حکیم مشرق ، حکیم محمد حسن قرشی

حکیم مشرق
حکیم محمد حسن قرشی

میں نے اپریل 1909 ء کی ایک سہہ پہر کو پہلے پہل ڈاکٹر محمد اقبال کو دیکھا۔ اس وقت وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں اپنی مشہور عالم نظم شکوہ کو سنا کر عوام و خواص سے خراج تحسین حاصل کر رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی عمر ان دنوں پینتیس سال کے لگ بھگ ہو گی مگر اس وقت بھی ان کی شہرت پنجاب کے حدود سے باہر نکل چکی تھی۔ اور پنجاب میں تو ان کا نام بچہ بچہ کی زبان پر تھا۔
میں خود بھی ابھی بچہ تھا۔ تیرہ سال کی عمر ہو گی۔ فورتھ ہائی میں پڑھتا تھا۔ اقبال کی نظم ’’بلبل کی فریاد‘‘ مجھے بے حد پسند تھی مگر اس زمانے میں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ نظم اقبال کی ہے۔ البتہ ہندوستان ہمارا اور چین و عرب ہمارا نے ڈاکٹر اقبال سے وابستگی پیدا کر دی تھی۔ اور انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں زیادہ تر ڈاکٹر اقبال کی زبان سے ان کا کلام سننے کے لیے گجرات سے آیا تھا۔
انجمن حمایت اسلام کے جلسے ان دنوں علمی اور ادبی میلے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد‘ خواجہ الطاف حسین حالی‘ شہزادہ ارشد گورگانی ‘ حضرت ناظم شاہ سلیمان سیوہاروی وغیرہ سحڑ بیان خطیب اور شاعر اس مجلس قومی میں شریک ہوتے اور پرستاران علم و ادب ہندوستان کے ہر گوشہ سے کھینچ کر چلے آتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے اس مجلس میں دو ایک ہی سال کے اندر نمایاں جگہ حاصل کر لی تھی۔ اور یورپ سے واپسی کے بعد تو اس مجلس کی شوکت وعظمت زیادہ تر اقبا ل کے نغموں کی رہین منت تھی۔
1909ء کے سالانہ جلسہ میں بھی سب کو اقبال کی نظم کا انتظار تھا اور جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی سحر انگیز لے میں ندرت تخیل کے اس شاہکار کو پڑھنا شروع کیا تو تمام مجمع مسحور نظر آتا تھا۔
نظم کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔ اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں ایک جگہ اکابرکا مجمع تھا۔ میں وہاں چلا گیا۔ سب نظم کی تعریف کر رہے تھے۔ مولوی محبوب عالم اس وقت جسٹس کرامت حسین صاحب جج ہائیکورٹ الہ آباد کو سٹیشن پر چھوڑنے گئے تھے اس لیے نظم نہیں سن سکے۔ ان سے سب کہہ رہے تھے کہ اس مرتبہ تو اقبال نے کلام کر دیا۔ افسو س آپ نہیں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اقبال کی نظمیں ہمیشہ بلند ہوتی ہیں۔ اقبال کے مشہور عاشق خواجہ صمد جو ککڑو ان کے بارہ میں کہہ رہے تھے کہ میرے اقبال کا تخیل بہت بلند ہے۔
گجرات میں ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے میں لاہور میں مقیم رہا اور پھر دہلی چلا گیا۔ یہاں طبیہ کالج کے ساتھ پہلے متعلم اور پھر پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہا۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر صاحب کی نظمیں سننے کے لیے انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتا رہا۔ جواب شکوہ انجمن کے جلسہ میں نہیں پڑھا گیا۔ جنگ بلقان کے متعلق موچی دروازہ کے ایک جلسہ میں سنایا گیا۔ اس جلسہ کا انتظام مولوی ظفر علی خاں صاحب  1؎ نے کیا تھا ۔ جلسہ میں آغا حشر مرحوم  2؎ بھی شریک تھے ۔ انہوں نے ایک نہایت دلچسپ تقریر میں بیان کیا کہ وہ بھی ایک نظم سنانا چاہتے تھے مگر حضرت اقبال کے سامنے کسی کا رنگ جمنا مشکل ہے۔ اس لیے وہ نظم نہیں کہہ سکے۔ غالباً آغا صاحب کے ذہن میں آپ وقت ان کی مشہور نظم ’’شکریہ یورپ‘‘ کا تخیل آ چکا تھا۔
نظم سے پہلے جو مظاہرہ ہوا وہ اس زمانہ میں بھی اقبال کی ہر دل عزیزی کا ایک دلآویز منظر تھا۔ پہلے تو رونمائی کا سوال پیداہوا۔ جب میں جواب شکوہ کے ہر صفحہ کو مختلف اصحاب نے خریدا۔ اس کے بعد جب نظم شرو ع ہوئی تو ہر طرف سے آواز بلند ہوئی گا کر گا کر مگر جب ڈاکٹر صاحب نے پکار کر کہا کہ اس نظم کا مفہوم گانے سے ادا نہیں ہو سکے گا۔ تو سب خاموش ہو گئے نظم کے اختتام پر سینکڑوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں یہ تمام روپیہ بلقان فنڈ  3؎ میں دیا گیا۔
شکوہ کے علاوہ میں نے اسرار خودی کے بعض اجزا اور خضر راہ اور طلوع اسلام کو انجمن کے جلسوں میں سنا۔ خضر راہ کو ڈاکٹر صاحب نے نہایت درد انگیز لہجے میں پڑھا تھا اور جس سے مجمع پر رقت کا عالم طاری ہو گیا تھا اور جب وہ
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
کہہ کر خو دہی آبدیدہ ہو گئے تو تمام مجمع کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
انجمن کے جلسوں میں ڈاکٹر صاحب کی نظمیں اکثر طویل ہوا کرتی تھیں۔ بعض اوقات نظم ایک ہی مجلس میں ہوتی تھی اور بعض اوقات دو جلسوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک ایسی ہی صورت میں ڈاکٹر صاحب نے یہ شعر پڑھا:
درمیان انجمن معشوق ہرجائی مباش
گاہ با سلطان باشی گاہ باشی با فقیر
اس وقت ایک جلسہ کے صدر مرزا سلطان احمد اور دوسرے جلسہ کے صدر فقیر افتخار الدین 4؎ تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی نظموں کے علاوہ ان کی متعدد سیاسی اور علمی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا۔ ان میں سے بعض اہم علمی خطبات انگریزی میں پڑھے گئے جو اپنے بلند علمی مطالب کی وجہ سے غیر معمولی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔
دہلی اور بمبئی میں مطب کرن یکے بعد صحٹ کی خرابی کی وجہ سے جب مجھے لاہور میں ٹھہرنا پڑا تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں حاضر ہونے کا بارہا ارادہ کیا۔ ایک مرتبہ شفا ء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی مرحوم کے ساتھ جانے کی سعی کی تھی۔ مگر ایک صاحب راستے میں مل گئے اور یہ آرزو بر نہ آ سکی۔
ایک عرصہ کے بعد پنجاب طبی کانفرنس کی تحریک شروع ہوئی۔ اس سلسلہ میں پبلک جلسے ہوتے رہے جن کے صدر سر محمد شفیع مرحوم سر عبدالقادر وغیرہ ہوتے تھے ۔ ایک جلسہ کی صدارت ڈاکٹر صاحب کے متعلق تجویز کی گئی۔ یہ غالباً 28کا ذکر ہے۔ کچھ اطبا ان کی خدمت میں گئے او ر ان سے اس تجویز کا اظہار کیا ڈاکٹر صاحب جلسوں کی صدارت سے ہمیشہ احتراز کیا کرتے تھے اور اس زمانے میں طب یونانی کے چنداں معترف بھی نہیں تھے۔ اس لیے انہوںنے انکار کیا ارو طب یونانی کے متعلق چند شبہات ظاہر کیے۔ ان اطباء نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اگر آپ کو ان اعتراضات کے جواب مطلوب ہیں تو ہم ایک دوسرے طبیب کو لائیں گے  آپ ان سے سوال و جواب کر لیں‘ مگر مطمئن ہونے کے بعد جلسہ کی صدارت ضرور فرمائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا اور وقت کا تعین فرمایا۔ چنانچہ دوسرے روز اطباء کرام مجھے ساتھ لے کر گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے متعدد اعتراضات کیے جن کے جوا ب میں دیتا رہا۔ مگر وہ پھر برابر اعتراضات کرتے رہے۔ یہ سلسلہ دو تین گھنٹے جاری رہا۔ معلوم نہیں وہ مطمئن ہوئے یا نہیں مگر انہوںنے صدارت کا وعدہ کر لیا۔ اس کے چند دن بعد محمڈن ہال میں جلسہ ہوا۔ میں نے موقع کو غنیمت سمجھ کر طب یونانی کی صفت ارو خوبیوں پر ایک طویل تقریر کی جسے پسند کیا گیا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں طب یونانی کی حقیقت و اہمیت کے متعلق حوصلہ افزا الفاظ ارشاد فرمائے۔ سب نے خیال کیا کہ میری محنت اکارت نہیں گئی۔
اس کے بعد صرف دو ایک مرتبہ حاضری کا اتفاق ہوا۔ اور بعض امور کے متعلق تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔
آج سے تین سال پہلے جب وہ میکلود روڈ سے جاوید منزل چلے گئے اور ان کی بیگم صاحبہ شدید علالت میں مبتلا ہوئیں تو انہوںنے یاد فرمایا۔ بیگم صاحبہ ڈاکٹروں کے زیر علاج تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ یونانی علاج شروع کیا جائے۔ اس کے متعلق وہ چاہتے تھے کہ حکیم نابینا صاحب دہلی سے تشریف لائیں اور میں بھی مشورہ میںشریک ہوں۔ مگر اس انتظام سے پہلے بھی بیگم صاحبہ رحلت فرما گئیں۔
میں نے اس ملاقات میںمحسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے خیالات میں ایک بڑی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے ۔ اور اس کی بڑی وجہ حکیم عبدالوہاب صاحب 6؎کی معجز نما کامیابی ہے۔ ڈاکٹر صاحب عرصہ تک سنگ گردہ میں مبتلا رہے اور جب ڈاکٹر حضرات ان ک لیے عمیلہ (اپریشن) کے سوا اور کوئی تدبیر نہیں بتلاتے تھے اور عمیلہ کے لیے بھی وہ آنا جانا ضروری قراردیتے تھے۔ تو حکیم نابینا صاحب کے علاج سے ان کو فائدہ ہو گیا اور وہ طب یونانی کے مداح و معترف ہو گئے۔
بیگم صاحبہ کی رحلت سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کو ایک خاص تکلیف شروع ہو گئی تھی۔ وہ عید کی نماز پڑھ کر گھر آئے گرم دودھ ملا کر سویاں کھائیں سویاں کھاتے ہی ان کی آواز بیٹھ گئی۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی مگر آواز نہ کھلی۔ آخر مجبور ہو کر پھر ان کو حکیم نابینا صاحب کی طرف رجوع کیا جن کے علاج سے ان کو معتدبہ فائدہ ہوا۔
اگرچہ ان کو حکیم نابینا صاحب کے علاج سے بہت فائدہ تھا اور ان کی دوائیں مستقل طور پر جاری رکھتے تھے۔ مگر کچھ عرصہ سے وہ کبھی کبھی مجھے بھی یاد فرما لیا کرتے تھے اور اپنے مرض کے متعلق مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی میں خود بھی حاضر ہوا کرتا تھا۔ اس وقت بھی پہلے عموماً وہ اپنے مرض علاج اور غذا کے متعلق سوالات کرتے اس کے بعد ادبی سیاسی مذہبی مذاکرا ت کرتے۔
اس عرصہ میں ان کا قلب ضعیف معلوم ہوتا تھا۔ نبض ضعیف و رقیق تھی اور غسل خان تک جانے سے بھی دم پھول جاتا تھا۔ اس کے ساتھ بعض اوقات دم کشی بھی شروع ہو جاتی تھی جو درحقیقت ضعف قلب کا نتیجہ تھی۔
گزشتہ دسمبر سے ان کی صحت زیادہ گرنا شروع ہوئی۔ سانس کے دورے ہر رات کو ہونے لگے۔ ضعف قلب کی شکایت بھی ہو جاتی تھی۔ اور کبھی کبھی بائیں شانے میں درد بھی ہو جاتاتھا۔ درحقیقت ان کا قلب عرصہ سے مائو ف تھا اور اب تدریجاً پھیل گیا تھا۔ اس کے ساتھ جگر بھی بڑھ گیا تھا اور پائوں پر بھی ورم آ گیا تھا۔
اس عرصہ میں زیادہ تر یونانی علاج ہوتا رہا جن سے ا ن کو نسبتاً فائدہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی بعض اصحاب کے توجہ دلانے پر ایلوپیتھی کی طرف رجوع کرتے اور بہترین ڈاکٹر نہایت کاوش سے علاج کر تے مگر عموماً ان سے فائدہ کم ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ پھر یونانی علا ج کی طرف رجوع کر لیتے۔
اسی عرصہ میں مجھے روزانہ حاضری کا اتفاق ہوتا رہا ۔ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہو جاتی تو سید نذیر نیازی صاحب یا میاں محمد شفیع صاحب یا میاں علی بخش کو بھیج دیتے۔ میں اکثر رات کو آٹھ نو بجے جاتا اور گیارہ بجے تک وہیں ٹھہرتا۔ بعض اوقات شام کو سات بجے اس خیال سے جاتا کہ نو بجے واپس آ جائوں گا۔ مگرپھر بھی گیارہ بجے تک ٹھہرا لیتے۔
شام کے علاوہ کبھی کبھی میں صبح کو سیر کرتے ہوئے چلا جاتا تھا بعض اوقات رات کو تکلیف ہوتی تھی تو صبح پانچ بجے ہی شفیع صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ اکثر مجھے جگا کر ساتھ لے جاتے۔ کبھی کبھی دو تین بجے دن کو بھی یاد فرما لیتے تھے۔ مگر ایسا عموماً کم ہوتا تھا۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ میں نے اضطراب سا محسوس کیا اور اسی وقت چلا گیا اور جا کر دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب بے چین ہیں ۔ اضطراب کا تذکرہ کرنے پر فرمانے لگے کہ میں تکلیف محسوس کر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ آپ آ جائیں۔
رات کی صحبت میں چوھدری محمد حسین صاحب سید نذیر صاحب نیازی اور میاں محمد شفیع صاحب بالتزام ہوا کرتے تھے۔ اکثر راجہ حسن اختر صاحب بھی شریک ہو جایا کرتے تھے۔ خواجہ عبدالرحیم صاحب اور دوسرے حضرات بھی کبھی کبھی آ جایا کرتے تھے۔ میں وہاں بیٹھ کر پہلے حالات معلوم کرتا پھر نبض دیکھتا اور جگر اور پائوں وغیرہ کی حالت دیکھتا۔ اس کے بعد دوائوں میں مناسب ردوبدل کرتا۔ پھر ڈاکٹر صاحب مرض کے متعلق سوالات کیا کرتے جن کے میں جواب دیتا۔ وہ ہمیشہ سے بہت بڑ ے نقاد تھے۔ مگر آخری ایام یں ان کی قوت تنقید بہت بڑھ گئی تھی اور میں خود بھی بعض اوقات پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ خود انہیں یہ احساس تھا کہ ان کو مطمئن کرنا کسی قدر مشکل ہے۔ آخری ایام میں مجھے راولپنڈی جانا پڑا اور میں نے یہ تجویز کیا کہ میری غیر حاضری میں بعض دوسرے اطباء ان کی نگرانی کرتے رہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ مجھے مطمئن نہیں کر سکیں گے۔
مرض کے متعلق ان کے سوالات کے جوابات دینے میں ایک بہت بڑی دقت ی تھی کہ ان کے مزاج میں بے حد ذکاوت اور نزاکت پیدا ہو چکی تھی۔ اور اگر ان کو یہ معلوم ہو جاتا یکہ ان کی بعض علامات کو دوسرے اسباب کا نتیجہ قرار دیا جا تا ہے تو وہ ا س پر اس طرح سے جرح کرتے کہ معالج پریشان ہو جاتا ۔
غذا کے متعلق ان کی حس اور بھی لطیف  ہو چکی تھی۔ تقریباً ہر دوسرے اور تیسرے روز اور امر کی خواہش کرتے تھے کہ ان کی غذا کی فہرست میں اضاف کیا جائے ’’اگرپلائو کی اجازت نہیں تو کھچڑی میں کیا حرج ہے۔ یہ سادہ غذا ہے‘‘ آپ ایک دو روز کھچڑی کھا لیا کیجیے۔ ہاں تو کھرچڑی بھنی ہوئی ہونی چاہیے۔ جس میں گھی کافی ہو۔ گھی کم ہونا چاہیے کیونکہ جگر بڑھا ہوا ہے  تو پھر کھچڑی میں لذت کیا ہو گی۔ اچھا کم از کم اس میں دہی تو ملا لیا جائے۔ مگر آپ کو کھانسی اور تولید بلغم کی شکایت ہے۔ جس میں دہی مضر ہے تو پھر اس میں کھچڑی کھانے سے نہ کھانا اچھا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو پلائو اور کباب بے حد مرغوب تھے۔ اور اسے وہ اسلامی غذا کہا کرتے تھے۔ ان کے لیی بے حد اصرار تھا ار ب لطائف الحیل میں سے انہیں ٹالتا رہا تو راولپنڈی جانے سے پہلے انہوں نے دو تین مرتبہ اصرار کیا کہ ایک روز آپ کی دعوت یہاں ہو اور آ میرے سامنے پلائو کھائیں تاکہ اگر میں پلائو کھا نہیں سکتا تو کم از کم کھاتے دیکھ لوں۔
دوا کے بارے میں بھی ان کی طبیعت بہت لطافت پسند تھی وہ چاہتے تھے کہ دوا خوش ذائقہ ہو۔ قلیل المقدار اور سریع الاثر ہو۔ حکیم نابینا صاحب کی دوائوں کو وہ اسی لیے پسند فرماتے تھے اور مجھے بھی ان کے رجحان کی وجہ سے ایسی ہی دوائیں تیار کرانا پڑیں جن کی وہ اکثر تعریف کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب سے جس قدر میں قریب ہوتا گیا‘ اسی قدران کی عظمت کامجھے زیادہ احساس ہوتا گیا۔ یہ امر تعجب انگیز تھا کہ فلسفہ کی گہرائیوں پر اس قدر عبور ہونے کے باوجود وہ مذہب سے اس قدر متاثر تھے۔ جب تک ان کو قریب سے نہ دیکھا جائے اس شیفتگی اور عشق کا انداز کرنا مشکل ہے جو ان کو اسلم اور حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام سے تھا۔ ایک رات میں ان کی خدمت میں تھا کہ حضورؐ کی سنت کا ذکر شروع ہو گیا تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ کی اس پیروی کی بے حد تاکید فرمائی ثابت کیا کہ آپ کا پیکر اطہر مجسم اسلام ہے آپ اسلام اور ایمان کی تفسیر ہیں اور خود حضورؐ کے اسوہ حسنہ دریافت کرتا ہو تو قرآن مجید کا ہر حرف اس کی طرف اشار ہ کرتا ہے۔
قرآن حکیم سے تو ان کے بے حد شغف تھا۔ وہ بچپن سے بلند آواز سے قرآن حکیم پڑھنے کے عادی تھے۔ قرآن حکیم پڑھتے ہوئے وہ بے حد متاثر معلوم ہوتے تھے۔ آواز بیٹھ جانے کا انہین زیادہ قلق یہ تھا کہ وہ قرآن عزیز بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے بیماری کے دنوں میں بھی جب کبھی کسی نے قرآن حکیم کو خوش الحانی سے پڑھا تو ان کے آنسو جاری ہو گئے اور ان پر لرزش اور احتراز کی کیفیت طاری ہو گئی۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا بے حد احترام کرتے تھے اور اگر جدید تعلیم یافتہ مسلمان محمد صاحب کہتا تو بہت تکلیف محسوس کرتے۔
اگرچہ جمہور ان کو زیادہ تر شاعر کی حیثیت سے جانتے تھے مگر خود شاعری کو اپنے افکار کے پھلانے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے ۔ ان کو اس وقت بے حد تکلیف ہوتی تھی جب کوئی ان سے دوسرے شاعروں کی طرح اشعار سنانے کی فرمائش کرتا تھا۔ میں نے ان سے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ غالب نے یہ آپ کے لیے کہا ہے:
مانبودیم بدیں مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہش آں کرد کہ گردد فن ما
ان کے شعر کہنے کی حالت بھی دوسرے شعرا سے کچھ الگ تھی۔ فرماتے تھے کہ سال میں چار پانچ ماہ تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں ایک خاص قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے میں بلا ارادہ شعر کہتا رہتا ہوں۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے گھر میں دوسرے کام بھی کرتا رہتا ہوں‘ مگر زیادہ تر طبیعت کا رجحان شعر گوئی کی طرف ہوتا ہے۔ ان دنوں عموما ً رات کو شعر گوئی کے لیے بیدار رہنا پڑتا ہے۔ میرے استفسار کرنے پر فرمایا کہ چار پانچ ماہ کے بعد یہ قوت ختم ہو جاتی ہے توغور و فکر کے بعد کچھ شعر کہے جا سکتے ہیں مگر یہ آورد ہوتی ہے اور وہ آمد دونوں طرح کے کہے ہوئے اشعار میں تمیز کی جا سکتی ہے۔ اس حالت کو ڈاکٹر صاحب حمل سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس حالت کے اختتام کو وضع حمل سے
حضرت علامہ اقبال کی صحبت میں ان کی سیرت کے متعلق جو تاثرات ہوئے‘ ان کی تفصیل ایک دوسرے مضمون کی مقتضی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مرض کی حالت میں مدوجذر ہوتا رہتا تھا مگر یونانی علاج سے انہٰں کافی فائدہ ہو گیاتھا۔ یہ ظاہر ایک حد تک ان کی حالت امید افزا ہو گئی تھی۔ تاہم اندرونی عوارض و اثرات کم و بیش باقی رہتے تھے۔ اسی عرصہ میں مجھے پنجاب کے طبی کانفرنس میں راولپنڈی جانا پڑا۔ میرے جناے کے کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر صاحب کی طبیعت یک بیک زیادہ خراب ہو گئی۔ یہ صورت دیکھ کر انہوںنے مجھے واپس آنے کے لیے تحریر فرمایا مگر میں جلد تعمیل نہ کر سکا۔ میرے پہنچنے سے پہلے لاہور کے معروف ترین ڈاکٹروں کا ایک بورڈ علاج شروع کر چکا تھا جس سے دو روز کچھ فائدہ محسوس ہوا مگر انیس اپریل یکو حالت خراب ہونی شروع ہوئی۔ شام کو جب میں ںے اور تین چار ڈاکٹروں نے دیکھا تو حالت اطمینان بخش نہیںتھی۔ تاہم حواس اس طرح صحیح و سلیم تھے اور ظاہری حالت میں کویء خاص تغیر نہیں معلوم ہوتا تھا۔ میں اس رات بارہ بجے تک پاس بیٹھا رہا۔ چودھری محمد حسین صاحب‘ سید نذیر نیازی صاحب پروفیسر مظفر الدین صاحب اور شفیع صاحب بھی موجود تھے ۔ ایک آدھ دفعہ میں ںے اجازت چاہی تو فرمایا کہ ابھی ٹھہریں اور علی بخش کو بلا کر کہا کہ حکیم صاحب کے لیے چائے بنائو۔ میں ںے رض کیا کہ ابھیمیں نے کھانا نہیں کھایا۔گھر جا کر کھانا کھائوں گا۔ فرمانے لگے پھر تو آپ کو کھانا کھانا چاہیے تھا۔ شفیع صاحب نے کہا کہ سب نے حکیم صاحب کو کہا تھا‘ مگر انہوں نے اعتراض کیا۔ فرمانے لگے یہ ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں۔ جب آخری دفعہ رکا تو میں ںے علی بخش سے کہا کہ اب چائے بنوا لائو۔ اس پر علی بخش نے فرمایا کہ میم صاحبہ نے جو بسکٹ بنائے ہیں حکیم صاحب کو کھلائو۔ چنانچہ میں نے اور چودھری صاحب نے اور نیازی صاحب نے چائے پی۔
اس عرصہ میں شفیع صاحب ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی دوا لے آئے اور حضرت نے ایک خوراک پی لی۔ پینے کے بعد بہت بے چینی محسوس کی اور فرمانے لگے کہ مجھے متلی ہو رہی ہے۔ میں اسے قے کرنا چاہتا ہوں چنانچہ خون آ رہا تھا اور خطرہ تھا کہ قے سے رگ نہ پھٹ جائے ۔ میں نے گرم پانے ارو نمک کے غرغرے کرنے اور دانہ الائچہ چبانے کے لے کہا اس سے بے چینی کم ہوئی مگر فرمانے لگے کہ ابھی متلی باقی ہے۔ پھر میں نے اکسیر عبنری دی تو اس سے متعلی رفع ہو گئی۔
اس کے بعد ایک اور دوسری ڈاکٹری دوا پینی تھیل مگر اس سے انکار کیا اور فرمانے لگے کہ ڈاکٹری دوائیں خلاف انسانیت ہیں کیونکہ ان میں مریض کے ذوق کا خیال نہیںرکھا جاتا۔ پھر فرمایا کہ میڈیکل سائنس زندگی کی سائنس معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہے۔
ڈاکٹر قیوم صاحب نے کہا کہ دوسری دوا خواب آور ہے اور اس کا پینا ضروری ہے۔ فرمانے لگ کہ مجھھے ان دونوں سے نیند نہیں آت۔ اجزا بھی ہیں تو فرمایا کہ اگر اس مکسچر میں سے دافع درد اجزا کو الگ کر کے دے سکیں تو پی لوں گا۔ کیونکہ خواب آور اجزا سے مجھے نیند نہیں آتی۔
جب ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بحال ہو گئی تو میں اجازت لے کر اپنے رفقا کے ساتھ چلا آیا۔ میرے آنے کے بعد کچھ دیر تک نیند آئی اور پھر آنکھ کھل گئی ارو بے چینی شروع ہوئی۔ تین بجے کے قریب میاں محمد شفیع صاحب کو میرے پاس بھیجا۔ مکان کا دروازہ بند تھا مگر ملاز مباہر سویا ہوا تھا۔ شفیع صاحؓ نے اسے کوئی دوسرا آدمی سمجھ کر نہ جگایا اور چند آوازیں دیں۔ جواب نہ پا کر وہ واپس چلے گئے۔ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر آپ کو رات کو بلانا ہو تو کس طرح بلایا جائے۔ میں نے کہا کہ آپ بلا تکلف آدمی بھیج دیں۔ نیچے ملازم سوتا ہے وہ جگا لے گا۔ اس پر خاموش ہو گئے مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جگا لے گا کہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ ایک گھنٹی (بیل ) لگوائی جائے۔ میں نے انتظام کرنا چاہا مگر بدقسمتی سے جلد ہی میں راولپنڈی چلا گیا۔ واپسی پر ڈاکٹروں کا علاج شروع ہو چکا تھا اس لیے اس طرف خیال نہ آیا۔ اس سے پہلے جب رات کو تکلیف ہوت تو عموماً ڈاکٹر صاحب جمعتی سنگھ صاحب کو بلا لیتے تھے۔ مگر آخری رات کو ڈاکٹری علاج ہونے کے باوجود مجھے بلایا اور جب شفیع صاحب ویسے ہی واپس چلے گئے تو فرمایا کہ افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ اس کے بعد پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر صاحب کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ قرشی کو بلا لائیںَ انہوں نے فرمایا کہ وہ را ت کو بہت دیر سے گئے ہیں اور اس وقت اس کو بیدار کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ اس پر یہ قطعہ ارشاد فرمایا جس کی اس قدر شہرت ہو چکی ہے:
سرود رفتہ بازآید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید


سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید 10؎
راجہ صاحب نے اس قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی کہا کہ میں ابھی حکیم صاحب کو لا رہا ہوں۔ وہ پانچ منٹ پر جاوید منزل سے نکلے۔ اس کے بعد فرمایا کہ پلگ ساتھ کے کمرے میں لے چلو۔ جب اندر پلنگ لے گئے تو فرمایا کہ کندھا دبایا جائے۔ علی بخش نے شانہ دبایا۔ اس کے بعد فرمایا کہ دل پر تکلیف ہے اور اس کے ساتھ ہی پانچ بج کر چودہ منٹ پر جن جان آفرین کے سپرد کر دی۔
میں جب جاوید منزل کو پہنچا تو معلوم ہوا کہ طلوع آفتاب کے ساتھ علم و ادب کا یہ آفتاب بھی ہمیشہ کے لیے غروب ہو چکا ہے۔ وہ اس وقت پہلو کے کمرے میں پلنگ پراکیلے پڑے تھے۔ میں نے چادر منہ سے سرکائی اور یہ خیال کیا کہ حسب معمول آئیے حکیم صاحب کی شیریں آواز سامع نواز ہو گی مگر یہ خیال ایک ایسی آواز بن کر رہ گیا کہ جس سے ہمیشہ دل میں خلش ہوتی رہے گی ۔آخری وقت میں ان کے  یاد کرنے کی یا تو یہ وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ میں آخری لمحات میں ان کے پاس رہوں ۔ یا ان کا خیال ہو گا کہ ان خطرناک لمحات میں جواہر مہرہ اکسیر عنبری وغیرہ استعمال کرائوں تاکہ بارہا ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی نبض بہت کمزور اور نڈھال ہو گئی اور جواہر مہرہ وغیرہ کے استعمال سے طبیعت سنبھل گئی۔ بہرحال کوئی بھی وجہ ہو میرے لیے یہ امر موجب اضطراب رہے گا کہ میں ان کی خواہش کے باوجود آخری لمحات میں ان کے پا س نہیں تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی موت کا ہم میں سے کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔ جب رات کو گیارہ بجے تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو سب کا خیال تھا کہ ہم سب جاوید منزل جائیں گے۔ چودھری محمد حسین صاحب ان کو دن بھر کے واقعات سنائیں گے جو ان کے جنازے پر عظمت جلوس‘ جمہور کی اشک باری اور شاہی مسجد کے باغ میں ان کی تجہیز و تکفین کے انتظامات پر مشتمل ہوں گے۔ راجہ حسن اختر صاحب مزار کے نقشے اور مجلس اقبال ک تشکیل کے متعلق ان سے مشورہ کریں گے۔
سید نذیر نیازی صاحب ان کو بغداد کا کوئی ایسا خواب آور افسانہ سنائیں گے کہ جس سے وہ ہمیشہ کے لیے سکھ کی نیند سو جائیں ۔ میں محمد شفیع اور میاں علی بخش ان کے کندھے کو اس طرح دبائیں گے کہ پھر وہ کبھی درد کی شکایت نہ کریں گے اور میں ان کی نبض دیکھ کر ایسی خوشگوار دوائیں اور لذیذ غذائیں تجویز کروں گا کہ ان کے کام و دہن جنت کے لذائذ و نعائم کا سا لطف محسوس کرنے لگیں:
اب بھی صبح کی نماز کے وقت کوئی جگانے کے لیے آواز دیتا ہے تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے سات اٹھ بیٹھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو پھر کچھ تکلیف ہو گئی ہے جو صبح ہی سے صبح انہوںنے یاد فرمایا ہے۔ شفیع صاحب دوسرے تیسرے روز مطب پر آتے ہیں اور ان کو دیکھ کر بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے ارو میں سمجھتا ہو ں کہ ڈاکٹر صاحب کی حالت بتانے کے لیے آئے ہیں ۔ مگر پھر جب وہ کہتے ہیں کہ شیخ عطا محمد صاحب (ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی) بخار میں مبتلا ہیں علی بخش کو سینہ میں در د ہے عزیز جاوید اقبال کو کھانسی ہے تو میں کھو سا جاتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں چھوڑ کر بادلوں سے بھی بڑے دور کسی ایسے مقام پر چلے گئے ہیں جو ان کے تخیل کی طرح بلند و بے پایاں ہے اور جہاں دوستوں کی آہ و بکا اور عزیزوں کے نالہ و شیون کا گزر نہیں ہے۔

حکیم محمد حسن قرشی