غالب کے بعض فنّی مقتضیات

غالباً ہم سب ہی اس خیال سے متفق ہیں کہ غالب اپنے فنّی مقتضیات میں بڑے خود دار واقع ہوئے تھے۔ اسی باعث ان کے یہاں اظہار کی منطق میں تعمیم کے مقابلے پر تخصیص کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔

 تعمیم خصوصیت رکھتی ہے یکساں روی، مشابہتوں کے ایک عمومی طور اور فہم عامّہ کی توثیق کے ساتھ۔ غالب کی بنائے ترجیح بیش تر صورتوں میں اختصاص پر ہے، جس کی ترکیب کے مشتملات بھی گوناگوں ہیں اور جن کا تعلق احساس و وجدان کے تجربے کی علیٰحدہ منطق سے بھی ہے نیز رد و قبولیت کی بعض نجی اور صرف نجی ترجیحات سے بھی۔ انہِیں معنوں میں غالب کا ذہن امتیاز اور افتراق کی طرف زیادہ مائل رہتا ہے۔

 غالب بالخصوص تعمیم کی اس منطق سے اپنے آپ کو قطعاً دور رکھتے ہیں جو شاعر کو اس فریب میں مبتلا رکھتی ہے کہ زندگی ایک واضح تر حقیقت ہے، جسے بہ آسانی اپنی فہم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ چیزیں اگر سوال ہیں تو ان کے شافی و کافی بلکہ کلّی جواب بھی ممکنات میں سے ہیں۔ چیزیں کتنی ہی پردۂ غیاب میں ہوں، پیچیدہ ہوں یا ہزار صورت اور ہزار بعد رکھتی ہوں ، انہیں کھولا جا سکتا ہے، دیکھا اور دکھایا جا سکتا ہے، ان کے بارے میں کوئی نہ کوئی مدلّل اور حتمی ترجیح قائم کی جا سکتی ہے۔

 اختصاص کا ایک پہلو غالب کے اس متفکرانہ ذہن کے ساتھ خصوصیت کا حامل ہے، جو چیزوں کے ہر اور چھور کے غائر مشاہدے کی طرف مائل رہتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے غالب کے ان اشعار پر توجہ کریں جو فلسفہ نہیں محض فلسفے کے التباس کے مظہر ہیں۔ حقیقت نہیں بلکہ حقیقت کا محض تاثر مہیا کرتے ہیں۔ زندگی اس طور پر رگِ جاں سے قریب تر ہے کہ اس کی شفافیت معدوم و محوسی محسوس ہونے لگتی ہے۔ دور کی چیزیں ہی کچھ کی کچھ نظر نہیں آتیں، نزدیک اور بہت نزدیک کی اشیاء بھی اپنے مظہر میں کچھ کی کچھ دکھائی دیتی ہیں۔ جب آدمی باطن کی آنکھ کو کام میں لاتا ہے تو بہ ظاہر شے کا تاثر یا بصارت کا تجربہ، کچھ اور ہی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ دیکھنے والے کے نقطۂ نظر پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس زاویے سے دیکھ رہا ہے یا دیکھنا چاہتا ہے یا دوسروں کو دکھانا چاہتا ہے۔ 

غالب کے ان اشعار میں اختصاص کا یہ پہلو قطعی واضح ہے کہ وہ شے نہیں شے کا تاثر مہیا کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ یہ تاثر ہی بہ یک وقت ایک سے زیادہ معنی کو برانگیخت کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہاں پہنچ کر اس دعوے کو دہرانے اور یاد دلانے کی غالباً ضرورت نہیں رہ جاتی کہ فلسفے کے التباس میں جو دھند سی ہوتی ہے وہ فلسفے سے زیادہ سِرّی اور معنی خیز ہوتی ہے۔ اسی معنی میں غالب کا استدلال، ایک شاعر کا اشیائے محسوسات کو اپنے طور پر نام زد کرنے کے ایک لفظی کھیل سے عبارت ہے۔


فشارِ تنگئ خلوت سے بنتی ہے شبنم 


صبا جو غنچے کے پردے میں‌جا نکلتی ہے 



ہوئی زنجیرِ موجِ آب کو فرصت روانی کی


لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی


چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا


ہیں زوال آمادہ اجزاء آفرینش کے تمام


مہرِ گردوں ہے چراغِ راہ گزارِ باد یاں


رفتارِ عمر، قطعِ رہِ اضطراب ہے


اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے


ہے خیالِ حسن میں حسنِ عمل کا سا خیال


خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا


نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز


میں ہوں اپنی شکست کی آواز


مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی


ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا


نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا


کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا



میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ غالبؔ کا فن اشیائے محسوسات کو نامزد کرنے کے لفظی کھیل سے عبارت ہے۔ میرے اس خیال سے یہ مغالطہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ غالب کا شعر محض ایک خاص لسانی تفاعل سے سروکار رکھتا ہے۔ معنی کاری سے اسے کوئی نسبت نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ معنی کاری کو لسانی تفاعل سے اگر ایک علیحدہ منصب دیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوگا کہ شاعر کے اپنے intentionss اس پر واضح اور دو ٹوک ہیں دوسرے یہ کہ اپنے منشا کی ہو بہو ترجمانی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ دونوں چیزیں میرے نزدیک بڑی مغالطہ آمیز ہیں اور خاص کر غزل کی شاعری کے اپنے حدود میں تو ان کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ لسانیاتِ شعر بلکہ لسانی تہذیب کی روایت اور صنفی ساختی نظام کے اپنے مقتضیات ہوتے ہیں۔ یہ تقاضے ہی تخلیقی عمل کے دوران بار بار مزاحمت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ حقیقت یا منشاء یا ابتدائی خیال کو بہرحال تہس نہس ہونا پڑتا ہے۔ شاعر کا تخیل اگر سریع الحس، رواں اور حرکت آفریں ہے تو کوئی بھی مزاحمت پھر اس کے لئے ایک دیر پا مسئلے کے طور پر برقرار نہیں رہتی۔ شاعر کے سامنے ایک سے زیادہ امکان افزا راستے کھلے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غالب کا کلام جو حاصل جمع یا آخری شمار کے طور پر ہمارے سامنے ہے اس قسم کے کئی مراحل سے گزر کر اس سطح تک پہنچا ہے۔ معنی ،غالب کے اسی ذہنی نظام میں گھلے ملے ہوتے ہیں جس میں زبان اور وہ قواعدِ شعری بھی حل ہے، جو صرف اور صرف غالب کے اسلوبِ شعر کی انفرادیت کی تعیّن کرتی ہے۔ خود غالب نے اپنے ایک خط میں یہ واضح اشارہ کیا ہے کہ:



’’میدائے فیاض سے مجھے وہ دستگاہ ملی ہے کہ اس زبان کے قواعد وضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں جیسے فولاد میں جوہر۔‘‘


اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کے تخلیقی عمل کے دوران لفظ و معنی دونوں کا ورود وقوع ہم وقتی ہوتا ہے۔ یعنی دونوں ایک مرکب شکل میں ایک ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کے شاعر ہونے کے باوجود غالب کی فکر میں کم سے کم دو لختی پائی جاتی ہے۔ اگر زبان لاشعوری طور پر عمل آور نہ ہو تو ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی کسی بھی اظہار کی منزل کو بغیر لکنت اور تعلیق کے سر ہی نہیں کر سکتے۔ غالب کے شعر کا بناؤ اس قدر چست و پیوست نیز تہہ بہ تہہ کسا ہوا اور گٹھا ہوا ہوتا ہے کہ اس میں لفظ اور لفظ کے درمیان معنی خیز سکوتیے silences یا وقفے pauses یا محذوفات کی صورتیں تو تواتر کے ساتھ واقع ہوتی ہیں لیکن مصرعوں کے لسانی جماؤ میں لکنت کہیں حائل نہیں ہوتی۔ لکنت کو ہم ان رخنوں اور تاملات سے تعبیر کر سکتے ہیں جو ادائیگی کے تسلسل میں مانع آتے اور شعری قواعد کے مطابق جمی ڈھلی ہوئی ترتیبِ لفظ سے ایک خاص قسم کے آہنگ کی اکائیوں کو منتشر کر دیتے ہیں۔ استعمالاتِ لفظ کے اس طریقِ خاص اور لفظ و معنی کی یگانگت کے تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان چند مثالوں پر غور کریں:






کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی


کہ شمعِ خانۂ دل ، آتشِ مے سے فروزاں کی


وحشتِ آتشِ دل سے شبِ تنہائی میں


صورتِ دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے


خانہ ویراں سازیِ حیرت تماشا کیجئے


صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست


دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں


آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا


جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لئے ہوئے


ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا


ہیں بس کہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے


ہر گوشۂ بساط ہے، سر شیشہ باز کا


وہ تشنۂ سرشارِ تمنا ہوں کہ جس کو


ہر ذرہ بہ کیفیتِ ساغر نظر آوے


اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو


تو ڑا جوتو نے آئینہ تمثال دار تھا


ہنوز محرومئ حسن کو ترستا ہوں


کرے ہے ہر بُنِ مو کام، چشمِ بینا کا




اب اسے خیال کہئے، مضمون کہئے یا معنی کہئے، اس کی وقعت کا سبب لسانی پیرائے کی ندرت ، لطافت اور وہ طرفگی ہے جو غالب کے شیوۂ گفتار کا سب سے نمایاں نشانِ امتیاز ہے۔



غالب بہ ظاہر اپنی زندگی اور اپنے خطوط میں جس قدر اپنے مجلسی ہونے کا شائبہ فراہم کرتے ہیں یا عملاً اپنی پینشن کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ وہ بہ باطن اتنے ہی نظری اور خود کوش ہیں۔ غالباً اس لئے بھی کہ ان کی حیات و کائنات کی فہم ان کے معاصرین سے قطعاً مختلف اور دانش ورانہ تھی۔ وہ محض روایت کے طور پر نام نہاد مسلمات اور زیست بسری کے مقبولِ عام معیاروں اور مذہبی عقائد و رسومات کی سخت گیر پابندیوں کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی انانیت صدمات سے چور ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طور پر اپنی تشفی کے سامان ڈھونڈھ ہی لیتی ہے۔ وہ اپنی شکستوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں تو بڑے متناقضانہ خوش طبعی کے ساتھ جیسے ساری ذلتیں اور سارے اعزاز، سارے سود اور سارے زیاں، ساری فتحیں اور ساری ہزیمتیں آنی جانی اور سرسری ہیں، ان میں دائمیت کسی کو حاصل نہیں۔ اسی لئے ہر شئے اور ہر وقوعہ انہیں حیرت آثار اور دھند میں اٹا ہوا نظر آتا ہے۔اسی لئے ہر چیز ان کے لئے تشکیک کا باعث اور ایک مجسم سوال بن جاتی ہے۔


رات دن گردش میں ہیں سات آسماں


ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا


گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا


بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا


نہیں گر سر و برگِ ادراکِ معنی


تماشائے نیرنگ صورت، سلامت


لافِ تمکیں، فریبِ سادہ دلی


ہم ہیں اور راز ہائے سینۂ گداز


اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے


جتنا کہ وہمِ غیر سے ہوں پیچ و تاب میں


مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنا ہے


جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عَنقا ہے


سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی


عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا




غالباً حیات و کائنات کی محدودیت کا احساس ضد کے طور پر ان میں لا محدودیت کے مقصود اور آرزو کو جنم دیتا ہے۔ کبھی کبھی وہ حسرتِ تعمیر پر اکتفا ضرور کر لیتے ہیں لیکن اس قسم کا اکتفا محض شاعرانہ اکتفا ہے ورنہ فضائے بسیط space اور اس کی لا محدودیت نیز دوری distance غالب کی اصل ذہنی اور وجدانی پناہ گاہ ہے۔ فضائے بسیط اور دوری دونوں احساس کی سطح پر ایک ہی معنی کے حامل ہیں۔ فضائے بسیط مکان ہی میں دوری اور دوری ہی میں فضائے بسیط کا تصور بھی پنہاں ہے۔ دوری میں ایک رومانی کشش ہے، زمان کے اعتبار سے بھی اور مکان کے اعتبار سے بھی۔ انیسویں کار بع اول یا 1857 کے گرد و پیش کے زمانے کے خلفشار ،انتشار اور افراتفری نے انسانیت کو جس بے یقینی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، وہاں ایک دانش ورانہ ذہن کی سب سے محفوظ قلم رو اس کے اندر کی اقلیم ہی ہوتی ہے۔ غالب مجلسی زندگی کے دلدادہ ضرور تھے اور ان کا حلقۂ احباب بھی کافی وسیع تھا، لیکن باطن کی سطح پر یہ وسعت بھی ان کے لئے کچھ کم تنگ نہ تھی۔ ایک ایسی روح کی طرح وہ حیران و سرگرداں نظر آتے ہیں جسے کسی کل چین نہیں ہے۔ علائی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:


’’قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو دواعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دیئے ہیں، بہ قدرِ ہزار ایک ظہور میں نہ آئے نہ وہ طاقتِ جسمانی کہ ایک لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شطرنجی اور ایک ٹین کا لوٹا مع سوت کی رسّی کے لٹکا لوں اور پیادہ پا چل دوں۔ کبھی شیراز جا نکلا، کبھیمصر میں جا ٹھہرا، کبھی نجف جا پہنچا۔ نہ وہ دست گاہ کہ ایک عالم کا میزبان بن جاؤں۔ اگر تمام عالم میں نہ ہو سکے، نہ سہی، جس شہر میں رہوں، اس شہر میں تو کوئی ننگا بھوکا نظر نہ آئے۔‘‘


محولہ بالا اقتباس میں غالب نے اپنے نفس کی ساری گرہیں کھول کر رکھ دی ہیں۔ ان کے نثری بیان میں بھی تخیل کی وہی سرگرمی اور وہی لپک اور وہی سریع الحسی پائی جاتی ہے، جس کا سراغ ان کے اشعار میں پسِ پردہ ملتا ہے۔ وہ دشت کی وسعت ہویا بیابان کی نا پیدا کنار فراخی و کشادگی، زمین سے آسمان تک کا پھیلا ؤ ہو کہ ایک جہان سے دوسرے جہان تک کی دوری گویا تمام عالم محسوسات و موجودات کے معلوم اور نا معلوم حدود اور ان کے مابین کے تمام بعد اور فاصلے غالب کی محض ایک جست بھرکے ہیں۔ غالب ہر مقام پر انجماد کے مقابلے میں حرکت اور قیام کے مقابلے میں رفتار اور عافیت کے مقابلے میں آوارگی کو اسی بنا پر ترجیح دیتے ہیں کہ نفسِ آرزو کی سرگرمی ہمیشہ تازہ دم رہے۔


ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب؟


ہم نے دشتِ امکاں کوا یک نقشِ پا پایا


میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا


میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا


نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالب


جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاکِ پا انداز


سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسد


پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے


احباب ، چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے


زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا


نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا


حبابِ موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا


میں کہ اک آفت کا ٹکڑا وہ دِل وحشی کہ ہے


عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا


منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے


عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا



ہماری قرأت کا تجربہ اور غالب


غالب کے فن اور اس کی مختلف جہتوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تاہم جب بھی غالب کے کلام کو از سرنو پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے، غالب ایک نئے بُعد کے ساتھ ہمارے تجربے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ ہمیں ہر بار نئے طور پر چیلنج بھی کرتے ہیں، ایک نئے رابطے کو راہ دینے کے لئے ہمیں اکساتے بھی ہیں۔ ہماری ذہنی شیرازہ بندی کو برہم بھی کرتے ہیں اور پھر ایک ایسے امکان سے بھی ہمیں دوچار کراتے ہیں کہ سارا ذہنی انتشار کسی نئے زاویے کے ساتھ ایک نئی ترتیب پا لیتا ہے۔ غالب کا یہ بھی ایک طرزِ خاص ہے کہ وہ کبھی پوری آواز میں بات نہیں کرتے اور نہ ہی ہم اُن سے اور نہ ہی وہ ہم سے پوری طرح متفق ہوتے ہیں۔ یہی عدم اتفاقی ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ کرید کا باعث بنی رہتی ہے۔ دراصل غالب کے شعر کی ہر قرأت ایک کم قرأت ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ every reading is miss reading یعنی ہر قرأت پر کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا ہے جو چھوٹ جاتا ہے اسے گرفت میں لانے کی جب ہم دوسری اور تیسری بار کوشش کرتے ہیں تب ضروری نہیں کہ ہمیں پوری تشفی ہو جائے کیونکہ غالب کو جتنا ہم construct کرتے جاتے ہیں غالب ہمیں کچھ کم deconstruct نہیں کرتے۔ جیسا کہ میں نے اپنے مضمون کے آغاز میں غالب کی شاعری اور اس کی قرأت کے تفاعل کے ضمن میں تاکیداً اس نکتے پر اصرار کیا تھا کہ جب بھی غالب کو از سر نو پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے، غالب ایک نئے بُعد کے ساتھ ہمارے تجربے کا حصہ بن جاتے ہیں۔یہ بُعد اصلاً معنی کی تعلیق سے پیدا ہوتا ہے۔ اسے معنی کی کثرت کا نام دیا جائے یا معنی کی تعلیق کا، نتیجہ معنی کے عدم استحکام کی صورت ہی میں ظاہر ہوتا ہے۔ باوجود اس کے غالب کا شعر اپنی تمام تر پیچیدگیوں اور کم آمیزیوں کے برخلاف پہلی قرأت میں ہی ایک ایسا تاثر ضرور خلق کر دیتا ہے جس کے باعث ہم پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں ہم معنی کے تجسس میں آگے بڑھتے ہیں ۔ معنی کی گرہیں جتنی کھلتی ہیں اتنی ہی الجھتی بھی چلی جاتی ہیں۔ جس معنی پر ہم بالعموم اکتفا کر لیتے ہیں وہ محض ایک فریب ہوتا ہے۔ غالب کے یہاں فریبِ مسلسل کی یہ کیفیت ہی ہربار معنی کے نئے بُعد کی راہ بھی روشن کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ غالب کا ذہن ایک طویل مشق و ممارست کے بعد لاشعوری طور پر معمول اور توقع کو رد یا deconstructکرنے کی طرف مائل رہتا ہے۔ میرے نزدیک ایک بڑی مشق اور تجربے کے بعد ہمارا ذہن استعمالات زبان کے ایک خاص طریق کا عادی ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جسے ہم عادت کہتے ہیں اصلاً لاشعوری عمل ہی پر اس کی اساس ہوتی ہے۔ 






غالب کے مشابہات میں ضد کا پہلو اسی بنا پر واقع ہوتا ہے کہ وصل کے بالمقابل فصل میں انہیں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔ غالب کے لسانِ شعری میں conceitکی، جسے اسلوب احمد انصاری نے رمزِ بلیغ کا نام دیا ہے، ایک خاص اہمیت ہے۔ در اصل کنسیٹ بھی ایک بلیغ استعارہ ہی ہوتا ہے ، جو اکثر پہلی سطح پر ہماری قرأتوں کو بڑی حد تک نا مانوسیت کے احساس سے دوچار کراتا ہے۔ جس میں صریحاً غیر مساوی اشیا یا جذبوں کے مابین مشابہت قائم کی جاتی ہے۔ یہ تشابہ بہ ظاہر بعیدی، بباطن متعلق ہوتا ہے۔ اس معنی میں مشابہت ہمیشہ پہلے مرحلے میں عدم مناسبت کا تاثر فراہم کرتی ہے بعد ازاں غور کرنے پر وہ مناسب اور صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اصلاً کنسیٹ متخالف اشیا و حقائق کے درمیان داخلی ربط تلاش کرنے کا نام ہے۔ غالب کے کلام میں مشابہت کا یہ عمل فکر و جذبے کے خلاقانہ انضمام، تعقل و تخیل کے کمال آفریں امتزاج، احساس و استدلال کے نادر اشتراک نیز تاثر و تصور کو جمالیاتی وحدت میں ضم کرنے سے عبارت ہے۔ غالب کے conceits میں جہاں بڑی جدت،ندرت اور تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے وہیں ان مثالوں کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں دماغی عرق ریزی، تخیل کے جمالیاتی وحدت گر عمل پر غالب آ گئی ہے۔ لیکن اس قسم کے اشعار کی تعداد کلامِ منسوخ ہی میں زیادہ ہے۔


سترہویں صدی میں جہاں ایک طرف ڈن نے متخیلہ اور متفکرہ کے جمالیاتی اشتراک کی بہترین مثال قائم کی تھی وہیں بعض اس کے معاصرین اپنے کلام میں تعقل و تخیل میں وہ یگانگت خلق نہیں کر سکے جسے تجربے کی سالمیت کا نام دیا جاتا ہے نیز جسے ہم خیال و جذبے کی وحدت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ رچرڈ کراشا کی نظمThe weeper میں conceits حد اعتدال سے اس قدر پرے ہیں کہ بَعد کے ادوار میں اکثر نقادوں نے انہیں مذاق کا موضوع بنایا ہے۔ شعرائے الزیبتھ کے عشقیہ سانیٹس میں بھی اس نوع کے دور از کار conceits کی کافی مثالیں ملتی ہیں۔ شیکسپیئرنے از راہِ تفنن ان پر گہرا طنز بھی کیا ہے جیسے:


میرے محبوب کی آنکھیں ایسی نہیں ہیں جیسے کہ آفتاب


(سچ تویہ ہے) کہ مرجان کی سرخی اس کے لبوں سے زیادہ سرخ ہے






میں نے دیکھے ہیں دمشق کے گلابی اور سفید پھول


لیکن ایسے پھولوں کی (شادابی) اس کے رخساروں میں نہیں



کچھ خوش بوئیں اور زیادہ لطیف ہیں


بہ نسبت میری محبوبہ کی سانسوں کی بھاپ(کی خوش بو) کے



شیکسپیئر ہی کے یہاں لمسی احساس سے مملو، بعض conceits یقیناً بڑے توجہ خیز ہیں جیسے رومیو جیولیٹ میں جب رومیو پہلی مرتبہ جیولیٹ کو دیکھتا ہے، تو اس کے تاثر کے اظہار میں رمزِ بلیغ کا استعمال ہی بڑا برمحل ہوا ہے۔


دیکھو! اس نے کیسے اپنے ہاتھوں کو اپنے گالوں پر دھر رکھا ہے


کاش! میں اس کے ہاتھوں کا دستانہ ہی ہوتا


تو (اس طرح) اس کے گال تو میں چھو سکتا تھا۔



جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ غالب کا ذہن معمول اور توقع کو رد کرنے میں زیادہ رغبت رکھتا ہے۔ رمزِ بلیغ کی مشابہتوں میں بھی ایسے الفاظ اور لفظوں کے ایسے خوشوں سے ہمیں سابقہ پڑتا ہے جو نامانوس ہی نہیں ہوتے بلکہ جن کی معنوی سمت اندر کی طرف ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں ہم کوئی فیصلہ کن تصور نہیں قائم کر سکتے۔ نارتھروپ فرائی نے اس قسم کے لفظی ڈھانچوں کے سلسلے میں لکھا ہے کہ:



’’ادب کے لفظی ڈھانچوں کی معنوی سمت اندر کی طرف ہوتی ہے۔ اسی لئے ادب میں خارجی معنی کے معائر ثانوی کہلاتے ہیں اور اسی سبب نہ تو وہ سچے ہوتے ہیں اور نہ باطل اور نہ تکرار بالمعنی کے حامل ، اس جملے کی طرح کہ ’نیک بد سے بہتر ہے‘۔‘‘


فرائی یہ بھی کہتا ہے کہ ادب میں صداقت اور اصلیت کے سوالات ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔ جبکہ قائم بالذات لفظوں کے ڈھانچے خلق کرنا ادب کا بنیادی منصب ہے۔ ظاہر ہے جہاں ایسے خود کار لفظی ڈھانچوں کی کمی پائی جاتی ہے وہاں صرف زبان رہ جاتی ہے اور ہماری قرأت کسی نئے تجربے سے متصادم نہیں ہوتی۔ غالب کے conceits میں اس نوع کے خود کار لفظی ڈھانچے ان کے تخیل کے انتہائی حساس عمل پر گواہ ہیں۔ مثلاً:


ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق


لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر


عجز سے اپنی یہ جانا کہ وہ بد خو ہوگا


نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا


قمری، کفِ خاکستر و بلبل، قفسِ رنگ


اے نالہ، نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے


نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا


حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا


پا بہ دامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد


خارِ پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے



اس آخری شعر کے مفہوم میں جو معنوی پیچیدگیاں ہیں اور مشابہتوں میں جس نوعیت کا بعیدی ربط ہے، شمس الرحمن فاروقی نے اسے اپنی بحث کا خاص موضوع بنایا ہے۔ طباطبائی، بیخودؔ موہانی اور حسرت موہانی وغیرہ کی قرأتیں وہاں تک نہیں پہنچ پائی تھیں جہاں تک فاروقی پہنچے ہیں۔ اصلاً یہ شعر بھی conceit ہی کی ایک نادر مثال ہے۔ یہاں پا بہ دامن ہونا یا گھٹنے پر سر لٹکائے ہوئے بیٹھنا صحرا نوردی کے باعث پیدا ہونے والی واماندگی کا نتیجہ ہے یا مایوسی کا، اِس مخمصے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے فاروقی یہ توضیح کرتے ہیں کہ:


’’اب جو میں آئینۂ زانو (یعنی گھٹنے کی گول ہڈی) کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کانٹے جو عالمِ صحرا نوردی میں میرے پاؤں میں چبھے تھے، وہی اس آئینے کا جوہر ہیں یعنی یہ آئینہ اس لئے لائقِ دیدار بنا کہ میرے پاؤں میں کانٹے چبھے تھے۔ نہ میرے پاؤں میں کانٹے چبھتے اور نہ میں اس طرح پاؤں توڑ کر گھٹنے پر سر ٹیک کر بیٹھتا کہ آئینۂ زانو میں منھ دیکھنا نصیب ہوتا۔ صحرا نوردی کے باعث میرا آئینۂ زانو جوہر دار ہوا اور اب جب صحرا نوردی ترک ہے تو بھی وہ کانٹے اپنا جوہر دکھا رہے ہیں۔‘‘


اس شعر میں پا بہ دامن ہونے اور آئینۂ زانو کے جوہر دار ہونے میں جو پیکر خلق ہوئے ہیں، ان کی خوبی اپنی جگہ یہاں پر غور کر نے کا مقام یہ ہے کہ صحرا نوردی اور پا بہ دامن ہونے میں حرکت اور سکون کی دو متضاد کیفیتوں کو غالب نے بڑی حساسیت کے ساتھ ایک واحدے میں ڈھال دیا ہے۔ اس معنی میں غالب کا ذہن اساساً وحدت گر ہے، جوبرہم بھی کرتا ہے تو شیرازہ بندی سے پہلو نہیں بچاتا۔ شمیم حنفی نے غالب کے معنویت کو عنوان بناکر جہاں کئی نکتوں کی طرف بڑے بلیغ اشارے کئے ہیں وہاں وہ غالب کے اس خاص وحدت گرانہ عمل کو بھی حوالہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’غالب انسانی وجود اور کائنات کی وحدت میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے شعور کا بنیادی سروکار اجزائے عالم کی شیرازہ بندی اور یکساں انہماک اور تعلقِ خاطر کے ساتھ باہم متصادم حقیقتوں کے تجزیے سے تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعور کی وحدت کا جیسا گیان غالب رکھتے تھے اسے آج بھی ہماری فکری شاعری کے سیاق میں ایک سب سے مختلف ایک علیٰحدہ مظہر کی حیثیت حاصل ہے۔‘‘

غالب کے تمام نفسی تجربوں کو ان کے اس وژن کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جسے انہوں نے ایک لامحدود رقبے پر پھیلی ہوئی انسانیت کے ذہنی اور مابعد الطبیعیاتی تجربوں سے کشید کیا ہے۔ اس وسعت میں مکان کی تحدید بالخصوص تہس نہس ہو جاتی ہے اور زمان کے اور ان زمانوں کی للک دل کی گہرائیوں میں جگہ بنا لیتی ہے، جو اَن دیکھے ہیں لیکن غالب کا قیاس اور احتمال ان کا سراغ لگا لیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غالب کا انسان بھی لخت لخت صورت میں ہم سے مخاطب نہیں ہوتا وہ اپنی مجموعیت اور وحدت ہی میں انسان ہے۔ اگرچہ غالب کا پہلا ہی شعر یعنی:


نقش ،فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟


کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا



خالقِ کائنات پر گہرے طنز کا مظہر ہے اور جو کنایۃً زندگی کا بد ہیئتی، بے حرمتی اور لغویت یا absurdity کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ تاہم غالب کے اس شیوۂ گفتار میں داد خواہی یا گلہ گزاری کم، احتجاج کا پہلو زیادہ حاوی ہے۔ کیونکہ یہاں ان کا وجودی انسان ایک مسخی کردار یعنی caricature کی شکل میں ان کا تجربہ بنتا ہے۔ لغویت کی ایک مثال یہ بھی ہے جس میں غالب نے کسی تلخی اور کڑواہٹ کے بغیر ان بہت سی نا آہنگیوں اور عدم مطابقتوں کو مترشح کر دیا ہے جو نظامِ زندگی کے ایک خوبصورت تصور کو چیلنج کرنے کی طرف مائل ہیں۔ یہاں ان مثالی اقدار کی پائمالی کا بھی شکوہ زیر لب ہے، جن کی بحالی کا تصور بھی اب غالب کے نزدیک محال ہے۔


بے دلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق


بے کسی ہائے تمنا ! کہ نہ دنیا ہے، نہ دیں


ہر زہ ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستیِ و عدم


لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں


نقشِ معنی ہمہ ، خمیازۂ عرضِ صورت


سخنِ حق ہمہ، پیمانۂ ذوقِ تحسیں


لافِ دانش غلط و نفعِ عبادت معلوم


دردِ یک ساغرِ غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں


مثلِ مضمونِ وفا، باد بہ دستِ تسلیم


صورتِ نقشِ قدم، خاک بہ فرقِ تمکیں


عشق ، بے ربطئ شیرازۂ اجزائے حواس


وصل، زنگار رخِ آئینۂ حسنِ یقیں


کوہکن گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب


بے ستوں آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں


کس نے دیکھا، نفسِ اہلِ وفا آتش خیز


کس نے پایا، اثر نالۂ دلہائے حزیں


سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں لیکن


نہ سر و برگِ ستائش نہ دماغِ نفریں


(ماخوز از اردو دائرہ معارف العلوم)