خودی اور فلسفہ سیاست، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ سیاست
خودی کی فطرت ہمیں اس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتی ہے کہ انسان کی ہر فعلیت کی طرح اس کی سیاسی فعلیت بھی خدا کی جستجو اور خدا کی محبت کے جذبہ کی تشفی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب خودی کا جذبہ اپنے صحیح اور فطری مقصود اور مطلوب یعنی خدا کی طرف راستہ نہیں پا سکتا تو کسی قائم مقام غلط تصور کے راستہ سے اپنا اظہار پانے لگتا ہے۔ جب ایک ہی نصب العین کو چاہنے والے افراد اپنے مشترک نصب العین کی جستجو کے لئے ایک قائد کے ماتحت متحد اور منظم ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ریاست کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ریاست اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ماتحت اپنے نصب العین کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق تعلیمی، اخلاقی، مالی، زراعتی، صنعتی، تجارتی، قانونی اور فوجی ادارے قائم کرتی ہے۔ ان اداروں کا کام ان کے مقاصد کے لحاظ سے اتنا ہی اچھا یا برا ہوتا ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس پر ریاست اور اس کے یہ ادارے قائم ہوتے ہیں۔ اگر ایک ریاست خدا کے نصب العین پر مبنی نہ ہو تو چونکہ اس کا نصب العین اس کے افراد کے جذبہ محبت کو مستقل اور مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکتا وہ ریاست ناپائیدار ہوتی ہے۔ کیونکہ اس ریاست کے افراد زود یا بدیر اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے نصب العین کو چھوڑ کر کسی اور زیادہ تسلی بخش نصب العین کو اختیار کریں۔ ایک پائیدار اور کامل ریاست وہی ہوتی ہے جو خدا کے نصب العین پر مبنی ہو کیونکہ یہ واحد نصب العین ہے جو کامل بھی ہے اور پائیدار بھی ایسی ریاست کے تعلیمی، اخلاقی، فنی، علمی،صنعتی، تجارتی، مالی، زرعی، اطلاعاتی، قانونی اور فوجی ادارے اس کے بلند نصب العین کے بلند مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور وہ ان کو پورا کرتے ہیں یہاں تک کہ ریاست ہر لحاظ سے اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اپنے حسی صداقت کے بے بنیاد اور غیر عقلی اعتقاد کی وجہ سے مغرب کے حکمائے سیاست خدا کے تصور کو جو فلسفہ سیاست کی بلکہ انسانی اشغال کے تمام فلسفوں کی روح ہے اپنی کتابوں میں راہ پانے نہیں دیتے۔
خودی اور فلسفہ تعلیم
مغرب کے حکمائے تعلیم اس حقیقت پر متفق ہیں کہ تعلیم ایک نشوونما کا عمل ہے جس سے کوئی چیز انسان کے اندر بڑھتی اور پھولتی ہے لیکن افسوس کہ انہوں نے اس حقیقت کے علمی اور عقلی نتائج اور مضمرات پر غور نہیں کیا اور علمی تحقیق اور تجسس سے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ تعلیم سے انسان کے اندر جو چیز نشوونما پاتی ہے وہ کیا ہے۔ اس کے اوصاف و خواص کیا ہیں کون سا ماحول اس کی نشوونما کے لئے مفید ہے اور کون سا مضر۔ اس کی نشوونما کے لئے کون سی چیز غذا کا حکم رکھتی ہے اور کون سی چیزیں حیاتین اور پروتین اور قلزات کا کام دیتی ہیں اور وہ چیز آخر کیوں نشوونما پاتی ہے اور ارتقائے عالم کے ساتھ اس کی نشوونما کا کیا تعلق ہے۔ جس طرح قدرت نے انسان کے بدن کی نشوونما کے لئے انسان سے باہر سورج اور چاند اور مینہ برسانے والے بادل اور ہوا اور پانی اور زمین اور قدرتی کھاد اور انسان کے اندر خوراک کی اشتہا اور کھیتی باڑی کرنے اور غلہ اگانے کی صلاحیتیں پیدا کی ہیں۔ کیا اسی طرح سے قدرت نے اس چیز کی نشوونما کے لئے بھی کوئی اپنا اہتمام کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ تعلیم سے نشوونما پانے والی چیز انسان کا بدن نہیں بلکہ اس کی شخصیت ہے یہی شخصیت انسان کی خودی ہے اور خودی کا مرکزی وصف یہ ہے کہ اس کا مطلوب اور مقصود اور محبوب خدا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی صحیح تعلیمی نشوونما صرف ایک سمت میں ممکن ہے اور وہ خدا کے نصب العین کی سمت ہے اور یہ تعلیمی نشوونما بیک وقت خودی کی نشوونما بھی ہے اور خدا کی محبت کی نشوونما بھی خودی ایک ایسے تعلیمی ماحول میں تربیت پا سکتی ہے جو خدا کی محبت کو ترقی دینے کے لئے سازگار ہو۔ انسان کا جسم غذا کو جذب کر کے تربیت پاتا ہے لیکن انسان کی خودی حسن کو جذب کر کے تربیت پاتی ہے۔ حسن کا مبداء اور منتہا ء خدا ہے۔ خدا کی صفات حسن گویا خودی کی غذا کے اندر حیاتین اور پروتنیات کا حکم رکھتی ہیں۔ اگر کوئی نصب العین ان صفات سے عاری ہو گا ( اور خدا کے سوائے ہر نصب العین ان صفات سے عاری ہوتا ہے) تو وہ خودی کی تربیت نہ کر سکے گا لہٰذا معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کے سوائے اور کسی نصب العین کو شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی تعلیم کی بنیاد نہ بننے دے۔ خودی کی تربیت پر انسان کی تکمیل اور تخلیق اور ارتقائے کائنات کے مقصد کی کامیابی کا دار ومدار ہے۔ لہٰذا خدا نے خودی کی تربیت کے لئے اپنا اہتمام کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف سے خودی کی فطرت میں آرزوئے حسن رکھی ہے جو خدا کی محبت سے اطمینان پاتی ہے اور دوسری طرف سے نبوت کے سلسلہ کو شروع کر کے ایک خاص نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں جو آخری نبی ہیں کمال پر پہنچایا ہے تاکہ ہر انسان ان کی مکمل نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مکمل مثال سے خدا کی محبت کے طور طریقوں کو سیکھ کر اپنی خودی کی تشفی اور تربیت کر سکے۔ خودی کے لئے حسن کا جذب کرنا سچے خدا کی مخلصانہ عبادت کرنے، سچے خدا کی رضا مندی کے لئے نیکی کرنے اور سچے خدا کو جاننے کے لئے علم کی جستجو کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا تعلیم کے یہ تین بڑے ستون ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی تعلیم کی عمارت کو شکستہ کرنے اور خودی کی نشوونما کو نقصان پہنچانے کے بغیر گرایا نہیں جا سکتا۔
مغرب کے حکمائے تعلیم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر قوم یا سوسائٹی کا نصب العین الگ ہوتا ہے اور ہر قوم یا سوسائٹی کا نظام تعلیم بھی جو ان کے نصب العین کے مطابق ہوتا ہے اور اسی کی محبت کی پرورش کے لئے وجود میں آتا ہے جدا ہوتا ہے۔ ہر سوسائٹی کے افراد کی تعلیم کے ذریعہ سے اپنی نئی نسل کو اپنے قومی نصب العین کی محبت اور اس کی تشفی کے لئے اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی قابلیتوں کا وارث بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قوم ایک خاص نصب العین کی پرستار کی حیثیت سے صدیوں تک زندہ رہتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مغرب کے حکماء ابھی تک اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کہ شخصیت انسانی کی مکمل اور آزادانہ نشوونما صرف خدا کے نصب العین کے ماتحت ممکن ہے اور اس کی وجہ پھر ان کا یہی بے بنیاد اور غیر عقلی اعتقاد ہے کہ خدا کا تصور حسی دنیا سے ماوراء ہے لہٰذا دائرہ علم میں لایا نہیں جا سکتا۔
جب کسی قوم کا نصب العین خدا نہ ہو تو اس کے فرد کی خودی قوم کے مشترک غلط اور ناقص نصب العین کی طرف نشوونما پاتی ہے۔ جو حسن نیکی اور صداقت کے اوصاف سے بہرہ ور نہیں ہوتا اور اس کی تعلیمی نشوونما اتنی ہی غلط اور ناقص ہوتی ہے جتنا کہ یہ نصب العین غلط اور ناقص ہوتا ہے وہ بھی ایک طرح کی عبادت کرتا ہے لیکن اپنی عبادت سے حسن کو جذب نہیں کرتا کیونکہ اس کی عبادت ایک ایسے معبود کے لئے ہوتی ہے جس حسن سے عاری ہوتا ہے وہ بھی اخلاقی اعمال میں مشغول ہوتا، لیکن اس کے اخلاقی اعمال صفات حسن کے مطابق نہیں ہوتے۔ وہ بھی علم کی جستجو کرتا ہے، لیکن وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے دریافت کئے ہوئے علمی حقائق اس کے غلط نصب العین سے مطابقت رکھیں گے اسی پر روشنی ڈالیں گے اور اسی کی معرفت میں اضافہ کریں گے۔ لہٰذا وہ کئی سچے علمی حقائق تک یا تو پہنچ ہی نہیں سکتا یا پہنچتا ہے تو ان کو غلط اور بیکار سمجھ کر رد کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس کی تعلیمی نشوونما غلط سمت میں ہوتی ہے اور صرف اس کے غلط اور ناقص نصب العین کی محبت میں اضافہ کرتی ہے۔