداد بھی ہے 1920ء میں یہ خطوط لکھے گئے ہیں اس لحاظ سے ان کی اہمیت تاریخی بھی ہے۔  وہ ان خطوط کے پس منظر کے بارے میں یہ تحریر 1951 ء میں لکھی ہے  جب وہ پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم تھے ۔) 

" آج 1951ء ہے آج سے بتیس برس پہلے 1920ء تھا ہماری کہانی اسی سال کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے جب 1914 ء والی جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی اور ایران سے لے کر تھریس تک ساری دنیائے اسلام اتحادیوں کے ہاتھوں پامال ہورہی تھی ۔ 

1857ء کے بعد مسلمانوں کی سیاسی بیداری کا آغاز 1901ء سے شروع ہوتا ہے بوڑھوں میں اس کے پہلے محرک سر سید ان کے رفقائے خاص میں ان کے جانشین دوم وقار الملک اور نوجوانوں میں پٹنہ کے مشہور بیرسٹر مظہر الحق تھے ، دونوں نے مل کر جیسا کہ مظہر الحق صاحب مرحوم نے مجھ سے کہا مسلم لیگ کا خاکہ تیار کیا اور 1906 ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کے ساتھ ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی قیادت میں اس کے مستقل وجود کا اعلان کیا گیا ، یہ ملکی سیاست کے میدان میں مسلمانوں کا سب سے پہلاقدم تھا ۔ اس کے بعد اسی کانفرنس کے ساتھ اس کے روکھے پھیکے جلسے سال بسال ہونے لگے ۔ 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ملکی سیاست سے کوئی دلآویزی پیدا نہیں ہوتی تھی ، اور اس کی کھلی وجہ یہ تھی کہ ان کو صاف نظر آتا تھا کہ آج کل کے اصول سیاست اور نظام جمہوریت کے مطابق جو حکومت بھی ہندوستان میں قائم ہوگی اس میں مسلمانوں کی حیثیت محکومانہ ہوگی اور زیادہ سے زیادہ جو مسلمان کرسکتے تھے وہ یہ تھا کہ ملازمتوں میں استحقاق کے مطابق اور کونسلوں کی ممبریوں میں کچھ استحقاق سے زیادہ جگہیں حاصل کرلیں اور یہی اس زمانہ کے مسلم لیگ کی سیاست تھی ،عام مسلمانوں کو اس سیاست سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی ۔ ان کی دلچسپی کا صل مرکز بیرونی سیاست میں خلافت عثمانیہ تھی جس سے مسلمان دنیا میں اپنی ملی عزت و احترام کو وابستہ سمجھتے تھے ۔اور جس کا سلطان حرمین محترمین کا خادم اور اسلامی مقامات مقدسہ کا محافظ تھا ۔ 

حوادث اور اتفاقات ایسے پیش آئے کہ 1908ء میں خلافت عثمانیہ میں انقلاب پیش آیا ، نوجوان ترکوں کی انجمن اتحاد و ترقی کی خفیہ تدبیریں کامیاب ہوئیں اور انور بے وغیرہ قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے دستوری حکومت کا اعلان کردیا اور یہی وہ وقت تھا جب یورپ کی سلطنتوں نے ملک کر یہ چاہا کہ ان نوجوان ترکوں کو سنبھلنے کا موقع دئے بغیر ترکی کی حکومت کے حصے بخرے کرلیں ، اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ نوجوان ترکوں کے اعلان کے چندہی روز بعد اٹلی نے دولت عثمانیہ کے آخری افریقی مقبوضہ طرابلس الغرب (ٹریپولی) پر حملہ کردیا اس حملے نے سارے دنیائے اسلام میں آگ لگادی ، خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں نے بڑے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیا اور شبلی اور اقبال جیسے شعرائے باکمال نے اپنے ترانوں سے مسلمانوں کو گرمایا اقبال کا یہ شعر اب تک زمانہ کو یاد ہوگا ، 

جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں         طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں 

مسلمانوں میں جوش و خروش برپا ہی تھا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں بنگالیوں کے سیاسی زور توڑنے کے لئے جو اس وقت سیاست میں سب سے آگے تھے بنگال کو مشرقی و مغربی دو حصوں میں تقسیم کردیا ، اسی تقسیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کی حقیقت روز روشن کی طرح نمایاں ہوگئی اور مشرقی بنگال جو سب سے پیچھے تھا اس کو اپنی ترقی کا زریں موقع مل گیا اور مسلمانوں کے اپنے کو اس نئے صوبے میں اکثریت میں پاکر بڑی خوشی ظاہر کی اور یہ پہلا دن تاھ کہ مسلمانوں کو ملکی سیاست سے دلچسپی معلوم ہونے لگی ، لیکن ابھی ان کی اس کوشی پر دوسال بھی گذرنے نہ پائے تھے کہ ہندوبنگالیوں کے پر زور ایجی ٹیشن سے مجبور ہوکر انگریزوں نے 1910ء میں بنگال کی تقسیم کو منسوخ کردیا ۔ مسلمانوں کو اس بڑا صدمہ ہوا اور یہی زمانہ تھا جب نواب وقار الملک نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا اور مولانا شبلی مرحوم نے پولیٹل کروٹ کا سلسلہ شروع کیا جس نے مسلمانوں کے سیاسی رخ کو سرکار پرستی سے پھیر کر صحیح سیاست کی طرف کردیا ۔ 

ابھی یہ صدمہ وہ بھول بھی نہ پائے تھے کہ اسی 1910ء میں بلقان کی ریاستوں نے یورپ کی سلطنتوں کی شہ پاکر ایک ساتھ مل کر دولت عثمانیہ کے یورپی حصوں میں بغاوت کردی اور جنگ ہندوستان کے مسلمانوں جوش وخروش دیکھ کر ایسا معلوم ہوتاتھا کہ یہ جنگ ہندوستان ہی میں لڑی جارہی تھی ۔ چند سال کے بعد یہ جنگ اس طرح ختم ہوئی کہ ترکوں کے ہاتھ سے یورپ کا بڑا حصہ نکل گیا ۔ 

اس کے چار سال کے بعد1914ء میں یورپ کی سلطنتوں میں جنگ شروع ہوگئی ، روس جرمنی اور آسٹریا ایک طرف اور انگلینڈ اور فرانس اور اٹلی دوسری طرف ، اس جنگ کے چند ماہ بعد ٹرکی نے نومبر 1914ء میں جرمنی کے ساتھ ہوکر اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ۔ اب مسلمان جو یورپ کی اس پہلی جنگ عظیم میں نا طرفدار تماشائی کی حیثیت رکھتے تھے ، دفعتا جرمنوں کے ساتھ ہمدردی ظاہرکرنے لگے اس وقت انگریزی حکومت نے ایک طرف اپنی مسلمان رعایا کی تسکین کی خاطر یہ اعلان کیا کہ اسلام کے مقدس مقامات حملہ سے محفوظ رہیں گے ، دوسری طرف انہوں نے اسی جنگ کے جیتنے کے لئے عجیب و غریب سازش کی، انھوں نے ترکوں سے عربوں کو الگ کرنے کے لئے شریف حسین امیر مکہ کو اپنے ساتھ ملاکر اور ایک سرب شہنشاہی کا خواب دکھاکر جو بحر احمر سے لے کر بحر روم تک کو محیط ہوگی ترکی کی حکومت سے بغاوت کا اعلان کرادیا اور اس لالچ میں عربوں کو ترکوں سے لڑانے کے لئے عراق و شام اور حجاز کے میدانوں میں ان کو کھڑا کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عراق اور شام اور فلسطین اور حجاز دولت عثمانیہ سے الگ ہوکر اتحادیوں کے قبضہ میں چلے گئے ۔ ان ممالک اسلامیہ کا جو احترام روز اول سے مسلمانوں میں تھا اس کے لحاظ سے اس حادثہ سے ان کے دل کو سخت چوٹ لگی ۔ 

ٹھیک اسی وقت جب انگریزمصر میں بیٹھ کر شریف حسین سے عرب شہشاہی کا معاہدہ کررہے تھے وہ یورپ میں جرمن کے یہودیوں کو فلسطین کی نذر پیش کرکے سارے یورپ کے یہودیوں کو اپنے ساتھ ملارہے تھے اور آخر یہودیوں نے جرمن کے خلاف سازش کرکے اس کو تباہ کرڈالا اور اس کے بدلہ میں فلسطین کے یہودی قومی وطن بنائے جانے کا اعلان انگریزی حکومت سے کرایا ۔ یہی وہ تخم ہے جس سے فلسطین میں تیس سال کے عرصے میں اسرائیل کی خود مختار حکومت کا نخل تناور پیدا ہوا ۔ اور جو آج ہمارے سامنے ہے ۔ 

انگریزوں نے شریف حسین سے جس عرب شہنشاہی کا وعدہ کیا تھا اس کا ایفا اس طرح کیا کہ حجاز کی بادشاہی ان کو دی گئی اور ان کے بڑے صاحبزادے امیر فیصل کو جو کرنل لارنس کے ساتھ ساتھ ترکوں سے جنگ میں سب سے پیش پش تھے اور جو لارڈ النبائی کے ہمرکاب بیت المقدس کو ہلال کے قبضہ سے نکال کر صلیب کے حوالہ کررہے تھے شام کا تخت پیش کیا گیا ، مگر یہ تخت چند ماہ سے زیادہ بچھانہ رہ سکا اور فرانس نے لڑکر ان کو شام سے باہر کردیا ، ہماری کہانی جب شروع ہوتی ہے اسی زمانہ کا یہ واقعہ ہے کہ امیر فیصل شام سے بیدخل ہوچکے تھے اور ابھی تک عراق کی حکومت ان کونہیں ملی تھی ، پورا ملک عرب جو مجلس خلافت کے نزدیک عراق و شام و حجاز پر مشتمل تھا ٹکڑے ٹکڑے ہوکر چند چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر انگریزوں اور فرانسیسیوں کے زیر اقتدار تھا ۔ مسلمانوں میں اس صورت حال سے بڑی بے چینی تھی ، ہندوستان کے مسلمان اس صورت حال کو انگریزوں کے اس صریح اعلان کے خلاف سمجھتے تھے جس کے ذریعہ انھوں نے مسلمانوں سے ان کے مقدس مقامات کے محفوظ رہنے کا وعدہ کیا تھا ۔ 

دنیا کے ایک اور عظیم الشان انقلاب پر جو روس میں پیش آیاتھا ، گوڈو برس گذر چکے تھے مگر ہنوز اس کے افق کا مطلع صاف نہ تھا ، اس وقت انگریز اس کے مقابلے کے لئے سفید روسیوں کی فوج بناکر ادھر ادھر معرکہ آراتھے روس کے اسلامی صوبے آزاد کئے جارہے تھے ۔ آزر بائجان کی خودمختاری کو انگریز تسلیم کرچکے تھے ، بخارا ، خیوا اور دوسری اسلامی ریاستیں گو بالشویک روسیوں کی گرفت میں تھیں تاہم دنیائے اسلام اب تک یہ طے کرنہیں پائی تھی کہ اس انقلاب کا اثر مسلمانوں کے خلاف ہوگا یا موافق بلکہ عام رجحان یہ تھا کہ یہ انقلاب اتحادیوں کے خلاف مظلوم قوموں کی حمایت ہی کرے گا ۔ 

مصر میں اس وقت سعد زاغلول پاشا کی سیادت میں آزادی خواہ گروہ کھرا تھا اور سارا مصر سعد زاغلول پاشا کی قیادت پر ایک زبان ہوکر انگریز وں کے بھیجے ہوئے ملزکمیشن کو بائیکاٹ کرچکاتھا اور سعد زاغلول پاشا اپنے رفقاء کے ساتھ مطالبات کو پیش کرنے انگلینڈ اور فرانس جارہے تھے ۔ 

ایران اس وقت روسیوں اور انگریزوں کے بیچ میں لٹکاہوا تھا بلکہ یہ نظر آرہا تھا کہ یہ بھی انگریزوں کے زیر اقتدار آجائے گا ۔ اور اسی قسم کا معاہدہ اس وقت انگریز اس سے کررہے تھے ۔ 


ٹرکی کی عظیم الشان سلطنت کا جو حصہ افریقہ میں تھا اٹلی غصب کر چکاتھا یورپ میں اس کے صوبے آسٹریا ، بلغاریہ ، سرویا ، مانٹی نیگرو اور یونان میں بٹ چکے تھے ، البانیہ کی چھوٹی سی ریاست جس میں اسلامی کثریت تھی ، گو خود مختار بن چکی تھی مگر اس وقت وہ اٹلی کے زد میں تھی ۔ ٹرکی کے مشرقی حصے عراق و شام فلسطین و حجاز وغیرہ باغی ہوکر شام فرنسیسیوں اور باقی انگریزوں کے تصرف میں تھے ، اتحادی فوجیں ، اس وقت قسطنطنیہ پر قابض تھیں اور ٹرکی کی عظیم الشان سلطنت اس وقت اناطولیہ میں محدود تھی ۔ ٹرکی کا سلطان قسطنطنیہ میں اتحادیوں کے بس میں تھا ۔ فرانس کی سرزمین میں اتحادی فتح کے غرور کے نشہ میں صلح کی صورت میں خداکی خدائی کی شکست و ریخت میں مصروف تھے اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کررہے تھے ۔ سب سے بڑا یہ امر زیر غور تاھ کہ ٹرکی کا بقیہ یورپینی مقبوضہ تھریس کس کو دیا جائے ، قسطنطنیہ پر کو ن قابض ہو۔ اناطولیہ میں سمر تا گویا یونانیوں کو مل ہی چکاتھا اور بقیہ اناطولیہ کی سپر دگی کا مسئلہ درپیش تھا ، یونان کا وزیر اعظم دینی زیلاس برطانیہ کو اس بات آمادہ کررہا تھا کہ ٹرکی کا بڑا حصہ یونان کے حوالے کردیا جائے ۔ ادھر ٹرکی کے صوبہ آرمینیا میں اتحادی بغاوت کرارہے تھے ۔ اور آرمینی سارے اتحادی ملکوں میں ترکوں کے مظالم اور اپنی مظلوممی کی داستانیں گھڑ گھڑ کے رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملارہے تھے ، یہودی تواۃ اور انجیل کے حوالوں سے عیسائیوں کو یہ باور کرارہے تھے کہ اخیر زمانہ میں بنی اسرائیل کے فلسطین دوبارہ اکھٹے ہونے کی جو پیشین گوئی ہے اس کے پورا کا یہی وقت ہے ۔ ان مشکلات کے نرغے میں اس وقت ٹرکی کا ہیرو مصطفی کمال پاشا مٹٓھی بھر نوجوان ترکوں کے ساتھ اناطولیہ میں ٹرکی کی بچی کھچی سلطنت کےھ لئے سرگرم پیکار تھا اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا ، 

دنیائے اسلام کا یہ نقشہ تھا کہ جب ان خطوط کا آغاز ہوتا ہے اس صورت حال سے ساری دنیائے اسلام میں زلزلہ برپا تھا لیکن اللہ تعالی نے اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کو چند بہادر ، درد مند ، حساس ہیرون عنایت کئے تھے جو اپنی جانوں پر کھیل کر کھڑے ہوئے اور انھوں نے مجلس خلافت کے نام سے مرکزی مجلس بمبئی میں قائم کی جس کی شاخیں سارے ہندوستان میں قائم ہوگئی تھیں ، اس مجلس کی تنظیمی قوت اتنی زبردست تھی کہ سارا ہندوستان اس کی ایک آواز پر اٹھتا اور بیٹھتا تھا ، پورے ملک میں جس قدر کارکن نوجوان تھے سب اس کے جھنڈے کے نیچے جمع تھے ، ہر طرف سے اس کی امداد کے لئے روپے برس رہے تھے اور قوتیں یک جا ہورہی تھیں ، عوام علما اور تعلیم یافتہ سب اس تحریک میں یکساں شریک تھے ، مولانا عبد الباری فرنگی محلی سب سے پیش تھے ۔ ان کے علاوہ علمائے دیوبند ، علمائے بد ایوں ، علمائے ندوہ ، علمائے بہار اور دیگر علماء سب شریک تھے ۔ خلافت کے رکان عمل میں اس وقت کے تما م پیر وجوان صاحب فکر و دماغ شامل تھے ، مسیح الملک حکیم اجمل خان ، ڈاکٹر انصاری ، شوکت علی محمد علی ، تصدق شیروانی ، ڈاکٹر سید محمود ، چودھری خلیق الزماں ، مولانا ابوالکلام آزاد ڈاکٹر سیف الدین کچلو، ظفر علی خان ، مولانا عبد الماجد بدایونی مولانا فاخر الہ آبادی ، پیر غلام مجدد ، سیٹھ عبد اللہ ہارون ، سیٹھ چھوٹالی اور خداجانے کتنے اشخاص تھے جو تمام ملک میں پھیلے تھے اور اس تحریک کو اس زور و قوت کے ساتھ چلارہے تھے کہ اس کے دبانے کی حکومت ساری تدبیرریں بیکار ہورہی تھیں اور دنیائے اسلام کی نظریں اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں اور ان جمعیت خلافت پر لگی ہوئی تھیں ، اور اس وقت مسلمانوں کو اپنی متحدہ قوت کا اندازہ ہو رہا تھا ۔ 

دسمبر 1919ء کی آخری تاریخیں تھیں ۔ امرتسر میں کانگریس اور مجلس خلافت کے اجلاس ہورہے تھے کہ حکومت نے محمد علی اور شوکت علی کو جو چھنڈوواڑہ میں نظر بند تھے رہا کردیا ۔ چھنڈواڑہ سے یہ دونوں سیدھے امرتسر پہنچے جہاں اس وقت سارے ہندوستان کے ہر طبقہ کے اہل سیاست کا مجمع تھا ۔ یہی وقت تھا جب محمد علی اور شوکت علی صاحب وغیرہ نے اس تحریک کی کامیابی کے لئے ہندوؤں کو بھی اپنے ساتھ لیا اور اسی طرح گاندھی جی اور مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی اور محمد علی اور شوکت علی نے مل کر احیائے خلافت کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کے مسئلہ کو بھی تحریک کے مقاصد میں شامل کرلیا ۔ اور اس طرح سیاست نے ہندوستان میں ایک نئی کروٹ لی ۔ گاندھی جی نے اس تحریک میں عملا حصہ لیا اور شوکت صاحب کے ساتھ مل کرسارے ملک کا دورہ کیا ۔ 

امرتسر کے اس اجتماع میں یہ طے ہوا کہ ہندوستان کی طرف سے چند آدمیوں کا ایک وفد انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے اتحادی ملکوں میں بھیجاجائے جو وہاں جاکر اپنے مطالبات حکومت برطانیہ اور دیگر اتحادی وزراء کے سامنے پیش کرے اور اتحادی ملکوں کی رائے عامہ کو مسلمانوں کے موافق بنائے ۔ وفد کے مطالبات حسب ذیل تھے : 


1-ٹرکی کے سلطان کی حکومت بحیثیت اس کے کہ وہ مسلمانوں کا خلیفہ ہے قسطنطنیہ تھریس اور اناطولیا اور آرمینیا میں مستقل و آزاد قائم رکھی جائے ۔ 

حجاز ، شام ِ فسلطین اور عراق کو جہاں مسلمانوں کے مقدس مقامات ہیں اور جس کے مجموعے کا نام جزیرۃ العرب ہے ، غیر اسلامی اقتدار سے محفوظ رکھا جائے اور اس طرح حکومت برطانیہ نے جو وعدہ اسلامی مقامات مقدسہ کی حفاظت کے متعلق کیا تھا اس کو وہ پورا کرے ۔ 

3- ہندوستان کی آزادی کے لئے رائے عامہ ہموار کی جائے کیونکہ بلاد اسلامیہ کا تحفظ ہندوستان کی آزادی کے بغیر ممکن نہیں ۔ 

وفد کے ارکان : 

اس وفد کے لئے ہندوستان سے اولا محمد علی ، سید حسین ِ سید سلیمان تین ناموں کا بحیثیت ارکان انتخاب ہوا اور وفد کے سکریٹری حسن محمد حیات صاحب مقرر ہوئے جو بعد کو نواب صاحب بھوپال کے سکریڑی ہوگئے  اور ہندوستان سے بنگال کے مولوی ابوالقاسم صاحب بھیجے گئے ، شیخ مشیر حسین صاحب قدوائی بھی جو اس تحریک کے ابتدائی مشیر کاروں میں تھے اور مولانا عبد الباری صاحب کے معتمد علیہ تھے اور جو جنگ بھر لندن ہی میں مقیم رہے تھے اور بعد کو چند ماہ کے لئے ہندوستان گئے تھے وہ پھر ہندوستان سے واپس آکر ہمارے کام میں شامل ہوئے ۔ 

انگلستان میں اس وقت بعض انگریز اور ہندوستانی جو ہندوستانی سہاست سے دلچسپی رکھتے تھے اور بعض نوجوان مسلمان جو وہاں زیر تعلیم تھے کام میں شریک ہوئے ، جیسے انگریزوں میں مسٹر ہارنی مین جو بمبئی کرانیکل کے بھی ایڈیٹر تھے ، ہندوؤں میں مسٹر نائیڈو جو اس وقت لندن ہی میں تھیں اور نوجوان مسلمانوں میں سے شعیب قریشی صاحب اور عبد الرحمن صدیقی صاحب جو اس وقت انگلینڈ میں زیر تعلیم تھے اور محمد علی مرحوم ہے خصوصی تعلق رکھتے تھے کاص طور سے یہاں کے کاموں شریک ہوئے ،ڈاکٹر نہاد رشاد بے نے بھی ایک پر جوش کا رکن پیرس میں تھے ہمارے کاموں میں تعاون کیا ۔ 

تقسیم کار ، محمد علی صاحب رئیس وفد تھے ان کے ذمہ پورے وفد کی ذمہ داری تھی ، اور ان کے انٹرویو اور تقریر کے لئے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی رکھی گئی تھی سید حسین کے ذمہ اس باب میں ہندوستان کے جذبے کا اظہار تھا ۔ اور میرے متعلق ان مطالبات کے مذہبی نقطۂ نظر کی وضاحت تھی ۔ 

عبد الرحمن صدیقی صاحب نے انتظامی امور کی ذمہ داری لی اور شعیب صاحب نے اس انگریزی پرچہ کی ادارت اپنے ہاتھ میں لی جو مسلم اوٹ لک کے نام سے لندن سے شائع ہورہا ہے ۔ اور جس کے مینیجز اب تک اصفہانی صاحب اور ایڈیٹر ملک عبد القیوم صاحب تھے ۔ جو بیرسٹری کے لئے پنجاب سے گئے ہوئے تھے ۔ 


میرے ذمے یہ کام تھا کہ مذہبی اور تاریخی حیثیت سے انگریزی اخباروں میں ہمارے خلاف جو مضمون نکلیں ان کا جواب لکھنا اور اسلامی ملکوں کے مسلمانوں سے مل کر ان کو اس تحریک سے آگاہ کرنا اور ان کی ہمدردی حاصل کرنا ، ان کے علاوہ دو اور کام بھی میں اپنے ذمے لے رکھے تھے ایک یہ کہ روزانہ انگریزی اخباروں کو پڑھ کر قابل لحاظ مضامین اور خبروں پر سرخ نشان لگادینا تاکہ وفد کے دیگر ارکان بھی ان کو پڑھ لیں ، دوسرا یہ کہ ہر ہفتہ ، ہفتہ بھر کی رفتار کا ر اور کاموں کی روداد لکھ کر ہندوستان بھیجنا ، خصوصیت کے ساتھ شوکت علی صاحب اور مولانا عبد الباری صاحب کو وفد کے کاموں سے باخبر رکھانا ۔ 

-------------------------------------------

برید فرنگ ، ( خطوط کا پس منظر ص 6-15)، علامہ سید سلیمان ندوی ؒ