اللہ کی تخلیق پر غوروفکر نہ کرنے کا انجام

سورۃ الانبیاء کی آیت 30 میں اللہ رب العزت  اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو، سورج چاند کو دیکھو۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیحدہ ہے۔ چاند کا نور الگ ہے، فلک الگ ہے،چال الگ ہے، انداز اور ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے۔ 

 اسی طرح اللہ کا فرمان ہے کہ  وہی صبح کاروشن کرنے والا ہے ، وہی رات کو پرسکون بنانے والاہے۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والاہے۔ 


 اللہ تعالی ان تمام قدرت کی نشانیوں پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ، اس سلسلے میں علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر بنی اسرائیل کے ایک نیک بزرگ کا واقعہ درج کیا وہ یہ نقل کیا جاتا ہے ۔ 

بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کر لی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔

 اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کرلیا ہوگا؟

 اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔ 

کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگا۔

جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقا نہیں ہوا۔

 ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور وتدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو۔ 

عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا۔

 فرمایا بس یہی سبب ہے۔



(تفسیر ابن کثیر سورہ انبیاء : 30)