اقبال اور جمہوریت
جمہوریت کی نسبت کلام اقبال میں موافق اورمخالف دونوں قسم کے تصورات ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت بھی ان مبہم تصورات میں سے ہے جن کے کوئی معنی معین نہیں ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر قوم یا جمہوریت کی خواہاں اور اس کے حصول کے لیے کوشاں ۃے یا اس بات کی مدعی ہے کہ صحیح جمہوریت صرف ہمارے پاس ہے ۔ اس کے علاوہ اور اقسام کی جمہورتی کے دعوے سب بے بنیاد ہیں اور محض ابلہ فریبی ہیں۔ جمہوریت کا عام ترین مفہوم جس پر سب متفق معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ہے کہ رعایارپ کوئی فرد یا کوئی طبقہ اس کی مرضی کے خلاف حکومت نہ کرے۔ ابراہیم لنکن کے قول کے مطابق حکومت عوام کی ہو اور عوام کے لیی ہو اور رفاہ عامہ اس کامقصود ہو۔ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں اقتدار اعلیٰ نہ سلاطین کو حاصل ہو اور نہ امرا کے طبقے کو۔ حکومت کی باگ ڈور نہ جاگیرداروں اور نہ زمینداروں کے ہاتھ میں نہ سرمایہ داروں اور نہ کارخانہ داروں کے ہاتھ میں۔ مجلس آئین ساز میں جو نمائندے ہوں وہ آزاد سے عوام کے منتخب کردہ اہل الرائے ہوں۔ اس قسم کے طرز حکومت قدیم دنیا میں بھی کہیں کہیں رہی ہے یونان کی یک شہری مملکتوں میں بھی جمہوریت کے انداز مختلف تھے۔ اسپارٹا جو ایتھنز کا حریف تھا۔ اس کا تنام نظام عسکری تھا۔ جو جدید زمانے کے فاشطی نظامات کے مماثل تھا۔ رومتہ الکبریٰ میں ابتدائی دور میں ایک ریپبلک تھی لیکن رومہ کی معاشرت میں بہت جلد خواص کا طبقہ وعوام سے الگ ہو گیا۔ اور سینیٹ میں اونچے خاندانوں ہی کے نمائندے قانون ساز تھے۔ اور وہی حکمرانی کرتے تھے۔ سلطنت کی وسعت اور امرا کی باہمی آویزشوں کی وجہ سے آخر کار یہ جمہوریت شاہنشاہی میں تبدیل ہو گئی۔ اور شہنشاہ دیوتا سمجھ کر پوجے جانے لگے۔ ایک زمانہ آیا کہ رومتہ الکبریٰ کے شہری نیرو جیسے دیوانے اور ظالم کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بے بس پاتے تھے۔ اسلام نے جو نظام قائم کیا تھا وہ بھی ایک خاص انداز کی جمہوریت تھی۔ اس کا دستور عوام کی رائے سے مرتب نہ ہوا تھا بلکہ ازروئے وحی آسمانی خدائے علیم و حکیم کا تلقین کردہ تھا یا نبی حکیم کی سنت پر مبنی تھا۔ سیاست و معیشت کے بنیادی اصول واضح وضع ہوتے تھے امیر خلافت مسلمانوں کی رضامندی سے منتخب ہوتا تھا۔ انتظام مملکت میں وہ اپنی صوابدید سے عمل کرتا تھا لیکن اس کے ذاتی اور حکومتی اعمال پر تمام مسلمانوں کی نگرانی تھی۔ وہ شرعی حدود کے باہر قدم نہ رکھ سکتاتھا۔ اسلام نے ششاہی اور امرائی حکومت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اور یہ اصول مقرر کر دیا تھا کہ حکومت مسلمانوں کے مشورے سے ہونی چاہیے۔ تمام رعایا کے بنیادی حقوق مساوی تھے اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی۔ چونکہ حکومت اسلامی تھی اس لیے اتنا امتیاز باقی رکھنا لازمی تھا کہ کوئی غیر مسلم امیر المومنین نہیں ہو سکتا۔ باقی سلطنت اور معیشت کے ہر قسم کے کاروبار اور انتظامات میں خلیفے کو یہ حق حاصل تھا کہ کام کی نوعیت اور فرد ک ی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کام یا عہدہ مسلم کے سپرد کرے یا کسی ذمی کے جس پر امیر کو اعبتبار حاصل ہو۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر شخص آزاد تھا غیر مسلموں کے قوانین شریعت اور طریق زندگی میں حکومت مزاحم نہ ہو سکتی تھی۔ رعایا کا غریب سے غیرب فرد امیر المومنین پر نالش کر سکتا اورعدالت میں اسے جواب دہی پر مجبور کر سکتاتھا۔
افسوس ہے کہ یہ نصبا العنی نظام زیادہ دن تک قائم نہ رہ سکا۔ مملکت کے حدود بیک وسیع ہو گئے عرب کے قبائل کے علاوہ غیر عرب اقوام اسالم کے دائرے میں داخل ہو گئیں افراد کی اقتدار پسندی نے باہمی آویزش پیدا کی جو خانہ جنگی پر منتج ہوئ۔ قبائل اور اقوام کے تعصباب جسے اسلام نے دبا دیا تھا۔ پھر ابھر آئے پرانی خصومتوں نے پھر سراٹھا لیا۔ ایسی حالت میں کسی اتفاق رائے سے امیر کا انتخاب دشوار بلکہ محال ہو گیا ہزارو ں میلوں میں منتشر مسلمانوں کی رائے کس طرح حاصل ہو سکتی تھی۔ مسلمانوں کو ازروئے اسلام عقیدہ یہی تھا کہ امیر المومنین ملت کے مشورے سے منتخب ہو خواہ وہ عربی ہو یا عجمی سفید و سرخ رنگ کا ہو یا سیاہ فام حبشی اس کی اطاعت مسلمانوں ؤپر لازمی تھی۔ لیکن شوری ٰ سے انتخاب کوئی عملی صورت نہ رہی۔ امیر معاویہ نے اس صورت حال کو دیکھ کر خلافت کو سلطنت میں بدل دیا اور اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنا کر عام و خاص سب کو ببجر اس پر راضٰ کر لیا کہ سو ان چند نفود قدسی کے جو اسلامی حریت کے جوہر کو کسی قیمت پر بیچنے کو تیار نہ تھے اور جنہوںنے اسلامی اصول کی مخالفت میں جان و مال کی قربانی سے دریغ نہ کیا تھا۔ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی ملوکیت کے انداز شروع ہو گئے اور سیاسی اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا لائحہ عمل رفتہ رفتہ گلدستہ طاق نساں بن گیا۔ اس وقت سے زمانہ حال تک اچھے یا برے مطلق العنان سلاطین ہی نظر آتے ہیں۔ ملوکیت کے دبائو نے علماء کی زبانیں بند کر دیں۔ سلطان فاسق و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے والا کوئی نہ رہا۔ علماء دین کا تما م تر تفقہ افراد کے شخصی معاملات میں محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کے باوجود صدیوں تک مسلمانوں میں تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں ترقی ہوتی رہی۔ لیکن سیاسیات میں عوام تور برطرف خواص کو بھی کوئی دخل نہ رہا۔ اور عوام کے لیے یہی نصیحت رہ گئی کہ اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو ا س کی تردید نہ کرو۔ بلکہ تائید میںکہو کہ ہاں مجھے بھی ستارے نظر آتے ہیں۔ سعدہ علیہ الرحمتہ بھی لوگوں کو یہی مصلحت اندیشی سکھاتے ہیں کہ:
خلاف راے سلطان راے جستن
بخون خویش باید دست شستن
بادشاہ کے خلاف رائے کا اظہا ر کرنا جان سے ہاتھ دھونا ہے۔ حافظ علیہ الرحمتہ بھی یہ کہتے ہیں کہ:
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
بڑے بڑے مقدس ائمہ دین نے بھی یہی کیاہے کہ سلطانی اگرچہ اسلامی چیز نہیں ہے۔ لیکن بد کردار سلاطین کی بھی اطاعت لازمی ہے کیوں کہ ان کی وجہ سے کچھ نہ کچھ نظم و نسق قائم تو رہتا ہے۔ سلاطین کے اخلاق کی وجہ سے ان کی اطاعت سے روگردانی کی جائے تو مسلسل فتنہ و فساد کا اندیشہ ہوتاہے خوشامدی دربارویں اور امرا نے بادشاہ کو ظل اللہ قرار دے کر دین کے معاملے میں بھی مجتہد اعظم بنا دیا۔
ایسی مطلق العنانی میں مسلمانوں کی حکومتوں میں تو کسی قسم کی جمہوریت کا تقاضا پیدانہ ہو سکتاتھا۔ البتہ مغرب میں جب زندگی میں حرکت پیدا ہوئی تو شاہی اور جاگیرداری اقتدار کے خلاف پہلے تاجروں اور سرمایہ داروں نے احتجاج شروعکیا۔ آغاز می عوام اس تقاضے میں بھی کہیں نہ تھے۔ انگلستان میں جو پارلیمانی حکومت کاآغاز ہوا وہ بھی جاگیرداروں اور بادشاہ کی کشمکش کا نتیجہ تھا۔ بادشاہی وہاں اس قدر قوی نہ تھی۔ کہ جاگیرداروں کی سرکوبی کر سکے۔ جاگیرداروں نے مل کر بادشاہ کو بے بس کر دیا اور شاہ جون کے حقوق کی وہ دستاویز حاصل کر لی جسے میگنا کارٹٓ کہتے ہیحں انگلستان کی پارلمنٹ یورپ میں قدیم ترین پارلیمنٹ ہے۔ دوسرے ممالک میں ایسے نظام اسی کی تقلید میں ظہور میں آئے اس لیے انگریزی پارلیمنٹ کو تمام مجالس متفقہ کے مقابلے میں ام المجالس کہا جاتا ہے۔ مگر ابتدا میں وہ جمہوریت نہ تھی۔ جو دور حاضر میں عام و خاص کا نصب العین ہے۔ یہ جاگیرداروں اور بادشاہوں کی مجلس شوریٰ تھی جو بادشاہ کے مقابلے میں اپنے حقوق کی حفاظت کرتے تھے۔ عوام کے نمائندوں کو اس میں شامل کرنے کا کوئی تصور یا تقاضا صدیوں میں ظاہر نہ ہوا۔ یورپ میں جاگیرداروں اور بادشاہوں کا زور تاجروں اور سرمایہ داروں نے توڑا۔ انگلستان میں بھی یہی ہوا اور صنعتی انقلاب کے بعد کارخانہ دار بے انتہا امیر ہو گئے۔ تو پارلیمنٹ کا اقتدار بڑھ گیا۔ بادشاہوں کوپہلے جاگیرداروں نے بے بس کر دیا تھا۔ اب تاجروں اور سرمایہ داروں نے جاگیر داروں کو محروم اقتدار کر دیا۔ انگلستان میں بادشاہ موجود رہا لیکن شاہ شطرنج بن کر اور دارالامر بھی قائم رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ قانون سازی میں وہ بے قوت ہوتا گیا‘ یہاں تک کہ جار ج پنجم کے زمانے میں دارالعلوم اور دارالعمراء کی کشاکش کا یہ نتیجہ ہوا کہ قانون سازی کے معاملے میں دارالعمراء کے اظہا ر خیا ل کا اڈا رہ گیا۔ مگر ابھی تک یہ دارالعوام نہ تھا۔ لیبر پارٹی کے غلبے سے بیشتر پارلیمنٹ میں جو نمائندے آتے تھے وہ زیادہ تر آبرور زرا اٹے تھے۔ میکڈونلڈ اور ایٹلے کی قسم کے مفلس اس میں بصد مشکل داخل ہو سکتے تھے۔ لیکنا قتدار میں شریک نہ تھے۔ یورپ میں دیگر ممالک میں جو پارلیمانی حکومتیں قائم ہوئیں ان کا بھی یہی حال ہوا کہ زیادہ تر ان میں سرمایہد اروں کی جنگ زرگری ہوتی تھی۔ امریکہ میں بھی جمہوری حکومت ہے۔ لیکن پریس اور دیگر اقسام کے پروپیگنڈے کے ذرائع سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہں۔ کروڑوں روپے کے فند پارٹی جمع ہوتے ہیں۔ امیدواروں کو منتکب کرنے اور ان کو کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کے وسائل جائز شمار ہوتے ہیں۔ لوگوں کے پاس معلومات پریس اور ریڈیو کے ذریعے سے پہنچتے ہیں اور ان پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ مغربی جمہوریتوں کا عام طور پر یہی انداز ہے۔ محض علمی استعداد یا اخلاقی بلندی اور حق گوئی کی بنا پر کسی شخص کا پارلیمنٹ میں گھسنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ جس پارٹی نے اپنے اغراض کی بنا پر کسی شخص کا پارلیمنٹ اس پر بے چون و چرا دستخط کیے بغیر کوئی منفرد آزاد انسان خواہ وہ امور سلطنت کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو مجالس تواب کا عضو نہیں بن سکتا۔ لطیفہ یہ ہیکہ اس کے باوجود عوام اس سے خوش اور مطمئن ہیںَ کہ حکومت ہماری ہے۔ اور حکمرانوں کے انتخاب میں ایک خاکروب کا بھی ایک ووٹ ہے۔ اور منتخب ہونے والے صدر جمہوریہ کا بھی ایک ووٹ ہے۔ یہ سطحی مساوات ایسی کامیابی سے فریب دہی کرتی ہے کہ کسی کو اس پر بے حقیقتی کا شبہ نہیں ہوتا۔
ایسی جمہوریتوں کے خلاف سوشلسٹوں اور اشتراکیوں نے یہ غوغا بلند کیا کہ یہ سب عوام کو دھوکا دینے کے سامان ہیں اور عوام کی حقیقی بھلائی ایسی جمہوریتیں میں کبھی نہیں ہو سکتی۔ یہ سب بورژوا لوگوں کی حکومتیں ہیں اور ناکردہ کار قومی دولت کا جو محنت کشوں کی پیدا کردہ ہے۔ سب سے زیادہ حصہ لپیٹ لیتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر نے بھی اس نظام کو درہم برہم کر نے کی کوشش کی تاکہ آمریت ا س کی جگہ لے لے جس میں نیچے سے لے کر اوپر تک آمرون ہی کا ایک تدریجی سلسلہ ہو۔ مجلس شوریٰ بھی اس طرح بنائی جائے کہ ان آمروں کا کوئی مخالف اس میں منتخب نہ ہو سکے۔ اس کو فاشطی نظام کہتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر دونوں اس کے مدعی تھے کہ یہ بھی جمہوریت ہی ہے۔ اور جو دوسری قسم کی جمہوریتوں پر فائق ہے۔ فاشطی نظریہ نسلی اور قومی تھا۔ اس کے برخلاف روس کا اشتراکی نظام ہے جو نسلی اور قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہونے کا مدعی ہے۔ مگر انداز وہاں بھی آمرانہ ہے۔ تمام مملکت میں فقط ایک حکمران پارٹی ہے اس کا مخالف کسی پارٹی کا قیام ممنوع ہے۔ یہ پارٹی ایک پروگرام بناتی ہے اور جو شخص کامل اطاعت کا ثبوت نہ دے وہ کسی قسم کی ذہی اقتدار مجسل میں منتخب نہیں ہو سکتا۔ روس میں آزادی ضمیر ایک جرم ہے۔ آزادی گفتار بخون خویش باید دست شستن کے مترادف ہے۔ نقل و حرکت کی بھی آزادی نہں۔ کوئی شخص حکومت کی اجازت کے بغیرا یک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں جا سکتا۔ اور نہ اپنی مرضی سے اپنا پیشہ یا اپنا کام بدل سکتا ہے۔ ملک کے حدود سے باہرجانا ممنوع ہے۔ غرضیکہ نہ آزادی افکار ہے نہ آزادی گفتار نہ آزادی کار ہے اورنہ آزادی رفتار۔ غیر ممالک کے لوگ اس مملکت میں آزادی سے چل پھر نہیں سکتے اور کوئی شخص ڈر کے مارے ان سے اپنے دل کی بات نہیں کہ سکتا۔ کہ جو حکمران طبقے کے عقائد اور اغراض کے خلاف ہو۔ اس پر روس کا دعویٰ ہے کہ حقیقی جمہوریت فقط ہماری ہی مملکت میں پائی جاتی ہے۔
اس تمہید اور پس منظر کے بعد آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اقبال کیوں جمہوریت کا آرزومند بھی ہے اور اس کی تمام موجودہ صورتوں کا مخالف بھی۔ اس کے ذہن میں جمہوریت کا وہ نقشہ ہے جسے اسلام نے کچھ عرصے تک دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس جمہوریت میں حکمرانوں کا کوئی طبقہ نہ تھا ہر طرح کی آزادی ضمیر تھی۔ مملکت رفاہی تھی جس کے اندر عمر فاروقؓ جیسا جلیل القدر انسان راتوں کو گردش کر کے دیکھتاتھا کہ کہیں ظلم تو نہیں ہو رہا ہے یا کسی غریب کے گھر میں فاقہ تو نہیں ہے۔ اگر کوئی غریب گھرانا نان شبینہ کا محتاج دکھائی دیا تو بیت المال سے اپنی پیٹھ پر لاد کر سامان خورد و نوش معذرت کے ساتھ وہاں پہنچا دیا۔ اگر کسی امیر یا گورنر نے کسی ذمی پر بھی ذرہ بھر ظلم کیا تو عمرؓ کے درے اس پر برسر عام بر س گئے ۔ یہ تھی مساوات حقوق اور عوام کی حکومت عوام کے لیے۔ اقبال کو یہ صورت کہیں نظر نہیں آئی تھی نہ مشرق میں نہ مغرب میں۔ نہ ممالک اسلامیہ میں اورنہ فرنگ میں۔ وہ جمہوری نظام چاہتا تھا۔ جہان خلق خدا کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور زندگی کی اساسی ضروریات عام ہوں جہاں حکمران علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں خوشامد جبر یا زرپاشی سے عوام سے اپنے علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں خوشامد جبر یا زر پاشی سے عوام سے اپنے حق میں ووٹ کے طالب نہ ہوں۔ اگر یہ صورت نہیں تو حریت اور مساوات سب دھوکا ہی دھوکا ہے۔ سب ملوکیت اور امرائیت کی بھیس بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ اقبال نے اس جمہوریت کے خلاف جو کچھ کہاہے ا س کا انتخاب ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
سیاسیات حاضرہ
می کند بند غلاماں سخت تر
حریت می خواندہ او را بے بصر
گرمی ہنگامہ جمہور دید
پردہ بر روئے ملوکیت کشید
سلطنت را جامع اقوام گفت
کار خود را پختہ کرد و خام گفت
در فضایش بال و پر نتواں کشود
با کلیدش ہیچ در نتواں کشود
گفت بامرغ قفس سے درد مند
آشیاں در خانہ صیاد بند
ہر کہ سازد آشیاں در دشت و مرغ
او نباشد ایمن از شاین و چرغ
از فسونش مرغ زیرک دانہ مست
نالہ ہا اندر کلوے خود شکست
حریت خواہی بہ پیچاکش میفت
تشنہ میر و برنم تاکش میفت
الحذر از گرمی گفتار او
الحذر از حرف پہلو دار او
چشم ہا از سرمہ اش بے نور تر
بندہ مجبور ازو مجبور تر
از شراب ساتگینش الحذر
از قمار بد نشینش الحذر
از خودی غافل نگردد مرد حر
حفظ خود کن حب افیونش نخور
خضر راہ
جب مغلوب اقوام میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور وہ حکمران سے اقتدار میں حصہ طلب کرتے ہیں تو حکمران سب سے پہلے یہ چال چلتا ہے کہ بہت اچھا کہہ کر ایک مجلس آئین ساز بنا دیتا ہے۔ لیکن نمائندوں کے انتخاب کے قواعد ایسے بناتا ہے کہ اس میں حکومت کے پروردہ زمیندار یا سرمایہ دار لوگ ہی داخل ہو سکیں جن میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہو ا س طرح جمہوریت کا دھوکا بھی پیدا ہوتا ہے لیکن استبداد میں کوئی فرق نہیں آتا:
آ بتائوں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں سازدلبری
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
ایک زمانہ ایسا آی کہ غلط اندیش مشیروں کے مشورے سے علامہ اقبال بھی پنجاب کی مجلس مقننہ کی رکنیت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس خانہ نشین حکیم ملت اور ترجمان حقیقت کو گلی گلی کوچے کوچے ووٹ کی طلب میں پھرنا پڑا۔ مخالفوں نے اس پرکیچڑ اچھالا طرح طرح کے الزامات تراشے اور ایسی ایسی لغو باتیں کہیں جو ناگفتہ بہ ہیں۔ عوام و خاص کی زیادہ تعداد اقبال کی دلدادہ تھی اس لیے وہ منتخب تو ہو گئے لیکن اور امیدواروں سے بہت کم سہی پھر بھی کوچہ رسائی میں سے گزرنا پڑا اور ان کی خودداری کو بہت ٹھیس لگی۔ اسمبلی کے سب نمائندے کسی نہ کسی پارٹی میں تھے اور پارٹی کے ہاتھوں میں اپنا دل و دماغ اور ضمیر بیچ چکے تھے۔ اقبال جیسا شخص بھلا کسی ایسی پارٹی میں کیسے شرکت کر سکتا ہے۔ مجلس قانون ساز میں انہوںنے اچھی اچھی تجویزیں پیش کیں کچھ منظور ہوئیں اور کچھ نامنظور لیکن بہرحال میدان اس صاحب عرفان اور خلوص کیش مرد حکیم کی جولاں گاہ نہ تھا۔ آخر بیزار ہو کر اور تلخ تجربہ اٹھا کر پرھ اس ابلیسانہ سیاست کی طرف رخ نہ کیا۔ میں نے ان دنوںمیں یہ عرض کیا کہ جناب تو ا ن مجلسوں کو حکومت کی دھوکا بازی اور سرمایہ داروں کے اڈے کہتے تھے پھر آپ کو کیا ہوا کہ ایسے خبائث کے مقام میں جا داخل ہوئے فرمایا کہ میں اس غرض سے گیا تھا کہ شاید وہاں کھڑا ہو کر حق گوئی سے اس خبائث کو کچھ کم کر سکوں اور اس اڈے والوں کو کسی قدر جھنجھوڑوں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام علامہ اقبال کے منصب کے خلاف اور خدا کی طرف سے ان کے مخصوص وظیفہ حیات کے منافی تھا۔ خیر کردے وگذشتے:
ایں ہم اندر عاشقی بالاے غم ہاے دگر
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ مغربی جمہوریت اور مساوات کے مدعیوں نے محنت کشوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اور محنت کشوں کو جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ان کی اپن متحد انہ جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے ورنہ ملوکیت کا پردہ دار یہ خود غرض جمہوری نظام تو ان کے لیے نان شبینہ کا کفیل بننے کے للے بھی آمادہ نہ تھا۔ خدا نے فرشتوں کو جو پیغام مزدوروں کی خودداری کو ابھارنے کے لیے دیا اور خضر نے جو پیغام شاعر اسلام کو دیا اس کا مضمون ایک ہی ہے۔ مگر طرز بیان میں ذرا فرق ہے ۔حضور فرماتے ہیں کہ اس مغربی جمہوری اور اس کے ساتھ وابستہ تہذیب نے اخوت و مساوات کو انسانی کو ترقی دینے میں کچھ بھی نہیں کیا۔ انقلاب فرانس کا نعرہ‘ آزادی برادری اور برابری‘ سرمایہ داروں نے اور ملوکیت کے حامیوں نے اپنے اغراض کے لیے بلند کیا۔ محنت کش اس دھوکے میں آ گئے کہ یہ تصورات ان کی بپتا کو رفع کریں گے۔ یہ جمہوریت نہ نسلی تعصب مٹا سکی اورنہ قومیت کے تنگ دائرے سے نکال کر انسان کو عالم گیر اخوت کی طرف لا سکی۔ کلیسا کی ابلہ فریبی جوں کی توں قائم رہی ۔ سفید اقوام کے تفوق کا باطل عقیدہ نہ مٹ سکا۔ خود مغربی اقوام کے اندر طبقاتی تفرقی بحال رہی۔ بھلا ایسی جمہوریت کی نقالی کر کے مشرق کو کیا حاصل ہو گا سوا اس کے کہ جاگیرداروں بڑے زمینداروں اور سرمایہ داروں کے طبقے سلطانی جمہور کے پردے میں اپنے اغراض کو مستحکم کریں۔ مشرق نے جہاں کہیں بھی اس طرز حکومت کی نقل کی ہے وہاں کی مجالس آئین ساز کا یہی حال ہے کہ ناکرہ کار زمین کے مالک اور دولت والے گروہوں کے سوا کوء طبقہ یا کوئی فرد حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور نہ کسی ایسے آئین کی تجویز تائید حاصل کر سکتی ہے۔ جس سے ان گروہوں کے اقتدار پر زد پڑتی ہو۔ اشتراکی مذہب کو غربا کے لیے افیون کہتے تھے ۔ اقبال کہتاہے کہ یہ مغربی جمہوریت بھی محتاجوں کے لیے مسکرات ہی کا کام کرتی ہے:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
نسل قومیت کلیسا سلطنت تہذیب رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتائوں کے لیے
سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
مغربی جمہوریت کے ساتھ ساتھ معصبانہ قوم پرستی بھی ترقی کر تی گئی۔ حکمت و صناعی اور تجارت نے ایک قوم کو دوسری اقوام سے قوی تر کرنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اور صناعی اورتجارت میں بھی ایک طرح کی قزاقی ہو کر رہ گئی۔ حکیم المانوی نطشہ نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں سمندروں میں بحری ڈاکو پھرتے تھے جو مال تجارت لے جانے والے جہازوں پر چھاپا مارتے تھے اور جدید تمدن نے جو ملک التجا ر پیداکیے ہیں یہ وہی بھیس بدلے ہوئے ڈاکو ہی ہیں مغربی جمہوریتوں میں یہ ہلاکت انگیز تصادم جس نے دو عظیم جنگوں میں اس تمدن کو متزلزل کر دیا ہے۔ اسی ہوس کا نتیجہ ہے جو اس کے خمیر میں پنہاں تھی۔ اس حکمت نے بعض انسانوں کو سائنس اور صنعت سے ابلیسانہ قوت بخش کر نوع انسا ن کا شکاری بنادیا۔ یہ صناعی محض جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ جو نظر کو خیرہ کرتی مگر قلب کو تاریک بنا دیتی ہے:
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان مغرب کو
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کارزاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
سوال یہ ہے کہ اس مرد فریب جمہوریت کا طلسم مغرب میں جوں کا توں قائم ہے یا کہیں یہ طلسم ٹوٹا بھی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ جمہوریت بھی مغرب کے سیاسی اور معاشرتی ارتقا کی ایک منزل تھی۔ اس کی تعمیر میں خرابی کی ایسی صورتیں تھیں کہ وہ تادیر ایک حالت میں قائم نہ رہ سکتی تھی۔ اپنے ارتقاء میں مغربی جمہوریتیں کہیں آگے بڑھیں اور بہت سی خرابیوں کو پھر رفع کرتی گئیںَ اور کہیں ان کے خلاف رد عمل ہوا گردش ایام کاپہیا الٹا پھر گیا۔ ہٹکر کی نازیت اور مسولینی کی فاشطیط نے نسلی حقوق اور قومیت کے جذبے کو ابھارکر اخوت اور مساوا ت کواز روے عقیدہ بھی ٹھکرا دیا اور جمہوریت نے آمریت کی صورت اختیار کر لی۔ جس نے تھوڑے عرصے تک قوم کو خوب ابھارا اور چمکایا۔ لیکن چونکہ عقیدہ باطل تھا اس لیے انجام کار اس نے یار و اغیار سب کو تباہ کر کے چھوڑا۔ روس نے بھی مغربی جمہوریت کے خلاف بغاوت کی اور محنت کشوں کی حمایت میں ایک آمرانہ نظام قائم کیا۔ اس نے بہت سے بت توڑے لیکن انسانوں کی آزادی کو سلب کرنے اور مادیت کو دین بنانے کی وجہ سے وہ خود ایک مردم خور دیوتا بن گئی۔
گو لاکھ دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور
اقبال نے جابجا اشتراکی انقلاب کی ایجابی پہلو کی داد دی ہے اور اسے ارتقائے انسانی کا ایک اقدام قرار دیا ہے۔ اقبال کوافسوس ہے کہ اشتراکیت نے خورش پوشش اور رہائش کے مساویانہ نظم و نسق کو مقصود حیات قرار دیا اور انسانیت و الوہیت کے رموز سے بے گانہ رہ۔ مغربی جمہوریت کے خلاف یہ رد عمل ادھورا رہ گیا ۔ اشتراکیت نے اگر روحانیت کے تمام راستے روک دیے تو یہ بھی نوع انسان کے آخت بن جائے گی۔ بہرحال جو معاشی انقلاب اس کی بدولت ہوا وہ قابل ستائش ہے۔ اور اقبال کے نزدیک اسنان کی مزید ترقی کے راستے سے اس کی بدولت بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ اقبال اس سے بہت خوش نظر آتا ہے۔ کہ محنت کشوں نے شاہی اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور کلیسا کے استبداد پر بھی ضرب کاری لگائی۔ اشتراکی کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت ادھوری تھی ہم نے اس کو کمال تک پہنچایا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ تمہاری جمہوریت بھی انسانیت کے امتیازی جوہر کو اجاگر نہ کرنے کی وجہ سے حاضر پرستی اور مادہ پرستی کے سبب ابھی ادھوری ہی ہے۔ جو کچھ تم کر چکے ہو وہ خوب ہے لیکن اب اس سے آگے بڑھو:
افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت
نے اسکندری و نغمہ دارائی رفت
کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست
عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت
یوسفی را ز اسیری بہ عزیی بردند
ہمہ افسانہ و افسوں زلیخائی رفت
راز ہائے کہ نہاں بود بیازار افتاد
آں سخن سازی و آن انجمن آرائی رفت
چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است
زندگی در پے تعمیر جہان دگر است
مغربی جمہوریت نے اپنے بعض عیوب کو رفتہ رفتہ رفع کرکے ارتقا کی طرف جو صحیح قدم اٹھائے ہیں اس کا نمونہ انگریزوں کی موجودہ جمہوریت میں ملتا ہے انگریزوں کی قوم ہمیشہ سے یہ غیر معمولی صلاحیت رہی ہے کہ جو انقلاب کہیں دیگر اقوام میں بڑے ظلم و تشدد سے پیدا ہوتا ہے اور انقلاب کے بعد بھی نتائج حسب توقع نہیں نکلتے وہی انقلاب اعتدال اور خوش اسلوبی کے ساتھ انگریز اپنی سلامت روی سے پیدا کر لیتے ہیں۔ انقلاب فرانس سے فرانس کی سیاسی او ر معاشی زندگی کو اس قدر فائدہ نہ پہنچا جتنا کہ انگریزوں کو جنہوں نے نپولین کو شکست دے کر وہ تمام باتیں اپنے آئین میں داخل کر لیں جن کے لیے عوام دوسری جگہ ہیجان اور تشدد پیدا کر رہے تھے۔ روسی اشتراکی انقلاب کا اثر بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ شرق و غرب کے ہرملک پر پڑا ہے اور اس نے ہر ملک کو اس نئی روشنی میں اور نئے تقاضوں کے مطابق سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ فائدہ انگریزوں نے اٹھایا ہے۔ جنگ کے بعدیہاں بھی محنت کشوں کی حکومت قائم ہو گئی ہے لیکن بغیر اس کے کہ سرمایہ داروں کے خون کا ایک قطرہ بھی بہایا جائے ۔ انگلستان میں قدیم انداز کی امیری اب ختم ہے ارو جنہیں امیر کہہ سکیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے ارو یہ سب کچھ اس انداز سے ہوا ہے کہ افراد کے بنیادی حقوق برقرار رہے ہیں۔ آزادی ضمیر بدستور قائم ہے کسی کو جبر مذموم کی شکایت نہیں اور مملکت افراد کی بنیادی ضرورتوں کی کفیل ہو گئی ہے۔ جمہوریت کا یہ انداز اس تصور کے قریب پہنچ گیا ہے۔ جو اقبال کے ذہن میں تھا۔ اور جو اس کے نزدیک مقصود اسلام تھا۔ اقبال کو مغربی جمہوریت پر جو اعتراض تھا اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ جمہوریت ملوکیت کی حامی ہے اور اس کو قوت پہنچاتی ہے۔ اس معاملے می بھی انیسویں صدی کی سب سے بڑی علمبردار ملوکیت انگریزوں کی قوم نے غیر اقوام پر استعماری حکمرانی سے دست برداری شروع کی اور ہندوستان جیسی وسیع سلطنت کو اپنی بلیغ حکمت عملی اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کی بدولت چھوڑ دیا۔ فرانسیسیوں جیسے سیاسی احمقوں نے جنہوںنے سب سے پہلے یورپ میں آزادی برابری اور برادری کا اعلان کیا تھا۔ ابھی تک نہ انگریزوں سے کچھ سبق حاصل کیا اور نہ زمانے کی بدلتی ہوئی روشنی سے۔ وہ ابھی تک اپنی ملوکیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا اور دوسروں کا خون بہا رہے ہیں۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ دین کی طرح جمہوریت بھی ایک نصب العین ہے۔ کامل جمہوریت ابھی کہیں بھی نہیں تھوڑا بہت ذوق ملوکیت ابھی انگریزوں میں بھی باقی ہے۔ انگریزوں کے بعد زیادہ کامیب جمہوریت امریکہ کے ممالک متحدہ میں نظر آتی ہے۔ لیکن وہاں بھی کالے اور گورے کا فرق ابھی معاشرت کے اندر ایک مسموم مادے کی طرح باقی ہے۔ امریکہ کے مصلحین اور روشن ضمیر لوگ بتدریج مساوات میں کوشاں ہیں تاہم ابھی اس کی تکمیل میں کچھ وقت لگے گا۔ لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب کہ وہاں کے حبشیوں کو صرف قانوناً نہیں بلکہ عملاً بھ مساوات حاصل ہوجائے۔
علامہ اقبال مغربی جمہوریت کے اس طریق کار کے مخالف تھے جس کی وجہ سے قوم کے صالح اور عاق افرا د مجالس آئین ساز میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بعض مشرقی ممالک نے مغربی طریق انتخاب اعضائے مجلس کا ڈھانچا تقلید میں اختیار کر لیا ہے یا ان کے گزشتہ فرنگی حکمرا ن مصلحتاً اس کو رائج کر گئے ہیں۔ اس میں یہ عجیب و غریب نتیجہ نکلتا ہے کہ علم و فضل والے اہل الرائے لوگ منتخب نہیں ہو سکتے۔ ووٹ ایسے جاہل زمینداروں کو ملتے ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ کسی شخص کو نہ تو اس کے علم کی بنا پر نہ موجودہ سیاست و معیشت کے فہم کی بنا پر اور نہ اس کے اخلاق حسنہ کی بنا پر منتخب کر کے واضح قوانین بنالیا جاتا ہے بلکہ کہیں ووٹ برادری کی بدولت ملتے ہیں کہین زمینداری اور سرمایہ داری کی بدولت اور کہیں کہیں عوام کی ابلہ فریبی اور بے خلوص خطابت سے بھی مطلب حاصل ہوتا ہے۔ غرضیکہ نہ علم نہ سیرت نہ معاملہ فہمی یا زور زمین سے حکمرانی میں حصہ ملتا ہے۔ یا نہایت ذلیل دروغ بافی او جذبا ت انگیزی سے۔ اسی جمہوریت کے متعلق علامہ فرماتے ہیں کہ اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے اور تولا نہیں جاتا اوراس قسم کے دو سو گدھے بھی اگر ایک ایوان میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کے لیے جمع ہوج ائیں تو کوئی انسانیت کی آواز تو وہاں سے سنائی نہیں دے سکتی:
متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی؟
ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید
فکر صالح رکھنے والا ہر شخص سوچتاہے کہ اگر مغرب کا یہ طر ز جمہوری ناقص ہے تو اس کا بدل کس طرح پیدا کیا جائے۔ مغرب تو آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا جو بھی بدل ہو گا وہ اس سے ناقص تر اورا س سے زیادہ خطرات سے لبریز ہو گا۔ لہذا اسی ملسسل اصلاح کی جائے تاکہ یہ عیوب سے پاک ہو جائے اور تمام رعایا کے بنیادی حقوق کی حفاظت کا زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر انتظام ہو سکے۔ اس جمہوریت سے مایوسی اور کامل بیزاری نے مغرب میں یا مسولینی اور ہٹلر پیدا کیے یا روسی اشتراکیت۔ اقبال نے ان سب کو نا قص سمجھا اور اپنے ذہن میں اسلامی جمہوریت کا ایک تصور جماتے رہے جس کی عملاًمعین صورت اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آ ئی۔ کوئی قابل عمل جدید اسلامی نظام کا خاکہ پیش کرنے کی بجائے اب وہ کہتے ہیں کہ اس طرز جمہوری سے گھاگ کر کسی پختہ کار کی غلامی اختیار کر لو۔ اس پختہ کار سے ان کی مراد کوئی عاقل و مجاہد درویش منش مرد مومن ہے۔ ایسا مرد کامل ملت اسلامیہ میں تو کہیں نظر نہیں آتا تو پھر کیا کیاجائے۔ سوائے اس کے کہ انتظارکریں:
مردے از غیب بروں
آید و کارے بکند
اقبال ہی کا نظریہ ہے کہ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد اگر کوئی کلیم پیدا بھی ہوا تو اس کے پاس عصا کہاں سے آئے گا۔ عصا تو اب فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اور فوجی قوت سے جو عصا دار پیدا ہوتے ہیں وہ کلیم نہیں ہوتے۔ وہ یا ہٹلر ہوتے ہیں یا مسولینی یا مصطفی کمال یا رضا شاہ پہلوی یا نجیب وناصر یا سوریا میں یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والے ایک اور دوسرے کی گردن مارنے والے آمر۔ ایسوں سے بھی اقبال راضی نہیں ہو سکتا:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
اب عمر فاروقؓ کہاں سے آئیں گے ارو اگر اس سیر ت کا انسان پیدا بھی ہو تو اس کو وہ قوت کہاں نصیب ہو گی جو صحبت رسول صلعم اور زندہ اسلام کی بدولت اس کو حاصل تھی۔ اقبال کے ذہن میں ابوبکر و عمرؓ کی خلافت کی ابتدائی جمہوریت ہے۔ وہ کچھ اسی قسم کی چیز چاہتا ہے۔ لیکن کیا عصر حاضر میں اس کا اعادہ ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ معلو م نہیں ہوتا کہ وہ جمہوریت سے گریز کر کے ڈکٹیٹروں کی تلاش نہ کریں بلکہ عقل و ہمت اور ایثار سے اسی جمہوری نظام میں رفتہ رفتہ ایسی اصلاحات کریں کہ اس کی خوبیوں کا پلڑااس کے نقائص کے مقالبے میں بھاری ہو جائے۔ انگریزوں نے اپنی جمہوریت میں بتدریج بہت کچھ اسلامی انداز پیدا کر لیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان ایسا بلکہ اس سے بہتر انداز پیدا نہ کر سکیں؟ روح اسلام میں بہترین جمہوریت کے عناصر موجود ہیں اور بقول اقبال ان کو خاص اداروں میں مجمسم ہونے کی تلاش ہے آخر تمام رعایا کے لیے مساوات حقوق کا سبق اسلام ہی نے تو پڑھایا تھا اور اس پر عمل بھی کر کے دکھایا تھا۔ اسلام ہی نے ریپبلک کو اپنی دینی تعلیم کا لازمی رکن قرار دیا تھا۔ اسلام ہی نے یہ تعلیم دی تھ کہ حکومت مشورت سے ہونی چاہیے۔ اسلامی ہی نے یہ نمونہ پیش کیا تھا کہ امیر المومنین کو رعیت کا معمولی فرد عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضر کر ا سکتا تھا۔ آزادی ضمیر کا اعلان سب سے پہلے اسلام ہی نے کیا تھا۔ اسلام ہی نے سب سے پہلے رفاحی مملکت قائم کی تھی۔ جس کا کام صرف حفاظت مملکت اور نظم و نسق ہی نہ تھا بلکہ رعایا کی بنیادی ضڑورتوں کا پورا کرنا بھی اس کے فرائض میں داخل تھا۔ اس جمہوریت میں رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہ تھی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی۔ ہر شخص دین کے معاملے میں اور طرز بود و باش میں آزاد تھا۔ اسلام ہی نے معاشیات میں یہ تعلیم دی تھی کہ قومی دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے اسلام کا یہ پروگرام بہت کچھ درہم برہم ہو گیا ہے۔ اسلامی معاشرت اور اس کے نصب العین کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے جن اداروں اور جن روایات کی ضرورت تھی۔ وہ قائم اور مستحکم نہ ہو سکیں۔ لیکن قرآن اور اسلام کی تعلیم موجود ہے اور ملت اسلامیہ کا احیا اسی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے جمہوریت حریت اخوت اور مساوات کا سبق حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن دوسروں نے جس حد تک اسلام پر عمل کر کے سیاسی او رمعاشی زندگی کو درست کیا ہے اور صدیوں کے تجربے سے جو ادارے قائم کیے ہیں ان کا مطالعہ کرنا اور خذما صفا و دع ماکدر پر عمل کرنا مسلمان کے لیے لازمی ہے۔ اسلام کسی ایک ملت کے ساتھ وابستہ نہیں وہ کچھ اصول حیات کا نام ہے۔ جس نے بھی ان کو اپنایا ہے اس نے انسانیت کی خدمت کی۔ روح اسلام نے کئی قالب دوسری ملتوں میں بھی اختیار کیے ہیں جہاں کہیں وہ نظر آئیں وہ اسلام ہی ہیں۔ روح اسلام اب ملت اسلامیہ میں کیا قالب اختیار کرے گی اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ لیکن روح اسلام میں بہترین قسم کی سوشلزم موجود ہے۔ اگر اسلام کو تنگ نظر فقہیوں کے جمود اور ان کی رجعت پسندی سے نجات حاصل ہوجائے اور مسلمان صورت پرستی کی بجائے روح پروری پر آمادہ ہوجائیں تو پھر دنیا کے سامنے انگریزوں اور امریکیوں کے نظام کم قیمت دکھائی دیں ۔ لیکن جہاں حامیان دین کو باہمی تکفیر سے فرصت نہیں اور جہاں اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے وہاں حیات نو کہاں سے پیدا ہو گی زانکہ ملا مومن کافر گراست:
دین کافر‘ فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
لیکن مومن کو مایو س نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اسلام زندہ جاوید ہے توا س پر عمل کرنے والے بھی دنیا میں ہمیشہ موجو د رہیں گے۔ ہم نہ سہی کوئی اور سہی۔
گلشن راز جدید میں بھی سوال (۷) کے جواب میں فرنگ کی جمہوریت پر کچھ اشعار کہے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ عوام کو عالم محسوسا ت کا گرویدہ بنا کر اور اضافہ فرض سے ان کو حقوق طلب بنا کر فرنگ کی سیاست اور معاشرت نے انسانیت کی باگ جو مادہ پرست جمہور کے ہاتھ میں دے دی ہے اس سے نوع انسان کو کسی خیرکی امید نہ رکھنا چاہیے۔ جب تک زندگی کے متعلق انسانوں کا زاویہ نگاہ درست نہ ہو اور ان کے قلوب اخوب و محبت سے لبریز نہ ہوں۔ تب تک جمہورکی سلطانی ایک دیو بے زنجیر کی تباہ کاری ہے:
فرنگ آئین جمہوری نہاد است
رسن از گردن دیوے کشاد است
چو رہزن کاروانے در تگ و تاز
شکم ہا بہر نانے در تگ و تاز
گروہے را گروہے در کمین است
خدایش یار اگر کارش چنین است
ز من وہ اہل مغرب را پیامے
کہ جمہور است تیغ بے نیامے
چہ شمشیرے کہ جاں ہا می ستاند
تمیز مسلم و کافر نداند