اقبال اور اشتراکیت


اقبال اور اشتراکیت
اقبال اور اشتراکيت


جسے جدید مغربی تہذیب و تمدن کہتے ہیں اس کا ارتقاء ازمنہ متوسط کے اختتام پر نشاۃ جدید سے ہوا اس کے بعد سے رفتہ رفتہ مختلف اقسام کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہی معاشی زندگی میں تاجروں نے جاگیرداری کی قوت کو توڑا اور پروٹسٹٹنزم نے مذہبی فکر میں آزادی کو ترقی دی۔ اٹھارویں صدی میں جسے انلائٹن منٹ یا دور تنویر کہتے ہیں مذہب فلسفہ سیاست اور معیشت کے اہم مسائل آزادانہ طورپر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گروٹیس والٹیر‘ روسو‘ ہیوم‘ اور کانٹ کی ان کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ انسان کے بنیادی حقوق کسی قدر وضاحٹ سے معین ہو گئے۔ پہلے امریکہ میں اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد انقلاب فرانس میں عوام نے جابر حکومتوں بے رحم سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے خلاف دستور حکومت اور عدالت کے بارے میں بہت کچھ مساوات حاصل کر لی۔ اسی زمانے میں طبیعی علوم نے غیر معمولی ترقی کی اور صنعت پر ان کے اطلاق نے وسیع کارخانہ داری کو جنم دیا۔ اقوام مغربی میں خاص و عام کے دلوں میںیہ قوی امید پیدا ہو گئی کہ اب شاہی مطلق العنانی نہ رہے گی ہر جگہ دستوری حکومت ہو گی۔ تجارت اور صنعت پر سے رکاوٹیں ہٹ جائیں گی۔ مملکت کو کلیسا سے بے تعلق کرنے کی وجہ سے مذہبی استبداد ختم ہو جائے گا۔ اس ترقی کے دستور کچھ عرصے تک جار ی رہنے کی بدولت امن قائم ہو جائے گا اور زندگی کی نعمتیں وافر اور عام ہو کر غریبوں کے کلبہ احزاان کو بھی جنت ارضی میں بدل دیں گی۔ لیکن یہ سہانا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ جاگیرداروں کے بعد تاجروں کا دور دورہ آیا اور تاجروں کے بعد قومی دولت کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے لگی۔ وہ کاشتکار جنہوںنے جاگیرداروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے پنجہ آہنیں سے نجات پائی تھی وہ زمینوں کو چھوڑ کر کارخانوں میں مزدور بن کر روز افزوں تعداد میں بھرتی ہوتے گئے۔ ایک قسم کی غلامی کے مقابلے میں بد تر اور انسانیت کش ثابت ہوئی۔ صنعتی انقلاب کی ابتدا انگلستان میں ہوئی۔ کارخانہ داروں کی بے دردی اور ظالمانہ زر اندوزی نے مزدوروں کے ساتھ جو برتائو کیا اس کو پڑھ کر بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں سے سوا سولہ گھنٹے تک مسلسل کام لیا جاتا تھا۔ ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔ دھڑا دھڑ بیمار ہوتے اور بے تلاج مرتے تھے۔ کارخانہ داروں کو اس کی کچھ پروا نہ تھی۔ بیماروں کو مالکان کارخانہ برخاست کر دیتے تھے۔ اور مرنے والوں کی جگہ لینے والے اور ہزاروں مل جاتے تھے انگلستان کے بعد فرانس اور جرمنی یورپ کے دیگر ممالک میں بھی جدید صنعتوں کی کارخانہ داری آتی گئی اور وہاں بھی وہی صورت حال پیدا ہوئی جو انگلستان میں خلق خدا کے لیے تباہی کا باعث ہوئی تھی۔ انسان دوست مصلحین نے اس کے خلاف شور سے احتجاج بلند کیا لیکن نقار خانوں میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی جابجا سوشلزم اور کہیں کمیونزم کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ لیکن تمام ممالک کی حکومتیں ان میں حصہ لینے والوں کو مسفد اور باغی قرار دے کر ان کی سرکوبی میں کوشاں رہیں۔ پیرس میں اشتراکیوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اور لیکن بہت جلد سے فنا کر دیا گیا۔ ایک المانوی یہودی کارل مارکس نے انگلستان میں سکونت اختیار کر کے کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف ایک مبسوط تحقیقی تصنیف مرتب کی جس کا نام ہی ڈاس کاپیٹل یعنی سرمایہ ہے۔ اس کتاب کو اشتراکیت کا صحیفہ گردانا جاتاہے۔ اس کتاب کے مضمون کا لب لبا بیہ ہے کہ کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری چوری اور ڈاکے کی قسمیں ہیں۔ ان کامدار مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسنے پر ہے۔ جدید صنعتی سرمایہ داری میں رفتہ رفتہ یہ ہو گا کہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکزہو جائے گا اور باقی تمام خلق خدا پر پرولیتار یہ بن جائے گی جو مطلقاً بے گھر اور بے زر ہو گی۔ مزدوروں کا گروہ ان کا محتاج اور بے بس ہو گا۔ جو غلامی اور جاگیرداری کے زمانے میں بھی نہ تھا۔ کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا اجتماع ہو گا جو محتاجی اور بے بسی کے اسفل السافلین میں پہنچ کر متحد ہو کر آمادہ بغاوت ہوں گے۔ شروع میں حکومتیں جو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوں گی ان کی سرکوبی کریں گی لیکن یہ سیلات آخر کناروں کو توڑ ڈالے گا۔
مغرب میں حکما اور مصلحین کی کوششوں سے جو جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں ان پر بھی عوام کو دھوکا دے کر سرمایہ دار قابض ہو گئے پہلی حکومتوں میں اقتدار سلاطین اور جاگیر داروں کے ہاتھ میں تھا اب سرمایہ دار حکومتوں میں امیر وزیر و مشیر ہو گئے اور کوئی قانون ایسا وضع نہ ہو سکتا تھا جس سے ان کی نفع اندوزی پر زد پڑتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ آواز بلند ہوئی کہ کوئی انقلاب تشدد کے بغیر پیدا نہ ہو سکے گا۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہو کر بغاوت کرنی چاہیے تاکہ وہ تمام جانداروں اور کارخانوں پر قابض ہو جائیں۔
اشتراکیت آغاز میں ایک اقتصادی یا معاشری نظریے اور حصول حقوق کے لیے ایک لائحہ عمل تھا لیکن کارل مارکس اس کے رفیق کار انکل ارو بعض دیگر اہل فکر نے اس کی تعمیر مضبوط کرنے کے لیے حیات و کائنات کی ایک ہمہ گیر نظریاتی اساس قائم کر دی جس نے اشتراکیوں کے نزدیک پہلے تمام ادیان اور ان کے فلسفوں کو منسوخ کر کے ان کی جگہ لی اس نظریہ حیات نے دین اور اخلاق کے متعلق یہ عقیدہ پیش کیا کہ تمام پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کا قیام طبقاتی نفوق کا رہین منت تھا اور اپنی تعلیم کا زیادہ تر مصڑف یہ تھا کہ استحصال بالجبر پر الٰہیاتی مہر لگا کر محتاجوں کو اس پر راضی کر ے کہ وہ خوشی سے اس کو قبو ل کر لیں منعمون سے کچھ رشک و حد نہ برتیں کیوں کہ یہ دنیا نچد روز اور اس کی نعمتیں ناپائدار ہیں۔ آخر ت میں ابدی جنت ااور ا س کی مسرتیں سب ان محتاجوں کے لیے وقف ہیں جنہیں ہم اس دنیائے دوں میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اخلاق میں صبر و قناعت‘ توکل اور تسلیم و رضا کو اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار قرار دے کر سلاطین اور امرا کے لیے حفاظت کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ اشتراکیت نے تاریخ عالم پر نظر ڈال کر اس کا ثبوت پیش کیا کہ مذہبی پیشوا ئوں نے معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں کی بعض قدیم اور جدید مذاہب فلسفہ بھی عوام کو انسانی اور مساواتی حقوق عطار کرنے کے خلاف تھے۔ جمہوریہ افلاطون میں عوام کو امو ر سلطنت میں حصہ لینے کی اجازت نہیںمشرق میں بھی حکمت عملی کا یہی تقاضا بن گیا ھتا کہ رموز مملکت خویش خسروان دانند مگر یہ رموز غریب کشی کے سوا کچھ نہ تھے۔
اشتراکیت کے سر اٹھانے سے قبل ہی مغرب کے سائنسدانوں اور اہل فکر کے نزدیک مذہبی عقائد کے بہت کچھ دفتر پارینہ بن چکے تھے۔ اور عملاً بھی زندگی پر مادیت طاری ہو رہی تھی۔ اشتراکیت انہی میلانات کی پیداوار ہے۔ اشتراکیت نے الحاد واو رمادیت کو یکجا کر دیا اورعوام کی حقوق طلبی میں اور شدت پیدا کر دی۔ اشتراکیت نے پہلی روحانیت قدیم اخلاقیت قدیم معاشرت قدیم سیاست‘ قدیم معاشیات  سب کے خلاف بیک وقت بغاوت کا علم بلندکیا۔ اس نے کہا کہ تدریجی اصلاحات کی تلقین بھی سرمایہ داروں کی ایک چال ہے۔ ایک ہمہ گیر انقلاب کے سوا چارہ نہیں جو حیات اجتماعی کے تمام قدیم ڈھانچوں کا قلع قمع کر دے۔
علامہ اقبال جب تک یورپ میں تھے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے گروہ جابجا مصرو ف کار تھے لیکن ان کو کہیں اقتدا رحاصل نہ تھا۔ اشتراکیوں کو پہلی زبردست کامیابی روس میں ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کا اندرونی معاشی اور سیاسی شیرازہ بکھر گیا تو کمیونسٹوں کے ایک گروہ نے لینن کی قیادت میں حکومت پر قبضہ کر کے اپنے پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا۔ یورپ کی سرمایہ دارانہ حکومتوں نے ان کو کچلنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کوکامیابی نہ ہوئی۔ روس کا علاقہ کرہ ارض کا پانچواں حصہ ہے۔ اس وسیع خطے میں جہاں نہ انسانوں کی تعداد قلیل ہے اورنہ فطرت کے مادی ذرائع کی کمی ہے زندگی کے تمام شعبوں میں نئے تجربے ہونے لگے۔ کوئی ادارہ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا۔ دنیا کے ہر سیاستدان اور ہر مفکر کو اس نئے تجربے کا جائزہ لینا پڑا اور تمام دنیا میں ہر سوچنے والا اس پر مجبور ہوگیا کہ وہ اس انقلابی نظریہ حیات اور انداز معیشت کے متعلق موافق یا مخالف خیالات کا اظہار کرے۔ شخصی ملکیت کے طرفداروں اور مذہب کے حامیوں نے اس کو خطرہ عظیم  سمجھا کیوں کہ اس کی کامیابی سے ان کا صفایا ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔
اقبال نے مذہب و تہذیب کے تمام مسائل کو اپنا موضوع سخن بنایا تو یہ لازم تھا کہ اشتراکیت کے فطری اور عملی پہلوئوں پر غور کر کے اپنے نتائج فکری سے ملت کوآگاہ کرے۔ سب سے پہلے پیام مشرق میں اس نے رائے زنی شروع کی۔ ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ اقبال طبعاً انقلاب پسند تھا اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس انقلاب عظیم کو اچھی طرح پرکھنے اور اس کے تعمیری اور تخریبی پہلواور اس کے ایجابی و سلبی حیثیتوں کا موازنہ اور مقابلہ کرے۔
پیام مشرق میں اس موضوع کی تین نظمیں ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان ہے ’’محاورہ بین حکیم فرانسی آگسٹس کومٹ و مرد مزدور‘‘ (فرانسیسی زبان میں اس فلسفی کا تلفظ کونت ہے۔ اقبال نے انگریزی تلفظ کے مطابق اس کو کومٹ لکھا ہے )۔
کونت ‘ جون اسٹیورٹ ‘ ہربرٹ سپنسر اور ڈارون وغیرہ کا معاصر ہے۔ اس کے فلسفے کو پورزیٹوزم یا ایجایبت کہتے ہیں۔ اس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تفکرمذہب اور مابعد الطبیعیات سے گزر کر محسوس کی طرف آ گیا ہے اوری اس کی ترقی کی آخری منزل ہے۔ انسان کو مذہب کی ضرورت ہے اس لیے ان دیوتائوں اور ایک خدا اور آخرت کو چھوڑ کر انسانیت کو دین بنا دینا چاہیے۔ دنیا میں جو عظیم الشان انسان گزرے ہیں ان کی پرستش کے دن مقرر کر لینے چاہیئں۔ چنانچہ اس نے ایک کیلنڈر(جنتری) بھی بنایا تھا جس میں سال کا ہر دن کسی بڑے انسان کی یاد کا دن تھا۔ تمام نوع انسان کو ایک نفس واحد اور مختلف اعضا کا ایک جسم تصور کرنا چاہیے۔ جس طرح جسم انسانی میں ہر عضو کا ایک مخصوص وظیفہ ہے۔ اسی طرح معیشت کے کاروبار میں بھی فطری تقسیم کا ر ہے۔ بعض لو گ کارندے ہیں اور بعض کارفرما کوئی دماغ سے کام لیتا ہے اور کوئی ہاتھ پائوں ہلا کر محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ تعلیم تہذیب و تمدن کے معاصرانہ ڈھانچے کو درست قرار دیتی ہے لیکن اقبال کے نزدیک یہ محنت کشوں کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ کونت فلسفی سعدی کا ہم زباں ہوکر کہتا ہے:
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
ہماں نخل را شاخ و برگ و براند
مگر کونت کے نزدیک یہ نوع انسان کسی غیر مرئی خدا کی آفرینش نہیں ہے۔ بلکہ اپنی فطرت کی پیداوار ہے جوہمارے گرد و پیش موجود ہے۔ فطرت نے تقسیم کار میں دماغ کو سوچنے کے لیے اور پائوں کو چلنے کے لیے بنایا ہے۔ انسانوں میں جو تفاوت ہے وہ بھی فطری ہے۔ یہ تفاوت حسد اور کش مکش کا باعث نہیں ہونا چاہیے!
دماغ ار خرد زاست از فطرت است
اگر پا زمیں ساست از فطرت استر
یکے کار فرما یکے کار ساز
نیاید ز محمود کار ایاز
نہ بینی کہ از قسمت کار زیست
سراپا چمن می شود خار زیست
اس کے جواب میں مزدور کہتا ہے کہ حضرت کیوں حکمت کے پردے میں ہمیں دھوکا دے رہے ہو کہ یہ تفاوت فطری ہے اس لیے اس کو برقرار رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے کارفرنا ارو سرمایہ اندوز انسانیت کا کوئی صحت مند عضو نہیں یہ تو چور ہیں۔ آپ کی عق پر افسوس ہے کہ آپ نے چوروں کی حمایت کو حکمت کا لباس پہنایا ہے۔ (یہ خیال اقبال کو فرانس کے مشہور سوشلسٹ پرودھون نے سمجھایا جس کا مقولہ مشہور ہے کہ شخصی ملکیت چوری ہے)۔
فریبی بحکمت مرا اے حکیم
کہ نتواں شکست ایں طلسم قدیم
مس خام را از زر اندودہ
مرا خوے تسلیم فرمودہ
کوہ کن کو یہ تلقین کرنا کہ پہاڑ کاٹ کر پرویز اور اس کی محبوبہ کے لیے جوئے شیر لائو اور اسے اپنا طری وظیفہ حیات سمجھو یہ  کہاں کی حکمت اور عدالت ہے ؟ مزدور حکیم کونت سے شاکی ہے کہ:
کند بحر را آبنایم اسیر
زخارا برد تیشہ ام جوئے شیر
حق کوہ کن دادی اے نکتہ سنج
بہ پرویز پرکار و نابردہ رنج
یہ سرمایہ دار جنہیں مفت خوری اور خواب خوش کے سوا کوئی کام نہیں یہ تو زمین کا بوجھ ہیں اور چور ہیں:
بدوش زمیں بار سرمایہ دار
ندارد گزشت از خور و خواب کار
جہاں راست بہروزی از دست مزد
ندانی کہ ایں ہیچ کار است دزد
مرد حکیم ہونے کے باوجود تم نے ایسا دھوکا کھایا ہے کہ ایسے مجرموں کے لیے عذر تراش رہے ہو:
پے جرم او پوزش آوردہ
بایں عقل و دانش فسوں خوردہ
پیام مشرق میں ہی کونت اور مزدور کے مکالمے کے چند صفحات بع دموسس اشتراکیت روسیہ موسیو لینن اور المانوی ملوکیت کے آخری نمائندے قیصر ولیم نے سیاست و معیشت کے اس انقلاب کے بارے میں اپنا اپنا زاویہ نگاہ پیش کیا ہے لینن کہتا ہے کہ عرصہ دراز سے انسان بھاری چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ ایک طرف انسانیت کا خون چوسنے والی اور اس کو غلام بنانے والی ملوکیت ہے اوردوسری طرف کلیسا اور حامیان دین کا استبداد۔ خواجہ کی قبا محنت کشوں کے خون میں رنگی ہوئی ہے۔ بھوکے غلاموںنے آخر تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کر کے اس قبال کو چاک کرکے سرمایہ داروں کو ننگا کر دیا ہے۔ عوام و جمہور کی بھڑکائی ہوئی آگ نے ردائے پیر کلیسا اورقبائے سلطانی کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ قیصر ولیم اس کے جواب میں کہتا ہے کہ غلامی تو سلطانی اور سرمایہ داری کی پیداوار نہیں یہ تو ایک نفسی چیز ہے عوام میں اکثر کی فطرت ہی غلامانہ ہوتی ہے جو مالکوں اور معبودوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس طرح بعض ظالم اقتدار پسند لوگ غلاموں کی جستجو میں ہوتے ہیں اسی طرح بعض بندگی کیش فطری غلام انسانوں میں یا دیوتائوں میں معبودوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ ایسے دوں فطرت لوگ پرانے دیوتائوں سے بے نیاز ہوتے ہیں تو نئے دیوتا تراش لیتے ہیں۔ تم کہتے ہو کہ اب اقتدار اور سلطانی جمہور کے قبضے میں آ گئی ہے۔ دیکھنا یہی لوگ ایک جدید انداز کا ظلم و استبداد پیدا کریں گے۔ اور انسانیت پھر سوخت ہو جائے گی۔ جب تک بعض انسانوں کے سینوںمیں ہوس اور جذبہ اقتدار موجود ہے کوئی انقلاب خواجہ و غلام کے تفاوت کو نہیں مٹا سکتا۔ اگر بادشاہی نہ رہی تو مزدوروں میں سے اپنی نوع پر ظلم و جبر کرنے والے نمودار ہو جائیں گے۔ اسی سے ملتی جگی بات نپولین نے کہی تھی کہ انقلاب فرانس کے نتیجے کے طور پر جاگیرداروں کا تو خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کی جگہ تاجر اور سرمایہ دار بورژوا لے لیں گے۔ یہ بات وہیں کی وہیں رہے گی۔
موسیو لینن
بے گذشت کہ آدم دریں سرائے کہن
مثال دانہ تہ سنگ آسیا بود است
فریب زاری و افسوں قیصری خورد است
اسیر حلقہ دام کلیسا بود است
غلام گرسنہ دیدی کہ بردرید آخر
قمیص خواجہ کہ رنگین ز خون ما بود است
شرار آتش جمہور کہنہ سامان سوخت
ردائے پیر کلیسا قبائے سلطاں سوخت
قیصر ولیم
گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست
طواف اندر سرشت برہمن ہست
دما دم نو خداوندان تراشد
کہ یزار از خدایان کہن ہست
زجور رہرتاں کم گو کہ رہرو
متاع خویش را خود راہزن ہست
اگر تاج کئی جمہور پوشد
ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست
ہوس اندر دل آدم نہ میرد
ہماں آتش میان مرزغن ہست
عروس اقتدار سحر فن را
ہماںپیچاک زلف پر شکن ہست
نماند ناز شیریں بے خریدار
اگر خسرو نباشد کوہکن ہست
پیام مشرق کے آخر میں دو اور نظمیں اسی موضوع کی ہیں جن کے اندر سرمایہ دار کے ظلم و مکر اور امروز کی بے بسی کا نقشہ کھینچا ہے۔ قسمت نامہ سرمایہ دار مزدور پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں وہ اسے فارسی کے اس شعر نے سمجھائے ہیں:
از صحن خانہ بہ لب بام ازان من
جوز بام تا بہ اوج ثریا ازان تو
دو بھائیوں کے مرحوم باپ کی جائداد کا ترکہ فقط ان کا رہائشی مکان تھا۔ اس کو دو مساوی حصوں میںتقسیم کرنا تھا۔ ایک بھائی مکار اور چالاک تھا اور دوسرا صلح پسند۔ مکار نے کہا کہ میں تو قانع آدمی ہوں اور سنگ و خشت کی ہوس نہیںرکھتا۔ صحن خانہ سے لے کر کوٹھے کی چھت تک مکان کا جو حصہ ہے وہ مجھے دے دو اور مکان سے اوپر لب بام سے اوج ثریا تک جو لامتناہی فضا ہے وہ میں کمال ایثار سے برضا و رغبت تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ سب مال و دولت اور اسباب زندگی خود لپیٹ لیے ہیں۔ مگر مزدور کویہ دھوکا دیتا ہے کہ جو کچھ تمہارے لیے چھوڑا ہے و ہ  اس متاع ناپائدار سے افضل ہے۔ کارخانوں کا غوغا اور ان کے انتظامات اورفکر نفع و نقصان کی دوسری میرے لیے رہنے دو۔ اس کے مقابلے میں تسکین دین اورارغنون کلیسا کا روح پرور نغمہ لطف اندوزی کیلیے تم لے لو۔ جن باغوں پر سلطنت نے ٹیکس لگا رکھا ہے ا کی ملکیت ایک مصیبت ہے۔ اس بلا کو میرے لیے چھوڑ دو اور آخرت کے باغ بہشت پر کوئی محصول نہیں وہ غریبوں کی عطیاتی جاگیر ہے۔ اسے میں تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ بقول سعدی درویش ہی کو حقیقی فراغ حاصل ہے:
کس نیابد بخانہ درویش
کہ خراج زمین و باغ بدہ
یا بہ تشویش و غصہ راضی شو
یا جگر بند پیش زاغ بنہ
دنیا کی شرابین خمار آور ہوتی ہیںَ جنت میںآدم و حوا کو جو شراب طہور ملتی تھی اس کی لذت اور سرور کے کیا کہنے؟ دنیا کی یہ خمار والی شراب میرے لیے رہنے دو اور تم اس سے بہتر شراب کے لیی تھوڑا انتظار کر لو۔ صبر تلخ معلوم ہو تو سمجھ لو ک ہاس کا پھل میٹھا ہوتاہے۔ مرغابیاں اور تیتر بٹیر مجھے کھانے دو اور تم ان پرندوں کی تاک میں لگے رہو جو اس دنیا میں نظر نہیں آتے۔ یہاں ایک شاعری کے ساقی نامے کی مطلع یاد آ گیا ہے:
امروز ساقیا مجھے عنقا شراب دے
شاہانہ ہے مزاج ہما کے کباب دے
یہ دنیاے دوں میرے لیے چھوڑ دو باقی عرش معلیٰ تک جو کچھ ہے وہ تمہارا مال ہے۔ اس ساری تنظیم کا مضمون ائمہ اشتراکیت کا یہ مقولہ ہے کہ مذہب محتاجوں کے لیے افیون ہے اور مسجد مندر اور کلیسا میں اسی افیون کے ڈھیر لگے ہیں:
قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور
غوغائے کار خانہ آہنگری زمن
گلبانگ ارغنون کلیسا ازان تو
نخلے کہ شہ خراج برومی نہد زمن
باغ بہشت و سدرہ و طوطا ازان تو
تلخابہ کہ درد سر آرد ازان من
صہبائے پاک آدم و حوا ازان تو
مرغانی و تدرو و کبوتر ازان من
ظل ہما و شہپر عنقا ازان تو
ایں خاک و آنچہ در شکم و ازان من
وز خاک تا بہ عرش معلا ازان تو
اسی کے ساتھ ایک دوری نظم نوائے مزدور ہے جو دنیا کے محنت کشوں کے لیے پیام انتقام ہے۔ کھدر پوش مزدور کہتا ہے کہ ہماری محنت کے سرمایے سے ناکردہ کار سرمایہ دار ریشمیں قبا پہنتے ہیں۔ ان کے لعل و گہر ہمارے خون کے قطرے اور ہمارے بچوں کے آنسو ہیں۔ کلیسا بھی ایک جونک ہے جو ہمارا خون چوس کر موٹی ہو رہی ہے۔ سلطنتیں ہمارے قوت بازو سے مضبوط ہوتی ہیںَ لیکن ان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں۔ یہ تمام باغ و بہار ہمارے گریہ سحر اور خون جگر کی پیداوار ہے۔ آئو ان تمام اداروں کے ساغروں میں ایک شیشہ گداز شراب انڈیل دیں آئو اس چمن حیا ت میں ہمارے خون جگر سے لالہ و گل پیدا کرنے والوں سے انتقام لیںَبے درد شمعوں کے طواف میں اپنے آ پ کو پروانہ وار سوخت کرنا ختم کر دیں اور اپنی خودی سے آگاہ ہو کر خودداری اور آزادی کی زندگی بسر کریں۔
ز مزد بندہ کرپاس پوش و محنت کش
نصیب خواجہ نا کردہ کار رخت حریر
ز خوئے فشانی من لعل خاتم والی
ز اشک کودک من گوہر ستام امیر
ز خون من چو زاد فربہی کلیسا را
بزور بازوئے من دست سلطنت ہمہ گیر
خرابہ رشک گلستان ز گریہ سحرم
شباب لالہ و گل از طراوت جگرم
بیا کہ تازہ نوا می تراود از رگ ساز
مے کہ شیشہ گدازد بہ ساغر اندازیم
مغان و دیر مغاں را نظام تازہ دہیم
بناے میکدہ ہائے کہن بر اندازیم
ز رہرتاں چمن انتقام لالہ کشیم
بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم
بطوف شمع چو پروانہ زیستن تا کے


ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تا کے
اقبال کی ایک رباعی کا مضمون بھی اسی مقطع کے مضمون سے مماثل ہے۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے استحصال ناجائز میں وقف کر دینا تضیع حیات ہے:
گل گفت کہ عیش نو بہارے خوشتر
یک صبح چمن ز روزگارے خوشتر
زاں پیش کہ کس ترا بہ دستار زند
مردن بکنار شاخسارے خوشتر
اشتراکیت کی تعلیم کا ایک بڑا اہم جزومسئلہ ملکیت زمین ہے۔ اس بارے میں ہر قسم کے سوشلسٹ بھی کمیونسٹوں کے ہم خیال ہیں کہ سرمایہ داری اور محنت کشوںسے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی یہ بدترین صورت ہے جس کے جواب کا از روئے انصاف کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ اقبال جیسے مسلم سوشلسٹ کہنا چاہیے کہ ہر قسم کی سوشلزم اور کمیونزم سے اس مسئلے پر اتفاق رائے رکھتا ہیکہ زمین خا کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ہوا اور پانی ک سی ہے جس پر کسی کی کوئی شخصی ملکیت نہیں۔ یہ درست ہے کہ زمین انسان کی محنت کے بغیر زیادہ رزق پیدا نہیں کرتی مگر از روئے انصاف محض افزائش سے فائدہ اسی کو حاصل ہے جس نے ہل جوتا آبیاری کی اور فصل کی نگہداشت کی۔ زمین کا غیر حاضر مالک اس کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ پھر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے کس کے حق سے اس میں سے ایک کثیر حصے کا طالب ہوتا ہے۔ ملکیت زمین کے بارے میںاسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ کم و بیش اختلاف رہا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اس بارے میں کچھ اشارے کرتی ہے۔ جن کی تعبیر اپنے اپنے افکار و اغراض کے مطابق مسلمان مفسرین اور مفکرین مختلف کرتے ہیں۔ اس بارے میں اکثر احادیث کو لیی لیتا ہے جو اس کے مخالف معلوم ہوتی ہیں۔ ان کو یا ضعیف الاسناد بتاتا ہے یا ان کی تاویل کرتا ہے۔ زمین کے متعلق قرآن کریم میں جو اشارے ہیں وہ اس قسم کے ہیں الارض اللہ زمین اللہ کی ہے۔ جو شخص زمین میں شخصی ملکیت کو درست نہیں سمجھتا اس کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کے معاملے میں ذاتی ملکیت جائز  نہیں۔ اس کا مخالف یہ کہتا ہے کہ اس آیت سے اس قسم کا کوئی مطلب حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ قرآن بار بار کہتا ہے کہ للہ ما فی السموات وما فی الارض زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔ انسان نے کسی چیز کا پیدا نہیں کیا اس لیے وہ کسی چیز کا مالک حقیقی نہیں کہلا سکتا۔ لیکن سب کچھ خدا کا ہونے کے باوجود آخر باقی تمام اشیا میں اسی اسلام نے ذاتی ملکیت کوتسلیم کیا ہے ۔ اور فقہ کا ایک کثیر حصہ اس ملکیت کے جھگروں کے چکانے کے لیے ہے۔ لیس للانسان الا ما سعی سے اس تعلیم کو اخذ کرسکتے ہیں بینکہ جس چیز کے متعلق کسی انسان نے کچھ محنت نہیں کی اور اس یچز پر اس کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص بادشاہوں کے عطیہ یا جبر و مکر اور نائاز استعمال سے زمین کے وسیع قطعات پر قابض ہو گیا ہے اور ا س کی کاشت کے متعلق آپ خود کچھ نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی محنت سے پیدا کردہ رزق اور دولت میں سے حصہ طلب کرتا ہے تو اس کامطالبہ جائز ہ۔ اس کتا ب میں اس بحث کا فیصلہ کرنا ہمارے احاطہ موضوع سے باہر ہے۔ یہاں فقط یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ علامہ ابال زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ملت کا خزانہ عامرہ تو بجا طور پر پیداوار کا کچھ حصہ طلب کر سکتا ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا ا س پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبال نے بڑے زور و شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے چنانچہ الا رض اللہ بال جبریل کی ایک نظم کا عنوان ہی ہے:
الارض اللہ
پالتا ہے بیج کومٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتاہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے اد سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوںسے خوشہ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟
وہ خدایا یہ زمین تیری نیہں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
بال جبریل کی ایک دوسری نظم فرشتوں سے فرمان خدا ایسی ہیجان انگیز اور ولولہ انگیز ہے کہ اس کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے اگر روسی زبان میں اس کا موثر ترجمہ ہو سکتا اور وہ لینن کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اسے بین الاقوامی اشتراکیت کا ترانہ بنا دینے پر آمادہ ہو جاتا۔ اس کے کہ ملحد لینن کو اس میں یہ خلل نظر آیا کہ اس میں خدا یہ پیغام اپنے فرشتوں کو دے رہا ہے۔ اور اس کے نزدیک وجود نہ خدا کا ہے نہ فرشتوں کا۔ وہ کہت اہے کہ افسوس ہے کہ خدا دشمن مگر انسان دوست انقلابی تعلیم کو بھی قدیم توہمات کے سانچوں میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ نظم کمیونسٹ مینی فیسٹو(اشتراکی لائحہ عمل) کا لب لاب ہے اور محنت کشوں کے لیے ایک انقلاب بلکہ بغاوت کی تحریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال اشتراکیت کے تمام پہلوئوں سے اتفاق رائے رکھتے تھے سوا اس کے کہ اس تمام تنظیم جدید نے انسان کے دل ودماغ پر یہ غلط ملط عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ تمام زندگی مادی اسباب کی عادلانہ یا مساویانہ تقسیم سے فروغ اور ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال انسانی زندگی کا مقصود جسمانی ترقی نہیں بلکہ روحانی ترقی سمجھتے تھے۔ روح انسانی آب و گل کی پیداوار نہیں اور اس کے لیے آب و گل میں پھنس کر رہ جانا اسے غائت حیات سے بے گانہ کر دیتاہے۔ علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے قدیم لغو طریقوں اور اداروں کی تخریب کا کام بہت کامیابی سے کیا ہے۔ جس مذہب نے اس کی تنسیخ کی ہے وہ قابل تنسیخ ہی تھا۔ اس نے سلطانی اور امیری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا اور بہت اچھا کی۔ا کیوں کہ ان طریقوں نے مل کر انسانوں کا درجہ حیوانوں سے بھی نیچے گرا دیا تھا۔ لیکن روٹی کپڑے اور رہائش کی آسودگی انسان کا مقصود حیات نہیں انسانی ارتقاء کے مدراج لامتناہی ہیں۔ اشتراکیت نے کچھ کام تعمیر ی کیا ہے اور کچھ تخریبی۔ اس کا ایک پہلو سلبی ہے اور دوسرا ایجابی ۔ اس نے جن اداروں کا قلع قمع کیا ہے اور جن عقائد کو باطل قرار دیا وہ انسان کی روحانی ترقی کے راستے میں بھی سد راہ تھے لیکن اشتراکیت چونکہ مغرب کی مادی جدوجہد کی پیداوار تھی اور طبیعی سائنس کے اس نظریے سے پیدا ہوء تھی کہ مادی فطرت کے علاوہ ہستی کی اور حقیقت نہیں۔ اس لیے وہ اس تاریخی حادثے کا شکار ہو گئی کہ مادی زندگی میں عادلانہ معیشت کو الحاد کے ساتھ وابستہ کر دیا حالانکہ یہ تمام انقلاب ک امادیت کے فلسفہ الحاد کے ساتھ کوئی لازمی رابطہ نہیں۔ اقبال کا عقیدہ تھا کہ یہ تمام انقلاب اسلام کے ساتھ وابستہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ معاشی تنظیم اسلام کے منشا کے عین مطابق ہے۔ فرماتے تھے کہ خدا اور روح انسانی کے متعلق جو صحیح عقائد ہیں وہ اگر اس اشتراکیت میں شامل کر دیے جائیں تو وہ اسلام بن جاتی ہے اقبال کو اشتراکیت پر جو اعتراض ہے وہ ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔ لیکن جس حد تک اسے اشتراکیت سے اتفاق ہے۔ اس حد تک اس کے افکار اور جذبات ایسے ہیں جو لینن اور کارل مارکس اور انگل کی زبان سے بھی ہو بہو اسی طرح ادا ہو سکتے ہیں۔ خدا فرشتوں کو جو کچھ حکم دے رہا ہے وہی  تقاضا ائمہ اشتراکیت کی تمام محنت کشوں سے کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں انسان انسان کو ابھار رہاہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ خدا سے وہ بس اس لیے بیزار ہیں اور اس کے وجود کے منکر ہیں کہ خدا کے نام کو زیادہ تر ہر قسم کے ظلم و استبداد ہی نے اپنے غرض کے لیے استعمال کیا ہے۔
اقبال کے نزدیک فرشتوں کو خدا جو پیغام دے رہا ہے کہ اسے انسانوں تک پہنچا دو۔ وہ درحقیقت اس اسلامی انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ ہے جس کا اقبال آرزو مند تھا۔ یہ انقلاب ایسی معاشرت پیدا کرے گا جس میں غریبوں کی محنت سے پیدا شدہ ناکردہ کار امیری مفقود ہو جائے گی غلام اپنے ایمان کی قوت سے بڑ ے بڑے فرعونوں سے ٹکر لیں گے۔ اس میں اس انداز کی سلطانی جمہور پیدا ہوگی جو موجودہ مغربی انداز کی جمہوریت کی طرح سرمایہ داری کا دام فریب نہ ہو گی۔ بلکہ اس میں مساوات حقوق عوام کا وہ انداز ہو گا جو اسلام نے اپنی ابتدا میں رکھا ھتا۔ جہاں امیر سلطنت بھی عوام کا ہم رنگ اور حقوق و فرائض میں ان کے برابر تھا۔ اس میں تمام فرسوہ رسوم و رواج اس طرح ملیا میٹ ہوجائیں گے کہ جس طرح اسلام نے زمانہ جاہلیت کے نقوش مٹا دیے۔ جہاں کاشتکار کی پیدا کردہ روزی کو نکھٹو زمیندار جبر سے حاصل نہ کر سکے گا۔ جہاں خالق اورمخلوق کے درمیان دیر و حرم کے دلال اور کمیشن ایجنٹ وسیلہ نجات بن کر حائل نہ ہوں گے۔ جہاں مذہب کے ظواہر پابندی سے ریاکار دیندار دوسروں پر اپنا سکہ نہ جما سکیں گے۔ اور جہاں ان جدید تہذیب کے پیدا کردہ ڈھونگ کا صفایا ہو جائے گا اور جس نے انسانوں کو ان کی اصلیت سے بے گانہ کر دیا ہے۔ اب اقبال کی اپنی زبان سے یہ پیغام سنیے:
فرمان خدا
(فرشتوں سے)
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقین سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت کے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق را بسجودے صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
میں ناخوش ہو بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ۃے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
اقبال نے منکر خدا لینن کو بھی آخرت میں خدا کے سامنے لا کھڑ اکیا ہے۔ عاقبت میں عاضی و عابد و مومن و کافر سب کو خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ بقول عارف رومی قیامت کے معنی انکشاف حقیقت کے ہیںخدا کے روبرو ہونے کے معنی حقیقت سے آشنا ہونا ہے کیوں کہ داصل حقیقت خدا ہی ہے:
والسما انشقت آخر از چہ بود
از یکے چشمے کہ ناگہ بر کشود
پس قیامت شو قیامت را بہ بیں
دیدن ہر چیز را شرط است این
لینن نے خدا کے سامنے کفر کے اسبب بیان کر کے معذرت کی ہے اور جو انقلاب اور ہیجان اس نے پیدا کیا ہے اس کا جواز بھی دلنشین طریقے سے پیش کیاہے۔ اس نے کفر و الحاد کے سوا باقی جو کچھ بھی کیا وہ حسن خدمت ہی تھا۔ جو عقوبت کی بجائے مستحق انعام ہے۔ اقبال بھی یہی چاہتا تھا کہ کوئی مرد مومن و مجاہد اس فرسودہ مشرقی اور جدید مغربی تہذیب کا تختہ الٹ دے؛ یہ کام لینن جیسے مجاہد نے کیا جسے مذہب کے استعمال کی استبداد نے ملحد بنا دیا تھا۔ بہرحال اس نے جو کام کیا ہے وہ اقبال کے نزدیک مستحسن اور ارتقائے انسانی کے لیے ایک لازمی جز تھا مگر اشتراکیت لا سے الا کی طرف قدم نہ بڑھا سکی۔ یہ کام آئندہ مستقبل قریب یا بعید میں ہوجائے گا لیکن قدیم استبدادو ں کا خاتمہ بہت کچھ اشتراکیت ہی نے کیا۔ اقبال کو افسوس ہے کہ توحید اور روحانیت سے معرا ہونے کی وجہ سے یہ اصلاحی کام ادھورا رہ گیا ہے اور اس کی وجہ سے اس میں ایک نئے استبداد کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے محض مادیات کی مساویانہ تقسیم سے روح کے اندر وہ جوہر پیدا نہیں ہو سکتا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ مادیات کی حرص انسان کو مسلسل ایک اسفل سطح پر کشمکش میں مبتلارکھتی ہے ہر قسم کی تعمیر کے لیے پہلے شکست و ریخت ضروری ہوتی ہے۔ پہلا قدم سلبی ہوتا ہے اور دوسرا ایجابی بقول عارف رومی:
ہربنائے کہنہ کاباداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
جس قسم کا انقلاب روس میں ہوا اس سے ملتا جلتا انقلاب اقبا ملت اسلامیہ میں بھی دیکھنا چاتا ہے لیکن اس کا محرک اسلام ہونا چاہیے نہ کہ الحاد تاکہ لا کے بعد آسانی سے الا کی طرف قدم اٹھ سکے۔ بلکہ توحید ہی اس تمام انقلا ب کی محرک ہو۔ اشتراکیت ابھی تک خود اور جفبر سے خلاصی حاصل نہیں کر سکی۔ خالص روحانیت جو خلوص اور محبت انسان میں پیداکرتی ہے وہ اس انقلابی معاشرت میں ابھی نظر نہیںآتی۔ اکابرہوں یا عوام ایک دوسرے سے خائف رہتے ہیں افکار کی آزدادی ناپید ہے ایک نئے جبر و ظلم نے قدیم جبروں کی جگہ لے لی ہے۔ اشتراکیت کے بڑے بڑے امام چشم زدن میں غدار بن جاتے ہیں۔ یا غدار شمار ہوتے ہیں۔ قبال انقلاب مغرب کی تہذیب اگر یک طرفہ تھی تو یہ نئی انقلابی تہذیب بھی ایک طرف سے ترقی اور دوسری طرف سے تنزل کا نقشہ پیش کرتی ہے اقبال نے مغربی تہذیب کی کہیں کم ہی تعریف کی ہے اگرچہ اس میں بھی خیر و شر دونوں طرف سے پہلو موجود ہیں لیکن اشتراکیت کے ذکر میں تعریف کا پہلو مذمت پر کسی قدر بھاری ہی معلوم ہوتاہے۔ جو معاشرت و معیشت کے متلعق اپنے اقبا ل کے عقائد کی غمازی کرتا ہے۔ عام مغربی تہذیب کے ساتھ اس کو اسلام کا اتصال مشکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن زاویہ نگاہ کی ذر ا سی تبدیلی سے اشتراکیت اسلام بن سکتی ہے یا اسلام اشتراکی ہو سکتاہے۔
لینن خداسے یہ کہتا ہیکہ ہم مغرب کی طبیعی عقل کی بنا پر فقط خرد کو ذریعہ علم سمجھتے تھے۔ لیکن فقط خرد سے تجھ تک رسائی نہ ہو سکتی تھی اور ہمارے کفر کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم نے مشرق و مغرب میں کبھی کسی کو بھی عقیدت کے ساتھ تیری پرستش کرتے ہوئے نہیں دیکھا پھر ہمیں کیسے یقین آتا کہ کوئی تو بھی کوئی معبو د ہے۔ ہم نے مشرقیوں کو دیکھا وہ غلبہ فرنگ کی وجہ سے سفیدان فرنگی کی پوجا کر رہے ہیں اورم غرب کو دیکھا تو وہ فقط زر و مال کو قاضی الحاجات سمجھتا ہے۔ تیرا نام تو اکثر لوگوں کی زبان پر تھا لیکن وہ محض خود غرضی اقتدار کوشی اور ریاکاری کاپردہ تھا۔ پہلے زمانوں میں تجھ پر لوگوں کو کچھ واقعی ایمان ہو گا۔ کہ تیری پرستش کے لیے عظیم الشان معبد بناتے تھے۔ اب تو بنکوں کی عمارتوں گرجوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جمیل و جللیل دکھائی دیتی ہیںَ یورپ میں علم و ہنر کی روشنی تو چکاچوند کر دینے والی ہے۔ لیکن روحوں کے اندر اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس ظلمات میں چشمہ حیوان کہیں بھی نہیںتھا۔ مساوات کی تعلیم دیتے تھے لیکن عملاً تجارت ہو یا زراعت یا سیاست سب میں غریبوں کا لہو پینے کی تدابیر تھیں۔ فرنگی مدنیت کے فتوحات میں بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس ہی تھے۔ مشینوں کی حکومت نے تمام معاشرت اور مام افراد کو مشینیں بنا کر بے درد و بے روح کر دیا تھا۔ لینن خدا سے کہتاہے کہ کسی قدر انقلاب تو پیدا کر آیا ہوں لیکن دنیا کے زیادہ حصے میں بندہ مزدور کے اوقات ابھی بہت تلخ ہیں۔ تیری دنیا روز مکافات کی منتظر ہے۔ تو عامل بھی ہے اور قادر بھی اس سرمایہ پرستی کی کشتی کو غرق کرنے میں کیوں دریغ کر رہا ہے؟ آخر کاہے کا انتظار ہے؟
اشتراکیت انقلاب کی انقلاب آفرینی اور اس کی بہت سی اصطلاحاات کو نظر استحسان سے دیکھنے کے باوجود اور جابجا لینن کا ہم زبان ہو کر بھی اقبال انسانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ اس انقلاب کے بعد اگر لا سے الا کی طرف اور نفی سے اثبا ت کی طرف قدم نہ اٹھ سکے تو یہ تعمیر تخریب ہو کر رہ جائے گی۔ اشتراکیت سے قبل کی مغربی تہذیب اس کے لیے روح سے بے گانہ اور زوال آمادہ ہو گئی کہ وہ محسوسات و مادیات کے آگے نہ بڑھ سکی اور اس نے عالم مادی کی تسخیر کو غایت حیات بنا لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادی اسباب کی تقسیم نے حرص و ہوس کو تیز کر کے ہلاکت کے سامان پیدا کر دیے۔ اس معاملے میں اشتراکیت بھی اگر اسی ڈگر پر پڑ گئی تو اس کی اصلاح بھی فسا د میں تبدیل ہو جائے گی۔ اور پھروہی صورت پیدا ہو گی جو ہمارے سامنے ہے۔ ظہر الفساد فی البر والبحر ضرب کلیم میں لا و الا کے عنوان سے تین اشعار اسی مضمون کے ملتے ہیں:
فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بر پیدا
سفر خاکی شبسستان سے نہ کر سکتا اگر دانہ
نہاد زندگی میں ابتدا لا انتہا الا
پیام موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ
وہ ملت روح جس کی لا سے آگے نہیں بڑھ سکتی
یقین جانو ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ
اقبال نے کئی جگہ اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں دہرایا ہے ۔ کہ لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا مختلف اقوام کے تصوف کا لب لباب بھی یہی ہے۔ کہ حقیقی بقا فنا کے ذریعے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ زندگی خواہ نباتی ہو یا خواہ حیوانی اور انسانی اور خواہ اس سے بڑھ کر انسان روحانی بننا چاہیے کہیں بھی فی نفسہ فنا مقصود نہیں۔ زندگی جس صورت میں ہو وہ اپنی بقا چاہتی ہے لیکن بقا اور ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلی صورت کے افشا سے دوسری صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ انسانی زندگی جب جامد صورت ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ معتاد طریقوں کو بدلنا نہیں چاہتی۔ اسے تغیر سے ڈر لگتا ہے۔ مذہب اور معاشرت کے قدیم رسوم و شعائر اور قدیم ادارے جامد ہو کر بے روح ہو جاتے ہیں۔ افکار و جذبات میں کوئی جدت نہیں رہتی زمانہ جب فرسودہ طریقوں سے بیزار ہو جاتا ہے تو مشیت الٰہی ان پر خط تنسیخ کھینچ دیتی ہے۔ اقبال روسی اشتراکیت کے اس پہلو کا مداح ہے کہ ا س نے مال اور سلطنت اور کلیسا کے متعلق قدیم عققائد کے خلاف احتجاج اور جہاد کیا ہے اوریہ اقدام انسانیت کو آزاد کرنے اور اس کی روحانی ترقی کا امکان پیدا کرنے کے لیے لازم ھتا۔ جب تک یہ کام نہ ہو چکے آگے روحانیت کی طرف قدم اٹھانا دشوار ہے۔ روس نے سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور مال کے متعلق اس کے نظریے پر عمل کیا کہ جائز ضڑورت سے زائد مال کسی فرد کی ملکیت نہیںرہ سکتا۔ اسے ملت کی عام احتجاج پر صرف ہونا چاہیے۔ اقبال کہتا ہے کہ مال کے متعلق یہ تعلیم عین قرآنی تعلیم ہے کہ مال کو چند امرا ء کے ہاتھوں میںگردش نہ کرنی چاہیے۔ اس کا فیضان دوران خون کی طرح جسم ملت کے ہر رگ و ریشہ میں پہنچنا چاہیے۔ لوگوں نے جب رسول کریم صلعم سے یہ سوال کیا کہ کس قدر مال خود صرف کرنا چاہیی اور کس قدر ملت کے احتجاج کے لیے ڈال دینا چاہیے تو اس کا جواب قرآن نے ا ن الفاظ میں دیا ہے قل العفو مومنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی جائز ضرورت سے جو کچھ بچ جائے وہ ضرورت مندوں کے حوالے کر دیا کریں۔ جس طرح بند پانی میں بدبو آنے لگتی ہے اور ا س میں زہریلے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں اوراسی طرح انفرادی خود غرضی سے روکی ہوئی دولت بھی صاحب مال کے لیے مسموم ہو جاتی ہے۔ مال کے اس اسلامی نظریے کو عارف رومی نے ایک بلیغ تمثیل کے ساتھ نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے کہ ماچھا مال جو خدمت دین میں اور خدمت خلق میں صرف ہو وہ خدا کی نعمت ہے۔ مال فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں‘ جس طرح کشتی چلانے کے لیے پانی کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سفینہ حیات کسی قدر آب زر ہی سے روا ں ہو سکتا ہے لیکن پانی کشتی کے نیچے نیچے رہنا چاہیے اگر وہ کشتی کے اندر گھس آئے تو اس کو سنبھالنے کی بجائے غرق کردیتا ہے:
مال را گر بہر دیں باشی حمول
نعم مال صالح گفتا رسولؐ
آب در کشتی ہلاک کشتی است
زیر کشتی بہر کشتی پشتی است
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ روس نے قرآن کی قل العفو کی تعلیم کے مطابق ایک معاشرت پیدا کی ہے اس لیے اس حد تک یہ عین اسلامی کام ہے۔ ضرب کلیم میں اشتراکیت کے عنوان سے جو اشعار لکھے ہیں ان کا موضوع یہی ہے:
اشتراکیت
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار
اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور
فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار
انساں کی ہوس نے جسے رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ اور جب کبھی انسان کا فکر صالح ہو جاتا ہے تو قرآن سے ناآشنا ہونے پر بھی وہ اسلام کے کسی نہ کسی پہلو کی صحت کا قائل ہو جاتا ہے ۔ اور اسلام کے نام سے نہیں تو کسی اور عنوان سے اس پر عامل ہو جاتا ہے۔
کفر و دیں است در رہت پویاں
وحدہ لا شریک لہ گویاں
انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے مختلف اقوام میں جو جدوجہد  ہو رہی ہے۔ اس کا جائزہ لیجیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ اصلاح کر ہر قد م حقیقت میں اسلام کی طرف اٹھتا ہے۔ خواہ اس کے لیے کوشاں مصلحین غیر مسلم ہی کیوں نہ کہلاتے ہوں۔ اقبال نے کارل مارکس کی آوا ز کو بھی اپنی ہی آواز بنا کر پیش کیا ہے:
کارل مارکس کی آواز
یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش
تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوط خمدار کی نمائش! مریزو کجدار کی نمائش
جہاں مغرب کے بتکدوں میں کلیسائوں میں مدرسوں میں
ہوس کی خوں ریز چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش
کارل مارکس بھی جہاں پیر کی موت کا آرزو مند ہے اور اقبال بھی ۔ لیکن جہان نو کی تعمیر اور اس کی اساس کے متعلق دونوںمیں اختلاف ہے۔ کارل مارکس نیا معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اور اس سے آگے بڑھ کر اس کا کچھ مقصود نہیں۔ کیوںکہ وہ عالم مادی سے باہر اور فائق کسی اور عالم کا قائل نہیں۔ اقبال کے لیے عادلانہ معاشی نظام مقصود آخری نہیں بلکہ اسنان کے لامتناہی روحانی ارتقاء کے راستے میں ایک منزل ہے۔ ایک شخص نے زمانہ حال میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے مقاصد میں ایک بڑامقصد یہ بتایا کہ میں کلیسائی عیسائیت کا قلع قمع کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اس کی تمام جدوجہد پادریوں سے مناظرہ کرنے تک محدو د رہی ہے۔ اور صلیب کا کوئی کونی نہ ٹوٹا نہ گھسا۔ ایسی نبوت سے تو کلیسائی عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا لیکن اقبال کہتا ہے کہ دیکھو قضائے الٰہی کی روش کیسی ہے کہ روس کی دہریت سے کسر چلیپا کا کام لیا گیا ہے جو نہ کسی مومن سے ہوا اور نہ کسی متنبی سے وہ کام کافروں نے کر ڈالا ۔ کلیسا کا استبداد سب سے زیادہ روس میں تھا جو کرہ اارض کے پانچویں حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہیں پر مکمل بت شکنی ملحدوں نے کی ہے۔ مذہب مصلحین کبھی یہ کام نہ کر سکتے:
روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب
خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات
ہوئے ہیں قصر چلیپا کے واسطے مامور
وہی کو حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات
یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈالے کلیسائیوں کے لات و منات
اقبال کے نزدیک اشتراکیت میں حق  و باطل کی آمیزش ہے۔ اس میں جو  دل کشی اور مفاد کا پہلو ہے وہ حق کے عنصر کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں رزق کی عادلانہ تقسیم دین دین ہے اور اس معاملے میں روس نے جو کوشش کی ہے وہ سراہنے کے لائق ہے۔ حضرت مسیح نے فرمایا کہ انسان کی زندگی فقط روٹی سے نہیں اسے روحانی غذا کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان روح کے علاوہ جسم بھی رکھتا ہے اور نفس و بدن کا رابطہ بھی کچھ اس قسم کا ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو انسان نہ حقوق اللہ ادا کر سکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔ اسی لیے اسلام نے معاش و رزق کی عادلانہ تقسیم و تنظیم کو بھی جز و دین قرار دیا ہے۔ عیسائی بھی اپنی دعا میں خدا سے روز روٹی مانگتے ہیں۔ سعدی نے سچ فرمایا ہے ک بھوکا حضور قلب سے نماز بھی نہیں پڑ ھ سکتا:
شب چو عقد نماز بر بندم
چہ خورد بامداد فرزندم
خداوند روزی بحق مشتعل
پراگندہ روزی پراگندہ دل
رسول کریم صلعم نے فرمایاکہ زندگی کی بنیادی چیزوں کی محتاجی انسان کو کفر سے قیرب لے آتی ہے۔ یہ فقر اضطراری ہے جس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ فقر اختیاری دوسری چیز ہے۔ جس پر نبی کریم صلعم نے فخر کیا ہے ار جو عاعلیٰ درجے کی روحانی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ عام طور پر پانچ ارکان مشہور ہیں لیکن درحقیقت چھ ہیں مریدوں نے پوچھا چھٹا رکن کون سا ہے۔ جواب دیا کہ روٹی اور یہ بہت اہم ہے۔ اس رکن کے گر جانے سے باقی پانچ چیزوں کی بھی خیریت نہیں۔ لیکن اس پر یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ اگر طلب رز ق میں زیادہ انہماک ہو جائے تو وہ بھی اخلایق اور روحانی زندگی معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔ اقبال اشتراکیت کی اس کوشش کو مستحسن خیال کرتا ہیکہ انسانوں کی مادی ضروریات کے پورا کرنے کا کوئی عادلانہ نظام ہو لیکن انسانوں میں یہ عقیدہ رائج کر دینا غلط ہے کہ مادی ضڑوریات کے پورا کرنے سے زندگی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ تمام جدوجہد کو اسی میں صرف کرنا کہ بہتر روٹی اور کپڑا ملے اور رہائش کے لیے اچھا مکان مل جائے انسانی زندگی کی یہ غایت نہیں ہو سکتی۔ اکثر حیوانوں کو یہ چیزیں انسانوں سے بہت میسر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انسان کی امتیازی خصوصیت اور مقصود کیا ہے۔ حیوانوں کے لیے فطرت نے از روئے جبلت جو سامان اور ذرائع مہیا کر دیے ہیں۔ اگر انسان بصد مشکل عقلی کوششوں سے وہی کچھ کر لے تو اس کو حیوانوں پر کیا تفوق ہے؟ مادی ضروریات کے حصول اور سامان حیات جسمانی کی مساویانہ تقسیم سے خاص انانی زندگی کی تو کوئی غایت پوری نہیں ہوتی۔ یہ سعی مساوات دلوں میں تو کوئی اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ رزق کی فراوانی اور اس کی بہتر تقسیم کو مقصود حیات بنا لینا اور نفس انسانی کے لامتناہی ممکنات کو امکان سے وجود میں لانے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا گھاٹا ہے۔ ازروے قرآن اییمان اور عمل صالح کے بغیر انسان کی زندگی دولت کی فراوانی کے باوجود خسران ہی خسران ہے۔ روح انسانی کا جوہر اطبیعی و زمان و مکان سے ماوریٰ ہے انسان کی منزل حیات جسمانی نہیں بلکہ خدا ہے منزل ما کبریاست قرالی ربک المنتہی۔
جاوید نامے میں اشتراکیت کے اندر جو حق اور باطل ہے دونوں کو وضاھت سے پیش کیا گیا ہے۔ کارل مارکس کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے اور خلق خدا کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے لیکن حیات و کائنات کی ماہیت اور خلق وجود سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے اس کا فکر کافرانہ ہے۔
صاحب سرمایہ از نسل خلیل
یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل
زانکہ حق در باطل او  مضمر است
قلب او مومن دماغش کافر است
غریباں گم کفردہ اند افلاک را
در شکم جویند جان پاک را
رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک
جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبر حق نا شناس
بر مساوات شکم دارد اساس
تا اخوت را مقام اندر دل است
بیخ او در دل نہ در آب و گل است
جاوید نامے میں جمال الدین افغانی کا ایک پیغام ملت اروسیہ کے نام ہے۔ اس یغام میں اقبال نے اسلام اور اشتراکیت کے نقطہ ہائے اتصال و افتراق کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اشتراکیت کے پرانے معبودوں اور فرسودہ اداروں کے انہدام میں سعی بلیغ کی ہے۔ اس کافراخ دلی سے ذکر کیا ہے ۔لیکن اس کے بساتھ ہی اس ملت کوان خطرات سے آگاہ کیا ہے کہ جو اس انقلابی تمدن و تہذیب کو پیش آسکتے ہیں۔ انقلابات کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب اسلام تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے ایک وسیع حصے میں قدیم فکر و عمل کے حیات کش نقوش کو مٹا کر ایک جدید عالم گیر تہذٰب ک بنیا د ڈالی ۔ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ نادر اور انقلابی تھا۔ اس ہمہ گیر انقلاب کے لیے انسانی طبائع پوری طرح آمادہ نہ تھیں اس لیے بہت جلد شکست خوردہ رسوم اور ادارے اور انسانی خو د غرضیاں بہت کچھ واپس آ گئیں اور اس انقلاب کے خلاف رفتہ رفتہ رد عمل شروع ہوا۔ اسلام کی اصل صورت بہت کچھ مسخ ہوتی گئی لیکن اسلام کا جتنا حصہ بھی اس رد عمل کے باوجو د ملت اسلامیہ کی زندگی میں باقی رہ گیا اس کی بدولت مسلمان اپنی معاصر دنیا سے کوئی چھ سات صدیوںتک پیش پیش رہے۔ زندگی کا قانون یہ ہے کہ افراد یا اقوام کی زندگی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی۔ مسلسل تغیر پذیری آئین حیات ہے۔ اس لیے ہر لمحے میں انسان یا آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہاہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس انسان کے دو دن ایک جیسے ہوں یعنی اس نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا ہو وہ شخص نہایت گھاٹے میں ہے۔ من ستوا یوما فہو مغبون اس اصول کے مطابق مسلمان صدیوں سے پیچھے ہی ہٹتے گئے اور مغربی اقوام آگے بڑھنا شروع ہوئیں۔ اب اس صدی میں مسلمانوں کو اپنے نقصان سپ ماندگی اور بے بسی کا احسا س شروع ہوا تو اس میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ حرکت پیدا ہوئی۔
اسلام کے انقلاب کے بعد روسی اشتراکیت تک مشرق میں کوئی ایسی حرکت پیدا نہ ہوئی تھی۔ جسے انقلابی کہہ سکیں یعنی جس نے سیاست اور معیشت اور نظریات حیات کو یکسر بدل ڈالا ہو۔ مگرب میں از منہ متوسط کے جمود واستبداد کے بعدنشاۃ الثانیہ نے فکر و عمل میں ہیجان پیدا کیا اور رفتہ رفتہ خاص افراداور خاص طبقات میں زندگی کے انداز بدلنا شرو ع ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد اصلاح کلیسا کی لوتھر تحریک سے کیسا میں زلزلہ آیا اور بقول اقبال فرنگ میں ااذادی فکر کی نازک کشتی رواں ہوئی۔ ان تمام تحریکوں کا مجموعی نتیجہ انقلاب فرانس میں نکلا اور اس کے کچھ عرصے بعد انگلستان میں وہ انقلاب آیا جسے صنعتی انقلاب کہتے ہیں اور جس نے انگریزوں کی زندگی کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ اچھا یا براتاثر پیدا کیا۔
لیکن یہ تمام تحریکیں مجموعی طور پر بھی اتنی انقلاب آفریں نہ تھیں جتنی کہ اشتراکیت کی زلزلہ انگیز تحریک۔ بقول اقبال:
قہر او کوہ گراں را لرزہ سیماب داد
اس سے قبل کی تحریکوں سے ملوکیت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری نے لے لی عوام کے حقوق طلبی اور جمہوریت کی کوششیں بھی اتنی بارآور نہ ہوئیں کہ ان کے لیے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہو سکتے صحیح معنوں میں انقلاب اسی کو کہتے ہیں کہ جو اشتراکیت نے پیدا کیا۔ اشتراکیت قدیم معاشرت میں محض رخنے بند کرنے اور ٹانکے یا پیوند لگانے کی قائل نہ تھی اس نے قدیم اداروں کی بیماری کا علاج کوئی دوا یا غذا تجویز نہ کیا بلکہ ایسی جراحی جو اعضائے فاسد کی قطع و برید سے دریغ نہ کرے۔ جہاں اشتراکیت  کو کامیابی ہوئی وہاں کوئی ادراہ اور کوئی طریقہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہ سکا۔ قیصریت کا صفایا ہو گیا جاگیرداری کا خاتمہ ہوا سرمایہ داری کا نام و نشان مٹ گیا اور کلیسا عضو معطل بن گیا۔ مذہب کے خلاف ایسا شدید رد عمل ہوا کہ دین کی بیخ کنی کو روسی سیاست نے اپنے لائحہ عمل میں شامل کر لیا۔ پوجا پاٹ کی اجازت رہی مگر دین کی تبلیغ ممنوع ہو گئی۔ اشتراکی ارباب حل و عقدکے لیے یہ شرط لازمی ہو گئی کہ اعتقاداً اور عملا ً متحد ہوں اور مادیت کے قائل ہوں۔ اس طرح سے حق و باطل کی ایک عجیب قسم کی آمیزش ظہور میں آئی۔ سب سے بڑا ظلم جو اقدار حیات کو فنا کر دیتا ہے ۔ اشتراکیت کا جبری نطام ہے۔ انسانوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگ گئیں آزادی فکر آزادی ضمیر اور آزادی بیان جرم بن گئی۔ جمال الدین افغانی کی روح اس تمام انقلاب کا جائزہ لیتی ہے اور اس سلسلے میں وہ اس انقلابی ملت کے سامنے اسلام کی انقلاب آفریں تعلیم کو پیش کرتی ہے جس کا لب لباب ہے کہ تم نے تخریبی اور سلبی کام تو خوب یا لیکن اس کا ایجابی پہلو فقط اسلام پورا کر سکتا ہے۔ بقول غالب:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
در رقص اہل صومعہ ذوق نظارہ نیست
ناہید را بہ زمزمہ از منظر افگنم
افغانی بتاتا ہے کہ یہ نمطے دیگر کیا ہونا چاہیے افغانی کے پیغام کا حاصل مفصلہ ذیل ہے:
اے ملت روسیہ تو اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر ڈال اور اس سے  کچھ سبق اور عبرت حاصل کر۔ مسلمانوں نے قیصر و کسریٰ کا طلسم توڑا لیکن بہت جلد ان کے تخت ملوکیت پر خود متمکن ہو گئے اور قیصریت کے جاہ و جلال کو اپنی شاہانہ شوکت سے مات کر دیا۔ فرعون کے آبنوس کے تخت کی جگہ نوکروڑ روپے کا تخت طائو س شان اسلام کا مظہر بن گیا۔ ملوکیت کے عروج میں افراد کی حریت سوخت ہو گئی۔ تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ اس سے عجمی افکار اور غیر اسلامی طرز زندگی نے اسلام کے افکار کی طرف سے غفلت پیداکر دی۔ ملوکیت وہ چیز ہے کہ جو سیاست اور انقلابی معیشت پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ عقل و ہوش اور رسم و رہ سب دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ اسلام کے انقلاب کو ملوکیت کھا گئی۔ ظالم اور مستبد سلاطین ظل اللہ بن گئے اور علمائے سو فقیہ اور فتویٰ فروش بن کر ان کے آلہ کار بن گئے جس طرح رومتہ الکبریٰ کے شہنشاہ دیوتا بنن گئے تھے۔ جن کی پوجا رعیت کے ہر فرد پر لازم تھی اسی طرح مسلمان سلاطین علماء سے بھی سجدے کرانے لگے اور علماء سے یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ یہ سجدہ تعظیمی ہے۔ سجدہ عبادت نہیں۔ یہ سلاطین خلفا بن کر اس رسولؐ کی جانشینی کا دعویٰ کرتے تھے۔ جو راستہ چلتے ہوئے بھی اصحاب سے دو قدم آگے نہ چلتے تھے۔ اور محفل میں اپنی آمد کے  وقت تعظیماً اصحاب کو کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے۔
خود طلسم قیصرو کسریٰ شکست
خود سر تخت ملوکیت نشست
تانہال سلطنت قوت گرفت
دین او نقش از ملوکیت گرفت
از ملوکیت نگہ گردد دگر
عقل و ہوش و رسم و رہ گردد دگر
اے ملت روشیہ کچھ کام تو تو نے وہی کیا ہے جو اسلام کرنا چاہتا تھا اور جس کا نمون کچھ عرصیکے لیے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا گیا تھا۔ تو نے محمد صلعم اور ان کے خلفائے راشدین کی طرح قیصریت کی ہڈی پسلی توڑ ڈالی ہے مگر تجھ کو تاریخ اسلام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ کہن یہ نہ ہو کہ تو بھی عالمگیر اخوت کا دعویٰ کرتے کرتے ایک نئی قسم کی ملوکیت کا شکار ہو جائے تو بھی کہیں جبر و ظلم کے ساتھ جہانگیری نہ شروع کر دے۔ خوفناک آلات ہلاکت پیدا کرکے تو نوع انسان کو خوف زدہ نہ کر۔ قوت ضروری چیز ہے لیکن دنیا ایسی ملت کی طالب ہے جو صرف نذیر ہی نہ ہو بلکہ بشیر بھی ہو۔ تمہارے طریق عمل میں انسانوں کے لیے ایک اعلیٰ درجہ تر زندگی کی بشارت ہونی چاہے۔ تمہاری تقدیر اقوام مشرق کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے تمہارا رخ زیادہ تر ایشیا کی طرف ہونا چاہیے۔ جس کی روایات میں روحانیت کا بنیادی عنصر بھی موجود ہے۔ تمہارے سینے میں ایک سوز ہے۔ جونئے شب و روز پیدا کرتاہے افرنگ کا آئین و دین کہنہ اور فرسودہ ہو گیا ہے۔ اگر تم نے بھی اس کی نقالی شروع کر دی اور ایک طرف بے دینی کو ترقی دی اور دوسری طرف محض سامان حیات اور سامان حرب پیدا کرنے ہی کو مقصود بنا لیاتو تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو فرنگ کا ہوا ہے۔ تم اگر در حقیقت نئی تہذیب پیدا کرنا چاہتے ہو تو مغرب کی طرف مت دیکھو۔ اس تقلید اور مطابقت میں تم اسی رنگ میں رنگے جائو گے یہ مغرب الا سے الا کی طرف نہیں بڑھ سکا اور مادیت کے آب و گل میں ُھنس کر رہ گیا ہے ارتقائی زندگی کا ایک قدم نفی کی طرف تو دوسرا اثبات کی طرف اٹھتا ہے۔ اگر تم جدید نظام عالم پیدا کرنا چاہتے ہو تو اب وقت ہے کہ تم اثبات کی طرف آجائو۔
کہنہ شد افرنگ را آئین و دیں
سوئے آں دیر کہن دیگر مبیں
کردہ کار خداونداں تمام
بگذر از لا جانب الا خرام
در گذر از لا اگر جویندہ
تا رہ اثبات گیری زندہ
جس انقلاب آفرینی پر تم فخر کرتے ہو ا س کا سبق دنیا کو سب سے پہلے قرآن نے پڑھایا تھا۔ اسی قرآن پڑھانے والے نبی صلعم نے یہ اعلان کیا تھا کہ لا قیصر و لا کسریٰ۔ اس نے حبشیوں وک روشن ضمیر بنا کر ان کی ظاہری سیاہی کو نور قلب سے بدل دیا تھا۔ اسی نے رنگ نسل کی تمیز کو حرام کیاتھا۔ فرنگی اقوام ابھی تک مساوات اور اخوت کے دعاوی کے باوجود کالوں کو گوروں کے مطابق حقوق دینے کی روادار نہیں۔ مغربیوں کی تمام سیاست ماکیاویلی جیسے ابلیس نے سکھائی ہوئی روباہی ہے۔ اس روباہی کا تمام فن دوسروں کو محتاج کورکھ کر اپنے لیے سامان حیات کی فراوانی پیدا کرنا ہے:
گر ز مکر غریباں باشی خیبر
روبہی بگذار و شیری پیشہ گہر
چیست روباہی تلاش ساز و برگ
شیر مولا جوید آزادی و مرگ
قرآن نے جس فقر کو سراہا ہے وہ اصل شاہنشاہی ہے۔ جس کی بدولت خود مومن کو کائنات پر حکومت حاصل ہوتی ہے۔ ضعیف اقوام کو مغلوب کر کے ان پر حکومت شاہی نہیں بلکہ نفس دوں کی غلامی ہے مغرب نے محسوسات میں بہت تفکر کیا ہے اور محدود مادی خرد کے احاطے میں جو کچھ آ سکتا ہے اس کو فکر و عمل سے مسخر کر لیا ہے۔ لیکن فکر کے علاوہ ایک دوسری بیش قیمت چیز ہے جسے ذکر کہتے ہیں۔ یہ ذکر زبان سے کچھ کلمات دہراتے رہنے کا نام نیں ہے۔ یہ ایک وجدان حیات ہے جس کا عرفان انسان کو مازکذ حیات و کائنات سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ یہ ذکر حیات لامحدود کے لیے ایک لامتناہی ذوق و شوق ہے۔ یہ انسانی روح کی غذا ور اس کا پر پرواز ہے۔ فکر انسانی زیاہ تر بدن کی زندگی میں الجھا رہتا ہے۔ لیکن ذکر دل کی زندگی ہے۔ اس سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو آتش حیات ہے۔ تم بھی مادی عقلیت میں مغرب کی طرح ابھی تک ایسے الجھیہوئے ہو کہ یہ بات ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ بامزاج تو نمی سازد ہنوز۔
قرآ ن کی خوبی یہ ہے کہ وہ فکر و ذکر دونوں کی بیک وقت تلقین کرتا ہے۔ فکر بھی معرفت اور قوت تسخیر پیدا کرتا ہے اور نفس انسانی کا ایک امتیازی جوہر ہے۔ لیکن ذکر کے بغیر اس میں تنویر کامل پیدا نہیں ہوتی۔ رہبانی مذاہب نے فکر کو بالائے طاق رکھ کر خالی ذکر کو شغل بنا لیا ہے ور حکماء طبیعی فکر کے حدود سے باہر قدم نہ رکھا۔ قرآن نے جس شاہنشاہی فقر کی تعلیم دی ہے وہ فکر و عمل کی ہم آغوشی ہے جو انفس و آفاق دونوں کو محیط ہو جاتی ہے۔
فقر قرآن اختلاط ذکر و فکر
فکر را کامل ندیدم جز بذکر
ذکر؟ ذوق و شوق را دادن ادب
کارجان است ایں نہ کار کام و لب
اے ملت روشیہ تجھ کوایک ایسا نظام قائم کرنا چاہیی کہ جس میں خواجگی اور بندگی انسانوں کے اعلیٰ اور اسفل گروہ نہ بنا دے یہ تعلیم بھی قرآنی ہے:
چیست قرآں خواجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ بے ساز و برگ
یہ خواجگی ظالمانہ زر اندوزی سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کی تمام راہبوں کو اسلام بند کرنا چاہتا تھا۔ اور اس کا معاشی نظام ایسا تھا کہ رہا اور دیگر ناجائز ذرائع سے دولت حاصل نہ ہوسکتی تھی۔ اور زکوۃ ووراثت کے قوانین کی بدولت وہ چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو سکتی تھی۔ اسلام نے دولت کو ملکیت نہیں بلکہ امانت قرار دیا ہے۔ از روئے اسلام ناکردہ کار افرد زمین کے وسیع قطعوں کے مالک نہ بن سکتے تھے۔ زمین کو خدا نے ملک نہیں بلکہ متاع کہا ہے یعنی فائدہ حاصل کرنے کی چیز اور یہ فائدہ بھی تمام خلق خدا کے لیے مساوی ہونا چاہیے۔ سورہ للسائلین مسلمان اس تعلیم کو بھول کر جاگیر دار اور سرمایہ دار بن گئے:
منزل و مقصود قرآن دیگر است
رسم و آئین مسلمان دیگر است
در دل او آتش سوزندہ نیست
مصطفیؐ در سینہ او زندہ نیست
اسی قران فراموشی کا نتیجہ یہ ہواکہ مسلمان کا ساغر حیات خالی ہے۔ اس میں نہ صاف شراب ہے اور نہ تلچھٹ میں جو پیغام تمہیں دے رہا ہوں وہ اسلام کا پیغام ہے۔ تم اس وقت کے مسلمانوں میں کوئی حیات افزا نمونہ نہ دیکھو گے۔ ان کی زندگی کے اس دور میں دیگر اقوام کو عبرت ہی حاصل ہو سکتی ہے حیات ملی کے اچھے نمونے اب علالم اسلامی میں ناپید ہیں:
دہ مومن ز قرآں بر نخورد
در ایاغ او نہ مے دیدم نہ درد
اے ملت روسیہ ! میں تمہیںاصل اسلام کی طرف بلا رہا ہوں جو تمہارے انقلاب کی تکمیل کر سکتا ہے۔ یہ اسلام عالمگیر حقائق کا نام ہے۔ کسی ایک ملت کے ساتھ اس کا ازلی و ابدی واسطہ نہیں۔ اس وقت جو قومیں مسلمان کہلاتی ہیں۔ اگر وہ اسی طرح خود فراموش اور خدا فراموش رہیں تو اسلام کو ان کی کچھ پروا نہ ہو گی۔ وہ بھی ملل ماضیہ کی طرح محض ایک عبرت انگیز افسانہ بن جائیں گی۔ اے ملت روسیہ! تم نے ہمت کر کے اسلام کے ایک حسے کو آئین حیات بنایا ہے۔ اگرتم باقی ماندہ حصے کو بھی اپنا لو تو اس فرسودہ ملت کی جگہ لے لو گے۔ قرآن جن صداقتوں کو پیش کرتاہے وہ سرمدی حقائق ہیں وہ کسی خاص امت کا اجارہ نہیں۔ امتیں فانی ہیں لیکن اسلام ایک ابدی حقیقت ہے۔ جو امتوں سے بھی ماورایٰ ہے اور زمان و مکان سے بھی خود قرآن نے مسلمانوں کو آگاہ کر دیا تھا کہ تم اس آئین کے پابند نہ رہے تو اسے دوسروں کے حوالے کر دیا جائے گا جو اسے جزو حیات بنائیں گے۔ مسلمان میں تو اس وقت ایمان بالقرآن مفقود معلوم ہوتا ہے اس لیے مجھ ڈر لگتا ہے کہ اسے کہیں صفحہ ہستیسے نہ مٹا دیاجائے۔ اے ملت روسیہ! اگرتو اس پر پوری طرح عمل کر کے خیر امتہ اخرجت للناس بن سکتی ہے تو چشم ما روشن دل ما شاد ہماری محفل تو اس وقت بے مے اور بے ساقی ہے۔ لیکن سازقرآن بے نوا نہیں۔ اگر کسی ملت میں گوش حقیقت نیوش ہو تو وہ اس کے روح افزا نغموں سے حیات پیدا کر سکتی ہے۔ کیا معلوم کہ اسلام اب کس کے حوالے ہونے والا ہے۔ موجودہ ملت اسلامیہ تو تقلید کا شکار ہے:
محفل ما بے مے و بے ساقی است
ساز قرآں را نواہا باقی ست
زخمہ ما بے اثر افند اگر
آسماں دارد ہزاراں زخمہ ور
ذکر حق از امتاں آمد غنی
از زمان و از مکاں آمد غنی
ذکر حق از ذکر ہر ذاکر جداست
احتیاج روم و شام او را کجا است
حق اگر از پیش ما برداردش
پیش قومے دیگرے بگذاردش
از مسلمان دیدہ ام تقلید و ظن
ہر زماں جانم بلرزد در بدن
ترسم از روزے کہ محرومش کنند

آتش خود بر دل دیگر زنند