خورشید ندیم
دانشور کالم نگار روزنامہ دنیا
سید احمد شہید کی عظیم الشان تحریک پر کیسے کیسے لوگوں نے قلم اٹھایا، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، غلام رسول مہر، محی الدین، قمراحمد عثمانی، آبادشاہ پوری۔ لیکن عقیدت کا حصار اتنا مضبوط تھا کہ قلم نے انشا پردازی کے جو کمالات دکھائے وہ فضائل و مناقب اور مصائب کے ابواب ہی تک محدود رہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی کا بے پناہ قلم یقیناًاس کی صلاحیت رکھتا تھا کہ وہ عقیدیت کے اس حصار کو توڑ سکے ، لیکن یہ موضوع ان کی علمی ترجیحات میں جگہ ہی نہیں پا سکا۔ انھوں نے ''تجدید واحیائے دین'' میں اس حوالے سے محض چند صفحات لکھے۔ اس کتاب کا موضوع شاید اس سے زیادہ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
یہ معاملہ محض تحریک مجاہدین ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ مذہب کے نام پر اٹھنے والی تحریکوں اور افراد کو عقیدت کی نظر سے دیکھا یا پھر ان کی مذمت کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم میں انسانی کاوشوں کو اس معیار پر پرکھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی جو انسانی تاریخ کے فہم کا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔ کیا وہ لوگ اسی خطے کے نہیں تھے جنھوں نے غلام احمد قادیانی جیسے شخص کو پیغمبر بنا ڈالا اورکیا وہ بھی ہمارے ہی بھائی اور احبا ب نہیں تھے جنھوں نے حمیدالدین فراہی، شبلی اور اقبال جیسے لوگوں کو کافر کہا؟
تاریخ اس کے سوا کیا ہے کہ انسانی اعمال کی داستان ہے۔ اس آخری ہستی کو دنیا سے رخصت ہوئے چودہ سو سال ہو گئے ہیں جو وحی کی زبان سے کلام کرتی تھی۔ اس کے بعد جوکچھ ہے ،اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرما کر گویا مسئلہ حل کر دیا کہ: ''ہم رجال ونحن رجال'' ۔''وہ بھی انسان ہیں اور ہم بھی انسان۔'' ابوحنیفہ جیسے لوگ جب امت میں کم پیدا ہوئے تو اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اس جملے کی عملی شرح کرنے والے بھی ناپید ہو گئے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے بالاکوٹ سے افغانستان تک محض معجزے اور کرامات تلاش کیں اور اس پیمانے پر واقعات کی تعبیر نہیں کی کہ ہم عالم اسباب میں زندہ ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے اور وہ اپنی سنتوں کو کبھی تبدیل نہیں کرتا۔
اس رویے پر ہم کچھ ایسے مصر ہیں کہ آج محض جذبات کے سودا گر بن کر رہ گئے ہیں۔ جذبات کی اس تجارت کا حاصل نوحہ گروں کا ایک قافلہ ہے جس کا اب بھی اصرار ہے کہ جنگ جاری رہے گی۔ تو کیا کابل کے اس حادثے کے بعد بھی تاریخ نویسی کی یہ روایت باقی رہے گی؟ کیا ہر المیہ کا حاصل صرف یہ ہے کہ ہمارے ادب میں ایک آدھ ''اور تلوار ٹوٹ گئی'' کا اضافہ ہو جائے؟ کیا ہم اس پیمانے پر اپنی تاریخ کا جائزہ نہیں لیں گے کہ یہ ایسے انسانوں کا کا م ہے جو اپنی بصیرت سے فیصلے کرتے تھے؟ رہی بات نیت اور اخلاص کی تو اسے ناپنے کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ اس بارے میں تو حسن ظن ہی کو غالب رہنا چاہیے الاً یہ کہ حقائق کسی اورسمت میں راہنمائی کریں۔اب خلو ص نیت کا فیصلہ تو آخرت میں ہونا ہے اور وہ یقیناًاس بات پر منحصر نہیں ہے کہ دنیا میں فتح ہوئی یا شکست۔ جہاں تک عالم اسباب کا تعلق ہے تو کسی واقعہ کا تجزیہ کرتے وقت بہرحال انسانی بصیرت ہی کو زیر بحث آنا چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرتے رہیں اور اگر کہیں ایک لائحۂ عمل ناکام ہو ا ہے تو وہ اگلے مرحلے پردوبارہ اسی پر اصرار نہ کریں۔ اگر ۱۸۳۱ء میں ہم سانحہ بالاکوٹ کا اس انداز سے تحزیہ کرتے تو شاید پھر ۱۸۵۷ء میں مقتل مسلمانوں ہی سے آباد نہ ہوتا۔ اگر ۱۸۵۷ء کے حادثے سے عبرت پکڑتے تو پھر مسلمانوں کی تاریخ میں کسی ناکام مسلح بغاوت کا ذکر نہ ملتا۔ یہ تو بھلا ہو سر سید کا یا پھر دارالعلوم دیو بند اور ندوہ کے بانیوں کاکہ آج جنوبی ایشیا میں ہمارا تشخص قائم ہے یا پھر اقبال اور جناح کا جنھوں نے وقت کے بدلتے تیور دیکھ کر مسلمانوں کو میدان کارزار سے اٹھایا اور سیاست کی وادی میں لاکھڑا کیا۔ گویا عملاً یہ درس دیاکہ جدوجہد اور جہادکا میدان اب بدل چکا ہے۔
آج اس جہاد کی نوعیت ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو گئی ہے۔یہ جنگ اب علم کی وادیوں میں ہو رہی ہے۔ یہ معرکہ اب ٹیکنالوجی کے میدان میں برپا ہے۔ ہم قبائلی معاشرت میں زندہ نہیں ہیں ، اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ معاملہ منظم فوجوں سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ سپر کمپیوٹر کی آمد کے بعد لوگ نیوکلیرٹیکنالوجی کو عہد رفتہ کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ اس تہذیبی ارتقا سے بے نیازی اور محض جذبے کا سہارا، شہادت سے تو ہم کنار کر سکتا ہے فتح سے نہیں۔ اگر مقصود عہد حاضر کے مسلمانوں کی نجات ہے تو اس کا راستہ یہی ہے کہ مقابلے کے اس نئے میدان میں قدم رکھا جائے۔ آج واشنگٹن اور نیویارک کی تباہی یہی ہے کہ ان کی گلیاں ویران ہو جائیں اور ان کی عمارتیں انسانوں سے خالی ہو جائیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب تہذیب و تمدن اورمعیشت کے مراکز وہاں سے مکہ اور مدینہ یا اسلام آباد اور کابل منتقل ہو جائیں۔ پھر لوگ ان خطوں کی زیارت کے لیے عازم سفر ہوں گے۔ پھر یہاں کے باسیوں کی تقلید کی جائے گی۔ پھر یہاں سے فرمان جاری ہو ں گے اور دنیا کی حکومتیں بدل جائیں گی۔ یہ کام صرف علمی اور تہذیبی برتری سے ہو سکتا ہے۔ مسلمان جب تک اس میدان کو اپنی تگ و دو کا مرکز نہیں بنائیں گے، المیہ داستانوں کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ۔
افغانستان میں جو کچھ ہوا اس میں سے کوئی بات غیر متوقع نہیں تھی۔ یہ سب کچھ نوشتۂ دیوار تھا۔ دو ماہ پہلے ہمارے پاس یہ انتخاب تھا کہ ہم کابل کا تخت ہزاروں افراد کو قربان کر کے خالی کرتے ہیں یا اس کے بغیر۔ ہم نے پہلے راستے کا انتخاب کیا۔ کوئی چاہے تو اسے عزیمت کہہ سکتا ہے ، لیکن میں مومن کی اس فراست گم گشتہ کی تلاش میں ہوں جس سے بچنے کا مشورہ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے زمانے کو دیا تھا۔ تاریخ نے ہم پر عنایت کی کہ دین کو اپنی پہلی ترجیح قرار دینے والوں پر ایوان اقتدار کے دروازے کھول دیے ، لیکن ہم نے اس ایوان کے ہر اس باب کو وا کیا جہاں سے کو ئی خطرہ داخل ہو سکتا تھا۔ ہر اس سوراخ کو کھولا جہاں سے کوئی سانپ اور بچھو اندر آ سکتا تھا۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ آج افغانستان پھر ایک جنگل ہے جہاں خوف وہراس کا راج ہے اور درندے دندناتے پھر رہے ہیں ''افغان باقی، کہسار باقی'' کے خالق اقبال کی آواز دور کوہ ساروں سے سنائی دے رہی ہیں:
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
آج لازم ہے کہ طالبان کے عنوان سے ہماری تاریخ میں رقم ہونے والے اس نئے باب کا جائزہ لیا جائے ، لیکن اس کے لیے عقیدت میں ڈوبا ہوا نہیں ، بلکہ حقیقت نگار قلم چاہیے۔ وہ قلم جوکرامات تلاش کرنے کا رسیانہ ہو، عالم اسباب میں جاری اللہ کی سنت کا ادرک رکھنے والا ہو۔ میں تو اس سے بڑھ کر یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ہمیں اپنی پوری تاریخ پر اسی پیمانے سے نظرثانی کرنی چاہیے۔ تحریک مجاہدین، تحریک آزادی، بنگال کی خفیہ جدوجہد اور عصر حاضر میں فلسطین اور کشمیر سمیت، ہر اس المیے کو سمجھنا چاہیے جس سے مسلمانوں کو دکھوں، مصائب اور ایسے صاحبان خیر سے محرومی کے سوا کچھ نہیں ملا جو سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں اس زمین کا نمک تھے۔
دیگر مضامین