خودی اور فلسفہ سیاست ریاست کی تعریف، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ سیاست
ریاست کی تعریف
انسانی افراد جب کسی نصب العین کے ماتحت ایک آزاد جماعت کی صورت میں منظم ہو کر اپنی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں تو ان کے اس عمل کو سیاست کہتے ہیں۔ اور ان کی منظم جماعت کو ریاست کا نام دیتے ہیں۔
بعض وقت ایک جماعت جو کسی خاص نصب العین پر متفق ہو چکی ہو۔ ایسی مشکلات سے دوچار ہو تی ہے کہ وہ ایک ریاست نہیں بن سکتی اور کسی دوسری ریاست کے ماتحت غلامی کی حالت میں رہنے پر مجبور ہوتی ہے لیکن ایسی نظریاتی جماعت ہمیشہ آزاد ہونے اور ایک ریاست کی صورت میں آنے کی کوشش کرتی رہتی ہے اور اگر جماعت کا نصب العین جاندار ہو تو یہ کوشش زود یا بدیر کامیاب ہوتی ہے تاہم جب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہوتی ان کی تنظیم بھی جو ان کے مشترک نصب العین کی وجہ سے کسی نہ کسی درجہ میں ضرور موجود رہتی ہے۔ کامل نہیںہوتی۔ اس قسم کی نظریاتی جماعت بھی ایک بالقوہ ایک ریاست ہی ہوتی ہے کیونکہ اس پر بھی ایک ریاست کے قدرتی قوانین زندگی صادق آتے ہیں۔
سیاست کی بنیاد خدا کی محبت کا فطری جذبہ ہے
انسان کے دوسرے تمام اعمال کی طرح انسان کے سیاسی عمل کا باعث بھی یہی حقیقت ہے کہ انسانی خودی کی اصل خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ ہے اور اس کے سوائے اور کچھ نہیں۔ خدا کی محبت کا یہی فطری جذبہ وہ قوت ہے جو نصب العین کی محبت کی صورت میں منظم انسانی جماعتوں یا ریاستوں کو وجود میں لاتی اور قائم رکھتی ہے اگرچہ انسان کا جذبہ محبت خدا کے لیے ہے اور خدا کی محبت ہی سے مکمل اور مستقل تشفی پا سکتا ہے تاہم جب کوئی فرد انسانی اپنے غلط قسم کے تعلیمی اور اخلاقی ماحول کی وجہ سے خدا کی صفات حسن و کمال کا ذاتی احساس نہ کر سکے تو پھر بھی اس کی محبت کا یہ طاقت ور جذبہ رکتا نہیں بلکہ کسی غلط یا ناقص نصب العین کی راہ سے اپنا اظہار پانے لگتا ہے۔ اس صورت میں وہ اپنے جذبہ محبت کو پوری طرح مطمئن کرنے کے لیے اس نصب العین کی طرف ان تمام صفات و کمال کو منسوب کر دیتا ہے جو دراصل خڈا کی صفا ت ہیں۔ اس طرح سے ایک غلط نصب العین انسان کے دل میں خدا کا قائم مقام بنتا ہے ہر غلط نصب العین کا چاہنے والا ہمیشہ ایک ایسے غلط تعلیمی اور اخلاقی ماحول کی پیداوار ہوتاہے جو اس خاص نصب العین کی محبت کو پیدا کر سکتا ہے۔ اگر حالات سازگار ہوں تو ایک نصب العین کو چاہنے والے افراد کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی اس حد کو پہنچ جاتی ہے جو نصب العین کی فطرت اور خصوصیات نے معین کر رکھی ہو۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے نصب العین کی محبت اپنے تعلیمی اور نفسیاتی ورثہ کے طور پر دیتے ہیں اور ان کی اولاد میں متواتر اضافہ ہوتا رہتا ہے اور دوسری یہ ہے کہ وہ غیروں کو بھی اپنے نصب العین کی خوبی اور عمدگی کا قائل کر کے اپنے ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ان کی ایک بڑی جماعت پیدا ہو جاتی ہے اور اس جماعت کے افراد اپنے مشترک نصب العین کی محبت کی وجہ سے ایک دوسرے کے لے بھی ایک کشش محسوس کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ اتحاد کی یہ خواہش ان کو ایک قائد کے ماتحت اور منظم کردیتی ہے۔ کیونکہ دلوں کا اتحاد تنظیم کے بغیر کوی ٹھوس خارجی اور مرئی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ اس قسم کی ایک منظم جماعت کو ہی ہم ایک ریاست اور مملکت یا سٹیٹ کا نام دیتے ہیں۔
جماعتی نظم کا آغاز
کسی نصب العینی جماعت کا منظم ہونا ا س کی زندگی کا کوئی مرحلہ ایسا نہیںہوتا کہ جو جماعت کے وجود میں آنے کے بعد کسی مناسب وقت پر نمودار نہیںہوتا۔ بلکہ جماعت کی تنظیم جماعت کے ظہور پذیر ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ جماعت اور تنظیم ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی جماعت کی تنظیم اس قدر ناقص ہو کہ اسے تنظیم شمار نہ کیا جائے۔ ایک ہی نصب العین کو چاہنے والے دو افراد کی جماعت میں بھی تنظیم کے بغیر نہیںہوتی۔ کیونکہ دونوں ہی سے ایک دوسرے کو نصب العین کی معرفت اور محبت میں اپنے آپ سے بہتر اور برتر سمجھتا ہے اوراپنا قائد تسلیم کرتا ہے۔ ہر نصب العینی جماعت پیدا ہوتے ہی منظم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد ممکن حد تک ترقی کرتی رہتی ہے اور اس کی تنظیم بھی اس کی توسیع کے ساتھ اس کے افراد کی محبت کی شدت یا قوت کے مطابق ترقی یافتہ اور پیچیدہ ہوتی جاتی ہے تاہم جب تک ایک منظم جماعت کی تنظیم افراد کی پوری زندگی کو ضبط میں لانے کے لیے آزادانہ ہو اور اس کو فی الواقع ضبط میں نہ لائے اس وقت تک وہ ایک ریاست نہیں کہلاتی۔
ریاست کی قوت حیات
خدا یا خدا کے قائم مقام غلط تصور کی محبت مملکت کی قوت حیات یا روح یا زندگی ہے جس کے بغیر وہ مر جاتی ہے۔ اگرایک جاندار کے جسم سے قوت حیات رخصت ہو جائے تو وہ اسی وقت مر جاتا ہے۔ اسی طرح سے اگر کسی مملکت کا نصب العین کسی وقت غائب ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ مملکت اپنے وظائف کے تمام شعبوں کے سمیت اسی وقت ختم ہو جائے ۔ جس ططرح سے خون کا ایک دورہ ایک جاندار کے جسم کے کونے کونے کو قوت بہم پہنچاتا ہے اور اپنے وظائف کو انجام دینے کے لیے زندہ رکھتا ہے۔ اسی طرح سے ریاست کے نصب العین کی محبت ا س کے مختلف محکموں کو زندہ اور فعال رکھتی ہے۔ مملکت کے افراد میں نصب العین کی محبت جس قدر کمزور ہوتی ہے اسی قدر مملکت بھی کمزور ہوتی ہے اور غیر متحد اور غیر منظم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ایک منظم انسانی جماعت کے افراد جس قدر زیادہ اپنے نصب العین سے محبت رکھتے ہوں گے اسی قدر زیادہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی محبت رکھتے ہوں گے اور اسی قدر زیادہ ان کی جماعت زندہ اور صحت مند اور طاقت ور اور متحد اور منظم ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر مملکت اپنے تمام ذرائع تعلیم و تربیت کو جن میں سکول‘ کالج‘یونیورسٹی ‘ پریس‘ پلیٹ فارم‘ مطبوعات‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن شامل ہیں اپنے نصب العین کی محبت کو مخالف تصورات کی مخالفانہ محبت سے بچانے اور ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچانے کے لیے کام میں لاتی ہے۔ ہر ریاست اپنے نصب العین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نصب العین کے مطابق نہ صرف اپنا مخصوص تعلیمی نظام برپا کرتی ہے بلکہ اپنے مخصوص سیاسی قانونی اقتصادی اخلاقی‘ اطلاعاتی‘ تجارتی ‘صنعتی مالیاتی اور فوجی نظامات بھی قائم کرتی ہے۔
ان تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ جو قوت ایک ریاست کو پیدا کرتی ہے اسے متحد اور منظم کرتیہے اور اس کے تمام اعمال و افعال کی نوعیت اور سمت مقرر کرتی ہے۔ اور اسے زندہ اور قائم اور ترقی پذیر رکھتی ہے وہ خدا یا خڈا کے کسی قائم مقام غلط تصور کی محبت ہوتی ہے اور جس قدر اور جب تک یہ محبت طاقت ور ہوتی ہے اسی قدر اور اس وقت تک وہ ریاست بھی ترقی پذیر اور طاقت ور اور متحد اورمنظم ہوتی ہے۔
خودی کا ذوق انجمن آرائی
ایک فرد انسانی کی زندگی اس کی اپنی ذات میں منحصر ہوتی ہے۔ وہ ہر حالت میں دوسرے افراد سے الگ تھلگ اور منفرد زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھتا ہے۔ اس کے جذبات اور محسوسات‘ اس کے فیصلے اور عزائم جو اس کو عمل پر آمادہ کرتے ہیں اس کے اپنے ہی دل میں پیدا ہوتے ہیں اور جب تک وہ اپنے قول یا فعل میں ان کا اظہار نہ کرے اس کے اپنے دل میں رہتے ہیں۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے پوری طرح سے آزاد اور خود مختار ہوتا ہے یاپھر وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کی پوری پوری نگہبانی کرتا ہے اور اگر کوئی اور آدمی ان میں داخکل انداز ہونا چاہے تو پوری قوت سے اس کی مخالفت کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کا سبب کیا ہے کہ وہ ایسے افراد کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنے اور کام کرنے کو تیار ہو جاتاہے اور جو اسی کے نصب العین کو چاہتے ہوں اور جماعت کی عائد کی ہوئی بندشوں اور رکاوٹوں کو قبول کرتا ہے۔ اور اس کے جاری کیے ہوئے قوانین و ضوابط کی پابندی کرتاہے۔ اور اس طرح سے اپنی انفرادیت‘ آزادی اور خود مختاری کو اس جماعت کی انفرادیت کی خاطر قربان کرتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مصلحتاً یا مجبوراً ایسا کرتا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے وہ جماعت سے اعانت اور قوت حاصل کرتا ہے۔ بہت سے ایسے خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ جو تنہا اور الگ تھلگ زندگی بسر کرنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اور اپنے نصب العین کے لیے بہتر اور زیادہ کامیاب جدوجہد کر سکتا ہے۔ لیکن اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا سبب نہ کوئی مصلحت ہے نہ مجبوری نہ کوئی خوف نہ امید  نہ دور بینی نہ مال اندیشی‘ نہ جلب منفعت نہ طلب اعانت نہ تمنائے قوت اور نہ مقصد حفاظت۔ بلکہ اس کا سبب فقط یہ ہے کہ انسانی خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ و دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کے باوجود محفل سازی اور انجمن آرائی کا ذوق رکھتی ہے۔ اور اس ذوق کو مطمئن کرنے سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ محض ضمنی یا اتفاقی ہیں جو خودی کا اولین مقصود نہیں ہوتے چونکہ خودی کی حقیقت فقط خدا کی محبت کا ایک فطری جذبہ ہے۔ اور خودی کی عقل آرائی اس کی فطرت کا ہی ایک تقاضا ہے صاف ظاہر ہے کہ خودی کا ذوق محفل آرائی اسی جذبہ محبت کا ایک پہلو ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدا کی محبت کے فطری جذبہ کا تقاضا نہ صرف یہ ہے کہ خودی اپنی جداگانہ منحصر بخود زندگی کو قائم رکھے بلکہ یہ بھی ہے کہ اس غرض سے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرے۔ یہی وجہ ہے کہ خودی کے ذوق محفل آرائی کے پیچھے نصب  العین کی محبت کاجذبہ کام کر رہا ہوتا ہے اور ا س ذوق کی تحسین سے جو جماعت وجود میں آتی ہے اس کی بنیاد نصب العین کی محبت ہوتی ہے اور وہ ایک نصب العینی جماعت ہوتی ہے۔ جماعتی زندگی کے بغیر خودی اپنے جذبہ محبت کی مکمل تشفی حاصل نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہے۔
زندگی انجمن آرا و نگہدار خود است
اے کہ با قافلہ بے ہمہ شو با ہمہ رو
اپنے جذبہ محبت کی تکمیل اور تشفی چاہنے والے خود شناس لوگوں کا کام یہی ہے کہ وہ بیک وقت دوسروں سے الگ بھی رہتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی۔
برون ز انجمنے درمیان انجمنے
بخلوت اندولے آنچتان کہ باہمہ اند
فرد کی تکمیل کے لیے جماعتی زندگی کی ضرورت
فرد کی ساری تگ و دو کا مقصد بے شک اس کی انفرادیت ہی کی تکمیل ہے ۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ جب تک فرداپنی انفرادیت کو جماعت کی انفرادیت میں گم نہ کر دے۔ اس کی انفرادیت کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی اگر فرد کو جماعت سے الگ کر دیا جائے ۔ تو خود فرد کی حیثیت سے بھی اس کی ہستی ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے کہ ایک لہر اگر دریا میں رہے تو لہر ہے اور دریا سے باہر نکل آئے تو کچھ بھی نہیں ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
جس طرح سے ایک لہر صرف دریا میں ہی دیکھی جا سکتی ہے ایک فرد جماعت میں ہی دیکھا جا سکتا ہے جماعت کے باہر اس کی انفرادیت کا کوئی وجود نہیںہوتا اگرایک پھول کی ضرورت ہو تو اس کو چمن میں سے توڑا نہیں جا سکتا ہے جہاں باقی پھولوں کے ساتھ مل کر اس کی آبیاری اور نشوونما ہوتی ہے۔ فرد کی خودی کی فطرت تنہائی پسند ضرور ہے کیونکہ وہ فقط اپنی ہی آرزوئوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی تنہائی پسند فطرت کے تقاضے فقط جماعت سازی یا انجمن آرائی کے ذریعہ ہی سے پورے ہو سکتے ہیں۔
در جماعت فرد را بینیم ما
از چمن اورا چوگل چینیم ما
فطرتش وارفتہ یکتائی است
حفظ او از انجمن آرائی است
اسی بنا پر اقبال مسلمان کو تنبیہہ کرتا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی جماعت سے الگ نہ رہے بلکہ جماعت کے ساتھ مل کر رہے ورنہ اس میں اس کا اپنا اور جماعت دونوں کا زیاں ہے۔ انحطاط کے اس دور میں مسلمانوں کی جماعت میں اچھے رہنمائوں کی کمی ہی نہیں بلکہ راہ پیمائوں کے ضبط اور نظم کا فقدان بھی ہے۔ ہم زیادہ دیر تک کسی راہ نما کے پیچھے نہیں چل سکتے۔ اور جلد ہی اس معمولی اور قابل گزر فروگزاشتوں یا کوتاہیوں کی بنا پر اس سے بگڑجاتے ہیں اور جماعت کی تنظیم سے الگ ہو جاتے ہیں اور ایک مقابل کی تنظیم قائم کر لیتے ہیں اور اس طرح سے ملت کے انتشار اور ضعف کا سبب بنتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم جماعت میں رہ کر جماعت کے اتفاق اور اتحاد کو قائم رکھیں اور ا س کی تنظیم کو انتشار سے بچائیں تو جماعت اپنے قائد کے ماتحت جو غلطیاں کرے گی۔ اپنی تنظیم اور اس سے پیداہونے والی قوت کی وجہ سے باسانی ان کی تلافی بھی کرے گی۔ اور اپنے اتحاد کی وجہ سے ترقی کے راستہ پر گامزن بھی رہے گی جو مسلمان فرد جماعت سے بددل ہو کر یا اس کی تنظیم یا قیادت سے مایوس ہو کر یا ناخوش ہو کر جماعت سے الگ ہوتا ہے اقبال اسے ایک اایسی ٹہنی سے تشبیہ دیتا ہے جو خزاں کے موسم میں درخت سے ٹوٹ وہ سوکھ جاتی ہے اور پھر تا قیامت موسم بہار کے برستے ہوئے بادلوں سے ہری بھری نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر وہ درخت کے ساتھ رہیں تو جب بہار آئے گی وہ بھی پور ے درخت کے ساتھ ہری بھری ہو جائے گی۔
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار میں
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے مرگ و بار سے
ہے تیرے گلستان میں بھی فصل خزاں کا دور
خالی ہے جیب گل زر کامل عیار سے
جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور
رخصت ہوئے تھے ترے شجر سایہ دار سے
شاخ بریدہ سے سبق آموز ہو کہ تو
نا آشنا ہے قائدہ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
ارشاد نبویؐ کی حکمت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ جماعت کے ساتھ رہنا تم پر لازم ہے۔ جو جماعت سے الگ ہوا جہنم میں ڈالا گیا۔
علیکم بالجماعد من شذ شذ فی النار
اس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جماعت کے نظام ہستی کا دارومدار فرد پر ہے اگر فرد نہ ہو تو جماعت بھی نہیں رہتی لیکن فرد کی ہستی کا دارومدار بھی جماعت پر ہے۔ وہ جماعت کے وجود کا احساس کرنے کی وجہ سے اپنے وجود اور اپنی ممکنات کا احساس کرتا ہے۔ وہ جماعت کے اندر جماعت کے لیے اور جماعت کی وجہ سے زندہ رہتا اور کام کرتا ہے۔ اور جماعت ہی کی وجہ سے اس کے مخفی کمالات آشکار ہوتے ہیں۔ جماعت کا آئین اس کی قوتوں میں اعتدال اور تحریک پیدا کرتا ہے اور جماعت میں داخل ہو کر وہ ایک نہیںرہتا بلکہ جماعت بن جاتا ہے۔ جماعت کی قوت اس کی اپنی قوت ہو جاتی ہے۔ وہ ایک پھول سے چمن اور ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔ لہٰذا جماعت کے اندر رہنا فرد کے لیے باعث رحمت ہے۔ جماعت اس کی مخفی قوتوں اور قابلیتوں کی تربیت کر کے ان کو کمال تک پہنچاتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ میل جول سے فرد پختہ ہوتا ہے۔ اس کی وحدت جماات کی کثرت کے بالمقابل ہی نمایاںہوتی ہے۔ اور جماعت کی کثرت اس کی وحدت کے اندر سمٹ کر وحدت بن جاتی ہے۔ فر د جماعت سے احترام اور وقار حاصل کرتاہے۔ لہٰذاجہاں تک ممکن ہو فرد کو جماعت کے اندر رہنا چاہیے اور اس سے تعاون کرنا چاہیے اور اس کے کاروبار کی رونق کو بڑھانا چاہیے۔
فرد را ربط جماعت رحمت است
جوہر او را کمال از ملت است
پختہ تر از گرمی صحبت شود
تا بمعنی فروہم ملت شود
آئینہ یک دیگر
فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے اخلاقی اور ثقافتی معیار کر پتا دیتا ہے۔ فرد اور جماعت کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیسے ایک ایک موتی کا موتیوں کی لڑی سے یا ایک ایک ستارے کا کہکشاں سے۔ اگر ہر ایک موتی الگ موجود نہ ہو تو موتیوں کی لڑی کہاں سے آئے اور اگر ہر ایک ستارہ اپنا ولگ وجود نہ رکھتا ہو تو کہکشاں کاوجود بھی نہ ہو۔ فرد جب جماعت میں گم ہوتا ہے تو ایک قطرہ سے سمندر بن جاتا ہے۔ جماعت کی وجہ سے اس کے دل میں جدوجہد کرنے اور ترقی کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ جماعت ہی کی ضروریات کی روشنی میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا۔ اسے کیا کرنا چاہیی اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جماعت کی امیدوں اور آرزوئوں میں شریک ہونا ایسا ہے جیسے کہ زمزم کا صحت بخش پانی پینا۔ جو شخص جماعت کی امیدوں اور آرزوئوں سے حصہ نہیںلیتا اور اپنے اندر جدوجہد کرنے اور بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا کوئی جوش و خروش محسوس نہیں کر سکتا۔ اس کے نغموں کی گرمی اس کی بانسری کے اندر ہی سرد پڑ جاتی ہے۔ اس کی قابلیتوں کا پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتا ہے۔ اکیلا فرد اپنی زندگی کے مقاصد سے بے خبر رہتا ہے اور اس کے عمل کی قوتیں منتشر ہو کر ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ قوم ہی ہے جو ایک نظم و ضبط کے ماتحت اور قوم کے مشترک نصب العین کے لیے کام کرنا سکھاتی ہے۔ اور اس کی حرکت عمل کی سمت معین کرکے اس کے لیے ممکن بناتی ہے کہ وہ باد صبا کی طرح ایک منضبط اور دھیمی رفتار سے چل سکے۔ یہ صحیح ہے کہ جماعت میں رہ کر اسے جماعت کے قانون کا پابند ہونا پڑتا ہے اور لیکن چونکہ یہ پابندی اسے ایسے کاموںسے روکتی ہے جو اس کے اپنے کمالات کی آشکارائی کے لیے مضر ہوتے ہیں۔ لہٰذایہ پابندی اس کی اصلی فطرت کو مفید نہیںکرتی بلکہ آزاد کرتی ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے وہ شمشاد کی طرح چمن میں آزاد ہوتا ہے اور پابہ گل بھی ۔
فرد و قوم آئینہ یک دیگر اند
سلک و گوہر کہکشاں و اختر اند
فرد تا اندر جماعت گم شود
قطرہ وسعت طلب قلزم شود
مایہ دار سیرت دیرینہ او
رفتہ و آئندہ را آئینہ او
پیکرش از قوم و ہم جانش ز قوم
ظاہرش از قوم و پہنائش ز قوم
درویش ذوق نمو از ملت است
احتساب کار او از ملت است
ہر کہ آب از زمزم ملت نخورد
شعلہ ہائے نغمہ در عووش فرد
فرد تنہا از مقاصد غافل است
قوتش آشفتگی را مائل است
قوم با ضبط آشنا گرد اندش
نرم رو مثل صبا گرد اندش
پابہ بگل مانند شمشادش کند
دست و پابندد کہ آزادش کند
چوں اسیر حلقہ آئین شود
آہوئے رم خوئے اور مشکین شود
جماعت آفرینی کا جذبہ
انسان کی خودی یک شناس ہے۔ وہ صرف خدا کو چاہتی ہے جو ایک ہے اور جب ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کو پہچانتی اور غلطی سے اس کے کسی قائم مقام تصور کو چاہتی ہے تو وہ بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں دو نصب العینوں یا دو معبودوں کی محبت کے لیے گنجائش نہیں محبت کرنا دل کا کام ہے لیکن جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں پیدا کیے ۔
)ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ(
جب دل ایک ہے تو معبود بھی ایک ہی ہو سکتاہے یک شناس فطرت رکھنے کے باوجود خودی کے جذبہ محبت کا ایک زبردست تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کے چاہنے والوں کی ایک جماعت میں رہے۔ پھر اس کی محبت کا تقاضا صرف یہی ہے کہ جب جماعت موجود ہو تو جماعت میں رہے بلکہ یہ بھی ہے کہ جب جماعت موجود نہ ہو تو وہ اپنے نصب العین کی تبلیغ کر کے دوسروں کو اس کا معتقد بنائے اور اپنے ہم خیال لوگوں کی ایک جماعت پیدا کرے اور پھر متواتر اس کی توسیع اور ترقی کے لیے کوشش کرتا رہے۔ یہاں تک کہ پوری نو ع انسانی اس جماعت میں شامل ہوجائے۔
بخلوت انجمنے آفرین کہ فطرت عشق
یکے شناس و تماشا پسند بسیاری است
یہی وجہ ہے کہ ہر ریاست اپنے اطلاعاتی‘ مطبوعاتی اور نشریاتی مشروعات کے ذریعہ سے دنیا بھر کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے نظریہ حیات کے چاہنے والوں یا ہمدردوں میں شامل کرن کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ انبیا علیہ السلام اور ان کے امتیوں کی تبلیغ دین اور جماعت کے آفرینی کے پیچھے خودی کے جذبہ محبت کایہی پہلو کام کرتاہے۔ اگرچہ خدا کی وحی کی ہدایت سے اسے مزید تقویت اور توانائی بھی حاصل ہوتی ہے بلکہ غلط تحریکوں کے غلط روبانیوں اور ان کے پیروکاروں کی گمراہ کن تبلیغ اور تلقین کے عقب میں بھی خودی کے جذبہ محبت کی یہی خصوصیت یعنی تماشائے بسیاری کی الفت کار فرما ہوتی ہے۔ اگرچہ اس صورت میں وہ بھٹکی ہوئی ہوتی ہے اور اپنے اصلی مقصود یا مدعا کو نہیں جانتی۔
حکمائے مغرب کی غلطی
اقبال کا یہ خیا ل کہ ریاست کا منبع خدا کی محبت کا جذبہ ہے اور جو خودی کی پوری فطرت سے ۔ روسو ہابیز اور لا ک ایسے فلسفیوں کے اس نظریہ کی تردید کرتا ہے کہ ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے انسان کی کوئی قدرتی حالت ایسی تھی کہ جب انسانی افراد جماعتی زندگی سے محروم تھے۔ جب کوئی قاعدہ یا قانون رائج نہیں تھا۔ اور جب ہر شخص جو چاہتا تھا کرتا تھا اور پھر خود سری‘ بے قانونی اور پیکار باہمی کی اس زندگی سے تنگ آ کر انہوںنے ایک شخص سے مصنوعی وعدہ کر لیا کہ وہ ا س کی رعایا ہوں گے اور ان کا حکمران وہ ہو گا اور وہ اس شرط پر اس کا حکم مانیں گے کہ وہ ان کے جان و مال کی حفاظت کرے گا اور ان کو امن دے گا۔

حقیقت حال یہ ہے کہ انسانوں پر کوئی وقت ایسا نہیں آتا کہ جب وہ جماعتی تنظیم سے کلیتہً عاری تھے اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ منتشر افراد کی صورت میں زندگی بسر کرتھے تھے۔ کسی نہ کسی درجہ کی جماعتی تنظیم شروع ہی سے انسانی افراد میں موجود تھی اور اگریہ کہنا درست ہے کہ ریاست کی اصل جماعتی تنظیم ہی ہے تویہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ ریاست کا وجود اس وقت کے حضر ت انسان کے ساتھ ہے جب وہ خود شعور اورخود شناس ہو کر خدا کی محبت کے جذبہ سے بہرہ ور ہوتا ہے اور مقام انسانیت سے نوازا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انسا ن کی جماعتی تنظیم یا ریاست ایک ابتدائی حالت سے ارتقا کر کے دور حاضر کی عظیم اور انتہائی طور پر منظم ریاستوں کی شکل میں اپنی موجودہ ترقی یافتہ حالت کو پہنچتی ہے۔