خودی اور علم الاقتصاد، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور علم الاقتصاد
علم الاقتصاد انسان کی اس فعلیت کی سائنس ہے جس کے ذریعہ سے وہ دولت کو پیدا کرتا تقسیم کرتا اور صرف کرتا ہے۔ مغرب کے حکمائے اقتصاد نے جن میں کارل مارکس بھی شامل ہے۔ علم الاقتصاد کو اس طرح سے مدون کیا ہے گویا انسان فقط ایک اقتصادی روبٹ یا مشین ہے اور اس کے علاوہ اس کی اور کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی وجہ انسانی خودی کے اسرار سے ان کی ناواقفیت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی اقتصادی فعلیت جس منبع سے صادر ہوتی ہے وہ وہی ہے جس سے اس کی تمام دوسری فعلیتیں صادر ہوتی ہیں۔یعنی خودی کا جذبہ محبت جس کا فطری مقصود سوائے خدا کے اور کچھ نہیں انسان کی اقتصادی فعلیت کی فطری غرض و غایت بھی انسان کی دوسری فعلیتوں کی طرح جسم کے قیام اور بقاء کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی تسکین اور تشفی ہے اور دولت آفرینی، تقسیم دولت اور صرف دولت ایسے اعمال و افعال کی فطری اہمیت فقط یہ ہے کہ وہ اسی بڑے مقصد کی تکمیل کے ذرائع ہیں۔
اقتصادی انسان فقط اقتصادی انسان ہی نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی انسان، روحانی انسان اور سیاسی انسان بھی ہوتا ہے اس کی اقتصادی، اخلاقی، روحانی اور سیاسی فعلیتوں میں سے ہر ایک کے اندر اس کی باقی تمام فعلیتیں گم ہوتی ہیں۔ لہٰذا انسان کو فقط اقتصادی انسان اور حرص کا پتلا اور دولت کا پرستار فرض کر کے اس کا جو مطالعہ کیا جائے گا وہ درست نہیں ہو گا اور اس کی بنا پر جو نتائج مرتب کئے جائیں گے وہ صحیح نہیں ہوں گے۔ بعض وقت انسان کے نصب العین کے بلند ہونے سے اس کے بظاہر اقتصادی افعال کے محرکات اور دواعی کچھ اس طرح سے بدل جاتے ہیں کہ ان کو محض اقتصادی نقطہ نظر سے سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب انسان کی اقتصادی فعلیت خدا کے نصب العین کے ماتحت نہ ہو تو وہ کسی غلط ناقص اور باطل نصب العین کے ماتحت ہوتی ہے۔ اس حالت میں اس کے اندر وہ تمام خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن کو جلب منفعت، استحصال اور مزدور کی حق تلفی وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ مغرب کی بے خدا سوسائٹی کے اقتصادی مشاغل میں یہ تمام خرابیاں پیدا ہوئیں۔ اس صورت حال کے رد عمل کے طور پر ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کارل مارکس نے جو حل پیش کیا۔ اسے سائنٹفک سوشلزم کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ حل مصنوعی، غیر فطری، جبری اور خارجی ہے اور انسان کی فطرت سے مزاحم ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ زود یا بدیر خود بخود ناکام ہو جائے۔ ان خرابیوں کو دور کرنے کا فطری اور کامیاب طریق یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعہ سے سوسائٹی کو باخدا بنایا جائے۔ اور اس طرح سے ان کے نصب العین کو جو ان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے ان کی فطرت کے مطابق کر دیا جائے۔
حسی صداقتوں کا عقیدہ اور مغربی تہذیب کی ناگزیر تباہی
مغربی حکماء کے اس عقیدہ نے کہ صداقت وہی ہے جسے حواس کے ذریعہ سے معلوم کیا جا سکے نہ صرف مغربی علوم کو صحیح اور معیاری علوم کے درجہ سے گرا دیا ہے اور انسان اور کائنات کے ایسے فلسفوں کو جنم دیا ہے۔ تہذیب مغرب کے بعض فریب خوردہ شاید اس بات کو باور نہ کر سکیں۔ اس لئے میں مغرب کے ایک سر بر آوردہ حکیم پروفیسر پٹی رم سوروکن کی کتاب ’’ ہمارے عہد کا بحران‘‘ (The Crisis of our age) سے کچھ حوالے نقل کرتا ہوں جن سے معلوم ہو گا کہ پروفیسر سورو کن اپنی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ مغربی تہذیب ایک ’’ المناک بحران‘‘ میں مبتلا ہے جو عنقریب اس کی ’’ تباہی‘‘ کا موجب ہو گا اور یہ تباہی ’’ دور حاضر کے انسان کے لئے ذلت اور نکبت‘‘ کا پیغام اپنے ساتھ لائے گی۔ وہ لکھتا ہے کہ مغربی تہذیب کے اس بحران کا سبب یہ ہے کہ مغربی تہذیب
’’ اس اعتقاد کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی کہ سچی صداقت اور سچی نیکی دونوں کلیتہً یا بیشتر حسی یا مادی ہیں۔ ہر وہ چیز جو حواس خمسہ کی گرفت سے بالا ہے بطور صداقت کے فرضی ہے یا تو اس کا کوئی وجود ہی نہیں یا اگر کوئی وجود ہے تو چونکہ وہ حواس خمسہ سے معلوم نہیں کیا جا سکتا تھا وہ غیر موجود کے حکم میں ہے۔ چونکہ سچی صداقت اور سچی نیکی کو مادی یا حسی قرار دے لیا گیا تھا ہر وہ چیز جو حواس کے ادراک سے ماوراء تھی خواہ وہ خدا کا تصور تھا یا انسان کا شعور۔ ہر وہ چیز جو غیر حسی اور غیر مادی تھی اور جو روز مرہ کے تجربات سے دیکھی، سنی، چکھی، چھوئی یا سونگھی نہیں جا سکتی تھی۔ ضروری تھا کہ اسے غیر حقیقی، غیر موجود اور بے سود قرار دیا جاتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اس شجرکاری کا پہلا زہر آلود پھل یہ تھا کہ سچی صداقت اور سچی نیکی کے دائرہ کو مہلک حدود تک محدود کر دیا گیا اور جب تہذیب ایک بار اس راستہ میں داخل ہو گئی تو پھر اس کو اسی راستہ پر آگے جانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صداقت اور نیکی کی دنیا ہر روز اور زیادہ حسیت اور مادیت کے تنگ سانچوں میں ڈھلتی گئی۔‘‘
سوروکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ دور حاضر کی حسیت زدہ تہذیب (Sensate Civilization) کو موت کے منہ سے بچانے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جس قدر مکمل ہو وہ اپنے حسیت نواز بنیادی مفروضہ کو بدل کر اس کی جگہ کسی روحانی مفروضہ کو اپنی بنیاد بنائے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس’’ حسیت زدہ تہذیب کے تمام عقیدوں اور اس کی تمام قدروں کا نئے سرے سے گہرا مطالعہ کیا جائے۔ اس کی خارج از وقت کاذب اقدار کو رد کیا جائے اور ان سچی قدروں کو بحال کیا جائے جو اس نے رد کر دی ہیں۔۔۔۔ مذہب اور سائنس کا موجودہ اختلاف حد درجہ تباہ کن ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ اگر سچی صداقت اور سچی نیکی کے معقول اور تسلی بخش نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس دونوں ایک ہی ہے اور ایک ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ قادر مطلق خدا کی صفات کو اس مرئی دنیا کے اندر آشکار کی اجائے تاکہ خدا کے نام کا بول بالا ہو اور انسان کی عظمت پایہ ثبوت کو پہنچے۔‘‘
خودی کی فطرت پر نگاہ رکھنے والے لوگ محترم پروفیسر سوروکن کو پورے اعتماد کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ وہ روحانی عقیدہ جو نہایت معقولیت کے ساتھ مغرب کے حسی اور مادی عقیدہ کی جگہ لے سکتا ہے اور مغربی تہذیب کو موت کے منہ سے بچا سکتا ہے یہ ہے کہ ’’ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے جو بھٹک کر کسی غلط نصب العین کی صورت میں اپنا اظہار کرنے لگتی ہے۔‘‘ یہ بیان علمی زبان میں لا الہ الا اللہ کا ترجمہ ہے۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
لہٰذا مغربی تہذیب یا تو مٹ جائے گی یا پھر اس عقیدہ کو اپنا کر فلسفہ خودی سے جو قرآن حکیم کا بنیادی فلسفہ ہے ہمکنار ہو جائے گی اور اسلامی تہذیب کے نام سے تا قیامت زندہ رہے گی۔
(نظریات و علوم مروجہ کی علمی اور عقلی خامیوں کی مزید تفصیلات کے لئے قارئین میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر ملاحظہ فرمائیں)

٭٭٭