خلیفہ وہ ہے جو کسی کے ملک میں اس کے نائب کی حیثیت سے اس کے احکام کے مطابق عمل کرائے۔
اس منصب کے لیے انسان کے انتخاب کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی مخلوق ہے اس کی استعداد، علم اور اس کا دائرہ عمل محدود ہے۔ اور جس کی محدودیت کا یہ عالم ہو وہ اس ذات پاک کا خلیفہ نہیں بن سکتا جس کا علم، ارادہ، احکام اور تصرف غیر محدود ہے۔
لیکن انسان جو ابتداء میں ضعیف بھی ہے اور جہول بھی اس میں وہ پایاں نا پذیر استعداد رکھ دی گئی ہے۔ اور عقل وفہم کی وہ قوتیں ودیعت فرمادی گئی ہیں جن کے تصرفات کی حد نہیں۔ اس لئے جملہ مخلوقات سے صرف یہی ایک مخلوق ہے جو منصب خلافت کی اہلیت رکھتی ہے۔ علماء ربانیین نے اس مشت خاک میں پنہاں توانائیوں سے جیسے پردہ اٹھایا ہے اس کی گرد راہ کو بھی نفسیات انسانی کے ماہرین نہیں پہنچ سکے۔
عارف کامل اسمعیل حقی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔
ان فی الانسان صورۃ من عالم الشھادۃ المحسوسۃ وروحا من عالم الغیب الملکوتی غیر المحسوس سورا مستعد القبول فیض الانوار الالھیۃ فبا لتربیۃ یترقی من عالم الشھادۃ الی عالم الغیب وبسرا المتابعۃ یترقی من عالم الملکوت الی عالم الجبروت والعظموت ویشاھد بنور اللہ المستفاد من سرالمتابعۃ انوار الجمال والجلال الخ "
انسان مختلف عناصر سے مرکب ہے۔ اس کی صورت کا تعلق عالم محسوس سے ہے اور اس کی روح کا تعلق عالم غیب ملکوتی سے ہے۔ صورت وروح کے علاوہ اس میں ایک پوشیدہ قوت ہے جو انوار ربانی کے فیض کو قبول کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔ اچھی تربیت سے وہ عالم محسوس سے ترقی کر کے عالم غیب تک رسائی حاصل کرتا ہے
اور رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچی پیروی سے اس پر عالم جبروت وعظموت کی راہیں کھلتی ہیں۔ وہ الٰہی نور جو اس اطاعت وپیروی کی برکت سے اسے حاصل ہوتا ہے اس سے وہ جمال وجلال کے انوارو تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ فسبحان اللہ احسن الخالقین۔ انسان کو جو صرف خاک کا پتلا سمجھتے ہیں کاش اس کی حقیقت پر غور کریں تاکہ ان میں اپنے بلند مقام پر پہنچنے کی تڑپ پیدا ہو۔ یہ وہ ذرہ ہے جس کے سامنے آسمان کی رفعتیں سرنگوں ہیں اور یہ وہ قطرہ ہے جس میں سمندروں کی گہرائیاں ہیں۔
( حوالہ : تفسیر ضیاء القرآن : سورہ بقرۃ رکوع نمبر : 4 مولانا پیر کرم شاہ صاحب )